ہمت کے درخت
دنیا میں پانچ ایسے ممالک کی فہرست بنا رکھی ہے جو بیس سال میں سپر پاور بننے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
جب بھی میں اپنے ملک کے سیاسی اور سماجی حالات سے اکتا جاتا ہوں تو مختلف طرح کے دشوار سوالات ذہن میں امڈنے لگتے ہیں۔ ہمارا نظام ہے کیا! ہم ایسے کیوں ہیں! کیا ہم ہمیشہ بحیثیت قوم صرف لوگوں کا ایک ہجوم رہیں گے! ہمارا عام آدمی اتنا بے کس اور بے سہارا کیوں ہے! ہم ترقی کی مشکل دوڑ میں کیسے شامل ہونگے! ہمارا آنے والا کل گزرے ہوئے دن سے کیسے بہتر ہو گا! ہمارے حالات کب اور کیسے ٹھیک ہونگے! میری دانست میں تو ہمارے ہر ذی شعور شہری کے ذہن میں سوالات کا ایک سمندر ہے! اس گہرے پانی کو ملک کے لیے امرت دھارا میں کیسے تبدیل کیا جائے؟ کسی رہنما کے پاس کوئی جواب نہیں ہے!
مجھے اسٹاف کالج لاہور کی بدولت سرکاری سطح پر سال میں چار پانچ غیر ممالک میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے۔ میں ترقی یافتہ ممالک کی صف میں اول نمبر پر کھڑے ہوئے ممالک سے لے کر ترقی پذیر ممالک کا بغور مطالعہ کرتا ہوں۔ میں سڑکوں پر گھنٹوں پیدل پھر کر ان ممالک کے عام آدمی کو دیکھتا ہوں! مگر مجھے پاکستان کے لوگوں سے زیادہ جفاکش، ذہین اور متحرک لوگ کہیں نظر نہیں آتے! میرے ذہن میں امید کی اصل کرن میرے ملک کے عام لوگ ہیں جو اپنی صلاحیتوں سے معجزے دکھانے کی قدرت رکھتے ہیں! پر مسئلہ اپنے اس خزانے سے کام لینے کا ہے!
میں دو سال پہلے تیونس گیا۔ وفد کو سرکاری بریفنگ کے لیے ایک سادہ سے دفتر میں بٹھا دیا گیا۔ وہاں ہمیں لیپ ٹاپ اور ملٹی میڈیا پر بریفنگ دینے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ آپ یقین فرمائیے! وہ لوگ پاکستان میں آئی ٹی کی ترقی سے اتنے متاثر تھے کہ میں حیران رہ گیا۔ ان کے ایک سیکریٹری کی سطح کے ایک افسر نے مجھے کہا کہ ہم تو آئی ٹی میں پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کے برابر گردانتے ہیں۔ مگر صاحبان! ہمارے ملک میں مناسب نوکریاں نہ ملنے کی بدولت ہمارے نوجوان مجبوراً غیر ممالک میں اپنا ہنر بیچنے پر مجبور ہیں۔
میں آپکو ایک بہت عجیب بات عرض کروں۔ چند مہینے پہلے مجھے پیرس جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک سرکاری بریفنگ کے آخر میں ایک فرانسیسی دانشور کہنے لگا کہ اس نے دنیا میں پانچ ایسے ممالک کی فہرست بنا رکھی ہے جو بیس سال میں سپر پاور بننے کی اہلیت رکھتے ہیں اور پاکستان اس فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔ وہ کہنے لگا کہ پاکستانی قوم کے عام آدمی کی صلاحیتیں حیرت انگیز ہیں۔ وہ مشکل سے مشکل کام کرنے پر قادر ہے! مسئلہ ہے تو اس نظام کا جو ان خداداد صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہے! میں کئی دن تک اس دانشور کی بات کو سوچتا رہا۔ پیہم سوچ کے بعد میرا جواب بھی اثبات میں تھا۔
فرمان علی کا تعلق سوات سے تھا۔ وہ ایک مکمل اَن پڑھ شخص تھا۔ اس کی شادی خاندانی روایت کے مطابق اپنے خاندان میں ہی کر دی گئی۔ اس کی تین بیٹیاں تھیں۔ وہ بیروزگاری سے بہت پریشان رہتا تھا۔ بڑی مشکل سے 2001 میں وہ سعودی عرب چلا گیا۔ جدہ میں ایک چھوٹی سی دکان پر اسے کام مل گیا۔ تنخواہ صرف اتنی تھی کہ وہ اور اس کا خاندان جو سوات میں قیام پذیر تھا، جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھ سکے۔ اس کے پاس اتنے پیسے بھی جمع نہ ہوتے تھے کہ وہ اپنے خاندان کو ملنے کے لیے ہر سال سوات آ سکے۔ 2009ء تک یعنی آٹھ سال میں وہ محض ایک مرتبہ پاکستان آ سکا تھا۔ وہ دن میں چودہ پندرہ گھنٹے مسلسل کام کرتا رہتا تھا۔ اگر دیکھا جائے تو دراصل وہ ان لاکھوں مزدوروں کی طرح ایک بے نام سا شخص تھا جو جدہ میں کام کر رہے تھے۔ فرمان علی میں کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ کوئی بھی اس کی طرف توجہ دے یا اسکو کسی قسم کی اہمیت دے!
نومبر 2009ء میں جدہ میں قیامت کی بارشیں ہوئیں۔ قدرتی آفت کے سامنے سعودی حکومت مکمل طور پر بے بس ہو گئی۔ شہر کے پانی کے نکاس کا نظام جواب دے گیا۔ جدہ میں سیلاب آ گیا۔ وہاں کا کوئی مقامی شہری اس مصیبت کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ عمارتوں میں پانی چلا گیا۔ گاڑیاں غرق ہو گئیں۔ سڑکیں ٹوٹ گئیں۔ پانی کے طاقتور ریلے میں سیکڑوں افراد بہہ کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سیلاب نے جدہ شہر کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچایا۔ جس وقت سیلاب کی لہریں اپنے ظلم کے جوبن پر تھیں۔ فرمان علی اپنی دکان میں حسب معمول کام کر رہا تھا۔ اچانک اس نے اپنی سڑک پر پانی کا ریلہ دیکھا۔ پانی میں بے بسی سے ڈوبتے ہوئے لوگ مدد کے لیے چیخ و پکار کر رہے تھے۔ فرمان علی نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ کر ڈالا۔ اس نے اپنی دکان سے ایک لمبی سی رسی نکالی۔ رسی کو اس نے ایک پول سے باندھ دیا۔
رسی کا دوسرا حصہ اس نے اپنی کمر سے باندھ کر سیلابی پانی میں چھلانگ لگا دی۔ پانی کے مضبوط ریلے میں اس نے لوگوں کو بچانا شروع کر دیا۔ وہ کسی کو لکڑی کا تختہ دے دیتا تھا۔ کسی کو ٹیوب اور کسی کو رسی۔ کسی کو پکڑ کر اپنی دکان کے سامنے لے آتا تھا۔ وہ انتہائی ہمت اور بہادری سے ڈوبتے ہوئے لوگوں کو بچانے میں لگا رہا۔ اس نے اپنی بے خوفی سے چودہ انسانی جانیں بچا لیں۔ جب وہ ایک اور شخص کی طرف جانے لگا جو پانی میں ڈوب رہا تھا تو اپنا توازن برقرار نہ رکھ پایا۔ پانی کی مضبوط لہروں نے اسکو بے دست و پا کر دیا۔ اسے تیرنا نہیں آتا تھا پانی اس کے اوپر سے گزر گیا۔ آخری انجان آدمی کو بچاتے بچاتے فرمان علی اس سیلاب کی نذر ہو گیا۔ فرمان علی کی عمر اس وقت صرف32 سال تھی۔
کچھ ہی دنوں میں فرمان علی کا پُرعزم کارنامہ زبان زد عام ہو گیا۔ لوگوں نے اسکو ڈوبتے ہوئے افراد کو بچاتے ہوئے خود دیکھا تھا۔ سعودی پریس میں اسے ایک ہیرو کا درجہ دے دیا گیا۔ اخبارات میں یہاں تک لکھا گیا کہ فرمان علی جیسے بہادر لوگ سعودی عرب کا اصل سرمایہ ہیں۔ سعودی فرمانروا نے کارنامے کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت کا سب سے محترم سول ایوارڈ فرمان علی کو دینے کا اعلان کر دیا۔ اس ایوارڈ کا نام"کنگ عبدلعزیز میڈل" تھا۔ جس سڑک پر فرمان علی کی دکان تھی اور جہاں وہ لوگوں کو بچاتے ہوئے اپنی زندگی کی بازی ہار گیا، وہ سڑک بھی اس کے نام سے منسوب کر دی گئی۔
اسلام آباد میں سعودی سفیر نے فرمان علی کے والد اور بھائی کو سفارت خانہ میں مدعو کیا۔ سفیر نے بہادر بیٹے کے کارنامے کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس غریب خاندان کی مالی معاونت کرنے کی کوشش کی۔ مگر اس عظیم بیٹے کے غریب باپ نے کوئی بھی مالی انعام لینے سے انکار کر دیا۔ تقریب میں شامل سب لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ بے غرضی کا ایسا نظارہ کبھی کبھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ فرمان علی آج بھی سعودی شاہی خاندان کے لیے ایک بہادری کا نشان ہے اور وہ اس پاکستانی شہری کی دل سے قدر کرتے ہیں۔
ثمینہ خیال بیگ کا تعلق گلگت بلتستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں شمشال سے ہے۔ وہ صرف چار سال کی تھی جب اسے پہاڑوں کی چوٹیوں کو سر کرنے کا جنون ہو گیا۔ اس بچی کا خواب تھا کہ وہ دنیا کے مشکل ترین پہاڑوں کو مفتوح کرے۔ وہ دنیا کے اس مشکل ترین کھیل میں نام پیدا کرنا چاہتی تھی جس میں بڑے بڑے سورما بھی شامل ہونے سے گھبراتے ہیں۔ شدید محنت اور شوق نے ثمینہ کے اندر وہ ہمت پیدا کر ڈالی کہ پہاڑ اور دشوار ترین چوٹیاں اس کے لیے محض بچوں کا کھیل بن گئے۔ 2013ء میں ثمینہ نے ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کا فیصلہ کیا۔ فیصلے کے اندر بے تحاشا خطرات موجود تھے۔
جان جانے کا خطرہ بھی تھا۔ مگر ثمینہ کی ہمت کے سامنے پہاڑ بھی سرنگوں ہو گیا۔19 مئی2013ء کو ثمینہ خیال ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ وہ پہلی پاکستانی لڑکی تھی جس نے یہ مشکل کارنامہ سرانجام دیا تھا۔ ماؤنٹ ایورسٹ پر پہنچ کر اس نے دنیا کی بلند ترین چوٹی پر پاکستان کا جھنڈا نصب کر دیا۔ چوٹی کے آخری ڈھائی سو میٹر کا دشوار ترین سفر ثمینہ نے بغیر کسی مدد کے طے کیا۔ یہ اس مہم کا سب سے خطرناک اور مشکل مرحلہ تھا۔ ثمینہ نے یہ فیصلہ صرف اس لیے کیا کہ وہ دنیا کو بتانا چاہتی تھی کہ پاکستانی خواتین عزم و ہمت میں کسی سے کم نہیں ہیں۔ اور اس کے ملک میں خواتین کو مشکل سے مشکل کام کرنے کی بھی اجازت ہے۔
مسلم دنیا میں بھی ثمینہ پہلی لڑکی تھی جس نے یہ کارنامہ سرانجام دیا۔ اس مہم میں ثمینہ کو48 دن مکمل دشوار ترین پہاڑوں پر سفر کرنا پڑا مگر اس نے آخری دم تک ہمت نہیں ہاری اور فتح یاب واپس آئی۔ ثمینہ نے ارجنٹائن کے سب سے اونچے پہاڑ Mount AConcagua کو بھی تسخیر کیا۔ آپ اس کی ہمت کا اندازہ لگائیے کہ اس نے"Antarctica" میں سب سے بلند ترین چوٹی Mount Vision کو بھی سر کر ڈالا۔ ثمینہ کو اپنے ملک پر فخر ہے مگر پاکستان کو بھی اپنی اس عظیم بیٹی پر ناز ہے۔ اس نے ثابت کیا کہ پاکستانی خواتین دنیا کے کسی بھی ملک کی خواتین سے کمتر نہیں ہیں۔ آج تک مسلم ممالک میں ثمینہ کا ریکارڈ کوئی بھی نہیں توڑ سکا۔
ہارون طارق اسلام آباد کے ایک مقامی اسکول کا طالبعلم ہے۔ اس نے ایک ایسا کام کر ڈالا جو پوری دنیا کے لیے آج تک مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس نوجوان نے "A اور" "O لیول کے امتحان میںA" 47 " حاصل کیے۔ یہ ایک بین الاقوامی ریکارڈ ہے اور پوری دنیا میں آج تک کسی بھی طالبعلم نے مجموعی طور پر اتنے A" " حاصل نہیں کیے۔ وہ پچاس مختلف مضامین پڑھتا رہا۔ اس نے مختلف زبانوں پر بھی عبور حاصل کر لیا۔ اس نے فرانسیسی اورSpanish زبان پر بھی قدرت حاصل کر لی۔ ہارون ایک سوفٹ وئیر انجینئر بننا چاہتا ہے۔ یہ ہمارے ملک کا وہ قابل فخر نوجوان ہے جو پوری دنیا کے لیے علم اور ہنر میں ایک مثال بن کر سامنے آیا ہے۔ اس کا تعلیمی معجزہ ہمارے لیے فخر کا ایک منور نشان ہے۔
آپ جب بھی مایوس ہوں تو میں آپکو درخواست کرتا ہوں کہ آپ اپنے ارد گرد غور سے عام لوگوں پر نظر ڈالیں۔ آپ کو ہر گلی، محلہ، قصبہ، گاؤں اور شہر میں لاتعداد ایسے لوگ ملیں گے جنہوں نے اپنی ذات سے بالاتر ہو کر معاشرے، ملک اور انسانیت کے لیے بڑے بڑے کارنامے عزت سرانجام دیے ہیں! مگر ہم لوگوں کا مسئلہ ہے کہ ہم اپنے ان قابل فخر شہریوں کو اپنی توجہ کا مرکز نہیں بناتے! ہم مایوسی میں ڈوب کر ہر وقت ٹی وی اسکرینوں کے سامنے مقید بیٹھے رہتے ہیں، جو ایک سے ایک بری خبر کو بریکنگ نیوز کے طور پر چلانے میں ماہر ہو چکے ہیں۔ جو بہتر ریٹنگ حاصل کرنے کے لیے قوم میں اجتماعی مایوسی پھیلانے کے کام میں ہر دم مصروف ہیں! لیکن میری نظر میں فرمان علی، ثمینہ بیگ اور ہارون طارق عزم و ہمت کے وہ مضبوط درخت ہیں جنکی ٹھنڈی چھاؤں پر ہم لوگوں کو فخر کرنا چاہیے! اتنے توانا درختوں کی موجودگی میں کوئی بھی طوفان ہمارا بال تک بیکا نہیں کر سکتا!
مجھے اسٹاف کالج لاہور کی بدولت سرکاری سطح پر سال میں چار پانچ غیر ممالک میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے۔ میں ترقی یافتہ ممالک کی صف میں اول نمبر پر کھڑے ہوئے ممالک سے لے کر ترقی پذیر ممالک کا بغور مطالعہ کرتا ہوں۔ میں سڑکوں پر گھنٹوں پیدل پھر کر ان ممالک کے عام آدمی کو دیکھتا ہوں! مگر مجھے پاکستان کے لوگوں سے زیادہ جفاکش، ذہین اور متحرک لوگ کہیں نظر نہیں آتے! میرے ذہن میں امید کی اصل کرن میرے ملک کے عام لوگ ہیں جو اپنی صلاحیتوں سے معجزے دکھانے کی قدرت رکھتے ہیں! پر مسئلہ اپنے اس خزانے سے کام لینے کا ہے!
میں دو سال پہلے تیونس گیا۔ وفد کو سرکاری بریفنگ کے لیے ایک سادہ سے دفتر میں بٹھا دیا گیا۔ وہاں ہمیں لیپ ٹاپ اور ملٹی میڈیا پر بریفنگ دینے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ آپ یقین فرمائیے! وہ لوگ پاکستان میں آئی ٹی کی ترقی سے اتنے متاثر تھے کہ میں حیران رہ گیا۔ ان کے ایک سیکریٹری کی سطح کے ایک افسر نے مجھے کہا کہ ہم تو آئی ٹی میں پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کے برابر گردانتے ہیں۔ مگر صاحبان! ہمارے ملک میں مناسب نوکریاں نہ ملنے کی بدولت ہمارے نوجوان مجبوراً غیر ممالک میں اپنا ہنر بیچنے پر مجبور ہیں۔
میں آپکو ایک بہت عجیب بات عرض کروں۔ چند مہینے پہلے مجھے پیرس جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک سرکاری بریفنگ کے آخر میں ایک فرانسیسی دانشور کہنے لگا کہ اس نے دنیا میں پانچ ایسے ممالک کی فہرست بنا رکھی ہے جو بیس سال میں سپر پاور بننے کی اہلیت رکھتے ہیں اور پاکستان اس فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔ وہ کہنے لگا کہ پاکستانی قوم کے عام آدمی کی صلاحیتیں حیرت انگیز ہیں۔ وہ مشکل سے مشکل کام کرنے پر قادر ہے! مسئلہ ہے تو اس نظام کا جو ان خداداد صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہے! میں کئی دن تک اس دانشور کی بات کو سوچتا رہا۔ پیہم سوچ کے بعد میرا جواب بھی اثبات میں تھا۔
فرمان علی کا تعلق سوات سے تھا۔ وہ ایک مکمل اَن پڑھ شخص تھا۔ اس کی شادی خاندانی روایت کے مطابق اپنے خاندان میں ہی کر دی گئی۔ اس کی تین بیٹیاں تھیں۔ وہ بیروزگاری سے بہت پریشان رہتا تھا۔ بڑی مشکل سے 2001 میں وہ سعودی عرب چلا گیا۔ جدہ میں ایک چھوٹی سی دکان پر اسے کام مل گیا۔ تنخواہ صرف اتنی تھی کہ وہ اور اس کا خاندان جو سوات میں قیام پذیر تھا، جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھ سکے۔ اس کے پاس اتنے پیسے بھی جمع نہ ہوتے تھے کہ وہ اپنے خاندان کو ملنے کے لیے ہر سال سوات آ سکے۔ 2009ء تک یعنی آٹھ سال میں وہ محض ایک مرتبہ پاکستان آ سکا تھا۔ وہ دن میں چودہ پندرہ گھنٹے مسلسل کام کرتا رہتا تھا۔ اگر دیکھا جائے تو دراصل وہ ان لاکھوں مزدوروں کی طرح ایک بے نام سا شخص تھا جو جدہ میں کام کر رہے تھے۔ فرمان علی میں کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ کوئی بھی اس کی طرف توجہ دے یا اسکو کسی قسم کی اہمیت دے!
نومبر 2009ء میں جدہ میں قیامت کی بارشیں ہوئیں۔ قدرتی آفت کے سامنے سعودی حکومت مکمل طور پر بے بس ہو گئی۔ شہر کے پانی کے نکاس کا نظام جواب دے گیا۔ جدہ میں سیلاب آ گیا۔ وہاں کا کوئی مقامی شہری اس مصیبت کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ عمارتوں میں پانی چلا گیا۔ گاڑیاں غرق ہو گئیں۔ سڑکیں ٹوٹ گئیں۔ پانی کے طاقتور ریلے میں سیکڑوں افراد بہہ کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سیلاب نے جدہ شہر کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچایا۔ جس وقت سیلاب کی لہریں اپنے ظلم کے جوبن پر تھیں۔ فرمان علی اپنی دکان میں حسب معمول کام کر رہا تھا۔ اچانک اس نے اپنی سڑک پر پانی کا ریلہ دیکھا۔ پانی میں بے بسی سے ڈوبتے ہوئے لوگ مدد کے لیے چیخ و پکار کر رہے تھے۔ فرمان علی نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ کر ڈالا۔ اس نے اپنی دکان سے ایک لمبی سی رسی نکالی۔ رسی کو اس نے ایک پول سے باندھ دیا۔
رسی کا دوسرا حصہ اس نے اپنی کمر سے باندھ کر سیلابی پانی میں چھلانگ لگا دی۔ پانی کے مضبوط ریلے میں اس نے لوگوں کو بچانا شروع کر دیا۔ وہ کسی کو لکڑی کا تختہ دے دیتا تھا۔ کسی کو ٹیوب اور کسی کو رسی۔ کسی کو پکڑ کر اپنی دکان کے سامنے لے آتا تھا۔ وہ انتہائی ہمت اور بہادری سے ڈوبتے ہوئے لوگوں کو بچانے میں لگا رہا۔ اس نے اپنی بے خوفی سے چودہ انسانی جانیں بچا لیں۔ جب وہ ایک اور شخص کی طرف جانے لگا جو پانی میں ڈوب رہا تھا تو اپنا توازن برقرار نہ رکھ پایا۔ پانی کی مضبوط لہروں نے اسکو بے دست و پا کر دیا۔ اسے تیرنا نہیں آتا تھا پانی اس کے اوپر سے گزر گیا۔ آخری انجان آدمی کو بچاتے بچاتے فرمان علی اس سیلاب کی نذر ہو گیا۔ فرمان علی کی عمر اس وقت صرف32 سال تھی۔
کچھ ہی دنوں میں فرمان علی کا پُرعزم کارنامہ زبان زد عام ہو گیا۔ لوگوں نے اسکو ڈوبتے ہوئے افراد کو بچاتے ہوئے خود دیکھا تھا۔ سعودی پریس میں اسے ایک ہیرو کا درجہ دے دیا گیا۔ اخبارات میں یہاں تک لکھا گیا کہ فرمان علی جیسے بہادر لوگ سعودی عرب کا اصل سرمایہ ہیں۔ سعودی فرمانروا نے کارنامے کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت کا سب سے محترم سول ایوارڈ فرمان علی کو دینے کا اعلان کر دیا۔ اس ایوارڈ کا نام"کنگ عبدلعزیز میڈل" تھا۔ جس سڑک پر فرمان علی کی دکان تھی اور جہاں وہ لوگوں کو بچاتے ہوئے اپنی زندگی کی بازی ہار گیا، وہ سڑک بھی اس کے نام سے منسوب کر دی گئی۔
اسلام آباد میں سعودی سفیر نے فرمان علی کے والد اور بھائی کو سفارت خانہ میں مدعو کیا۔ سفیر نے بہادر بیٹے کے کارنامے کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس غریب خاندان کی مالی معاونت کرنے کی کوشش کی۔ مگر اس عظیم بیٹے کے غریب باپ نے کوئی بھی مالی انعام لینے سے انکار کر دیا۔ تقریب میں شامل سب لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ بے غرضی کا ایسا نظارہ کبھی کبھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ فرمان علی آج بھی سعودی شاہی خاندان کے لیے ایک بہادری کا نشان ہے اور وہ اس پاکستانی شہری کی دل سے قدر کرتے ہیں۔
ثمینہ خیال بیگ کا تعلق گلگت بلتستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں شمشال سے ہے۔ وہ صرف چار سال کی تھی جب اسے پہاڑوں کی چوٹیوں کو سر کرنے کا جنون ہو گیا۔ اس بچی کا خواب تھا کہ وہ دنیا کے مشکل ترین پہاڑوں کو مفتوح کرے۔ وہ دنیا کے اس مشکل ترین کھیل میں نام پیدا کرنا چاہتی تھی جس میں بڑے بڑے سورما بھی شامل ہونے سے گھبراتے ہیں۔ شدید محنت اور شوق نے ثمینہ کے اندر وہ ہمت پیدا کر ڈالی کہ پہاڑ اور دشوار ترین چوٹیاں اس کے لیے محض بچوں کا کھیل بن گئے۔ 2013ء میں ثمینہ نے ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کا فیصلہ کیا۔ فیصلے کے اندر بے تحاشا خطرات موجود تھے۔
جان جانے کا خطرہ بھی تھا۔ مگر ثمینہ کی ہمت کے سامنے پہاڑ بھی سرنگوں ہو گیا۔19 مئی2013ء کو ثمینہ خیال ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ وہ پہلی پاکستانی لڑکی تھی جس نے یہ مشکل کارنامہ سرانجام دیا تھا۔ ماؤنٹ ایورسٹ پر پہنچ کر اس نے دنیا کی بلند ترین چوٹی پر پاکستان کا جھنڈا نصب کر دیا۔ چوٹی کے آخری ڈھائی سو میٹر کا دشوار ترین سفر ثمینہ نے بغیر کسی مدد کے طے کیا۔ یہ اس مہم کا سب سے خطرناک اور مشکل مرحلہ تھا۔ ثمینہ نے یہ فیصلہ صرف اس لیے کیا کہ وہ دنیا کو بتانا چاہتی تھی کہ پاکستانی خواتین عزم و ہمت میں کسی سے کم نہیں ہیں۔ اور اس کے ملک میں خواتین کو مشکل سے مشکل کام کرنے کی بھی اجازت ہے۔
مسلم دنیا میں بھی ثمینہ پہلی لڑکی تھی جس نے یہ کارنامہ سرانجام دیا۔ اس مہم میں ثمینہ کو48 دن مکمل دشوار ترین پہاڑوں پر سفر کرنا پڑا مگر اس نے آخری دم تک ہمت نہیں ہاری اور فتح یاب واپس آئی۔ ثمینہ نے ارجنٹائن کے سب سے اونچے پہاڑ Mount AConcagua کو بھی تسخیر کیا۔ آپ اس کی ہمت کا اندازہ لگائیے کہ اس نے"Antarctica" میں سب سے بلند ترین چوٹی Mount Vision کو بھی سر کر ڈالا۔ ثمینہ کو اپنے ملک پر فخر ہے مگر پاکستان کو بھی اپنی اس عظیم بیٹی پر ناز ہے۔ اس نے ثابت کیا کہ پاکستانی خواتین دنیا کے کسی بھی ملک کی خواتین سے کمتر نہیں ہیں۔ آج تک مسلم ممالک میں ثمینہ کا ریکارڈ کوئی بھی نہیں توڑ سکا۔
ہارون طارق اسلام آباد کے ایک مقامی اسکول کا طالبعلم ہے۔ اس نے ایک ایسا کام کر ڈالا جو پوری دنیا کے لیے آج تک مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس نوجوان نے "A اور" "O لیول کے امتحان میںA" 47 " حاصل کیے۔ یہ ایک بین الاقوامی ریکارڈ ہے اور پوری دنیا میں آج تک کسی بھی طالبعلم نے مجموعی طور پر اتنے A" " حاصل نہیں کیے۔ وہ پچاس مختلف مضامین پڑھتا رہا۔ اس نے مختلف زبانوں پر بھی عبور حاصل کر لیا۔ اس نے فرانسیسی اورSpanish زبان پر بھی قدرت حاصل کر لی۔ ہارون ایک سوفٹ وئیر انجینئر بننا چاہتا ہے۔ یہ ہمارے ملک کا وہ قابل فخر نوجوان ہے جو پوری دنیا کے لیے علم اور ہنر میں ایک مثال بن کر سامنے آیا ہے۔ اس کا تعلیمی معجزہ ہمارے لیے فخر کا ایک منور نشان ہے۔
آپ جب بھی مایوس ہوں تو میں آپکو درخواست کرتا ہوں کہ آپ اپنے ارد گرد غور سے عام لوگوں پر نظر ڈالیں۔ آپ کو ہر گلی، محلہ، قصبہ، گاؤں اور شہر میں لاتعداد ایسے لوگ ملیں گے جنہوں نے اپنی ذات سے بالاتر ہو کر معاشرے، ملک اور انسانیت کے لیے بڑے بڑے کارنامے عزت سرانجام دیے ہیں! مگر ہم لوگوں کا مسئلہ ہے کہ ہم اپنے ان قابل فخر شہریوں کو اپنی توجہ کا مرکز نہیں بناتے! ہم مایوسی میں ڈوب کر ہر وقت ٹی وی اسکرینوں کے سامنے مقید بیٹھے رہتے ہیں، جو ایک سے ایک بری خبر کو بریکنگ نیوز کے طور پر چلانے میں ماہر ہو چکے ہیں۔ جو بہتر ریٹنگ حاصل کرنے کے لیے قوم میں اجتماعی مایوسی پھیلانے کے کام میں ہر دم مصروف ہیں! لیکن میری نظر میں فرمان علی، ثمینہ بیگ اور ہارون طارق عزم و ہمت کے وہ مضبوط درخت ہیں جنکی ٹھنڈی چھاؤں پر ہم لوگوں کو فخر کرنا چاہیے! اتنے توانا درختوں کی موجودگی میں کوئی بھی طوفان ہمارا بال تک بیکا نہیں کر سکتا!