سپریم کورٹ صحافیوں کے پیسے لینے خفیہ فنڈز میڈاس کے معاملے پر دلائل کا حکم
بظاہر یہ معاملہ مفادعامہ کاہے،درخواست گزارترتیب دیے گئے نکات کے مطابق معاونت کریںتاکہ کیس سمجھنے میںمددملے،عدالت
سپریم کورٹ میں سینیئرصحافی حامد میر اورابصار عالم کی جانب سے وزارت اطلاعات کے سیکرٹ فنڈکے غلط استعمال کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کے رویے پر سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو عدالتی کارروائی میں مداخلت کرنے سے بازرہنے کا آرڈر جاری کر دیا اور سماعت ملتوی کردی ۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے درخواست گزاروں حامد میر اور ابصارعالم سے کہا کہ عدالت کے سامنے اس کیس میں بیشمار درخواستیں آئی ہیں، آپ منیر اے ملک ایڈووکیٹ کی جانب سے جو نکات اٹھائے گئے ہیں اس کی روشنی میں اپنی تمام گزارشات تحریری شکل میں پیش کریں، اس میںصحافیوں کوپیسے دینے اور میڈاس کے معاملے کا بھی عدالت جائزہ لے گی۔درخواست گزارابصار عالم نے جب وزارت اطلاعات کے سیکرٹ فنڈزکی رقم چار ارب 80کروڑ 76لاکھ بتائی تو اٹارنی جنرل اپنی نشست سے اٹھے اور بولنے لگے کہ یہ رقم چار ارب نہیںچارکروڑ ہے۔
اس پر دو رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ بیٹھ جائیں آپ اپنی باری پربات کرنا اس پر اٹارنی جنرل نے کہا وہ کیسے بیٹھ جائیںایک آدمی غلط اعداد و شمار بیان کر رہاہے۔ یہ ریاست کا معاملہ ہے وہ خاموش نہیںبیٹھ سکتے۔فاضل جج نے باربار اٹارنی جنرل کو بیٹھنے کا کہا لیکن انھوں نے اونچی آواز میں بولنا شروع کردیاتوعدالت نے اپنا آرڈر لکھوانا شروع کر دیا جس میں واضح کیا کہ درخواست گزارکے دلائل کے دوران اٹارنی جنرل نے ایسا رویہ اختیارکیا کہ جوعدالت میں اختیارنہیںکیاجاتا ہے ۔عدالتی کارروائی کے دوران عدالت کے وقارکو ملحوظ رکھنے کی روایات برسوں پرانی ہیں ۔سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے باربار مداخلت کی اورانصاف کی فراہمی کے نظام میںدخل اندازی کی کوشش کی ۔عدالت اس طرح کارویہ برداشت نہیںکرے گی اور اس طرح کا رویہ اختیارکیا تو عدالت اس مقدمے کی سماعت نہیںکریگی ۔
اٹارنی جنرل کے اس رویے کے باعث عدالت کا وقت ضائع کیاگیا ۔عدالت آرڈر پاس کرنے کے بعداٹھ کر چلی گئی اور تاریخ کیلیے کہا بعد میںدی جائے گی۔ ثنا نیوزکے مطابق عدالت نے قراردیا کہ بظاہر یہ معاملہ مفاد عامہ کا لگتا ہے ،عدالت نے حامد میر اور ابصار عالم کو ہدایت کی کہ وہ مقدمے میں اپنے دلائل کوعدالتی معاون کی جانب سے ترتیب دیے گئے نکات کے مطابق عدالت کی معاونت کریں تاکہ کیس کو سمجھنے میں مدد ملے ۔عدالت نے ہدایت کی کہ پہلے تین ایشوز سوشل میڈیا پرصحافیوںکے نام پیسے لینے کے الزام ،وزارت اطلاعات و نشریات کے خفیہ فنڈز اور اشتہاری ایجنسی میڈاس پرائیویٹ لمیٹڈکے معاملات پر دلائل دیے جائیں۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ابصار عالم وزارت اطلاعات کی دستاویزات کے مطابق درست اعدادوشمار بتا رہے ہیں،عدالت نے اٹارنی جنرل کی باربار مداخلت پراپنے تحریری حکم میںکہا کہ ہم نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ یہ طریقہ کار نہیں ہے لیکن انھوں نے یہ سلسلہ جاری رکھا جومقدمہ میں انصاف کی فراہمی میں مداخلت ہے ۔ اٹارنی جنرل کو خبردارکیا جاتا ہے کہ مستقبل میں دوران دلائل مداخلت نہ کریں کیونکہ یہ صدیوں پرانی روایت ہے کہ دلائل جاری ہوں تو مداخلت نہیںکی جا سکتی ۔ عدالت کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ہمیں یہ حکم لکھوانا پڑا جس سے غیر ضروری طور پر وقت کا ضیاع ہوا ۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ ہم عدالت میں اس طرح کے رویے کی اجازت نہیں دیںگے۔ دوران سماعت وزارت اطلاعات و نشریات کے وکیل ذوالفقار خالد ملوکہ نے موقف اختیارکیا کہ یہ معاملہ مفاد عامہ کا نہیں ہے ۔ عدالت کا کہنا تھا کہ وہ اپنا موقف اپنی باری آنے پر پیش کریں۔وقائع نگارکے مطابق عدالتی کارروائی کے بعد درخواست گزاروں حامدمیراورابصار عالم نے کہا کہ عدالتی کارروائی کے دوران اٹارنی جنرل کارویہ انتہائی نامناسب تھا، اٹارنی جنرل کو عدلیہ کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے،ہم عدالت میںکسی کے خلاف نہیں آئے ہیں۔ اٹارنی جنرل سوچ سمجھ کر عدلیہ کے خلاف جارحانہ رویہ اختیارکر رہے ہیںجس کا حکومت کونوٹس لینا چاہیے ۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے درخواست گزاروں حامد میر اور ابصارعالم سے کہا کہ عدالت کے سامنے اس کیس میں بیشمار درخواستیں آئی ہیں، آپ منیر اے ملک ایڈووکیٹ کی جانب سے جو نکات اٹھائے گئے ہیں اس کی روشنی میں اپنی تمام گزارشات تحریری شکل میں پیش کریں، اس میںصحافیوں کوپیسے دینے اور میڈاس کے معاملے کا بھی عدالت جائزہ لے گی۔درخواست گزارابصار عالم نے جب وزارت اطلاعات کے سیکرٹ فنڈزکی رقم چار ارب 80کروڑ 76لاکھ بتائی تو اٹارنی جنرل اپنی نشست سے اٹھے اور بولنے لگے کہ یہ رقم چار ارب نہیںچارکروڑ ہے۔
اس پر دو رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ بیٹھ جائیں آپ اپنی باری پربات کرنا اس پر اٹارنی جنرل نے کہا وہ کیسے بیٹھ جائیںایک آدمی غلط اعداد و شمار بیان کر رہاہے۔ یہ ریاست کا معاملہ ہے وہ خاموش نہیںبیٹھ سکتے۔فاضل جج نے باربار اٹارنی جنرل کو بیٹھنے کا کہا لیکن انھوں نے اونچی آواز میں بولنا شروع کردیاتوعدالت نے اپنا آرڈر لکھوانا شروع کر دیا جس میں واضح کیا کہ درخواست گزارکے دلائل کے دوران اٹارنی جنرل نے ایسا رویہ اختیارکیا کہ جوعدالت میں اختیارنہیںکیاجاتا ہے ۔عدالتی کارروائی کے دوران عدالت کے وقارکو ملحوظ رکھنے کی روایات برسوں پرانی ہیں ۔سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے باربار مداخلت کی اورانصاف کی فراہمی کے نظام میںدخل اندازی کی کوشش کی ۔عدالت اس طرح کارویہ برداشت نہیںکرے گی اور اس طرح کا رویہ اختیارکیا تو عدالت اس مقدمے کی سماعت نہیںکریگی ۔
اٹارنی جنرل کے اس رویے کے باعث عدالت کا وقت ضائع کیاگیا ۔عدالت آرڈر پاس کرنے کے بعداٹھ کر چلی گئی اور تاریخ کیلیے کہا بعد میںدی جائے گی۔ ثنا نیوزکے مطابق عدالت نے قراردیا کہ بظاہر یہ معاملہ مفاد عامہ کا لگتا ہے ،عدالت نے حامد میر اور ابصار عالم کو ہدایت کی کہ وہ مقدمے میں اپنے دلائل کوعدالتی معاون کی جانب سے ترتیب دیے گئے نکات کے مطابق عدالت کی معاونت کریں تاکہ کیس کو سمجھنے میں مدد ملے ۔عدالت نے ہدایت کی کہ پہلے تین ایشوز سوشل میڈیا پرصحافیوںکے نام پیسے لینے کے الزام ،وزارت اطلاعات و نشریات کے خفیہ فنڈز اور اشتہاری ایجنسی میڈاس پرائیویٹ لمیٹڈکے معاملات پر دلائل دیے جائیں۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ابصار عالم وزارت اطلاعات کی دستاویزات کے مطابق درست اعدادوشمار بتا رہے ہیں،عدالت نے اٹارنی جنرل کی باربار مداخلت پراپنے تحریری حکم میںکہا کہ ہم نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ یہ طریقہ کار نہیں ہے لیکن انھوں نے یہ سلسلہ جاری رکھا جومقدمہ میں انصاف کی فراہمی میں مداخلت ہے ۔ اٹارنی جنرل کو خبردارکیا جاتا ہے کہ مستقبل میں دوران دلائل مداخلت نہ کریں کیونکہ یہ صدیوں پرانی روایت ہے کہ دلائل جاری ہوں تو مداخلت نہیںکی جا سکتی ۔ عدالت کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ہمیں یہ حکم لکھوانا پڑا جس سے غیر ضروری طور پر وقت کا ضیاع ہوا ۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ ہم عدالت میں اس طرح کے رویے کی اجازت نہیں دیںگے۔ دوران سماعت وزارت اطلاعات و نشریات کے وکیل ذوالفقار خالد ملوکہ نے موقف اختیارکیا کہ یہ معاملہ مفاد عامہ کا نہیں ہے ۔ عدالت کا کہنا تھا کہ وہ اپنا موقف اپنی باری آنے پر پیش کریں۔وقائع نگارکے مطابق عدالتی کارروائی کے بعد درخواست گزاروں حامدمیراورابصار عالم نے کہا کہ عدالتی کارروائی کے دوران اٹارنی جنرل کارویہ انتہائی نامناسب تھا، اٹارنی جنرل کو عدلیہ کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے،ہم عدالت میںکسی کے خلاف نہیں آئے ہیں۔ اٹارنی جنرل سوچ سمجھ کر عدلیہ کے خلاف جارحانہ رویہ اختیارکر رہے ہیںجس کا حکومت کونوٹس لینا چاہیے ۔