پنجابیوں کی نفسیات
ایک ڈبے میں تین قسم کی ورائٹی ہو تو بندہ سوچ میں تو پڑ جاتا ہے کہ کیا اٹھائے اور کیا چھوڑے۔
پنجابیو! آج تمہاری نفسیات پر گفتگو ہو رہی ہے۔ نفس سے نکلا یہ لفظ آج تمہارے دل و دماغ کا ایکسرے اتارے گا۔ جب تم جیسے زندہ دلوں کی بات ہو تو سندھی، بلوچ، پختون اور کشمیری بھی دلچسپی لیں گے کہ دیکھیں کیا بات ہوتی ہے۔ اردو بولنے والوں کو بھی تجسس ہوگا کہ آج نہ جانے ''عزم نو'' میں کیا پول پٹی کھل رہی ہے۔ 8 ستمبر کو ''بھٹو سے شریف اور عمران تک'' والے کالم میں کہا تھا کہ تم ایک وقت میں تین لوگوں کو دل میں بسا کر کشمکش کا ماحول پیدا کرتے ہو۔ تمہاری کھانے پینے کی فطرت کو دیکھتے ہوئے تمہیں مٹھائی کی مثال دی تھی۔
ایک ڈبے میں تین قسم کی ورائٹی ہو تو بندہ سوچ میں تو پڑ جاتا ہے کہ کیا اٹھائے اور کیا چھوڑے۔ اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے آج تمہارے بارے میں نئے انکشافات کرتے ہوئے مسئلے کا حل بتاتے ہیں۔ اگر وہ بات تمہیں ہم تمہارے بارے میں بتائیں جسے تم پہچانتے تو ہو لیکن جانتے نہیں تو کیا ہوگا؟ تم خود کہوگے کہ سواد آگیا۔ پیڑے والی لسی کا مزا دے گا آج کا کالم جو کسی مشہور دکان کے سری پائے کھانے کے بعد آتا ہے۔
ہیرو کے تم ہر وقت طلبگار رہتے ہو۔ ایسا بہادر جو ہیروئن سے تو محبت کرے لیکن دشمن کو تہس نہس کردے۔ باہر سے سخت لیکن اندر سے تمہاری نفیس طبیعت کے باعث تم اپنے ہیرو کا تادیر احترام کرتے ہو۔ تمہاری ان خوبیوں اور خامیوں کو لیے ہم تمہیں تمہاری سو سالہ تاریخ یاد دلاتے ہیں۔ اسی میں سیاسی قائدین بھی آئیں گے اور فلمی ہیروز بھی۔ کرکٹ کے جانبازوں کا تذکرہ بھی ہوگا اور ہم تمہارے پسندیدہ دلداروں کا ذکر بھی کریں گے۔ ایکسرے کے بعد آپریشن کرنا پڑے تو تم ناراض تو نہیں ہوگے؟
سو سال پہلے جب انگریز ہندوستان پر حکومت کر رہے تھے تو تم سب سے نرالے ثابت ہوئے۔ سب گوروں سے نفرت کرتے تھے لیکن تم ان سے اتنے زیادہ مخالف نہیں تھے۔ ہم تمہاری وکالت کرتے ہوئے کہتے ہیں تمہارے حالات سب سے مختلف تھے۔ الگ صورتحال کی وجہ سے تمہارا کیس دوسرے انداز سے دیکھنا چاہیے۔ احمد خان کھرل جیسے ہیروز کے باوجود تمہاری اکثریت انگریزوں کی حامی تھی۔ دوستوں سے کہتے ہیں کہ گوروں نے پورے ہندوستان میں مسلمانوں سے حکومت چھینی سوائے پنجاب کے۔
نواب سراج الدولہ (1757)، ٹیپو سلطان (1799)، ٹالپڑ(1843) اور بہادر شاہ ظفر (1857) کی حکومتوں کے خاتمے کی بدولت بنگال، میسور، سندھ اور پورے ہندوستان کے مسلمان عظیم برطانیہ کے جھنڈے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے۔ رنجیت سنگھ کی اولاد سے حکومت چھینے جانے (1849) کے سبب انگریز تو پنجابی مسلمانوں کے نجات دہندہ ثابت ہوئے اسی لیے شاید تمہیں تحریک پاکستان کی سمجھ دیر سے آئی۔ تمہاری اس تاریخی مجبوری اور تمہارے دو ہیروز کے ذکر کے بعد ہم آگے بڑھتے ہیں۔ نفسیات یعنی Science of Mind کی بات کرتے ہیں۔
پاکستان کی خاطر تم نے پنجاب کا بٹوارا قبول کرلیا۔ بنگالیوں اور تم میں یہ بات مشترک تھی کہ تم دونوں نے مذہب کی خاطر قومیت کے بت کو توڑ دیا۔ واہ پنجابیو واہ! تم بانی پاکستان کی سب سے زیادہ عزت کرتے ہو۔ ایک ہی اخبار کا لاہور ایڈیشن قائداعظمؒ لکھے گا جب کہ اسی اخبار کے دوسرے شہر میں محمد علی جناح پر رحمت بھیجنے کا سلسلہ قارئین پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ تمہاری کیا کیا خوبیاں گنواؤں۔ کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں۔ کوئی خامی بیان کرنے کے لیے عقلمند شوہر کہتا ہے کہ کھانا تو اچھا ہے لیکن نمک زیادہ ہے۔ لڑکپن سے دوستوں کے ابو کی تعریف کرنے اور ان کو خوب برا بھلا کہنے کی عادت ہے۔ دنیا کا کوئی بیٹا جرأت نہیں کرسکتا کہ اپنی خامیاں نہ سنے۔ پنجابیو! تم بھی محتاط ہوجاؤ۔
بنگالیوں کو عمومی شکایات مغربی پاکستان سے ہوتیں لیکن خصوصی نزلہ تم پر گرتا۔ یقینا کچھ تو ہوگا۔ اگر شکایات کو پہاڑ بھی بنادیا گیا ہو تو رائی تو ہوگی۔ تم کشمیر کے معاملے پر جذباتی تھے اور بنگالیوں کو اسی مسئلے پر بجٹ کا بڑا حصہ لگانے پر شکایت تھی۔ 10 سال تک لڑنے کی بھٹو کی بات پر تم اسی کو دل دے بیٹھے۔ کیا ایسا تو نہیں تھا کہ تم مجیب کے مقابل ایک لیڈر سامنے لانا چاہتے تھے؟ دو بڑے لیڈروں کی اقتدار کے لیے کشمکش میں تمہارے قائدؒ کا ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔
اسی بھٹو کے خلاف تحریک چلانے والوں میں تم شامل تھے جسے بڑی چاہت سے لائے تھے۔ تمہارے تین بریگیڈیئرز نے عوام پر گولی چلانے سے انکار کردیا۔ گیارہ سال تک جالندھر مشرقی پنجاب کے جنرل ضیا کو سب کے ساتھ تم نے بھی برداشت کیا۔ ایک بار پھر بینظیر کو ''دختر مشرق'' کا سا مان دے کر تم نے بھٹو کی پھانسی پر خاموشی کا مداوا کرنا چاہا۔ اسی لمحے میں تم نواز شریف کو بھی پسند کرتے رہے۔ تمہاری کشمکش کہ بھٹو یا شریف نے ان دونوں خاندانوں میں کشمکش پیدا کردی۔ تمہیں شریف پسند تھا لیکن حیا بھی تھی کہ بھٹو کی بیٹی کو کیسے چھوڑ دیں۔
تم جانتے ہو کہ 27 دسمبر 2007 کو پنڈی کے جلسے کے بعد بے نظیر اتنی زیادہ خوش کیوں تھیں؟ انھیں اندازہ ہوگیا تھا کہ وفاداری نبھانے والے پنجابیوں نے انھیں چھوڑا نہیں ہے۔ وہ جان گئی تھیں کہ شریفوں کے ساتھ پنجاب میں برابر کے مقابلے کے بعد وہ سندھ کے ووٹوں کی بنیاد پر وفاق میں حکومت بنالیں گی۔ پنجابیو! تم نے دونوں ہاتھوں میں لڈو رکھے۔ اسلام آباد تم نے دیا بھٹو کے جانشینوں کو، تو تخت لاہور عطا کردیا شریفوں کو۔
عمران کو دل میں بساکر تم نے اپنی عجیب و غریب فطرت کا مظاہرہ کیا ہے۔ تمہیں حیا آتی ہے بھٹو خاندان سے بے وفائی کرنے پر۔ تم جھجکتے ہو شریفوں کے احسانات کو دیکھ کر۔ تمہاری یہی کشمکش دھرنوں کا سبب بنی ہے۔ تم نہ سندھیوں کی طرح عقیدت میں ایک طرف جمے ہوئے ہو اور نہ کراچی والوں کی طرح بیس بیس سال بعد محبوب بدلتے ہو۔ تم پٹھانوں کی طرح بے رحم احتساب بھی نہیں کرسکتے، جو معیار پر پورا اترنے والوں کو دوسرا موقع بالکل نہیں دیتے۔
پنجابیو! اپنی دھرتی کے فضل محمود، عمران اور وسیم اکرم کو پسند کرنے والو! پنجاب کے اسد بخاری اور سلطان راہی کو چاہنے والو! دوستانوں، ٹوانوں اور شریفوں کو سر پر بٹھانے والو! تم نے میرٹ پر دوسروں کو بھی پسند کیا ہے۔ حنیف محمد اور میانداد کو پسند کرنے کی تم تاریخ رکھتے ہو۔ وحید مراد، ندیم، محمد علی اور مصطفیٰ قریشی کو چاہنے کا ریکارڈ ہے۔ تم نے تو بھٹو اور بے نظیر کو سر پر بٹھایا ہے اور اب تم بلاول کے بارے میں بھی سوچ رہے ہو۔
پنجابیو! جلد فیصلہ نہ کرنے والی فطرت کے سبب تم بھی نقصان اٹھاتے ہو اور پاکستان میں بھی کشمکش کا ماحول پیدا کرتے ہو۔ اب ہم بتاتے ہیں کہ تمہیں کیا کرنا چاہیے؟ تم گاہک بن جاؤ۔ جس طرح تم مارکیٹ جاتے ہو اور دودھ، انڈے، گوشت، سبزی، اور دال چاول خریدتے ہو۔ ڈاکٹر سے علاج کرواتے ہو۔ بچے کو اسکول میں داخل کرتے ہو۔ تم جس جس کو پیسے دیتے ہو وہ دکاندار ہے اور تم اس کے گاہک۔ تم سیاستدانوں کو دکاندار سمجھو۔ یہ یاد رکھو کہ وہ اپنی کوئی چیز تمہارے ہاتھ بیچنا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی ٹھوس چیز تمہاری سمجھ میں نہیں آرہی تو سمجھو کہ وہ اپنے خیالات تم کو بیچ رہے ہیں۔ وہ اپنے آئیڈیاز تم کو سیل کر رہے ہیں۔
ٹھہر جاؤ! زندہ دلو،! ٹھہر جاؤ۔ تھوڑی دیر کے لیے رک جاؤ۔ دکاندار اور گاہک والی بات سمجھ میں آگئی ہے تو بتاؤ کہ تم اپنے دکاندار دوست سے زیادہ پانی والا دودھ خرید لوگے؟ خراب انڈے اور بیکار گوشت اپنے چہیتے دکاندار سے گھر لے آؤگے؟ باسی سبزی لے آؤگے اپنے بیسٹ فرینڈ سے۔ کنکر ملے دال چاول اپنے جگری یار سے خرید لوگے؟ نہیں بالکل نہیں۔ کیوں؟ اگر دکاندار تمہارا عزیز ہے پھر بھی خراب چیزیں نہیں خریدوگے؟ کیوں؟ یہ کیوں ہی آج کے کالم کا سب سے اہم نکتہ ہے۔ اس لیے کہ تمہیں اپنے بچے عزیز ہیں۔ تم انھیں خراب انڈے اور دودھ، باسی روٹی و سبزی اور گندے دال چاول نہیں کھلانا چاہتے۔
چلو اپنے پسندیدہ ڈاکٹر سے علاج تو اپنے بچے کا کرواتے رہوگے، اگر مریض ٹھیک نہیں ہو رہا پھر بھی۔ گھٹیا تعلیمی ادارے میں زیادہ فیس دے کر اپنے بچپن کے دوست کے اسکول میں تو بچے کو داخل کرواؤ گے؟ اگر نہیں تو ووٹ دینے سے پہلے سوچو کہ کون تمہارے بچے کو اپنا بچہ سمجھتا ہے۔ کوئی لیڈر یا بہتر پوزیشن والا اگر تمہاری اولاد کو اپنی اولاد نہیں سمجھتا تو پھر اس کے لیے جذباتی ہونے کا کیا فائدہ؟ جذبات کے علاوہ عقل سے فیصلہ کرو میرے زندہ دلو! تو کالم نگار کہے گا کہ کیا خوب ہے پنجابیوں کی نفسیات۔
ایک ڈبے میں تین قسم کی ورائٹی ہو تو بندہ سوچ میں تو پڑ جاتا ہے کہ کیا اٹھائے اور کیا چھوڑے۔ اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے آج تمہارے بارے میں نئے انکشافات کرتے ہوئے مسئلے کا حل بتاتے ہیں۔ اگر وہ بات تمہیں ہم تمہارے بارے میں بتائیں جسے تم پہچانتے تو ہو لیکن جانتے نہیں تو کیا ہوگا؟ تم خود کہوگے کہ سواد آگیا۔ پیڑے والی لسی کا مزا دے گا آج کا کالم جو کسی مشہور دکان کے سری پائے کھانے کے بعد آتا ہے۔
ہیرو کے تم ہر وقت طلبگار رہتے ہو۔ ایسا بہادر جو ہیروئن سے تو محبت کرے لیکن دشمن کو تہس نہس کردے۔ باہر سے سخت لیکن اندر سے تمہاری نفیس طبیعت کے باعث تم اپنے ہیرو کا تادیر احترام کرتے ہو۔ تمہاری ان خوبیوں اور خامیوں کو لیے ہم تمہیں تمہاری سو سالہ تاریخ یاد دلاتے ہیں۔ اسی میں سیاسی قائدین بھی آئیں گے اور فلمی ہیروز بھی۔ کرکٹ کے جانبازوں کا تذکرہ بھی ہوگا اور ہم تمہارے پسندیدہ دلداروں کا ذکر بھی کریں گے۔ ایکسرے کے بعد آپریشن کرنا پڑے تو تم ناراض تو نہیں ہوگے؟
سو سال پہلے جب انگریز ہندوستان پر حکومت کر رہے تھے تو تم سب سے نرالے ثابت ہوئے۔ سب گوروں سے نفرت کرتے تھے لیکن تم ان سے اتنے زیادہ مخالف نہیں تھے۔ ہم تمہاری وکالت کرتے ہوئے کہتے ہیں تمہارے حالات سب سے مختلف تھے۔ الگ صورتحال کی وجہ سے تمہارا کیس دوسرے انداز سے دیکھنا چاہیے۔ احمد خان کھرل جیسے ہیروز کے باوجود تمہاری اکثریت انگریزوں کی حامی تھی۔ دوستوں سے کہتے ہیں کہ گوروں نے پورے ہندوستان میں مسلمانوں سے حکومت چھینی سوائے پنجاب کے۔
نواب سراج الدولہ (1757)، ٹیپو سلطان (1799)، ٹالپڑ(1843) اور بہادر شاہ ظفر (1857) کی حکومتوں کے خاتمے کی بدولت بنگال، میسور، سندھ اور پورے ہندوستان کے مسلمان عظیم برطانیہ کے جھنڈے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے۔ رنجیت سنگھ کی اولاد سے حکومت چھینے جانے (1849) کے سبب انگریز تو پنجابی مسلمانوں کے نجات دہندہ ثابت ہوئے اسی لیے شاید تمہیں تحریک پاکستان کی سمجھ دیر سے آئی۔ تمہاری اس تاریخی مجبوری اور تمہارے دو ہیروز کے ذکر کے بعد ہم آگے بڑھتے ہیں۔ نفسیات یعنی Science of Mind کی بات کرتے ہیں۔
پاکستان کی خاطر تم نے پنجاب کا بٹوارا قبول کرلیا۔ بنگالیوں اور تم میں یہ بات مشترک تھی کہ تم دونوں نے مذہب کی خاطر قومیت کے بت کو توڑ دیا۔ واہ پنجابیو واہ! تم بانی پاکستان کی سب سے زیادہ عزت کرتے ہو۔ ایک ہی اخبار کا لاہور ایڈیشن قائداعظمؒ لکھے گا جب کہ اسی اخبار کے دوسرے شہر میں محمد علی جناح پر رحمت بھیجنے کا سلسلہ قارئین پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ تمہاری کیا کیا خوبیاں گنواؤں۔ کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں۔ کوئی خامی بیان کرنے کے لیے عقلمند شوہر کہتا ہے کہ کھانا تو اچھا ہے لیکن نمک زیادہ ہے۔ لڑکپن سے دوستوں کے ابو کی تعریف کرنے اور ان کو خوب برا بھلا کہنے کی عادت ہے۔ دنیا کا کوئی بیٹا جرأت نہیں کرسکتا کہ اپنی خامیاں نہ سنے۔ پنجابیو! تم بھی محتاط ہوجاؤ۔
بنگالیوں کو عمومی شکایات مغربی پاکستان سے ہوتیں لیکن خصوصی نزلہ تم پر گرتا۔ یقینا کچھ تو ہوگا۔ اگر شکایات کو پہاڑ بھی بنادیا گیا ہو تو رائی تو ہوگی۔ تم کشمیر کے معاملے پر جذباتی تھے اور بنگالیوں کو اسی مسئلے پر بجٹ کا بڑا حصہ لگانے پر شکایت تھی۔ 10 سال تک لڑنے کی بھٹو کی بات پر تم اسی کو دل دے بیٹھے۔ کیا ایسا تو نہیں تھا کہ تم مجیب کے مقابل ایک لیڈر سامنے لانا چاہتے تھے؟ دو بڑے لیڈروں کی اقتدار کے لیے کشمکش میں تمہارے قائدؒ کا ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔
اسی بھٹو کے خلاف تحریک چلانے والوں میں تم شامل تھے جسے بڑی چاہت سے لائے تھے۔ تمہارے تین بریگیڈیئرز نے عوام پر گولی چلانے سے انکار کردیا۔ گیارہ سال تک جالندھر مشرقی پنجاب کے جنرل ضیا کو سب کے ساتھ تم نے بھی برداشت کیا۔ ایک بار پھر بینظیر کو ''دختر مشرق'' کا سا مان دے کر تم نے بھٹو کی پھانسی پر خاموشی کا مداوا کرنا چاہا۔ اسی لمحے میں تم نواز شریف کو بھی پسند کرتے رہے۔ تمہاری کشمکش کہ بھٹو یا شریف نے ان دونوں خاندانوں میں کشمکش پیدا کردی۔ تمہیں شریف پسند تھا لیکن حیا بھی تھی کہ بھٹو کی بیٹی کو کیسے چھوڑ دیں۔
تم جانتے ہو کہ 27 دسمبر 2007 کو پنڈی کے جلسے کے بعد بے نظیر اتنی زیادہ خوش کیوں تھیں؟ انھیں اندازہ ہوگیا تھا کہ وفاداری نبھانے والے پنجابیوں نے انھیں چھوڑا نہیں ہے۔ وہ جان گئی تھیں کہ شریفوں کے ساتھ پنجاب میں برابر کے مقابلے کے بعد وہ سندھ کے ووٹوں کی بنیاد پر وفاق میں حکومت بنالیں گی۔ پنجابیو! تم نے دونوں ہاتھوں میں لڈو رکھے۔ اسلام آباد تم نے دیا بھٹو کے جانشینوں کو، تو تخت لاہور عطا کردیا شریفوں کو۔
عمران کو دل میں بساکر تم نے اپنی عجیب و غریب فطرت کا مظاہرہ کیا ہے۔ تمہیں حیا آتی ہے بھٹو خاندان سے بے وفائی کرنے پر۔ تم جھجکتے ہو شریفوں کے احسانات کو دیکھ کر۔ تمہاری یہی کشمکش دھرنوں کا سبب بنی ہے۔ تم نہ سندھیوں کی طرح عقیدت میں ایک طرف جمے ہوئے ہو اور نہ کراچی والوں کی طرح بیس بیس سال بعد محبوب بدلتے ہو۔ تم پٹھانوں کی طرح بے رحم احتساب بھی نہیں کرسکتے، جو معیار پر پورا اترنے والوں کو دوسرا موقع بالکل نہیں دیتے۔
پنجابیو! اپنی دھرتی کے فضل محمود، عمران اور وسیم اکرم کو پسند کرنے والو! پنجاب کے اسد بخاری اور سلطان راہی کو چاہنے والو! دوستانوں، ٹوانوں اور شریفوں کو سر پر بٹھانے والو! تم نے میرٹ پر دوسروں کو بھی پسند کیا ہے۔ حنیف محمد اور میانداد کو پسند کرنے کی تم تاریخ رکھتے ہو۔ وحید مراد، ندیم، محمد علی اور مصطفیٰ قریشی کو چاہنے کا ریکارڈ ہے۔ تم نے تو بھٹو اور بے نظیر کو سر پر بٹھایا ہے اور اب تم بلاول کے بارے میں بھی سوچ رہے ہو۔
پنجابیو! جلد فیصلہ نہ کرنے والی فطرت کے سبب تم بھی نقصان اٹھاتے ہو اور پاکستان میں بھی کشمکش کا ماحول پیدا کرتے ہو۔ اب ہم بتاتے ہیں کہ تمہیں کیا کرنا چاہیے؟ تم گاہک بن جاؤ۔ جس طرح تم مارکیٹ جاتے ہو اور دودھ، انڈے، گوشت، سبزی، اور دال چاول خریدتے ہو۔ ڈاکٹر سے علاج کرواتے ہو۔ بچے کو اسکول میں داخل کرتے ہو۔ تم جس جس کو پیسے دیتے ہو وہ دکاندار ہے اور تم اس کے گاہک۔ تم سیاستدانوں کو دکاندار سمجھو۔ یہ یاد رکھو کہ وہ اپنی کوئی چیز تمہارے ہاتھ بیچنا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی ٹھوس چیز تمہاری سمجھ میں نہیں آرہی تو سمجھو کہ وہ اپنے خیالات تم کو بیچ رہے ہیں۔ وہ اپنے آئیڈیاز تم کو سیل کر رہے ہیں۔
ٹھہر جاؤ! زندہ دلو،! ٹھہر جاؤ۔ تھوڑی دیر کے لیے رک جاؤ۔ دکاندار اور گاہک والی بات سمجھ میں آگئی ہے تو بتاؤ کہ تم اپنے دکاندار دوست سے زیادہ پانی والا دودھ خرید لوگے؟ خراب انڈے اور بیکار گوشت اپنے چہیتے دکاندار سے گھر لے آؤگے؟ باسی سبزی لے آؤگے اپنے بیسٹ فرینڈ سے۔ کنکر ملے دال چاول اپنے جگری یار سے خرید لوگے؟ نہیں بالکل نہیں۔ کیوں؟ اگر دکاندار تمہارا عزیز ہے پھر بھی خراب چیزیں نہیں خریدوگے؟ کیوں؟ یہ کیوں ہی آج کے کالم کا سب سے اہم نکتہ ہے۔ اس لیے کہ تمہیں اپنے بچے عزیز ہیں۔ تم انھیں خراب انڈے اور دودھ، باسی روٹی و سبزی اور گندے دال چاول نہیں کھلانا چاہتے۔
چلو اپنے پسندیدہ ڈاکٹر سے علاج تو اپنے بچے کا کرواتے رہوگے، اگر مریض ٹھیک نہیں ہو رہا پھر بھی۔ گھٹیا تعلیمی ادارے میں زیادہ فیس دے کر اپنے بچپن کے دوست کے اسکول میں تو بچے کو داخل کرواؤ گے؟ اگر نہیں تو ووٹ دینے سے پہلے سوچو کہ کون تمہارے بچے کو اپنا بچہ سمجھتا ہے۔ کوئی لیڈر یا بہتر پوزیشن والا اگر تمہاری اولاد کو اپنی اولاد نہیں سمجھتا تو پھر اس کے لیے جذباتی ہونے کا کیا فائدہ؟ جذبات کے علاوہ عقل سے فیصلہ کرو میرے زندہ دلو! تو کالم نگار کہے گا کہ کیا خوب ہے پنجابیوں کی نفسیات۔