قربانی کے بعد
عیدالاضحی کے معاشرتی پہلو بہرحال اتنے اور ایسے ہیں جن پر ہر کوئی اظہار خیال کرسکتا ہے ۔۔۔
عیدالاضحی آئی بھی اور گزر بھی گئی مگر اپنے پیچھے کئی سوالات اور آیندہ کے لیے ممکنہ اقدامات پر غور وفکر کے کئی در وا کرگئی۔ سیاسی طور پر جو یہ اندیشہ لاحق تھا کہ بار بار ہمیں آگاہ کیا جا رہا تھا کہ قربانی سے پہلے قربانی ہوگی، مگر کس کی یہ بات ان بیانات میں غیر واضح تھی مگر بہرحال عید قرباں آئی بھی اورگزر بھی گئی مگر وہ جو میاں والی قربانی ہونا تھی وہ تو نہ ہوسکی ۔ خیرچھوڑیے سیاست پر بات نہیں کرتے ۔
اس بار تو مسئلہ حل ہوگیا کہ چلو عید قرباں پر ہی کچھ لکھ لیتے ہیں۔اس میں مشکل بھی کوئی نہیں اخبارات سامنے ہیں اور عید پر ہر پہلو سے طرح طرح کی خبریں اور اطلاعات موجود ہیں، مگر قبل اس کے کہ ہم ان خبروں کا اپنے نقطہ نظر سے ''تجزیہ'' کریں پہلے عیدالاضحی پر تمام اخبارات میں موجود جو مضامین مفتیان کرام، علامہ، مولانا، پروفیسرز اور اسکالرز نے تحریر کیے ہیں ان کو پڑھ کر جوکچھ ہماری سمجھ میں آیا اس کا ذکر کرتے ہیں۔
ان تمام مضامین کا لب لباب یہ ہے کہ عید قرباں دراصل سنت ابراہیمی اور اس عظیم واقعے کی یاد تازہ کرنے کے عمل کا نام ہے جو اللہ کے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے واحد اور چہیتے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں قربان کر رہے ہیں اور جب یہ خواب متواتر (بعض روایات کے مطابق) تین رات دیکھا تو حضرت ابراہیم نے اس کو حکم خداوندی سمجھتے ہوئے اپنے بیٹے کی رضامندی سے اس حکم پر عمل فرمایا، مگر اللہ تعالیٰ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ ایثار اور اخلاص اس قدر پسند آیا کہ حضرت اسماعیل کی جگہ دنبہ ذبح کرکے آپ کی قربانی کو شرف قبولیت عطا فرما یا اور ارشاد ہوا کہ ''اے ابراہیم! تم نے خواب کو حقیقت کر دکھایا یہی عمل ہماری بارگاہ میں قابل قبول ہے'' جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ رب العزت کو اخلاص قلب اور خلوص نیت درکار ہے۔ محض دکھاوے کے عمل سے اللہ تعالیٰ کو کوئی سروکار نہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنت ابراہیمی کو برقرار رکھ کر اپنی امت سے وہی اخلاص، رضائے الٰہی کا حصول اور خوشنودی رب کی طلب کی توقع فرمائی ہے اصل قربانی کسی قیمتی جانور کی نہیں اپنی خواہشات نفس کی ہے۔
زمانے نے جہاں انسان کو زندگی کے ہر انداز ہر رویے میں نمود و نمائش اور بلا اخلاص صرف ظاہری عمل کی طرف مائل کردیا وہاں قربانی بھی اپنے فلسفہ اور روح سے ہٹ کر محض دکھاوے اور اپنے اعلیٰ معیار زندگی کی نمائش کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہے۔ کیونکہ قربانی تو سنت ہے ہمارے یہاں بے شمار لوگ فرض حتیٰ کہ پانچ وقت کی نماز تک سے غفلت برتتے ہیں مگر قربانی بڑے تزک و احتشام سے اپنے گھرکے سامنے پورے محلے کو دکھا کر کرتے ہیں ۔قربانی کے جانور کے گلے پر چھری پھیرنیوالا چاہے فلسفہ قربانی اور اس کی اصل روح سے واقف بھی نہ ہو۔ اب ہم عالمہ و فاضلہ تو ہیں نہیں کہ ''ارشاد فرمادیں'' کہ دکھاوے کی قربانی قابل قبول ہے یا نہیں؟ فقہی مسائل پر وہ اظہار خیال کرے جو خود علم فقہہ میں کامل ہو۔
عیدالاضحی کے معاشرتی پہلو بہرحال اتنے اور ایسے ہیں جن پر ہر کوئی اظہار خیال کرسکتا ہے۔ معاشرے کے ہر فرد سے لے کر ہر ذمے دار ادارے تک اس صورتحال میں کسی نہ کسی طرح حصے دار ہوتا ہے۔ ملک اور شہر کی انتظامیہ قربانی کے بعد پیش آنیوالی صورتحال سے بحسن و خوبی عہدہ برآ ہونے کے لیے انتظامات کرتی ہے۔ محکمہ صحت قربانی کے گوشت کو محفوظ اور استعمال میں ضروری ہدایات جاری کرتا ہے، مذہبی رہنما گوشت کی تقسیم کے بارے میں شرعی مسائل سے آگاہ کرتے ہیں۔ فلاحی ادارے مستحقین اور نادار افراد تک گوشت پہنچانے کے لیے سرگرم عمل ہوتے ہیں۔
مدرسوں اور خدمت خلق کے ادارے قربانی کے جانوروں کی کھالیں حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں تاکہ ان کی فروخت سے حاصل شدہ آمدنی سے وہ اپنے فلاحی اداروں کے مالی مسائل حل کرسکیں۔ ابتدا میں یہ سب کام بے حد غیر منظم انداز میں ہوتے تھے ہر کوئی چلتا پھرتا کھال اور گوشت کا مستحق بن کر آجاتا تھا۔ محلے کی ہر مسجد سے چند لڑکے کھالیں جمع کرنے محلے بھر میں گلی گلی نکل آتے تھے۔ صفائی ستھرائی کا عالم یہ تھا کہ کئی کئی دن سڑکوں اور گھروں کے سامنے خون جما رہتا اور آلائشیں گلی محلے میں جگہ جگہ تعفن پیدا کرتی رہتیں، کتے بلیاں ان کو بھنبھوڑتے رہتے۔
مگر اب صورتحال کافی مختلف ہے۔ صفائی ستھرائی کے لیے ذمے دار اداروں نے کئی احکامات جاری اور انتظامات کیے ہیں اور اس کام کے لیے گاڑیوں، رضاکاروں کا خاطر خواہ بندوبست کیا ہے۔ مگر بات وہی خلوص نیت کی ہے کہ اگر کوئی کام کرنا چاہے تو کم تعداد میں رضاکار بھی دن رات ایک کرکے صفائی کا کام کرسکتے ہیں۔ مگر نہ کرنا ہو تو ہزاروں رضاکار بھی سامنے سامنے کا کام کرکے باقی وقت گوشت کے حصول اور آرام میں صرف کرسکتے ہیں۔ عید اور اگلے روز تو ہم نے خود دیکھا کہ شاہراہ عام کے آس پاس تو واقعی کوئی آلائش اور کچرا کنڈی بھری نظر نہ آئی مین سڑک کے پیچھے والی گلی میں جگہ جگہ آلائشوں کے ڈھیر لگے رہے۔
ہمارے محلے میں کئی گھروں میں دونوں دن کئی جانوروں کی قربانی ہوئی انھوں نے اپنے جانور گھر کے سامنے ذبح کیے سارا خون اور باقیات رات گئے تک وہاں موجود رہے۔ ہم بار بار جاکر ٹیرس سے دیکھتے رہے کہ شاید اب سب کچھ صاف ہوچکا ہوگا مگر رات تک تو یہ کام نہیں ہوسکا۔ ہم اس فکر میں مبتلا رہے کہ اس طرح جو تعفن اور بیماریاں پھیلیں گی ان کی لپیٹ میں سارا محلہ آسکتا ہے۔ ہم نے اپنی ذمے داری سمجھتے ہوئے اپنی سی کوشش بھی کی مگر مقرر کردہ رضاکار نہ پہنچے۔ مگر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ازخود یہ کام نہیں کرسکتے خود اپنے گھر کے سامنے اتنی گندگی برداشت کرلیتے ہیں ذرا سی زحمت کرکے ایک گڑھا کھود کر یہ سب کچھ زمین میں دفن تو کرسکتے ہیں ۔ مگر ہمارے یہاں ذمے داری نبھانے کا رویہ بالکل ختم ہوچکا ہے۔ ہر کوئی دوسروں کو ذمے دار قرار دے کر بری الذمہ ہوجاتا ہے۔
ہم نے معاشرے میں قربانی کے مختلف پہلوؤں کا ذکر کیا تھا کہ ہر فرد چاہے وہ قربانی کرے یا نہ کرے وہ قربانی کے عمل میں بلاواسطہ یا بالواسطہ شرکت کرسکتا ہے۔ مثلاً جانوروں کا چارہ فروخت کرنے والے، قصاب، گوشت تقسیم کرنے والے، کھالیں جمع کرنے والوں کے علاوہ چوڑیاں، جوتے، ٹوپی، کپڑے، چھریاں، بغدے فروخت کرنے والے ہی نہیں بلکہ سبزی فروش اور فریج و فریزر کے بیوپاری بھی ان افراد میں شامل ہوتے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ہمارے یہاں مہنگائی کا جو طوفان آیا ہوا ہے اس کے نتیجے میں اجتماعی قربانی کا رجحان زیادہ رہا، عید کے جوڑے، جوتے وغیرہ کی خریداری میں بھی اس سال نمایاں کمی رہی لیکن ایک دوسری خبر کے مطابق فریج اور فریزر خوب فروخت ہوئے تاکہ قربانی کا گوشت کافی عرصے محفوظ رکھا جاسکے حالانکہ یہ دونوں خبریں ایک دوسرے کی متضاد ہیں کہ کپڑے، جوتے یا دیگر اشیا تو کم قیمت والی بھی خریدی جاسکتی ہیں جب کہ مہنگی اشیا مثلاً فریج و فریزر کی خریداری کا گراف اونچا رہا۔ کاش گوشت جمع کرنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ افراد یعنی مستحقین تک پہنچا دیا جائے تو فریزر بھرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔
انتظامیہ کی جانب سے مویشی منڈیاں آبادی سے باہر قائم کی گئی تھیں اس کے باوجود شہر میں جگہ جگہ غیر قانونی منڈیاں باوجود پولیس اہلکاروں کے گشت کے کثرت سے نظر آئیں زیادہ تر لوگوں نے ان ہی منڈیوں سے جانور خریدے کیونکہ سرکار کی قائم کردہ منڈیوں کی نسبت یہاں جانور سستے تھے ،سارے ممکنہ انتظامات کے باوجود یہ کاروبار پولیس کی معاونت اور نگرانی میں جاری رہا۔ ادھر قصابوں نے اپنی مزدوری میں اس قدر اضافہ کردیا کہ ہر کوئی ان کی خدمت حاصل کرنے سے محروم رہا اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر پیشہ ور اور اناڑی افراد نے قصاب بن کر خوب کمایا کھال اورگوشت کا بھی خوب حشر کیا۔ اس کے علاوہ قربانی کے جانور چرائے جانے کے کئی واقعات بھی رونما ہوئے اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم فلسفہ قربانی اور روح ایثار کے معیار پر پورے اترے؟ یہ رویہ قابل غور تو ہے۔
اس بار تو مسئلہ حل ہوگیا کہ چلو عید قرباں پر ہی کچھ لکھ لیتے ہیں۔اس میں مشکل بھی کوئی نہیں اخبارات سامنے ہیں اور عید پر ہر پہلو سے طرح طرح کی خبریں اور اطلاعات موجود ہیں، مگر قبل اس کے کہ ہم ان خبروں کا اپنے نقطہ نظر سے ''تجزیہ'' کریں پہلے عیدالاضحی پر تمام اخبارات میں موجود جو مضامین مفتیان کرام، علامہ، مولانا، پروفیسرز اور اسکالرز نے تحریر کیے ہیں ان کو پڑھ کر جوکچھ ہماری سمجھ میں آیا اس کا ذکر کرتے ہیں۔
ان تمام مضامین کا لب لباب یہ ہے کہ عید قرباں دراصل سنت ابراہیمی اور اس عظیم واقعے کی یاد تازہ کرنے کے عمل کا نام ہے جو اللہ کے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے واحد اور چہیتے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں قربان کر رہے ہیں اور جب یہ خواب متواتر (بعض روایات کے مطابق) تین رات دیکھا تو حضرت ابراہیم نے اس کو حکم خداوندی سمجھتے ہوئے اپنے بیٹے کی رضامندی سے اس حکم پر عمل فرمایا، مگر اللہ تعالیٰ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ ایثار اور اخلاص اس قدر پسند آیا کہ حضرت اسماعیل کی جگہ دنبہ ذبح کرکے آپ کی قربانی کو شرف قبولیت عطا فرما یا اور ارشاد ہوا کہ ''اے ابراہیم! تم نے خواب کو حقیقت کر دکھایا یہی عمل ہماری بارگاہ میں قابل قبول ہے'' جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ رب العزت کو اخلاص قلب اور خلوص نیت درکار ہے۔ محض دکھاوے کے عمل سے اللہ تعالیٰ کو کوئی سروکار نہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنت ابراہیمی کو برقرار رکھ کر اپنی امت سے وہی اخلاص، رضائے الٰہی کا حصول اور خوشنودی رب کی طلب کی توقع فرمائی ہے اصل قربانی کسی قیمتی جانور کی نہیں اپنی خواہشات نفس کی ہے۔
زمانے نے جہاں انسان کو زندگی کے ہر انداز ہر رویے میں نمود و نمائش اور بلا اخلاص صرف ظاہری عمل کی طرف مائل کردیا وہاں قربانی بھی اپنے فلسفہ اور روح سے ہٹ کر محض دکھاوے اور اپنے اعلیٰ معیار زندگی کی نمائش کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہے۔ کیونکہ قربانی تو سنت ہے ہمارے یہاں بے شمار لوگ فرض حتیٰ کہ پانچ وقت کی نماز تک سے غفلت برتتے ہیں مگر قربانی بڑے تزک و احتشام سے اپنے گھرکے سامنے پورے محلے کو دکھا کر کرتے ہیں ۔قربانی کے جانور کے گلے پر چھری پھیرنیوالا چاہے فلسفہ قربانی اور اس کی اصل روح سے واقف بھی نہ ہو۔ اب ہم عالمہ و فاضلہ تو ہیں نہیں کہ ''ارشاد فرمادیں'' کہ دکھاوے کی قربانی قابل قبول ہے یا نہیں؟ فقہی مسائل پر وہ اظہار خیال کرے جو خود علم فقہہ میں کامل ہو۔
عیدالاضحی کے معاشرتی پہلو بہرحال اتنے اور ایسے ہیں جن پر ہر کوئی اظہار خیال کرسکتا ہے۔ معاشرے کے ہر فرد سے لے کر ہر ذمے دار ادارے تک اس صورتحال میں کسی نہ کسی طرح حصے دار ہوتا ہے۔ ملک اور شہر کی انتظامیہ قربانی کے بعد پیش آنیوالی صورتحال سے بحسن و خوبی عہدہ برآ ہونے کے لیے انتظامات کرتی ہے۔ محکمہ صحت قربانی کے گوشت کو محفوظ اور استعمال میں ضروری ہدایات جاری کرتا ہے، مذہبی رہنما گوشت کی تقسیم کے بارے میں شرعی مسائل سے آگاہ کرتے ہیں۔ فلاحی ادارے مستحقین اور نادار افراد تک گوشت پہنچانے کے لیے سرگرم عمل ہوتے ہیں۔
مدرسوں اور خدمت خلق کے ادارے قربانی کے جانوروں کی کھالیں حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں تاکہ ان کی فروخت سے حاصل شدہ آمدنی سے وہ اپنے فلاحی اداروں کے مالی مسائل حل کرسکیں۔ ابتدا میں یہ سب کام بے حد غیر منظم انداز میں ہوتے تھے ہر کوئی چلتا پھرتا کھال اور گوشت کا مستحق بن کر آجاتا تھا۔ محلے کی ہر مسجد سے چند لڑکے کھالیں جمع کرنے محلے بھر میں گلی گلی نکل آتے تھے۔ صفائی ستھرائی کا عالم یہ تھا کہ کئی کئی دن سڑکوں اور گھروں کے سامنے خون جما رہتا اور آلائشیں گلی محلے میں جگہ جگہ تعفن پیدا کرتی رہتیں، کتے بلیاں ان کو بھنبھوڑتے رہتے۔
مگر اب صورتحال کافی مختلف ہے۔ صفائی ستھرائی کے لیے ذمے دار اداروں نے کئی احکامات جاری اور انتظامات کیے ہیں اور اس کام کے لیے گاڑیوں، رضاکاروں کا خاطر خواہ بندوبست کیا ہے۔ مگر بات وہی خلوص نیت کی ہے کہ اگر کوئی کام کرنا چاہے تو کم تعداد میں رضاکار بھی دن رات ایک کرکے صفائی کا کام کرسکتے ہیں۔ مگر نہ کرنا ہو تو ہزاروں رضاکار بھی سامنے سامنے کا کام کرکے باقی وقت گوشت کے حصول اور آرام میں صرف کرسکتے ہیں۔ عید اور اگلے روز تو ہم نے خود دیکھا کہ شاہراہ عام کے آس پاس تو واقعی کوئی آلائش اور کچرا کنڈی بھری نظر نہ آئی مین سڑک کے پیچھے والی گلی میں جگہ جگہ آلائشوں کے ڈھیر لگے رہے۔
ہمارے محلے میں کئی گھروں میں دونوں دن کئی جانوروں کی قربانی ہوئی انھوں نے اپنے جانور گھر کے سامنے ذبح کیے سارا خون اور باقیات رات گئے تک وہاں موجود رہے۔ ہم بار بار جاکر ٹیرس سے دیکھتے رہے کہ شاید اب سب کچھ صاف ہوچکا ہوگا مگر رات تک تو یہ کام نہیں ہوسکا۔ ہم اس فکر میں مبتلا رہے کہ اس طرح جو تعفن اور بیماریاں پھیلیں گی ان کی لپیٹ میں سارا محلہ آسکتا ہے۔ ہم نے اپنی ذمے داری سمجھتے ہوئے اپنی سی کوشش بھی کی مگر مقرر کردہ رضاکار نہ پہنچے۔ مگر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ازخود یہ کام نہیں کرسکتے خود اپنے گھر کے سامنے اتنی گندگی برداشت کرلیتے ہیں ذرا سی زحمت کرکے ایک گڑھا کھود کر یہ سب کچھ زمین میں دفن تو کرسکتے ہیں ۔ مگر ہمارے یہاں ذمے داری نبھانے کا رویہ بالکل ختم ہوچکا ہے۔ ہر کوئی دوسروں کو ذمے دار قرار دے کر بری الذمہ ہوجاتا ہے۔
ہم نے معاشرے میں قربانی کے مختلف پہلوؤں کا ذکر کیا تھا کہ ہر فرد چاہے وہ قربانی کرے یا نہ کرے وہ قربانی کے عمل میں بلاواسطہ یا بالواسطہ شرکت کرسکتا ہے۔ مثلاً جانوروں کا چارہ فروخت کرنے والے، قصاب، گوشت تقسیم کرنے والے، کھالیں جمع کرنے والوں کے علاوہ چوڑیاں، جوتے، ٹوپی، کپڑے، چھریاں، بغدے فروخت کرنے والے ہی نہیں بلکہ سبزی فروش اور فریج و فریزر کے بیوپاری بھی ان افراد میں شامل ہوتے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ہمارے یہاں مہنگائی کا جو طوفان آیا ہوا ہے اس کے نتیجے میں اجتماعی قربانی کا رجحان زیادہ رہا، عید کے جوڑے، جوتے وغیرہ کی خریداری میں بھی اس سال نمایاں کمی رہی لیکن ایک دوسری خبر کے مطابق فریج اور فریزر خوب فروخت ہوئے تاکہ قربانی کا گوشت کافی عرصے محفوظ رکھا جاسکے حالانکہ یہ دونوں خبریں ایک دوسرے کی متضاد ہیں کہ کپڑے، جوتے یا دیگر اشیا تو کم قیمت والی بھی خریدی جاسکتی ہیں جب کہ مہنگی اشیا مثلاً فریج و فریزر کی خریداری کا گراف اونچا رہا۔ کاش گوشت جمع کرنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ افراد یعنی مستحقین تک پہنچا دیا جائے تو فریزر بھرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔
انتظامیہ کی جانب سے مویشی منڈیاں آبادی سے باہر قائم کی گئی تھیں اس کے باوجود شہر میں جگہ جگہ غیر قانونی منڈیاں باوجود پولیس اہلکاروں کے گشت کے کثرت سے نظر آئیں زیادہ تر لوگوں نے ان ہی منڈیوں سے جانور خریدے کیونکہ سرکار کی قائم کردہ منڈیوں کی نسبت یہاں جانور سستے تھے ،سارے ممکنہ انتظامات کے باوجود یہ کاروبار پولیس کی معاونت اور نگرانی میں جاری رہا۔ ادھر قصابوں نے اپنی مزدوری میں اس قدر اضافہ کردیا کہ ہر کوئی ان کی خدمت حاصل کرنے سے محروم رہا اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر پیشہ ور اور اناڑی افراد نے قصاب بن کر خوب کمایا کھال اورگوشت کا بھی خوب حشر کیا۔ اس کے علاوہ قربانی کے جانور چرائے جانے کے کئی واقعات بھی رونما ہوئے اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم فلسفہ قربانی اور روح ایثار کے معیار پر پورے اترے؟ یہ رویہ قابل غور تو ہے۔