خیالی پلاؤ – واپسی کا راستہ
وہ آج پھر بوجھل قدموں کے ساتھ گھر لوٹ رہا تھا، مایوسی کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا۔
وہ آج پھر بوجھل قدموں کے ساتھ گھر لوٹ رہا تھا، مایوسی کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا۔ آج کیا جواب دوں گا امی کو؟
ان کی بندھی ہوئی امید کوکس طرح ٹوٹتے ہو ئے دیکھوں گا۔ مہنگائی نے بھی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔بندہ کرے بھی تو کیا؟؟
انھی سوچوں میں گم احمد گھر پہنچ گیا۔
بیٹا کھانا لاؤں؟ بھوک لگی ہوگی۔امی نے پوچھا۔
نہیں امی جی!مجھے بھوک نہیں ہے۔احمد نے کہا۔
کیوں بیٹا!خیریت تو ہے؟ بھوک کیوں نہیں ہے؟
بس امی میں باہر سے کھا کر آیا ہوں۔ احمد نے بات گھمانا چاہی،
بیٹا،میری طرف دیکھو!پریشان لگ رہے ہو؟ آج تو تمھاراانٹرویو تھا؟ کیا بنا اسکا؟
کیا بنے گا امی!جہاں صرف تگڑی سفارشیں چلتی ہوں۔ جہاں لفافوں کی حکمرانی ہو،ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی خریداری کا مجمع لگا ہو۔ ایک لمبی قطار تھی انٹرویو کی ۔ انٹرویو تو ہوگیا ان کا یہی کہنا تھا کہ ہم آپ سے خود رابطہ کرلیں گے۔احمد نے بتایا۔
****************************************************************************************
احمد،ماریہ اور حامد تین بہن بھائی تھے۔ بچپن میں ہی ایک حادثے میں والد صاحب کا انتقال ہوگیا تھا۔ امی نے اِن نامساعد حالات میں بچوں کی پرورش کی۔عمر کے بڑھتے بڑھتے ہی امی کی بینائی کمزور ہوگئی،اُن سے اب مزید سلائی کا کام نہیں ہوپاتا تھا۔ سب سے بڑے بیٹے نے جیسے تیسے کرکے انجینئیرنگ کرلی تھی۔ مگر ماریہ اور حامد دونوں اسکول میں پڑھ رہے تھے۔ان کے یونیفارم سے لیکر اسکول کی فیس اور کتابوں کے الگ خرچے تھے،اوپر سے احمد کو اچھی نوکری نہیں مل پارہی تھی۔ وہ مسلسل پریشان رہنے لگا تھا۔ وہ ہر جگہ اپنی سی وی دے چکا تھا مگر کہیں سے کوئی جواب نہیں آیا ۔
****************************************************************************************
احمد سونے کے لئے لیٹاتو نیند اُس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اُس کی نظر گھڑی پر پڑی۔ اُس نے سوچاکہ بچپن کے دن کیا خوب ہوا کرتے تھے،صرف کھیل اور پڑھائی ،نہ کوئی ذمے داری ،نہ کوئی ذہنی اذیت ۔یہ وقت اتنی جلدی کیوں گزجاتا ہے۔یہی سوچتے سوچتے احمد کی نظر ٹیوب لائٹ پر پڑی۔ یہ لائٹ بھی تھامس ایڈیسن نے بنائی تھی جو ایک کان سے بہرا تھا۔ اُس نے بھی تو ہمت نہیں ہاری تھی۔ تو پھر میں کیوں ہمت ہاروں؟آج احمدکو پہلی بار اطمینان ہوا اور وہ کروٹ بدل کر سوگیا۔
اگلی صبح وہ بڑے پرعزم احساس کے ساتھ اُٹھا۔ ماریہ اور حامد ناشتے کی میز پر موجود تھے۔ اُن کی وین آنے والی تھی۔
آج احمد کو ایک جگہ انٹرویو دینے جانا تھا۔کل رات سے وہ پرامید تھا کہ یہ نوکری اُس کو ضرور ملے گی۔ ناشتے سے فارغ ہوکر وہ بس کے انتظار میں بس اسٹاپ پر کھڑا ہوگیا ۔ جو بھی بس آتی وہ کھچاکھچ بھری ہوتی۔ احمد بار بار گھڑی کی طرف دیکھتا اور اسکے ماتھے سے پسینہ آجاتا۔وہ انٹریو کے لئے تاخیر کا شکار ہورہا تھا۔بلاآخر احمد کو اپنے روٹ والی بس نظر آہی گئی۔
****************************************************************************************
میں نے آپ کی سی وی دیکھی۔ کافی امپریسیو ہے۔ آپ نے تو بچپن سے لے کر اب تک امتیازی نمبر لئے ہیں لیکن آپ کے پاس تجربہ نہیں ہے۔انٹرویو لینے والے عارف صاحب نے کہا
سر!تجربہ جب ہی ہوگاجب کہیں کام کیا ہوگا۔سرآپ موقع دیں تو میں اِس پوسٹ پر اچھے طریقے سے کام کرسکتا ہوں۔مجھے امید ہے کہ میںآپ کو مایوس نہیں کروں گا۔
دیکھو ینگ مین! اِس پوسٹ کے لئے کم ازکم دوسال کا تجربہ درکارہے۔ آپ کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے ہم آپ کو ٹرینگ پر رکھ رہے ہیں۔
تھینک یو سومچ سر!احمد نے خوشی سے کہا
یو دیزر و ڈس مسٹر احمد !عارف صاحب نے کہا
****************************************************************************************
آج آفس میں احمد کاپہلا دن تھا اور وہ اپنے آپ کو بہت پرسکون محسوس کرہا تھا۔جس نوکری کا اس نے سوچا تھااس کو آج وہ مل گئی تھی،تنخواہ بھی مناسب تھی۔
جیسے جیسے مہینہ گزرتا جارہا تھا، ویسے ویسے اس کی خوشی میں اضافہ ہوتا جارہا تھا، تنخواہ لینے کی خوشی کس کو نہیں ہوتی؟وہ بھی جس کو اپنی کمائی کی پہلی تنخواہ ملنے والی ہو،اس نے سوچ رکھا تھاکہ وہ پیسوں سے کیا کیا چیزیں لے گا۔
خوشی خوشی وہ تنخواہ لے کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا۔بس اسٹاپ پر کھڑا ہوا وہ سوچ رہا تھا کہ امی،ماریہ اور حامد کتنے خوش ہونگے،یہی سوچتے ہوئے وہ بس میں سوار ہوا۔
آدھے راستے میں ٹریفک جام تھا۔ ہر جگہ گاڑیوں کی بھیڑ تھی۔ علاقے کا کوئی ایم پی اے گزر رہا تھا۔ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے روڈ بند کردیا گیا تھا۔
کیا مصیبت ہے،ان وی آئی پی لوگوں کی وجہ سے زندگی محال ہوگئی ہے،لگتا ہے اب پیدل جانا پڑے گا۔احمد بڑبڑایا
****************************************************************************************
بھائی !ذرا یہ ایڈریس بتادیں، بائیک پر سوار دو نوجوان بولے۔
جی یہاں سے تھوڑا آگے جائیں،سیدھے ہاتھ پر آپ کو کنگسٹن روڈ مل جائے گا۔احمد نے سمجھاتے ہوئے بتایا۔
چل شاباش !جو کچھ ہے تیرے پاس نکال لے شرافت سے، ورنہ کھوپڑی میں گولی ٹپکا دوں گا۔ بائیک پر بیٹھا شخص غرایا
احمد نے سارے پیسے ، موبائل چوروں کے حوالے کردیا اور وہیں غم میں کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔اسی وقت ایک نتیجے پر پہنچ گیا۔
****************************************************************************************
میں اپنے آپ کو ختم کردوں گا،آئی ایم اے لوزر(loser)،اِس زندگی سے تو موت ہی بہتر ہے۔احمد چٹان کی طرف جارہا تھا اور ساتھ ہی سمندر کا شور بھی اُسے سنائی دے رہا تھا۔ اچانک اُس کے کاندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا اور کہا
بیٹا !کیا ڈوبنے کا ارادہ ہے تمھارا؟یہاں کیا کررہے ہو؟بزرگ نے پوچھا
درمیانہ قد،چہرے پر پروقار ڈاڑھی، شلوارقمیص میں ملبوس بزرگ سے ایک لمحے کو احمد متاثر ہوگیا۔
انکل!وہ میں سیرخوری کے لئے نکلا تھا،احمد نے بہانہ بنایا۔
ایک قدم اور بڑھاتے تو سیدھا پانی میں ہوتے،ویسے سیر کے لئے تو دوستوں یافیملی کے ساتھ آیا جاتا ہے۔بزرگ نے پوچھا
بس وہ میرا دل گھبرا رہا تھا ،احمد نے بات گھمانا چاہی
دل کی بات بتانے سے بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے بیٹا،بزرگ مسکرائے۔تم نے کچھ کھایا ہے؟
نہیں ۔ احمد نے کہا
چلو پھر میری کٹیا چلو،کھانے کے ساتھ ساتھ گپ شپ بھی ہوجائے گی،پھر تم چلے جانا
****************************************************************************************
کٹیا سادہ سی تھی، سامان بھی تھوڑا بہت تھا،مگر صفائی تھی
کھانے میں آلوگوشت تھا۔ کھانے کو دیکھ کر احمدکی بھوک چمک اٹھی ،اس نے ڈٹ کر کھایا
ہاں بیٹا!اب بتاؤ ،تمہارا مسئلہ کیا ہے
احمد نے شروع سے لے کر آخر تک سب کچھ بتادیا
اچھا تو یہ بات ہے ،اتنی سے بات کو لیکر تم پریشان تھے ،بزرگ مسکرائے
اتنی سی بات؟میں گھر کیسے جاؤں گا،میں کیسے دیکھ سکوں گا مرجھائے ہوئے چہرے ؟احمد نے مایوسی سے کہا
اسکا مطلب یہ تو نہیں کہ تم اپنے آپ کو ختم کردو
میرے پاس کوئی آپشن نہیں تھا،احمد نے سر جھکا کر اعتراف کیا
دیکھو بیٹا!مایوسی تو کفر ہے،ﷲ پاک بندے کو دے کر اور لیکرآزماتا ہے۔ خودکشی ویسے بھی حرا م ہے ہمارے مذہب میں۔ جانتا ہوں تمہارے ساتھ برا ہوا مگر تمہارے چلے جانے سے تمھارے گھر والوں پر کیا بیتتی؟ اِس خبر سے اگر تمہاری والدہ کو کچھ ہوجاتا؟بھول گئے وہ وقت جب تمہاری ماں ساری ساری رات جاگ کر تمہیں سلایا کرتی تھی؟جب تم ایک دفعہ سیڑھیوں سے گرے تھے،تو کس طرح ماریہ اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے تمھیں کھانا کھلاتی تھی۔
جی انکل!آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں،میں بہت شرمندہ ہوں۔میں چلتا ہوں،احمد اٹھ کھڑا ہوا
رکو!بزرگ اٹھے اورالماری سے ایک لفافہ نکالا اور کہا
یہ لو !کچھ رقم ہے،عمرے پر جانے کا سوچا تھا مگر اس رقم کا تم سے زیادہ کوئی حقدار نہیں۔ ﷲ پر بھروسہ رکھا کرو،اب کافی ٹائم ہوگیا ہے،اب تم جاؤ۔ بزرگ نے شفقت سے کہا۔
احمد کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو اگئے اور وہ کٹیا سے باہر آگیا
کچھ دور جاکر اسے یاد آیا ،کہ وہ اُن بزرگ کا شکریہ ادا کرنا ہی بھول گیا
جب وہ واپس آیا ،ادھر نہ کوئی کٹیا تھی اور نہ کوئی بزرگ کا وجود!
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ان کی بندھی ہوئی امید کوکس طرح ٹوٹتے ہو ئے دیکھوں گا۔ مہنگائی نے بھی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔بندہ کرے بھی تو کیا؟؟
انھی سوچوں میں گم احمد گھر پہنچ گیا۔
****************************************************************************************
بیٹا کھانا لاؤں؟ بھوک لگی ہوگی۔امی نے پوچھا۔
نہیں امی جی!مجھے بھوک نہیں ہے۔احمد نے کہا۔
کیوں بیٹا!خیریت تو ہے؟ بھوک کیوں نہیں ہے؟
بس امی میں باہر سے کھا کر آیا ہوں۔ احمد نے بات گھمانا چاہی،
بیٹا،میری طرف دیکھو!پریشان لگ رہے ہو؟ آج تو تمھاراانٹرویو تھا؟ کیا بنا اسکا؟
کیا بنے گا امی!جہاں صرف تگڑی سفارشیں چلتی ہوں۔ جہاں لفافوں کی حکمرانی ہو،ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی خریداری کا مجمع لگا ہو۔ ایک لمبی قطار تھی انٹرویو کی ۔ انٹرویو تو ہوگیا ان کا یہی کہنا تھا کہ ہم آپ سے خود رابطہ کرلیں گے۔احمد نے بتایا۔
****************************************************************************************
احمد،ماریہ اور حامد تین بہن بھائی تھے۔ بچپن میں ہی ایک حادثے میں والد صاحب کا انتقال ہوگیا تھا۔ امی نے اِن نامساعد حالات میں بچوں کی پرورش کی۔عمر کے بڑھتے بڑھتے ہی امی کی بینائی کمزور ہوگئی،اُن سے اب مزید سلائی کا کام نہیں ہوپاتا تھا۔ سب سے بڑے بیٹے نے جیسے تیسے کرکے انجینئیرنگ کرلی تھی۔ مگر ماریہ اور حامد دونوں اسکول میں پڑھ رہے تھے۔ان کے یونیفارم سے لیکر اسکول کی فیس اور کتابوں کے الگ خرچے تھے،اوپر سے احمد کو اچھی نوکری نہیں مل پارہی تھی۔ وہ مسلسل پریشان رہنے لگا تھا۔ وہ ہر جگہ اپنی سی وی دے چکا تھا مگر کہیں سے کوئی جواب نہیں آیا ۔
****************************************************************************************
احمد سونے کے لئے لیٹاتو نیند اُس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اُس کی نظر گھڑی پر پڑی۔ اُس نے سوچاکہ بچپن کے دن کیا خوب ہوا کرتے تھے،صرف کھیل اور پڑھائی ،نہ کوئی ذمے داری ،نہ کوئی ذہنی اذیت ۔یہ وقت اتنی جلدی کیوں گزجاتا ہے۔یہی سوچتے سوچتے احمد کی نظر ٹیوب لائٹ پر پڑی۔ یہ لائٹ بھی تھامس ایڈیسن نے بنائی تھی جو ایک کان سے بہرا تھا۔ اُس نے بھی تو ہمت نہیں ہاری تھی۔ تو پھر میں کیوں ہمت ہاروں؟آج احمدکو پہلی بار اطمینان ہوا اور وہ کروٹ بدل کر سوگیا۔
اگلی صبح وہ بڑے پرعزم احساس کے ساتھ اُٹھا۔ ماریہ اور حامد ناشتے کی میز پر موجود تھے۔ اُن کی وین آنے والی تھی۔
آج احمد کو ایک جگہ انٹرویو دینے جانا تھا۔کل رات سے وہ پرامید تھا کہ یہ نوکری اُس کو ضرور ملے گی۔ ناشتے سے فارغ ہوکر وہ بس کے انتظار میں بس اسٹاپ پر کھڑا ہوگیا ۔ جو بھی بس آتی وہ کھچاکھچ بھری ہوتی۔ احمد بار بار گھڑی کی طرف دیکھتا اور اسکے ماتھے سے پسینہ آجاتا۔وہ انٹریو کے لئے تاخیر کا شکار ہورہا تھا۔بلاآخر احمد کو اپنے روٹ والی بس نظر آہی گئی۔
****************************************************************************************
میں نے آپ کی سی وی دیکھی۔ کافی امپریسیو ہے۔ آپ نے تو بچپن سے لے کر اب تک امتیازی نمبر لئے ہیں لیکن آپ کے پاس تجربہ نہیں ہے۔انٹرویو لینے والے عارف صاحب نے کہا
سر!تجربہ جب ہی ہوگاجب کہیں کام کیا ہوگا۔سرآپ موقع دیں تو میں اِس پوسٹ پر اچھے طریقے سے کام کرسکتا ہوں۔مجھے امید ہے کہ میںآپ کو مایوس نہیں کروں گا۔
دیکھو ینگ مین! اِس پوسٹ کے لئے کم ازکم دوسال کا تجربہ درکارہے۔ آپ کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے ہم آپ کو ٹرینگ پر رکھ رہے ہیں۔
تھینک یو سومچ سر!احمد نے خوشی سے کہا
یو دیزر و ڈس مسٹر احمد !عارف صاحب نے کہا
****************************************************************************************
آج آفس میں احمد کاپہلا دن تھا اور وہ اپنے آپ کو بہت پرسکون محسوس کرہا تھا۔جس نوکری کا اس نے سوچا تھااس کو آج وہ مل گئی تھی،تنخواہ بھی مناسب تھی۔
جیسے جیسے مہینہ گزرتا جارہا تھا، ویسے ویسے اس کی خوشی میں اضافہ ہوتا جارہا تھا، تنخواہ لینے کی خوشی کس کو نہیں ہوتی؟وہ بھی جس کو اپنی کمائی کی پہلی تنخواہ ملنے والی ہو،اس نے سوچ رکھا تھاکہ وہ پیسوں سے کیا کیا چیزیں لے گا۔
خوشی خوشی وہ تنخواہ لے کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا۔بس اسٹاپ پر کھڑا ہوا وہ سوچ رہا تھا کہ امی،ماریہ اور حامد کتنے خوش ہونگے،یہی سوچتے ہوئے وہ بس میں سوار ہوا۔
آدھے راستے میں ٹریفک جام تھا۔ ہر جگہ گاڑیوں کی بھیڑ تھی۔ علاقے کا کوئی ایم پی اے گزر رہا تھا۔ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے روڈ بند کردیا گیا تھا۔
کیا مصیبت ہے،ان وی آئی پی لوگوں کی وجہ سے زندگی محال ہوگئی ہے،لگتا ہے اب پیدل جانا پڑے گا۔احمد بڑبڑایا
****************************************************************************************
بھائی !ذرا یہ ایڈریس بتادیں، بائیک پر سوار دو نوجوان بولے۔
جی یہاں سے تھوڑا آگے جائیں،سیدھے ہاتھ پر آپ کو کنگسٹن روڈ مل جائے گا۔احمد نے سمجھاتے ہوئے بتایا۔
چل شاباش !جو کچھ ہے تیرے پاس نکال لے شرافت سے، ورنہ کھوپڑی میں گولی ٹپکا دوں گا۔ بائیک پر بیٹھا شخص غرایا
احمد نے سارے پیسے ، موبائل چوروں کے حوالے کردیا اور وہیں غم میں کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔اسی وقت ایک نتیجے پر پہنچ گیا۔
****************************************************************************************
میں اپنے آپ کو ختم کردوں گا،آئی ایم اے لوزر(loser)،اِس زندگی سے تو موت ہی بہتر ہے۔احمد چٹان کی طرف جارہا تھا اور ساتھ ہی سمندر کا شور بھی اُسے سنائی دے رہا تھا۔ اچانک اُس کے کاندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا اور کہا
بیٹا !کیا ڈوبنے کا ارادہ ہے تمھارا؟یہاں کیا کررہے ہو؟بزرگ نے پوچھا
درمیانہ قد،چہرے پر پروقار ڈاڑھی، شلوارقمیص میں ملبوس بزرگ سے ایک لمحے کو احمد متاثر ہوگیا۔
انکل!وہ میں سیرخوری کے لئے نکلا تھا،احمد نے بہانہ بنایا۔
ایک قدم اور بڑھاتے تو سیدھا پانی میں ہوتے،ویسے سیر کے لئے تو دوستوں یافیملی کے ساتھ آیا جاتا ہے۔بزرگ نے پوچھا
بس وہ میرا دل گھبرا رہا تھا ،احمد نے بات گھمانا چاہی
دل کی بات بتانے سے بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے بیٹا،بزرگ مسکرائے۔تم نے کچھ کھایا ہے؟
نہیں ۔ احمد نے کہا
چلو پھر میری کٹیا چلو،کھانے کے ساتھ ساتھ گپ شپ بھی ہوجائے گی،پھر تم چلے جانا
****************************************************************************************
کٹیا سادہ سی تھی، سامان بھی تھوڑا بہت تھا،مگر صفائی تھی
کھانے میں آلوگوشت تھا۔ کھانے کو دیکھ کر احمدکی بھوک چمک اٹھی ،اس نے ڈٹ کر کھایا
ہاں بیٹا!اب بتاؤ ،تمہارا مسئلہ کیا ہے
احمد نے شروع سے لے کر آخر تک سب کچھ بتادیا
اچھا تو یہ بات ہے ،اتنی سے بات کو لیکر تم پریشان تھے ،بزرگ مسکرائے
اتنی سی بات؟میں گھر کیسے جاؤں گا،میں کیسے دیکھ سکوں گا مرجھائے ہوئے چہرے ؟احمد نے مایوسی سے کہا
اسکا مطلب یہ تو نہیں کہ تم اپنے آپ کو ختم کردو
میرے پاس کوئی آپشن نہیں تھا،احمد نے سر جھکا کر اعتراف کیا
دیکھو بیٹا!مایوسی تو کفر ہے،ﷲ پاک بندے کو دے کر اور لیکرآزماتا ہے۔ خودکشی ویسے بھی حرا م ہے ہمارے مذہب میں۔ جانتا ہوں تمہارے ساتھ برا ہوا مگر تمہارے چلے جانے سے تمھارے گھر والوں پر کیا بیتتی؟ اِس خبر سے اگر تمہاری والدہ کو کچھ ہوجاتا؟بھول گئے وہ وقت جب تمہاری ماں ساری ساری رات جاگ کر تمہیں سلایا کرتی تھی؟جب تم ایک دفعہ سیڑھیوں سے گرے تھے،تو کس طرح ماریہ اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے تمھیں کھانا کھلاتی تھی۔
جی انکل!آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں،میں بہت شرمندہ ہوں۔میں چلتا ہوں،احمد اٹھ کھڑا ہوا
رکو!بزرگ اٹھے اورالماری سے ایک لفافہ نکالا اور کہا
یہ لو !کچھ رقم ہے،عمرے پر جانے کا سوچا تھا مگر اس رقم کا تم سے زیادہ کوئی حقدار نہیں۔ ﷲ پر بھروسہ رکھا کرو،اب کافی ٹائم ہوگیا ہے،اب تم جاؤ۔ بزرگ نے شفقت سے کہا۔
احمد کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو اگئے اور وہ کٹیا سے باہر آگیا
کچھ دور جاکر اسے یاد آیا ،کہ وہ اُن بزرگ کا شکریہ ادا کرنا ہی بھول گیا
جب وہ واپس آیا ،ادھر نہ کوئی کٹیا تھی اور نہ کوئی بزرگ کا وجود!
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔