سیاسی ٹھرّا

جرمنی کے شراب پینے والے وہ پب جہاں مزدور لوگ آیا کرتے تھے یہ اپنی تقاریر کے آرٹ سے انھیں نوازا کرتے تھے۔

Jvqazi@gmail.com

آج کل بیان بازیوں میں پنجابی فلم جیسی کیفیت آگئی ہے ۔ وہ اس کو للکار رہا ہے تو یہ اسے۔ کل یہ بیانات ایک دن کا سفر مکمل کرکے آپ تک پہنچتے تھے، آج کل یہ رقم ہوئے نہیں آپ کے پاس پہنچے نہیں والا ماجرا ہے ۔ کوئی سلطان راہی ہے تو کوئی لالا سدھیر ۔ میری یہ شکایت اپنے ساتھی اینکر حضرات سے تھی کہ وہ Mass Media میں مانی ہوئی Bullet Theory استعمال کرتے ہیں کہ جس سے وہ اپنے پروگرام کی ریٹنگ برقرار رکھ سکیں اور ایسی چونکا دینے والی بات کریں جس سے وہ اپنے دیکھنے والوں کو ریموٹ کنٹرول بٹن کے ذریعے بھاگنے نہ دیں۔ مگر آج کل تو یہ تھیوری سیاستدانوں نے زیادہ پکڑی ہوئی ہے ۔

اس تھیوری کا اصل بانی ہٹلر تھا ۔ جرمنی کے شراب پینے والے وہ پب جہاں مزدور لوگ آیا کرتے تھے یہ اپنی تقاریر کے آرٹ سے انھیں نوازا کرتے تھے ۔ یہ ناکام مصور تو تھے مگر بہت ہی کامیاب شعلہ بیان مقرر تھے اور یوں کرتے کرتے ایک دن وہ پوری جرمن قوم کو یرغمال بنا گئے۔ تب جا کے ہوش آیا دنیا کو، جب وہ یہ کام اپنے ملک سے باہر لے چلے ۔ ہمارے پڑوس میں حال ہی میں نفرتوں کو ایسا بیوپار کرکے موڈی سرکار ، سرکار بنا بیٹھے ۔ (اب خدا خیر کرے اس خطے کی)۔

اب سے تھوڑے ماضی تک پنجاب کی داستانNarrative میں کشمیر کو شہ رگ کی حیثیت حاصل تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو خوب کھیلے اور ایک ہی دن میں وہ پنجاب کے لیڈر بن گئے ، بہت ادب کے ساتھ پاکستان کے ۔ پھر ایک اور وزیر خارجہ بنے شاہ محمود قریشی ، ان کو بھی ایک موقع ہاتھ آیا، کشمیر کے تنازعے پر حکومت کے موقف سے اختلاف کر بیٹھے ، استعفیٰ دے دیا ۔ یہ بھی ''سوہنا منڈا'' تھے مگر زماں و مکاں وہ نہ تھا ۔ پنجاب کی اس بار کی کہانیNarrative میں کشمیر کو شہ رگ کی حیثیت حاصل نہ تھی ۔ دراصل یہ بے چارے سیاستدان Narrative کی روٹی پانی کھاتے ہیں ۔ قوموں کی روح ہوتی ہے Narrative، ان کا اوڑھنا بچھونا ہوتی ہے ۔

برصغیر کی کوکھ میں بہت نفرتیں پلیں ۔ یہاں کے مقامی لوگوں پر پے درپے حملے ہوئے ۔ کبھی آرین، کبھی سکندراعظم، پھر ترخان ، پھر مغل ۔ سائنس کے سکھائے ہوئے نسخوں سے بددیانتی ہوگی اگر میں یہ کہوں کہ یہاں اسلام صرف صوفیوں نے پھیلایا ۔ اس میں کچھ زبردستی کا کام بھی ہوا ہے اور آج تک یہ برپا ہے کسی نہ کسی شکل میں ۔ ہندوستان میں نریندر مودی، ایل کے ایڈوانی اور ان کی انتہا پرست ہندو تنظیم RSS یہ کام کرتی ہے اور یہاں بھی ایسی سوچ کے رکھوالے کم نہیں ۔

تاریخ آب و تاب سے اپنے سفر پر رواں ہے، مگر اب یہ نفرتیں، لوگوں کے اندر ڈر کی کیفیتیں، یہ حقیقت کہ وہ اس دنیا میں نہیں ہوں گے اور اس بات سے انکار کہ وہ مرجائیں گے، اپنے بنائے ہوئے عقیدے و خیال Bullet Theory کو جنم دیتے ہیں۔ اور اگر آپ کے اس ملک میں اوسطاً خواندگی کی شرح کم ہے تو پھر یہ بات پلے سے باندھ لیں کہ ایسے بیوپاری آئیں گے جو بس میں چڑھ کر اپنی چیز کی خاصیت بیان کرتے وقت چونکا دینے والی خبریں بنائیں گے اور آپ کو مجبور کریں گے کہ آپ ان کی چیز کے خریدار بنیں بلکہ آپ ان کی باتوں سے ہپناٹائز ہوجائیں گے ۔ جھوٹ کو سچ، اور سچ کو جھوٹ وہ ثابت کرجائینگے ۔ اردو میں جسے لفاظی کہتے ہیں انگریزی میں اسے Demogogy کہا جاتا ہے ۔ بات ہوگی چوہے جتنی اور کہنے کا انداز رائی کے پہاڑ جیسا ہوگا ۔

ایسے بیانات مہذب ممالک میں کچھ کم ہی دیکھنے کو ملتے ہوں گے ۔ کچھ دنوں پہلے ایک آغا وقار نامی شخص جن کو خورشید شاہ صاحب اسلام آباد لے آئے اور ان کی پانی سے چلنے والی گاڑی کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی ۔ ہمارے پرویز رشید صاحب خورشید شاہ سے پیچھے کیوں رہ جائیں وہ بھی کود پڑے ۔ پھر ڈاکٹر قدیر آئے پھر بہت اینکر ان سے لطف اندوز ہوئے ۔ میرے سندھی بھائیوں کو تو بڑا رشک ہوا کہ سندھ کے یہ ٹوٹے پھوٹے بوسیدہ اسکول و کالج ایسا سائنسدان پیدا کرسکتے ہیں ۔ پھر جاکے کہیں ایک اور معتبر سندھی ڈاکٹر پرویز ہود بھائی ان کو رد کر بیٹھے ۔یوں آغا وقار کو نقلی ثابت کیا تب جاکے اس قوم کی جان چھوٹی ۔

بہت ادب کے ساتھ ، مگر یہ حقیقت ہے کہ عمران خان صاحب سیاست میں ایک نئی زبان و لہجہ دریافت کر بیٹھے ہیں جس کی اس سے پہلے روایت نہ تھی ۔ انھوں نے کچھ اچھی چیزیں بھی ساتھ ساتھ سیاست میں آشکار کیں ۔ لیکن ان کی زبان کا مقابلہ کرنے کے لیے پھر دوسروں کے پاس بھی زبان ہی رہ گئی تھی ۔ قادری صاحب نے تو بالکل مقرر ہونے اور اپنے مریدوں کا لہو گرم رکھنے میں بہت کامیابی حاصل کی ہو ۔ شہباز شریف صاحب ذوالفقار علی بھٹو بننا چاہتے تھے ۔ ایک دن بھٹو کی طرح مائیک گرا بیٹھے اور یہ بے چارہ مائیک کب تک چپ چاپ ستم سہتا رہا ۔ ایک دن قادری صاحب کے ہونٹ زخمی کر بیٹھا۔ الطاف حسین صاحب بھی خوب مقرر ہیں ۔ مگر آج کل بلاول بھٹو اس کام میں بہت ہی نام پیدا کر رہے ہیں ۔ الفاظ کا چناؤ کچھ ایسا کرتے ہیں جس سے تصادم ہو اور پھر ان کے مخالفین بھی میدان میں اتر آتے ہیں اور یوں ٹوئیٹر سے لے کر فیس بک تو ٹیلی ویژن اسکرین کے نیچے چلتی ہوئی پٹیاں ایسے بیانات سے بھری پڑی ہیں ۔

پوری قوم اب جیسے سیاسی ٹھّرا پینے پر مجبور ہیں ۔ اور یہ ہے وہ انفارمیشن کا دور جس میں ڈس انفارمیشن عروج پر ہے ۔ گوئبل کی طرح جھوٹ کو بار بار پیش کیا جاتا ہے اور سچ چھپ جاتا ہے ۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ Bullet Theory پائیدار نہیں ۔ یہ کشتوں کی طرح تھوڑا وقت اثر چھوڑتی ہیں اور پھر آپ واپس حقیقت کو لوٹ آتی ہیں ''اور اکبر میرا نام نہیں'' کی طرح چھ مہینے کیا دو سال ہوگئے اس حکومت کو بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم ہونا تو دور اب جھوٹے بل بھی آنے لگ گئے ۔ چالیس سال پیپلز پارٹی کو بھی ہوگئے لیکن روٹی کپڑا اور مکان کا سلسلہ جوں کا توں ۔ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والوں نے سب سے پہلے اس ملک کو اس درد انگیز نہج تک پہنچایا ۔


اس میں سیاستدانوں کو یا آمریتوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا ۔ اب کوئی کتنی بھی کوشش کرے ہٹلر بننے کی لیکن جرمنی کے عوام اب بہت آگے نکل آئے ہیں ۔ ہاں ہمارے عوام، ہمارا سماج اس سے بھی بدتر ہے جتنا جرمنی 1130 میں تھا ۔ قصور ان سیاستدانوں کا نہیں جتنا ان لوگوں کا ہے جو اب بھی ان کی Bullet Theory یا معجزوں سے خاطر تواضع کی جاتی ہے ۔

انگریزی میں کہتے ہیں Patriotism is Last Refuge of Scoundrel (ترجمہ: حب الوطنی بزدل کی آخری پناہ گاہ ہوتی ہے) ہٹلر جرمن نہ تھا مگر جرمن قوم پرستی کا چیمپئن تھا ۔ یہاں بھی بہت شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ملیں گے ۔ ہر ایک نے ہماری لگی لپٹی پرانی کہانی Narrative میں پناہ لی ہوئی ہے ۔ وہ اس لیے کہ وہ حالات کو تبدیل کرنے کی جرأت نہیں رکھتے ۔ وہ جلدی سے اقتدار تک پہنچنا چاہتے ہیں ۔ اور ان کے پاس دینے کے لیے بھی وہ کچھ ہے جو ان سے پہلے والوں کے پاس ہوگا ۔ ماجرا غالب کی طرح کچھ اس طرح کا ہے کہ:

ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

یہ سیاستدان اس منزل سے نہیں گزرنا چاہتے کہ چاہے آج کتنا بھی مشکل حالات سے سامنا کرنا پڑے، ہمیں سچ بولنا ہے۔ اس یقین کے ساتھ آج نہیں تو کل کی نسلیں ہمیں پہچانیں گی ۔ اس طرح بنتی ہیں قومیں ۔اور اس طرح سے ہوتی ہے ایک سیاسی نظام کی تہذیبی تشکیل ۔ اس طرح ملتی ہے بیش بہا آزادی ، اس طرح پھر ہوتے ہیں فیض ہر عہد کے شاعر جو یہ کہہ گئے:

آج بازار میں پا بہ جولاں چلو
رہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو

ضرورت اب اس بات کی ہے کہ ہمیں ان سیاسی ٹھّروں سے خود اجتناب کرنا چاہیے ، ان ٹاک شوز سے جو اکھاڑا بن گئے ہیں ، ان بیانات سے جو پنجابی فلموں کی طرح ہیں ، ان تقاریر سے جن سے نفرتیں اگتی ہیں ۔ بلاول بھٹو کے لیے عرض یہ ہے کہ بہتر ہوگا وہ اپنے نانا سے کم اور اپنی ماں سے زیادہ سیکھیں کیونکہ:

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
Load Next Story