بات کچھ اِدھر اُدھر کی میں ٹوکن نہیں بنی

حقیقت میں ہمارے مردانہ معاشرے نے عورت کو غیر محفوظ کر دیا ہے۔

حقیقت میں ہمارے مردانہ معاشرے نے عورت کو غیر محفوظ کر دیا ہے۔ فوٹو فائل

''میرا انٹرویو بہت اچھا ہوا تھا اور آج مجھے یونیورسٹی کی طرف سے آرڈر لیٹر جاری ہوا۔ میں بہت خوش ہوں''۔ یہ چہکتی ہوئی آواز میری ریسرچ فیلو کی تھی جو صبح صبح مجھے کال کرکے اپنی نوکری کا بتا رہی تھی۔ نیند سے جاگتے ہوئے ہی میں نے پوچھا جاب کیا ہے؟ اس نے جاب بتائی جسے سن کر مجھے ذرا بھی خوشی نہیں ہوئی۔ جواب دینے کی غرض سے میں نے اچھا کہا۔ ریسرچ فیلو کافی حیرانگی سے پوچھنے لگی، تمہیں کیا ہوا ہے، تم خوش نہیں ہوئی اور نہ ہی تم نے اچھے لفظوں سے مجھے مبارکباد دی، میں نیند سے پوری طرح جاگ چکی تھی، میں نے کہا خوشی کو تو مجھے پتہ نہیں ہوئی کہ نہیں پر حیرت ضرور ہو رہی ہے کہ ایک قابل لڑکی ٹوکن بننے پر کتنی خوش ہو رہی ہے۔

میرے الفاظ سخت تھے یا لہجہ معلوم نہیں لیکن اس نے فون بند کردیا۔ میری فیلو خوش شکل، خوش آواز، خوش مزاج کیساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی ہے۔ ہم تین لوگ ایک ہی پراجیکٹ پر کام کررہے تھے۔ اسکی شدید خواہش تھی کہ وہ کسی سرکاری یونیورسٹی میں ملازمت کرے۔ لہذا اسے یونیورسٹی سے الحاق شدہ کالجز کے تمام ہاسٹلز کا کنسلٹنٹ انچارج منتخب کرلیا گیا۔ سولہ گریڈ کی یہ جاب مردوں کے لئے تو موزوں تھی لیکن عورتوں کے لیے نہیں۔ یہی وجہ ہے جب میں نے سنا کہ اسکو ہاسٹلز کا انچارج بنایا گیا تو مجھے دکھ ہوا کہ اسے تھوڑا صبر کرنا چاہیے تھا تعلیم کبھی ضائع نہیں جاتی ہے۔ اسی کرب میں، میں نے پورا ہفتہ اس سے بات نہیں کی۔ ہفتے بعد اسکا مسیج مجھے موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ ''میں ٹوکن نہیں بنی''۔

یقین مانیے مجھے یہ میسج پڑھ کر بہت خوشی ہوئی کہ میری فیلونے ایک بہترین فیصلہ لیا ہے اورآج وہ اللہ کے فضل سے ڈگری سیل میں ایک باعزت آفیسر ہے۔ اب جب بھی ہماری ملاقات ہوتی ہے ووہنستے ہوئے کہتی ہے کہ تمہارے اس ایک سخت لفظ ٹوکن نے میرا پور پور زخمی کردیا اور میں تین دن تذبذب کا شکار رہی اور آخرکار انکار کا لیٹر بھیج دیا جو بے شک اس وقت ایک تکلیف دہ مگر اچھا فیصلہ تھا۔ آج کے تبدیل ہوتے وقت کیساتھ حالات خیالات بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ عورتوں کو بھی کمانے کے لئے گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے مگر جہاں عورت نے اپنی عزت کو داؤ پر لگایا وہیں ا سے برے ہاتھوں نے بھی گھیر لیا۔

میری ذاتی رائے ہے کہ عورت کے لئے پانچ پیشے نرسنگ، ہاسٹل وارڈن، جیل وارڈن، ائیر ہوسٹس اور سیکریٹری بے حد نا مناسب ہیں ۔ یہ پیشے خاص طور پر عورت کیلیے منتخب کیے گئے ہیں ۔اگر ان پیشوں پر عورتوں کی بجائے مردوں کو جگہ دی جائے تو کافی حد تک جرائم میں کمی واقع ہو سکتی ہے ۔ شروع شروع میں عورت شوق سے ایسی ملازمت اختیار کرتی ہے مگر بعد میں ان کو مردوں کی داشتہ بن کر ملازمت کرنی پڑتی ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ برائی میں کوئی برائی نظر نہیں آتی ہے اور سبھی مل جل کو خوشی خوشی ہر کام کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں سماجی شعور بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے مگر معاشی بحران کی وجہ سے پڑھی لکھی عورتوں کو باعزت ملازمتیں نہیں مل رہی ہیں۔ اسکے برعکس ان کو ایسی ملازمتوں میں شوق سے بھرتی کیا جا تا ہے جہاں ان کی حیثیت ایک ٹوکن سے زیادہ نہیں ہوتی ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سطحی تبدیلیوں سے حقیقی تبدیلیوں کی طرف بڑھا جائے اور یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب عورت خود اپنا مقام سمجھ سکے اور اسکی عزت کروانا جانتی ہو۔

معاشرے کی تبدیلی میں عورت کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے مگر بد قسمتی سے معاشی بحران اس قدر بڑھ چکا ہے کہ تبدیلی کی طرف بعد میں اپنے پیٹ کی طرف زیادہ دھیان جاتا ہے۔ غربت کی چکی میں پسی ہوئی عورتیں سو چے سمجھ بغیر یہ کام کرنے کیلئے آمادہ ہو جاتی ہیں ۔ دنیا کی طرف نگاہ دوڑائیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح امریکہ میں Feminist تحریک چلی۔ وہاں عورتیں مردوں کے مظالم اور ان کی ہمدردی سے تنگ آکر یہ تحریک چلانے میں کامیاب ہوئیں ۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ مردوں کی برابری قبول نہیں کریں گی بلکہ ایک فرد کی طرح معاشرے کے موجودہ نظام کو تبدیل کریں گی۔ معاشر ے میں قائم مردوں کی تمام روایات کی خلاف ورزی کرکے وہ خود کو منوانا چاہتی ہیں ۔ بلاشہ اس تحریک نے ایک تہلکہ مچا دیا ۔ عورتوں کی طاقت سامنے آنے لگی اور انہوں نے اپنے آپ کو منوا نا شروع کر لیا۔

دوسری جانب بدقسمتی سے پاکستان میں حالات بدترین ہوتے جا رہے ہیں ۔ مجھے تو ان ماؤں کی سوچ سے ہمدردی ہوتی ہے جو اپنے بیٹوں کو یہ تک سبق دیتی ہیں کہ بیوی کو پہلے دن سے ہی لگام ڈال لو بعد میں یہ بے لگا م ہو جاتی ہیں ۔ حقیقت میں ہمارے مردانہ معاشرے نے عورت کو غیر محفوظ کر دیا ہے۔ ہر کام کرنے والی جگہ پر عورت کی مجبوری سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے اسکی حق تلفی کی جاتی ہے اور جو اس کے خلاف آواز اٹھانے کی طاقت رکھتی ہو اس کی آواز ہی دبا دی جاتی ہے ۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ اگرعورت خود اپنے عزت کرے، اپنی عزت نفس کی حفاظت کرے،اپنا مقام بنائے رکھے تو کوئی اس کو بطور ٹوکن استعمال نہیں کرسکے گا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story