پاکستان ایک نظر میں گر شہادت ہے مطلوب تو پیجیے شراب
مرنے والوں کا دُکھ ضرورمگرہمدردیوں کا محوراُن کے لواحقین ہیں جنہیں بےیارومددگارزمانےکی ٹھوکریں کھانے کیلیےچھوڑدیا گیا۔
''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' کے شہر کراچی میں عیدالاضحی کے موقع پر زہریلی کچی شراب پینے سے اب تک32 افرادبے رحم موت کے مُنہ میں جا چکے ہیں۔ درجنوں افراد کی حالت تشویش ناک ہے اور درجنوں عُمر بھر کی معذوری اپنے مقدر میں لکھ چُکے ہیں، کوئی سماعت سے محروم ہو گیا ہے تو کوئی بینائی سے اور کوئی اب ساری عمر بولنے کو ترسے گااور کسی کو اب باقی مانندہ زندگی بستر پر ہی گزارنی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ یہاں اس طرح کے غیر اسلامی کام اکثر ہوتے رہتے ہیں، برائے مہربانی آپ اس پر شرمندہ مت ہوں۔ بہرحال اعلیٰ حکام کی جانب سے نوٹس لیے جا چکے ہیں، تحقیقات کا آغاز کر دیا گیاہے، متعلقہ علاقوں کے پولیس افسران کی معطلیوں کی خبریں بھی سننے میں آ رہی ہیں۔ شہر کے مختلف علاقوں میں غیر قانونی شراب بیچنے والوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کریک ڈاؤن بھی شروع ہو چکاہے، مجرموں کو گرفتار بھی کیا جا رہا ہے اور کیفرِکردار تک پہنچانے کی یقین دہانی بھی کرائی جا رہی ہے۔ اِس زہر کو بیچ کرمالِ حرام کمانے کی ہوس میں مبتلا افراداور اِن کی پُشت پناہی کرنے والوں کو نشانِ عبرت بنا دینے کی باتیں بھی آپ یقیناً سُن ہی رہے ہوں گے۔
حکامِ بالا کے بیانات اورکیے جانے والے اقدامات کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ کچی شراب سے ہونے والی اموات کا آخری سانحہ ہو گا، اب کوئی درندہ کھلے عام یہ موت بیچ کر اپنی تجوریاں نہیں بھرسکے گا، اب کوئی ماں اپنے جوان بیٹے کو نہیں روئے گی، کوئی باپ اپنے بڑھاپے کے سہارے کو اپنی آنکھوں کے سامنے تڑپ تڑپ کر مرتا نہیں دیکھے گا، کوئی بیوی اپنے شوہر کی میت کے سامنے بیٹھ کراپنے ارمانوں کی موت کا ماتم نہیں کرے گی۔ کوئی بچہ اپنے باپ کی میت کو بے بسی سے گھر سے رخصت ہوتا ہوا نہیں دیکھے گا۔ اب گھر والوں کوبدنامی کے ڈر سے اپنے پیاروں کی موت کی اصل حقیقت چھپانے کے لیے جھوٹ کا سہارا نہیں لینا پڑے گا۔
مگر مجھے بے حد افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا، ایک ہفتہ پہلے بھی یہی سب کچھ ہو رہا تھا، ایک سال پہلے بھی یہی حالات تھے اور پانچ سال پہلے بھی، یہی اموات تھیں اور سب کچھ ٹھیک کردینے کے لیے کیے جانے والے یہی اقدامات۔ ایک مرتبہ پھر حکام کے بیانات صرف باتوں کی حد تک اور اقدامات صرف فائلوں کی حد تک ہوں گے، تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ پر عملدرآمدنہ پہلے کبھی ہوا ہے نہ اب ہوگا، اِس گھناؤنے کاروبار کی پشت پناہی کرنے والے قانون کی گرفت سے با آسانی نکل جائیں گے، ذمہ دار پولیس افسران بھی بہت جلد بحال ہو جائیں گے، مجرم پہلے ملزم بنیں گے اور پھر گواہوں کی عدم دستیابی کے باعث معاشرے کے باعزت شہری اور پھر باعزت طور پر بری ہو جائیں گے۔ اور پھر وہی پُرانی خبر ہوگی کہ،
مجھے اِس سانحے میں ہونے والی اموات کا دُکھ ضرور ہے مگر میری ہمدردیوں کا محور مرنے والوں کے وہ لواحقین ہیں جنہیں بے یارومددگار زمانے کی ٹھوکریں کھانے اور لوگوں کے طعنے سننے کے لیے چھوڑدیا گیاہے، مرنے والوں نے تو اس غلط راستے کا انتخاب کر کے اپنی موت کے پروانے پر خود دستخط کیے تھے، موت تو اُن کی طے تھی خواہ وہ آج زہریلی شراب پینے سے ہوتی یا کل جگر کے فیل ہوجانے سے۔ ترس تو مجھے اُس بیٹی پر آتا ہے جس کا رشتہ کل صرف اس بات پر ٹھکرا دیا جائے گا کہ وہ ایک شرابی باپ کی بیٹی ہے، رحم کے قابل تو وہ بوڑھا باپ ہے جس نے گھر سے باہر نکلنا چھوڑ دیا ہے، جو لوگوں کی نظروں کا سامناصرف اس لیے نہیں کر سکتا کیونکہ اُس کا بیٹاشراب پینے کی وجہ سے مرا۔ دکھ تو اُس بیوہ عورت کی حالت کو دیکھ کر ہوتا ہے جس پر اپنے بچوں کی کفالت کا بوجھ آن پڑا ہے، اور اُسے یہ بوجھ اُٹھانے کے لیے پہلی بار گھر سے باہر نکلنا پڑ اہے۔ اور یہ سب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہو گا۔
محترم سید قائم علی شاہ صاحب صوبہ سندھ یعنی ''باب الاسلام ''کے وزیرِ اعلیٰ ہیں، زہریلی شراب پینے سے مرنے والوں کے لواحقین کی دلجوئی کرنا اُن کا اخلاقی فرض بھی ہے اور اُن کے منصب کی ذمہ داری بھی، اِس مرتبہ اُنہوں نے اپنی یہ ذمہ داری کیا خوب نبھائی ہے گویا کسی اور کو بولنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا، شاہ جی فرماتے ہیں کہ عیدالاضحی کے موقع پر زہریلی شراب پینے والے اپنے شوق پورے کررہے تھے وہ سب معصوم تھا اور مرنے والے سب شہید ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ شہید کبھی مرتا نہیں ہے اور زندوں کا ماتم کیسا؟ جب کوئی مرا ہی نہیں تو یہ واویلا کیسا؟ تحقیقات کس بات کی؟ اور کس بات کی کاروائی جب کچھ ہوا ہی نہیں ہے؟ شاہ جی ہم نے آپ کو یہ تو نہیں کہا کہ آپ اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے فوری استعفیٰ دیں مگر آپ نے تو اتنے لوگوں کو شہادت کا درجہ دلا کر اِس سانحہ کا کریڈٹ ہی اپنے سَر لے لیا ہے۔
شاہ جی کے اس بیان نے سابق وزیرِاعلیٰ بلوچستان جناب اسلم رئیسانی کے اس تاریخی قول کی یاد تازہ کر دی کہ ''ڈگری ڈگری ہوتی ہے، چاہے اصلی ہو یا نقلی۔''
سُنا ہے کہ اسلم رئیسانی صاحب کے اس بیان کے بعد نقلی ڈگری بنا کر دینے والوں کی چاندی ہو گئی تھی۔ اب دیکھیں کہ قائم علی شاہ صاحب کے اس بیان کے بعد کیا ہوتا ہے ، ظاہر ہے کہ شہادت کی موت کون نہیں مرنا چاہتا۔ شاہ جی آپ سید زادے ہیں اوراللہ کے فضل سے ایک اُونچے منصب پر فائز بھی ہیں، مگر خداراکچھ بولنے سے پہلے کسی سے مشورہ ضرور کر لیا کریں۔ اللہ ہم سب کوآپ کی بیان کردہ شہادت کی موت مرنے سے محفوظ رکھے (آمین)۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ یہاں اس طرح کے غیر اسلامی کام اکثر ہوتے رہتے ہیں، برائے مہربانی آپ اس پر شرمندہ مت ہوں۔ بہرحال اعلیٰ حکام کی جانب سے نوٹس لیے جا چکے ہیں، تحقیقات کا آغاز کر دیا گیاہے، متعلقہ علاقوں کے پولیس افسران کی معطلیوں کی خبریں بھی سننے میں آ رہی ہیں۔ شہر کے مختلف علاقوں میں غیر قانونی شراب بیچنے والوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کریک ڈاؤن بھی شروع ہو چکاہے، مجرموں کو گرفتار بھی کیا جا رہا ہے اور کیفرِکردار تک پہنچانے کی یقین دہانی بھی کرائی جا رہی ہے۔ اِس زہر کو بیچ کرمالِ حرام کمانے کی ہوس میں مبتلا افراداور اِن کی پُشت پناہی کرنے والوں کو نشانِ عبرت بنا دینے کی باتیں بھی آپ یقیناً سُن ہی رہے ہوں گے۔
حکامِ بالا کے بیانات اورکیے جانے والے اقدامات کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ کچی شراب سے ہونے والی اموات کا آخری سانحہ ہو گا، اب کوئی درندہ کھلے عام یہ موت بیچ کر اپنی تجوریاں نہیں بھرسکے گا، اب کوئی ماں اپنے جوان بیٹے کو نہیں روئے گی، کوئی باپ اپنے بڑھاپے کے سہارے کو اپنی آنکھوں کے سامنے تڑپ تڑپ کر مرتا نہیں دیکھے گا، کوئی بیوی اپنے شوہر کی میت کے سامنے بیٹھ کراپنے ارمانوں کی موت کا ماتم نہیں کرے گی۔ کوئی بچہ اپنے باپ کی میت کو بے بسی سے گھر سے رخصت ہوتا ہوا نہیں دیکھے گا۔ اب گھر والوں کوبدنامی کے ڈر سے اپنے پیاروں کی موت کی اصل حقیقت چھپانے کے لیے جھوٹ کا سہارا نہیں لینا پڑے گا۔
مگر مجھے بے حد افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا، ایک ہفتہ پہلے بھی یہی سب کچھ ہو رہا تھا، ایک سال پہلے بھی یہی حالات تھے اور پانچ سال پہلے بھی، یہی اموات تھیں اور سب کچھ ٹھیک کردینے کے لیے کیے جانے والے یہی اقدامات۔ ایک مرتبہ پھر حکام کے بیانات صرف باتوں کی حد تک اور اقدامات صرف فائلوں کی حد تک ہوں گے، تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ پر عملدرآمدنہ پہلے کبھی ہوا ہے نہ اب ہوگا، اِس گھناؤنے کاروبار کی پشت پناہی کرنے والے قانون کی گرفت سے با آسانی نکل جائیں گے، ذمہ دار پولیس افسران بھی بہت جلد بحال ہو جائیں گے، مجرم پہلے ملزم بنیں گے اور پھر گواہوں کی عدم دستیابی کے باعث معاشرے کے باعزت شہری اور پھر باعزت طور پر بری ہو جائیں گے۔ اور پھر وہی پُرانی خبر ہوگی کہ،
'' فلاں شہر میں اتنے افراد زہریلی شراب پینے سے موت کے منہ میں چلے گئے''
مجھے اِس سانحے میں ہونے والی اموات کا دُکھ ضرور ہے مگر میری ہمدردیوں کا محور مرنے والوں کے وہ لواحقین ہیں جنہیں بے یارومددگار زمانے کی ٹھوکریں کھانے اور لوگوں کے طعنے سننے کے لیے چھوڑدیا گیاہے، مرنے والوں نے تو اس غلط راستے کا انتخاب کر کے اپنی موت کے پروانے پر خود دستخط کیے تھے، موت تو اُن کی طے تھی خواہ وہ آج زہریلی شراب پینے سے ہوتی یا کل جگر کے فیل ہوجانے سے۔ ترس تو مجھے اُس بیٹی پر آتا ہے جس کا رشتہ کل صرف اس بات پر ٹھکرا دیا جائے گا کہ وہ ایک شرابی باپ کی بیٹی ہے، رحم کے قابل تو وہ بوڑھا باپ ہے جس نے گھر سے باہر نکلنا چھوڑ دیا ہے، جو لوگوں کی نظروں کا سامناصرف اس لیے نہیں کر سکتا کیونکہ اُس کا بیٹاشراب پینے کی وجہ سے مرا۔ دکھ تو اُس بیوہ عورت کی حالت کو دیکھ کر ہوتا ہے جس پر اپنے بچوں کی کفالت کا بوجھ آن پڑا ہے، اور اُسے یہ بوجھ اُٹھانے کے لیے پہلی بار گھر سے باہر نکلنا پڑ اہے۔ اور یہ سب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہو گا۔
محترم سید قائم علی شاہ صاحب صوبہ سندھ یعنی ''باب الاسلام ''کے وزیرِ اعلیٰ ہیں، زہریلی شراب پینے سے مرنے والوں کے لواحقین کی دلجوئی کرنا اُن کا اخلاقی فرض بھی ہے اور اُن کے منصب کی ذمہ داری بھی، اِس مرتبہ اُنہوں نے اپنی یہ ذمہ داری کیا خوب نبھائی ہے گویا کسی اور کو بولنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا، شاہ جی فرماتے ہیں کہ عیدالاضحی کے موقع پر زہریلی شراب پینے والے اپنے شوق پورے کررہے تھے وہ سب معصوم تھا اور مرنے والے سب شہید ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ شہید کبھی مرتا نہیں ہے اور زندوں کا ماتم کیسا؟ جب کوئی مرا ہی نہیں تو یہ واویلا کیسا؟ تحقیقات کس بات کی؟ اور کس بات کی کاروائی جب کچھ ہوا ہی نہیں ہے؟ شاہ جی ہم نے آپ کو یہ تو نہیں کہا کہ آپ اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے فوری استعفیٰ دیں مگر آپ نے تو اتنے لوگوں کو شہادت کا درجہ دلا کر اِس سانحہ کا کریڈٹ ہی اپنے سَر لے لیا ہے۔
شاہ جی کے اس بیان نے سابق وزیرِاعلیٰ بلوچستان جناب اسلم رئیسانی کے اس تاریخی قول کی یاد تازہ کر دی کہ ''ڈگری ڈگری ہوتی ہے، چاہے اصلی ہو یا نقلی۔''
سُنا ہے کہ اسلم رئیسانی صاحب کے اس بیان کے بعد نقلی ڈگری بنا کر دینے والوں کی چاندی ہو گئی تھی۔ اب دیکھیں کہ قائم علی شاہ صاحب کے اس بیان کے بعد کیا ہوتا ہے ، ظاہر ہے کہ شہادت کی موت کون نہیں مرنا چاہتا۔ شاہ جی آپ سید زادے ہیں اوراللہ کے فضل سے ایک اُونچے منصب پر فائز بھی ہیں، مگر خداراکچھ بولنے سے پہلے کسی سے مشورہ ضرور کر لیا کریں۔ اللہ ہم سب کوآپ کی بیان کردہ شہادت کی موت مرنے سے محفوظ رکھے (آمین)۔