12 اکتوبرکشمکش کے 15 سال

ایک منتخب وزیر اعظم کی ذلت اور توہین دیکھی، اس پر غداری کا ناٹک اور اس کی جلاوطنی کا تماشا دیکھا۔

zahedahina@gmail.com

آج 12 اکتوبر 2014ء ہے اور مجھے 12 اکتوبر 1999ء کی وہ شب یاد آ رہی ہے جس کا ابھی آغاز ہو رہا تھا۔ ہمارے گھر میں خوشی کی ایک محفل شروع ہونے والی تھی، اچانک کسی نے تیز آواز میں مجھے مخاطب کیا 'آپ کو کچھ معلوم بھی ہے اسلام آباد میں کیا ہو رہا ہے؟' میرا دل ڈوب گیا اور پھر چند ہی لمحوں میں یہ بات سب پر آشکار تھی کہ ہمارے یہاں ایک نئی شبِ غم کا آغاز ہو گیا ہے۔ مجھ ایسے امید پرست جنھیں یقین تھا کہ اب کبھی آمریت ہمارے گلی کوچوں میں پھیرا نہیں ڈالے گی، ہم جیسوں کی خوش فہمیاں دھری رہ گئی تھیں اور ہماری خوش امیدیوں کو ایک بار پھر آمریت کا پالا مار گیا تھا۔

1999ء سے 2008ء کے دوران آمریت اور مطلق العنانیت نے ہمیں کیسے زخم نہیں دیے۔ ہم نے ایک جمہوری دور میں اپنے سنبھلتے ہوئے سماج کو ایک بار پھر زوال آمادہ دیکھا۔ ہم نے دیکھا کہ سیاست اور سیاست دانوں پر دشنام اور اتہام کی کالک کیسے ملی جاتی ہے۔ ایک منتخب وزیر اعظم کی ذلت اور توہین دیکھی، اس پر غداری کا ناٹک اور اس کی جلاوطنی کا تماشا دیکھا۔

1999ء سے 2008ء کے دوران ہم نے دو سیاسی حریفوں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان ہونے والا میثاق جمہوریت کا عہدنامہ پڑھا۔ نواز شریف کی وطن واپسی اور پھر انھیں گھسیٹ کر واپس بھیجے جانے کے شرمناک مناظر دیکھے جب کہ وطن واپسی کی اجازت عدالت عالیہ نے انھیں دی تھی اور پھر پاکستان کے چیف جسٹس اور عدلیہ کے دوسرے اراکین کی بے توقیری دیکھی، معزز ججوں کی حمایت میں چلنے والی بے مثال عوامی تحریک نے ہمیں یقین دلایا کہ یہ اندھیری رات اب ختم ہونے کو ہے۔ این آر او سے اختلاف رکھنے کے باوجود اسے اس لیے برداشت کیا کہ شاید محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی وطن واپسی کا یہی راستہ رہا تھا۔ پھر بی بی کی واپسی کے بعد ان کی شہادت کا صدمہ سہا۔

آج یہ 15 پندرہ برس بہت یاد آئے۔ اس دوران جمہوریت کی بحالی اور اس کے استحکام کے لیے ان گنت لوگوں نے اپنا حصہ ڈالا۔ میں بھی اپنے لفظوں سے اس طویل جدوجہد میں شامل رہی۔ آج اپنی لکھی ہوئی تحریروں کو دیکھتی ہوں تو 27 اکتوبر 1999ء کی اپنی تحریر 'مشورہ نہیں...اختلاف' سامنے آ جاتی ہے۔ میں نے لکھا تھا:

''اس موقع پر میرے لیے مبارک سلامت کہنا ممکن نہیں کیونکہ میں دیانتداری سے یہ محسوس کرتی ہوں کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ اس کی منطق یہ ہے کہ جمہوری عمل اگر جاری رہے تو سیاستدانوں کو بار بار عوام کی عدالت میں جانا پڑتا ہے۔ اس خوف سے کہ عوام کہیں انھیں انتخابات میں مسترد نہ کر دیں وہ اپنی اصلاح کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

سیاستدانوں کا سب سے اچھا احتساب عوام کرتے ہیں۔ جمہوری عمل میں قانون، عدالتیں، اخبارات اور عوام سب مل کر حکمرانوں کا احتساب کرتے ہیں۔ سیاستدانوں کے احتساب کا اس سے زیادہ موثر کوئی دوسرا طریقہ اب تک ایجاد نہیں ہوا ہے۔ اٹلی اور جاپان کے وزرائے اعظم اور امریکا کے صدر سے لے کر ان گنت نامی گرامی سیاسی حکمران اب تک اس عوامی احتساب کی زد میں آ چکے ہیں لیکن کہیں بھی ان سیاستدانوں کی بدعنوانی کو بہانہ بنا کر فوج نے اقتدار پر قبضے کا خواب بھی نہیں دیکھا۔''

میرا کہنا تھا کہ21 ویں صدی میں ایک غیر جمہوری ملک کے طور پر داخل ہونا ہمارے لیے اعزاز کی بات نہیں ہو گی۔ آپ خراب جمہوریت سے بہتر جمہوریت کی طرف سفر کر سکتے ہیں جیسا کہ پچھلے ڈیڑھ دو سو برس سے دنیا میں ہو رہا ہے لیکن آمریت اچھی ہو یا بری دونوں کا انجام تباہ کن ہوتا ہے اور اس نظام کو پسپائی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ اگر فوجی آمریتوں میں فلاح، ترقی اور انسانی آزادی کا کوئی پہلو ہوتا تو صورتحال اس کے برعکس ہوتی۔''

12 اکتوبر 1999ء کے حوالے سے 13 اکتوبر 2004ء کو میں نے لکھا:

''پاکستان میں 12 اکتوبر 1999ء کو ایک منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹا گیا۔ آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی اور خود مختاری کا خاتمہ ہوا لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ پانچ برس سے ملک مسلسل بحرانوں کا شکار ہے۔ بڑی مشکل سے1973ء میں ایک متفقہ آئین بنا تھا اس آئین میں یکطرفہ طور پر ایسی من مانی ترمیم کی گئیں کہ اس کی اصل روح اور ہیئت تبدیل ہو گئی، یہ ایک سانحہ ہے۔ 1973ء کا آئین، وہ واحد دستاویز ہے جس نے وفاق پاکستان کی تمام اکائیوں کو یکجا اور متحد کیا ہوا ہے۔ اس سے بڑا سنگین المیہ اور کیا ہو گا کہ 12 اکتوبر 1999ء کے بعد اس آئین میں ہر ترامیم فرد واحد کی خواہش کے حوالے سے کی گئیں۔


آمریت کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ قانون سازی حکمراں، فرد، گروہ کے مفاد میں کی جاتی ہے اور اسے ملک و قوم کے مفادات کے عین مطابق قرار دیا جاتا ہے۔ 17 ویں ترمیم کے بعد سیاسی اور آئینی بحران کے خاتمے کا دعویٰ کیا گیا تھا لیکن اس ترمیم نے ملک کو ایک اور سنگین سیاسی اور آئینی بحران میں دھکیل دیا ہے۔ ایم ایم اے جو اس ترمیم کو منظور کرانے میں پیش پیش تھی آج اپنے کیے پر شرمسار ہے اور غیر اعلانیہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ مذکورہ ترمیم سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے نہیں بلکہ ایک فرد کے اقتدار کو مستحکم کرنے اور اسے آئینی جواز دینے کی غرض سے کی گئی تھی۔''

سیکڑوں صفحات پر مشتمل کالم ہیں۔ ان میں کئی میثاق جمہوریت کی حمایت میں ہیں اور 50 سے زیادہ وہ ہیں جو چیف صاحب کی توہین اور پھر ان کی بحالی کے لیے چلنے والی بے مثال جدو جہد کے حق میں لکھے گئے۔ ہر دوسرے چوتھے کالم میں میں نے جمہوریت کی حمایت اور آمریت کی مخالفت میں لکھا۔ دسمبر 2007ء میں بے نظیر بھٹو کا قتل پاکستانی سیاست کا ایک عظیم المیہ تھا۔ 29 دسمبر 2007ء کو میں نے لکھا:

'' کل خوابوں کی روشنی میں دمکتا ہوا، آسمان کی طرف دیکھتا ہوا سوالی چہرہ تھا۔ دعا کے لیے اٹھے ہوئے آرزومند ہاتھ تھے۔ فضاؤں میں گونجتی ہوئی اس کی آواز تھی جو وجد کے عالم میں 'زندہ ہے بھٹو زندہ ہے' کا نعرۂ مستانہ لگاتی تو لاکھوں لوگ اس کی آواز کے آہنگ پر رقص کرتے تھے۔

آج خواب دیکھتی وہ آنکھیں بے خواب ہوئیں۔ دعا مانگتے ہوئے وہ ہاتھ شل ہوئے۔ دلوں میں امید کے چراغ جلاتی ہوئی وہ آواز بجھ گئی۔

اس نے سندھ کے سرمد، صوفی عنایت اور ذوالفقار علی کی راہ پر چلتے ہوئے شہادت کا سرخ دوشالہ اوڑھا اور اپنے جانثاروں کے شور و شین اور گریہ و بین کی گونج میں تہ خاک نیند کرنے چلی گئی۔

اس کا سوگ صرف اس کے ماتم داروں نے ہی نہیں منایا۔ ملک کے کروڑوں دل فگاروں کی آنکھوں نے اسے بہ چشم نم رخصت کیا۔ اگر اس کے چاہنے والوں کا یہ عالم تھا کہ ''نے صبر ہے، نے ہوش ہے، نے تاب و تواں ہے'' تو وہ بھی تھے جو اس سے سیاسی اور نظریاتی اختلافات رکھتے تھے مگر وہ بھی یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ ''جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے۔''

بے نظیر بھٹو کہنے کو پیپلز پارٹی کی رہنما تھیں لیکن ان کے سفاکانہ قتل نے سارے ملک کو دہشت زدہ اور دل زدہ کر دیا ۔ اس قتل کی گونج ساری دنیا میں سنی گئی اور ملکوں ملکوں ان کا سوگ منایا گیا۔ ایسے جیتے جاگتے خواب دیکھتے اور خواب دکھاتے ہوئے رہنماؤں کی پیدائش کسی بھی سماج کے لیے وقت کی عطا اور اس کی جود و سخا ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے یہاں وہ ''حاکم شام'' پائے جاتے ہیں جو ہر دس بیس برس بعد ایسے رہنماؤں کو اپنے اور اپنے ادارے کے اقتدار پر سے صدقہ کر دیتے ہیں۔

ہمارا ایک منتخب وزیر اعظم متنازعہ عدالتی فیصلے کی سولی پر چڑھایا گیا۔ ہماری دو مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہونے والی قومی رہنما کو قتل کیا گیا پھر اس کا قتل نامہ ''القاعدہ'' کے نام درج ہوا اور دو مرتبہ منتخب ہونے والا ہمارا تیسرا وزیر اعظم جلاوطنی اور ذلت و توہین کے جہنم میں جلایا گیا۔ اس پر قاتلانہ حملہ کرایا جاتا ہے اور اس کے سامنے بھی صبح و شام اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری کی جاری کردہ ''مبینہ ہٹ لسٹ'' لہرائی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اپنے اقتدار مطلق کا اعلان ہے۔

وہ جو بے نظیر کی زندگی سے حسد کرتے تھے کیا انھیں ان کی رخصت پر رشک نہیں آیا؟ کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ ان کے ماتم دار تابوت سے سر ٹکرا کر دھاڑیں مار رہے تھے۔ بچوں کی طرح رو رہے تھے۔ ان کے تابوت کو چھونے کی آرزو میں ایک دوسرے پر گر پڑتے تھے۔ ان کے جاں نثار 60 اور 80 گز کے تاریک گھروں اور تنگ گلیوں میں رہنے والے غریب اور غیرت مند لوگ تھے۔ شمع جل بجھی اور پروانے بھی اس پر نثار ہو گئے۔ گمنام قبروں میں سو گئے اور اپنے گھر والوں کو فاقوں اور ذلتوں کے سپرد کر گئے۔ اس آس میں کہ شاید کبھی اچھے دن ان کے دروازے پر بھی دستک دیں گے۔

(جاری ہے)
Load Next Story