تحریک آزادی میں پختونوں کا کردار

ہمارے آباؤاجداد نے قربانیاں دیں،لاکھوں انسان قتل ہوئے گھر بار چھوڑا

qakhs1@gmail.com

ISLAMABAD:
میرے کان یہ سن سن کرپک گئے ہیںکہ پاکستان بنانے میں کسی مخصوص گروہ کا کردار تھا ، ہمارے آباؤاجداد نے قربانیاں دیں،لاکھوں انسان قتل ہوئے گھر بار چھوڑا وغیرہ ۔ مغربی پاکستان کو گھر بیٹھے بیٹھے مل گیا تھا ،پاکستان بنایا تھا پاکستان بچائیں گے ۔ کہ نعرے سن سن کر ایسا لگتا ہے کہ برصغیر کی آزادی میں کسی دوسری قومیت کا ہاتھ ہی نہیں تھا ، وہ تو نرے جاہل اور دیہاتوں میں رہنے والے لوگ تھے ، صبح اٹھے تو قائد اعظم نے پاکستان کے قیام کا اعلان کردیا ۔

برصغیر کی تحریک آزادی میں جب پختونوں کے کردار کو مکمل نظر انداز کردیا جاتا ہے لیکن اس حوالے سے تاریخ کامطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں سب سے زیادہ واضح کردار پختون قوم کا نظر آتا ہے ، برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی روشنی پھیلانے کا سہرا بے شک محمد بن قاسم ہے لیکن ان کے ادھورے مشن کو مکمل کرنے کا مکمل کریڈٹ صرف پختونوں کو جاتا ہے۔ محمد بن قاسم کی جلائی گئی اسلام کی شمع شہاب الدین غوری نے سارے ہندوستان میں پرتھوی راج کو شکست دے کر رکھی ہی نہیں بلکہ باقاعدہ طور پرپہلی اسلامی ریاست کی داغ بیل ڈالی ، اس سے پہلے محمود غزنوی نے بھی ہندوستان فتح کیا تھا مگر تخت دہلی پر ان کے قدم جم نہ سکے ۔

یہ پختون ہی تھے جن کی بدولت دہلی پر مسلمانوں نے سات سو صدیوں پر محیط حکومت کی اس میں ساڑے تین سو سال پختونوں کی حکمرانی کے شامل ہیں ۔ مسلمانوں کی نااتفاقی سے مغل حکمران دہلی تک محدود ہوئے۔جنرل بخت خان ایک حریت پسند پختون تھا ،اس نے پوری قوت سے1857کی جنگ آزادی میں روح پھونکنے کی کوشش کی لیکن کمزور قیادت کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکا۔جنرل بخت خان نے مغل بادشاہ کی بہت منت سماجت کی لیکن بوڑھے لاغر بادشاہ میں خوئے مردانگی ختم ہوچکی تھی ۔

1857 سے 1947تک کے نوے سال کے عرصے میں مسلمانانِ پاک و ہند کو یہ احساس ہوا کہ انگریزوں نے انھیں ہندوؤں کی طرح غلام بنایا ہوا ہے ۔دل چسپ بات یہ ہے کہ ہندوؤں کی چالاکیوں کے سبب جب مسلم لیگ 1906ء میں بنی تو اس میں علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم جیسے رہنما تو تھے ہی لیکن انھیں سرکردہ پختون رہنماؤں سردار عبدالرب نشتر ، مولانا محمد علی جوہر ، مولانا ظفر علی خان وغیرہ کی بھی مکمل حمایت حاصل تھی ۔باچا خان بابا کی تحریک کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔

جہاں انھوں نے پختونوں کو سیاسی شعور دیا اور حریت پسند رہنما پیدا کیے جس کے نتیجے میں انگریزوں کو برصغیر پاک و ہند سے جانا پڑا تو اسی تحریک نے پشتو زبان اور پشتو ادب میں ایک نئی جہت بھی دی ، ہفتہ وار' پختون' رسالے میں شعرا و ادیبوں کی حوصلہ افزائی کی اور ان کی تحریروں کو شایع کیا،تحریک آزادی میں جہاں جہاں سیاسی طور پر پختونوں کے کردار کا جائزہ لیتے ہیں تو ان بڑے بڑے ناموں میں سیاسی ورکروں کے ساتھ ساتھ مصنفین بھی تھے مثلا خدائی خدمت گار کے سرگرم کارکن فرنگی سامراج کے مظالم کو ڈراموں کے ذریعے اجاگر کیا کرتے تھے جو پختونوں کے مختلف علاقوں میں اسٹیج ہو اکرتے ۔


معروف ادیب ڈاکٹر میاں سہیل انشاء نے اپنی کتاب Boughs & Boiquests میں اس کا ذکر کیا ہے ۔ نئی نسل نہیں جانتی کہ پاکستان کی تحریک آزادی میں امیر حمزہ شنواری بابائے پشتو غزل ، معروف محقق و نقاد دوست محمد خان کامل مہمند ، علامہ عبدالعلی اخوانزادہ ، فضل اکبر احمد غازی، خان میر بلالی، سابق گورنر محمد اسلم خان خٹک ، عبدالحلیم ، فضل اکبر بے غم ، سابق گورنر ارباب سکندرخان خلیل، ارباب خان ارباب ، عبدالزاق حکمت ، میر احمد صوفی ، قمر زمان راہی اور پیر گوہر و پختون حریت پسند ہیں جنھوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔حاجی صاحب ترنگزئی ، عمرخان ایپ ، عبدالغفور کاکاجی اور ملا نج الدین المعروف اڈے ملا صاحب ، میاں گل عبدالودود اور سرتور فقیر وغیرہ وہ حریت پسند ہیں۔

جنھوں نے انگریزوں کو ناکوں چنے چبوائے۔لیونے فلسفی' غنی خان بابا 'کی اس نظموں نے تو سارے پختونخوا میں ایک دھوم مچا دی تھی۔یہ صرف بٹوارہندوستان کے ان چیدہ چیدہ رہنماؤں کا ذکرہے جنھوں نے چودہ اگست 1947کو پاکستان حاصل کیا لیکن پختونوں کو ہمیشہ غدار سمجھا جاتا رہا اور نام نہاد قوم پرست اور لسانی جماعتیں پروپیگنڈا کرتی رہیں کہ پاکستان کی آزادی میں پختونوں کا کوئی کردار نہیں تھا جب کہ حقیقت یہی ہے کہ پختونوں کی حریت پسندی کے سبب انگریز ہندوستان سے بھاگنے پر مجبور ہوا ۔ 1947میں والئی سوات میاں گل عبدالودود نے پاکستان سے الحاق کی درخواست کی لیکن اسے پاکستان میں انتظامی طور پر شامل نہیں کیا گیا ، والی سوات نے پاکستان سے محبت میں1947میں پاکستان کو جنگی جہاز تحفے میں دیا جس پر میاں گل جہانزیب کا نام لکھا ہوا تھا اور پاکستان کا جھنڈا پرنٹ تھا ۔

بلاشبہ پاکستان کے لیے لاکھوں انسانوں نے قربانیاں دیں، لیکن صرف نعرے لگانے سے پاکستان آزاد نہیں ہوا تھا بلکہ برصغیر کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد بھی کی گئی تھی جس کا کچھ سہرا پختونوں کے سر بھی جاتا ہے ، مسلم لیگ صرف چند افراد پر مشتمل نہیں تھی بلکہ اس میں نامور اکابرین بھی شامل تھے ، جو پختون تھے ، پاکستان بننے کے بعد بھی پختونوں نے جانثاری اور حب الوطنی عظیم الشان مثالیں قائم کیں ۔بعض سیاسی ، لسانی اور قوم پرست جماعتوں کے نزدیک پختونوں کا کردار تحریک آزادی سے واجبی سا ہے، لیکن وہ تاریخ سے نا بلد معلوم ہوتے ہیں یا پھر پختونوں کے برصغیر کی آزادی کے لیے قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے شرماتے ہیں۔ سید احمد شہید کی تحریک مجاہدین ہندوستان میں مسلمانوں کی جدوجہد کا ایک درخشندہ باب ہے بعد میں ہر تحریک سید احمد شہید سے متاثر ہوکر سارے ہندوستان میں چلی۔سید احمد شہید کی شہادت کے بعد بھی انگریزوں کے خلاف بچ جانے والے مجاہدین نے سرحدی قبائلی علاقوں میں مورچہ بند ہوکر پہلے سکھوں کے خلاف جدوجہد کی اور پھر 1849 ء میں انگریزوں کے خلاف صوبہ سرحد پر چند غداروں کی وجہ سے قابض ہونے کے باوجود گوریلا جنگ جاری رکھی۔

صوابی کے سیر امیر مشہوربہ کوٹھا بابابجی ،ستھانہ اور ملکا کے سادات خاندان بھی مجاہدین صوبہ سرحد میں مجاہدین کے شانہ بہ شانہ لڑے۔ اگر صوبہ سرحد کے لوگ مجاہدین کا ساتھ نہ دیتے تو کیا وہ اپنی تحریک 1947تک جاری رکھ سکتے تھے۔مولاناعبدا لرحیم ، قاضی میاں جان ، میاں عبد الجعفر تھانسری ، شیخ محمد شفیع ، مولانا یحییٰ علی کو موت کی سزا دیکر جزائر انڈیمان جلا وطن کیا گیا ، 1868میں صوبہ سرحد کی تاریخ میں پندرہ ہزار پر مشتمل انگریزی فوج نے کالاڈھاکہ (موجودہ تورغر) مہم میں حصہ لیا۔

موضوع بہت طویل ہے اور برصغیر کی آزادی کے لیے حریت پسند پختونوں کی قربانیوں کی کوئی مثال نہیں دے سکتا ، یہ صرف ان لوگوں کے لیے مختصر جواب ہے جو پختونوں کو پاکستان کے کسی بھی حصے میں جانے سے روکتے ہیں، دہشت گرد سمجھتے ہیں ریاست سوات کو1929میں انگریز حکومت نے میاں گل کی ولی عہدی کی حیثیت سے قبول نہیں کیا تھا۔پاکستان نے بھی1947 میں سوات سے الحاق نہیں کیا۔ 1969 میں پاکستان کی دیگر ریاستوں کی طرح ریاست سوات بھی پاکستان میں ایک ضلع کی حیثیت سے مدغم ہوگئی اور پہلی بار ڈپٹی کمشنر اور ضلعی انتظامیہ پر مشتمل دیگر اہل کاروں کی تعیناتی عمل میں لائی گئی گو کہ سوات کے عوام کو اس نئے نظام سے شدید مشکلات کا سامنا رہا ہے لیکن پاکستان کی محبت میں سب کچھ قبول کیا۔انھیں ایسا لگا کہ جیسے کسی نو آبادی نظام سے واسطہ پڑ گیا ہو۔

والئی سوات میاں گل عبدالحق جہانزیب کی برسی 5اکتوبر کو منائی جاتی تھی لیکن عید کی وجہ سے 12اکتوبر کو منائی جا رہی ہے۔ تمام اظہار رائے کا مقصد نو جوان کو اس بات سے آگاہ کرنا ہے کہ انگریزوں سے آزادی کے لیے پختونوں کے کردار کو نظر انداز کرنا بے انصافی ہے ، پختون محب الوطن اور جان نچھاور کرنیوالی قوم ہے۔ آج بھی جنگی مہلک آلات کے نام پختونوں کے نام پر رکھے جاتے ہیں ،کیا ان حریت پسند رہنماؤں کے ناموں پر کالجز اور یونیورسٹوں کے نام کیوں نہیں رکھے جا تے تاکہ قوم آگاہ ہ نہ ہو۔ پختون اسلاف کے کارنامے نصاب میں شامل ہوں تاکہ وہ آگاہ ہوں کہ پختون بھی پاکستان کی جدوجہد میں شریک تھے اور اب تعمیر وطن میں بھی بھرپورحصہ لے رہے ہیں ۔
Load Next Story