عظیم انقلابی چی گویرا
ایک انقلابی کی یہ صفت ہونی چاہیے کہ وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں کسی بھی انسان کے ساتھ ہونے والے جبر کو محسوس کرے
تین اقوال ہیں اول ایک انقلابی کی یہ صفت ہونی چاہیے کہ وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں کسی بھی انسان کے ساتھ ہونے والے جبر کو محسوس کرے۔ دوئم جو چیز اہم ہے وہ ہے انقلاب اس کے مقابلے میں ہماری ذات ہمارا وجود بے معنی ہے۔ سوئم انقلابی جدوجہد میں فتح ہوتی ہے یا موت مقدر بنتی ہے۔ یہ تینوں اقوال ہیں عظیم انقلابی رہنما چی گویرا کے جس کا پورا نام ارنسٹوچی گویرا تھا۔ جس نے 14 جون 1928 کو ارجنٹائن کے قدیم شہر روساریو میں ایک ایسے خاندان میں جنم لیا بھوک، افلاس، تنگدستی گویا اس خاندان کا مقدر تھی۔
چی گویرا وقت سے ذرا قبل ہی پیدا ہوگیا تھا۔ یہی سبب تھا کہ وہ پیدا ہوتے ہی مختلف بیماریوں کا شکار ہوتا چلا گیا۔ چار برس کی عمر تک اس کے بازو و ٹانگیں سرکنڈوں کی مانند پتلے تھے مگر چی گویرا کا باپ اسے ایک صحت مند و توانا جوان دیکھنا چاہتا تھا۔ اس لیے چی گویرا کا باپ اسے خوب خوب ورزش کرواتا گھنٹوں ٹھنڈے پانی میں ڈالے رکھتا اس سے چی گویرا کے ہاتھ پاؤں تو مضبوط ہوگئے مگر وہ دمے کا مریض بن گیا۔ چی گویرا کا تعلیمی سلسلہ بھی تاخیر سے شروع ہوا۔ چی گویرا کا باپ اسے انجینئر بنانا چاہتا تھا۔ مگر اس نے ڈاکٹر بننے کا فیصلہ کیا۔ ایک جانب چی گویرا تعلیمی میدان میں ایک ذہین لڑکا ثابت ہوا تھا تو دوسری جانب اسے صحرا نوردی کا بھی بے حد شوق تھا اس کا باپ کھلے ذہن کا انسان تھا۔ یوں بھی چی گویرا پانچ بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔
اس لیے اس کی ہر خواہش کا احترام کیا جاتا جب کہ چی گویرا کی ماں بھی ایک ترقی پسند و مارکسزم سے متاثر خاتون تھیں لیکن اس نے اپنے نظریات اپنے بچوں پر تھوپنے کی کوشش نہیں کی۔ ذکر ہو رہا تھا۔ چی گویرا کی صحرا نوردی و تعلیم کا ، تو حصول تعلیم کا معاملہ ہو یا دیس دیس گھومنے کا یہ دونوں مراحل چی گویرا نے اپنی قوت بازو سے طے کیے اور ہر قسم کی محنت کی۔ ہائی اسکول کی تعلیم کے دوران ہی وہ ایک قوم پرست تنظیم سیویکولو شیزیو مونٹیگاڈو سے منسلک ہوگیا جس کا نعرہ تھا بحث نہیں عمل۔1947 کو چی گویرا نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا لیکن دیس دیس گھومنے کا اپنا شوق جاری رکھا۔
اسی شوق کی تکمیل کے دوران چی گویرا پر طبقاتی ظلم جبر و استبداد کی حقیقت آشکار ہوتی چلی گئی۔ اسے اس جبرواستحصال کا ادراک ہوا، جو ملکوں ملکوں بڑے جاگیردار چھوٹے کسانوں و ہاریوں پر روا رکھے ہوئے تھے یہی وہ وقت تھا جب چی گویرا نے انقلابی سوچ اپنا لی وہ کسی قسم کی اصلاح پسندی کا مخالف تھا بلکہ وہ نظام حکومت میں مکمل تبدیلی کی بات کرتا تھا یعنی مکمل انقلاب 1954 میں چی گویرا نے ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کی اور اسی برس پھر صحرا نوردی اختیار کی۔ اس بار اس کی منزل تھی گوئٹے مالا۔ جہاں اس کی ملاقات ایک صحافی خاتون ہلڈ گوڈیہ سے ہوئی۔ ہلڈگوڈیہ نوجوانوں کی انقلابی تحریک اپرسٹایوتھ موومنٹ کی سرگرم کارکن تھی۔
ہلڈگوڈیہ کی وساطت سے چی گویرا کی ملاقات ان لوگوں سے ہوئی جنھوں نے 1953 میں فیڈل کاسترو کی قیادت میں کیوبا کے ایک مقام مونکاڈو سے فوجی بیرکوں پر حملے سے انقلاب کا آغاز کیا تھا۔ لیکن انقلاب برپا کرنے میں ناکام رہے تھے۔ یہ 1955 کا ذکر ہے جب چی گویرا اور ہلڈگوڈیہ نے شادی کرلی جب کہ فیڈل کاسترو نے چی گویرا کے سرپرست کے فرائض انجام دیے تھے۔ اب بقول ہلڈگوڈیہ کے یہ وہ وقت تھا جب فیڈل کاسترو اور چی گویرا پوری پوری رات کیوبا میں انقلابی مہم کی منصوبہ بندی میں گزار دیتے آخرکار طویل بحث مباحثے و حکمت عملی طے کرکے 25 نومبر 1956 کو 82 نفوس پر مشتمل یہ انقلابی لشکر فیڈل کاسترو کی قیادت میں میکسیکو سے بذریعہ لانچ کیوبا روانہ ہوا۔
ان لوگوں نے دسمبر 1956 میں اپنی گوریلا کارروائیوں کا آغاز کیا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک نئی تاریخ رقم کرتے گئے ۔کیوبا کے صدر بتستا کی فوج گوریلا جنگ سے ناآشنا تھی اب حالات یہ تھے کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب فیڈل کاسترو کے ساتھ 19 افراد کھڑے تھے باقی سب اس پر اپنی جانیں نچھاور کرچکے تھے۔ ان حالات میں بھی باہمت کاسترو جی گویرا کا ایک ہی نعرہ تھا کہ انقلاب میں جدوجہد ہوتی ہے یا موت انقلابیوں کا مقدر بنتی ہے۔ جدوجہد جاری رہے گی۔ ان لوگوں کو ان حالات میں بھی یقین تھا کہ کامیابی ان کو نصیب ہوتی ہے جنھیں اپنی کامیابی کا یقین ہوتا ہے۔
چی گویرا اس انقلابی لشکر میں بحیثیت ڈاکٹر شریک تھا ۔ مگر باوجود اس کے کہ وہ کوئی تربیت یافتہ سپاہی نہ تھا۔ پھر بھی وہ اپنے ساتھیوں سے دو چار قدم آگے بڑھ کر لڑتا بالآخر دو برس کی انتھک طویل جدوجہد کے بعد یکم جنوری 1959 کو کیوبا میں جب نئے سال کا سورج طلوع ہوا تو یہ سورج کیوبا کے عوام کے لیے انقلاب کی نوید ساتھ لے کر طلوع ہوا ۔گویا 33 سالہ فیڈرل کاسترو 31 سالہ چی گویرا اور 28 سالہ روہل کاسترو مقدس انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہوچکے تھے۔ انقلابی حکومت نے سب سے پہلے یہ کام کیا کہ چی گویرا کو کیوبا کی شہریت دی اب اگلا مرحلہ کیوبا کی تعمیر نو کا تھا ۔ چی گویرا نے امور خارجہ و قومی بینک کے سربراہ کے طور پر اپنی مہارت کا خوب مظاہرہ کیا ان دونوں امور میں وہ کامیاب رہا ، چی گویرا حیرت ناک فیصلے کرنے کا عادی تھا ۔
چنانچہ انقلابی جدوجہد کے دوران ہلڈگوڈیہ سے جب اس کی علیحدگی ہوگئی تو اس نے الیرڈا مارچ سے شادی رچا لی ، مگر سب سے حیرت ناک فیصلہ چی گویرا نے 1965 میں کیا جب اس نے کیوبا چھوڑا اور کیوبن شہریت سے بھی دستبردار ہوگیا ۔ اب چی گویرا کی اگلی منزل بولیویا تھی، جہاں وہ انقلابی جدوجہد کے دوران 9 اکتوبر 1967 میں جاں بحق ہوگیا یوں جب اس عظیم انقلابی نے موت کو گلے لگایا تو اس کی عمر فقط 39 برس 3 ماہ 25 یوم تھی۔ چی گویرا پیشے کے اعتبار سے ایک ڈاکٹر تھا ۔
مزاج کے اعتبار سے ایک انقلابی تھا لیکن وہ ایک دانشور بھی تھا ، چنانچہ 18 اکتوبر 1967 کو فیڈل کاسترو نے اپنی طویل ترین گفتگو میں چی گویرا کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔ بلاشبہ چی گویرا اس کا حقدار بھی تھا کیونکہ اس نے ان لوگوں کے لیے جان دی جنھیں اس نے کبھی دیکھا تک نہ تھا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ چی گویرا کو وہ بھی ہیرو تسلیم کرتے ہیں جو اس کے بارے میں فقط اتنا جانتے ہیں کہ وہ ایک انقلابی تھا۔ آج 2014 کو چی گویرا کی 47 ویں برسی کے موقعے پر ہم چی گویرا کو دل کی گہرائیوں سے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اس عزم کے ساتھ کہ عوامی انقلابی جہد مسلسل جاری رہے گی ۔
چی گویرا وقت سے ذرا قبل ہی پیدا ہوگیا تھا۔ یہی سبب تھا کہ وہ پیدا ہوتے ہی مختلف بیماریوں کا شکار ہوتا چلا گیا۔ چار برس کی عمر تک اس کے بازو و ٹانگیں سرکنڈوں کی مانند پتلے تھے مگر چی گویرا کا باپ اسے ایک صحت مند و توانا جوان دیکھنا چاہتا تھا۔ اس لیے چی گویرا کا باپ اسے خوب خوب ورزش کرواتا گھنٹوں ٹھنڈے پانی میں ڈالے رکھتا اس سے چی گویرا کے ہاتھ پاؤں تو مضبوط ہوگئے مگر وہ دمے کا مریض بن گیا۔ چی گویرا کا تعلیمی سلسلہ بھی تاخیر سے شروع ہوا۔ چی گویرا کا باپ اسے انجینئر بنانا چاہتا تھا۔ مگر اس نے ڈاکٹر بننے کا فیصلہ کیا۔ ایک جانب چی گویرا تعلیمی میدان میں ایک ذہین لڑکا ثابت ہوا تھا تو دوسری جانب اسے صحرا نوردی کا بھی بے حد شوق تھا اس کا باپ کھلے ذہن کا انسان تھا۔ یوں بھی چی گویرا پانچ بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔
اس لیے اس کی ہر خواہش کا احترام کیا جاتا جب کہ چی گویرا کی ماں بھی ایک ترقی پسند و مارکسزم سے متاثر خاتون تھیں لیکن اس نے اپنے نظریات اپنے بچوں پر تھوپنے کی کوشش نہیں کی۔ ذکر ہو رہا تھا۔ چی گویرا کی صحرا نوردی و تعلیم کا ، تو حصول تعلیم کا معاملہ ہو یا دیس دیس گھومنے کا یہ دونوں مراحل چی گویرا نے اپنی قوت بازو سے طے کیے اور ہر قسم کی محنت کی۔ ہائی اسکول کی تعلیم کے دوران ہی وہ ایک قوم پرست تنظیم سیویکولو شیزیو مونٹیگاڈو سے منسلک ہوگیا جس کا نعرہ تھا بحث نہیں عمل۔1947 کو چی گویرا نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا لیکن دیس دیس گھومنے کا اپنا شوق جاری رکھا۔
اسی شوق کی تکمیل کے دوران چی گویرا پر طبقاتی ظلم جبر و استبداد کی حقیقت آشکار ہوتی چلی گئی۔ اسے اس جبرواستحصال کا ادراک ہوا، جو ملکوں ملکوں بڑے جاگیردار چھوٹے کسانوں و ہاریوں پر روا رکھے ہوئے تھے یہی وہ وقت تھا جب چی گویرا نے انقلابی سوچ اپنا لی وہ کسی قسم کی اصلاح پسندی کا مخالف تھا بلکہ وہ نظام حکومت میں مکمل تبدیلی کی بات کرتا تھا یعنی مکمل انقلاب 1954 میں چی گویرا نے ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کی اور اسی برس پھر صحرا نوردی اختیار کی۔ اس بار اس کی منزل تھی گوئٹے مالا۔ جہاں اس کی ملاقات ایک صحافی خاتون ہلڈ گوڈیہ سے ہوئی۔ ہلڈگوڈیہ نوجوانوں کی انقلابی تحریک اپرسٹایوتھ موومنٹ کی سرگرم کارکن تھی۔
ہلڈگوڈیہ کی وساطت سے چی گویرا کی ملاقات ان لوگوں سے ہوئی جنھوں نے 1953 میں فیڈل کاسترو کی قیادت میں کیوبا کے ایک مقام مونکاڈو سے فوجی بیرکوں پر حملے سے انقلاب کا آغاز کیا تھا۔ لیکن انقلاب برپا کرنے میں ناکام رہے تھے۔ یہ 1955 کا ذکر ہے جب چی گویرا اور ہلڈگوڈیہ نے شادی کرلی جب کہ فیڈل کاسترو نے چی گویرا کے سرپرست کے فرائض انجام دیے تھے۔ اب بقول ہلڈگوڈیہ کے یہ وہ وقت تھا جب فیڈل کاسترو اور چی گویرا پوری پوری رات کیوبا میں انقلابی مہم کی منصوبہ بندی میں گزار دیتے آخرکار طویل بحث مباحثے و حکمت عملی طے کرکے 25 نومبر 1956 کو 82 نفوس پر مشتمل یہ انقلابی لشکر فیڈل کاسترو کی قیادت میں میکسیکو سے بذریعہ لانچ کیوبا روانہ ہوا۔
ان لوگوں نے دسمبر 1956 میں اپنی گوریلا کارروائیوں کا آغاز کیا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک نئی تاریخ رقم کرتے گئے ۔کیوبا کے صدر بتستا کی فوج گوریلا جنگ سے ناآشنا تھی اب حالات یہ تھے کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب فیڈل کاسترو کے ساتھ 19 افراد کھڑے تھے باقی سب اس پر اپنی جانیں نچھاور کرچکے تھے۔ ان حالات میں بھی باہمت کاسترو جی گویرا کا ایک ہی نعرہ تھا کہ انقلاب میں جدوجہد ہوتی ہے یا موت انقلابیوں کا مقدر بنتی ہے۔ جدوجہد جاری رہے گی۔ ان لوگوں کو ان حالات میں بھی یقین تھا کہ کامیابی ان کو نصیب ہوتی ہے جنھیں اپنی کامیابی کا یقین ہوتا ہے۔
چی گویرا اس انقلابی لشکر میں بحیثیت ڈاکٹر شریک تھا ۔ مگر باوجود اس کے کہ وہ کوئی تربیت یافتہ سپاہی نہ تھا۔ پھر بھی وہ اپنے ساتھیوں سے دو چار قدم آگے بڑھ کر لڑتا بالآخر دو برس کی انتھک طویل جدوجہد کے بعد یکم جنوری 1959 کو کیوبا میں جب نئے سال کا سورج طلوع ہوا تو یہ سورج کیوبا کے عوام کے لیے انقلاب کی نوید ساتھ لے کر طلوع ہوا ۔گویا 33 سالہ فیڈرل کاسترو 31 سالہ چی گویرا اور 28 سالہ روہل کاسترو مقدس انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہوچکے تھے۔ انقلابی حکومت نے سب سے پہلے یہ کام کیا کہ چی گویرا کو کیوبا کی شہریت دی اب اگلا مرحلہ کیوبا کی تعمیر نو کا تھا ۔ چی گویرا نے امور خارجہ و قومی بینک کے سربراہ کے طور پر اپنی مہارت کا خوب مظاہرہ کیا ان دونوں امور میں وہ کامیاب رہا ، چی گویرا حیرت ناک فیصلے کرنے کا عادی تھا ۔
چنانچہ انقلابی جدوجہد کے دوران ہلڈگوڈیہ سے جب اس کی علیحدگی ہوگئی تو اس نے الیرڈا مارچ سے شادی رچا لی ، مگر سب سے حیرت ناک فیصلہ چی گویرا نے 1965 میں کیا جب اس نے کیوبا چھوڑا اور کیوبن شہریت سے بھی دستبردار ہوگیا ۔ اب چی گویرا کی اگلی منزل بولیویا تھی، جہاں وہ انقلابی جدوجہد کے دوران 9 اکتوبر 1967 میں جاں بحق ہوگیا یوں جب اس عظیم انقلابی نے موت کو گلے لگایا تو اس کی عمر فقط 39 برس 3 ماہ 25 یوم تھی۔ چی گویرا پیشے کے اعتبار سے ایک ڈاکٹر تھا ۔
مزاج کے اعتبار سے ایک انقلابی تھا لیکن وہ ایک دانشور بھی تھا ، چنانچہ 18 اکتوبر 1967 کو فیڈل کاسترو نے اپنی طویل ترین گفتگو میں چی گویرا کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔ بلاشبہ چی گویرا اس کا حقدار بھی تھا کیونکہ اس نے ان لوگوں کے لیے جان دی جنھیں اس نے کبھی دیکھا تک نہ تھا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ چی گویرا کو وہ بھی ہیرو تسلیم کرتے ہیں جو اس کے بارے میں فقط اتنا جانتے ہیں کہ وہ ایک انقلابی تھا۔ آج 2014 کو چی گویرا کی 47 ویں برسی کے موقعے پر ہم چی گویرا کو دل کی گہرائیوں سے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اس عزم کے ساتھ کہ عوامی انقلابی جہد مسلسل جاری رہے گی ۔