اصلاحات کے بغیر مڈ ٹرم الیکشن
ملک کے سیاسی حالات ایک ایسے موڑ پر پہنچ چکے ہیں جہاں موجودہ ناکام ترین جمہوری نظام کی تبدیلی ناگزیر نظر آرہی ہے۔
KARACHI:
ملک کے سیاسی حالات ایک ایسے موڑ پر پہنچ چکے ہیں جہاں موجودہ ناکام ترین جمہوری نظام کی تبدیلی ناگزیر نظر آرہی ہے اور اسے ہم عوام کی خوش قسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ کچھ سرپھرے لوگ جان ہتھیلی پر لے کر اس سڑے گلے ناکارہ استحصالی نظام کو تبدیل کرنے کے عزم مصمم کے ساتھ اسلام آباد کے ڈی چوک میں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ پاکستان ہی کی تاریخ کا نہیں بلکہ یہ دھرنا دنیا کی سیاسی تاریخ کا منفرد واقعہ ہے کہ 25،20 ہزار لوگ جن میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے، دو ماہ سے اس شاہراہ دستور پر پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں جس کے تقدس کی قسمیں کھائی جاتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی طویل مدت سے یہ لوگ یہاں کیا محض تفریح کے لیے بیٹھے ہیں؟ ہماری سیاسی ایلیٹ اس دھرنے کی اہمیت کم کرنے کے لیے اس کا طرح طرح سے مذاق اڑا رہی ہے، اس کے خلاف طرح طرح کے الزام لگا کر عوام میں اسے بدنام کرنے، اس کی اہمیت کم کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہی ہے۔
خیال یہ تھا کہ عید کی وجہ سے دھرنے کے شرکا میں بے چینی اور انتشار پیدا ہوجائے گا اور شرکا عید منانے اپنے گھروں پر جانے کے لیے اصرار کریں گے ۔ یوں یہ تاریخ کی طویل ترین تحریک اپنی موت آپ مر جائے گی لیکن ایسا کچھ نہ ہوا ۔ دھرنے کے شرکا نے ڈی چوک اور شاہراہ دستور پر ہی عید منائی اور ان لوگوں کی نیک خواہشوں کو ناکام بنادیا جو دھرنے کی معنویت اور گہرے مضمرات سے سہمے ہوئے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دھرنا شروع کرنے سے پہلے دھرنے کی قیادت کرنے والوں نے شاید اس کی پوری طرح منصوبہ بندی نہیں کی، نہ کوئی واضح حکمت عملی طے کی لیکن ان کمزوریوں کے باوجود دو ماہ کے لگ بھگ عرصے تک عوام مردوں، عورتوں اور بچوں کا نامساعد حالات اور موسم کے باوجود دھرنے پر بیٹھنے کا مطلب یہی ہوسکتاہے کہ شرکا اپنی 67 سالہ عذاب ناک زندگی کو بدلنا چاہتے ہیں ۔
اس سے پہلے کہ ہم اس دھرنے یا تحریک کی حمایت یا مخالفت پر نظر ڈالیں اس بات کا جائزہ لینا ضروری سمجھتے ہیں کہ دھرنے والے جس گلے سڑے کرپٹ ترین نظام کی تبدیلی کا مطالبہ کررہے ہیں کیا وہ درست اور جائز ہے؟ اس سوال کے جواب پر نظر ڈالی جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ اہل سیاست ، اہل خرد، اہل دانش، اہل قلم اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کی بھاری اکثریت اس بات سے اتفاق کرتی نظر آتی ہے کہ 67 سال کے دوران کوئی حکومت ڈلیور نہیں کرسکی یعنی عوام کے مسائل حل نہیں کرسکی ۔ اس بات کا رونا بھی سب ہی رو رہے ہیں کہ جمہوریت کی پوری تاریخ لوٹ مار سے عبارت ہے ۔
اس بات پر بھی کسی کو اختلاف نہیں کہ جمہوریت کے نام پر چند خاندان سیاست اور اقتدار پر اپنے خونی پنجے گاڑھے ہوئے ہیں ۔ اس بات کو بھی اہل علم، اہل قلم تسلیم کرتے ہیں کہ حکومت پر کام میرٹ کے بجائے اپنی پسند نا پسند سے کررہی ہے ۔ اس بات پر بھی اتفاق رائے پایاجاتاہے کہ ہر آنے والی حکومت، ہر جانے والی حکومت سے زیادہ بدعنوان ثابت ہوتی رہی ہے ۔ اس بات پر بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہورہا ہے ، اس حقیقت سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ عوام کا اربوں، کھربوں روپیہ غیر ملکی بینکوں میں موجود ہے ۔
تو پھر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ایسے بد ترین نظام کو ختم ہونا چاہیے یا نہیں؟ اگر ختم ہونا چاہیے تو پھر اسے باقی رکھنے کی ''ماہرانہ'' کوششیں کیوں کی جارہی ہیں، کیوں کہ حکمرانوں کو یہ مشورے دیے جارہے ہیں کہ وہ فلاں اقدام کرے، فلاں اصلاح کرے، بلدیاتی الیکشن کا اعلان کردے تاکہ دھرنے والے اس الیکشن میں مصروف ہوجائیں اور ان کی توجہ دھرنوں، جلسوں سے ہٹ جائے ۔ ہوسکتاہے یہ مشورے دیانت پر مبنی ہوں لیکن لگتا یہی ہے کہ اس قسم کے مشوروں کا مطلب اس کرپٹ اور نا اہل ترین حکومت کو سانس لینے کا موقع فراہم کرنا ہی ہوسکتاہے ۔ اگر اس حکومت میں وہ ساری برائیاں موجود ہیں جن کا سرسری ذکر ہم نے اوپر کیا ہے اور حکومت کو اصلاح کا مشورہ دینے والے بھی جب ان برائیوں کو تسلیم کررہے ہیں تو پھر اس حکومت کی خیر خواہی کا مطلب کیا ہے؟
دنیا بھر میں جمہوریت کا مطلب رائے عامہ کی برتری مانا جاتا ہے ۔ دھرنے والوں پر یہ اعتراض تھا کہ 20 کروڑ کی آبادی میں 25،20 ہزار عوام کا احتجاج کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ بالکل درست اعتراض ہے لیکن تحریک انصاف نے کراچی، لاہور، میانوالی، ملتان وغیرہ میں جلسے کر کے یہ ثابت کردیا ہے کہ اس ملک کے 20 کروڑ عوام اس ظالمانہ نظام کو ہر قیمت پر بدلنا چاہتے ہیں ۔ ان جلسوں میں لاکھوں انسان اپنی ٹرانسپورٹ، اپنی مرضی سے اپنے بال بچوں کے ساتھ آئے۔
کیا جمہوریت اور نظام کی تبدیلی کی خواہش کا اس سے بڑا کوئی ثبوت ہوسکتاہے؟ ہمارے انتخابی نظام کی تاریخ میں عموماً 40،50 فی صد لوگ ووٹ ڈالنے آتے ہیں ان میں بھی آدھے سے زیادہ جعلی ووٹر اور ووٹ ہوتے ہیں اس انتخابات کو ہماری سیاسی ایلیٹ عوام کے مینڈیٹ کا نام دے کر 5 سال تک عوام کا خون چوسنے کو جمہوریت کا نام دیتی ہے۔ کیا یہ جمہوریت ہے؟
اب یہ بات طے ہے کہ عوام کا حکومت ہی نہیں اس پورے نظام پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے اور اگر کسی اہل سیاست، اہل قلم کو اس میں کوئی شک ہے تو پھر یہ شک دور کرنے کا جمہوری طریقہ یہی رہ جاتا ہے کہ مڈ ٹرم الیکشن کروالیے جائیں، دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔ جب حکومت اور سسٹم اس قدر متنازعہ ہوجائے تو اس کا جمہوری حل یہی رہ جاتا ہے کہ عوام سے دوبارہ رجوع کیاجائے ۔ اس منطقی طریقہ کار کے بجائے اگر ہم بڑے خلوص سے عوام کی مسترد کردہ حکومت کو حکومت بچانے کے مخلصانہ اور قیمتی مشورے دیں تو کیا عوام ہمارے خلوص کو تسلیم کرلیں گے؟ کیا عوام ہماری ان مخلصانہ مشوروں کو بد نیتی اور بد دیانتی سے تعبیر نہیں کریں گے؟ اگر حکومت ڈیلیور نہیں کرسکی تو پھر اس کی جگہ کوئی اور حکومت آنا چاہیے اور عوام کے ووٹوں، عوام کی مرضی سے آنا چاہیے ۔
اگرچہ موجودہ بحران کا واحد حل یہی ہے کہ ملک میں مڈٹرم الیکشن ہوں ۔ ہمیں حیرت ہے کہ ایک بڑے سیاسی رہنما اور قائد حزب اختلاف نے ٹی وی پر کہاکہ ''وزیراعظم خود مڈٹرم الیکشن کا اعلان کریں'' لیکن حیرت کا مقام ہے کہ محض سیاسی مصلحتوں، سیاسی مفادات کی خاطر اپنے ہی بیان کی غلط تاویلیں پیش کی گئیں اور یہ کہا گیا کہ ہمارے کہنے کا مطلب ہرگز مڈٹرم الیکشن نہ تھا۔ کیا سیاست دانوں میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات پر ڈٹے رہیں۔
اصل مسئلہ محض مڈ ٹرم الیکشن کا ہی نہیں ہے بلکہ مڈ ٹرم الیکشن سے پہلے ان اصلاحات کا ہے جس کا مطالبہ عمران خان اور طاہر القادری کررہے ہیں ۔ یعنی زرعی اصلاحات ،انتخابی اصلاحات، الیکشن کمیشن کی از سر نو تشکیل، بلدیاتی انتخابات اور کرپٹ رہنماؤں کا احتساب۔ ان اصلاحات کے بغیر مڈ ٹرم الیکشن بے معنی اور غیر منطقی ہیں۔ اگر اہل دانش، اہل قلم نظام کو بہتر بنانے کے لیے نظام کی تبدیلی کے بجائے حکومت کو چند اصلاحات کا مشورہ دیتے ہیں تو یہ عوام دوستی نہیں ہوسکتی ۔
ملک کے سیاسی حالات ایک ایسے موڑ پر پہنچ چکے ہیں جہاں موجودہ ناکام ترین جمہوری نظام کی تبدیلی ناگزیر نظر آرہی ہے اور اسے ہم عوام کی خوش قسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ کچھ سرپھرے لوگ جان ہتھیلی پر لے کر اس سڑے گلے ناکارہ استحصالی نظام کو تبدیل کرنے کے عزم مصمم کے ساتھ اسلام آباد کے ڈی چوک میں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ پاکستان ہی کی تاریخ کا نہیں بلکہ یہ دھرنا دنیا کی سیاسی تاریخ کا منفرد واقعہ ہے کہ 25،20 ہزار لوگ جن میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے، دو ماہ سے اس شاہراہ دستور پر پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں جس کے تقدس کی قسمیں کھائی جاتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی طویل مدت سے یہ لوگ یہاں کیا محض تفریح کے لیے بیٹھے ہیں؟ ہماری سیاسی ایلیٹ اس دھرنے کی اہمیت کم کرنے کے لیے اس کا طرح طرح سے مذاق اڑا رہی ہے، اس کے خلاف طرح طرح کے الزام لگا کر عوام میں اسے بدنام کرنے، اس کی اہمیت کم کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہی ہے۔
خیال یہ تھا کہ عید کی وجہ سے دھرنے کے شرکا میں بے چینی اور انتشار پیدا ہوجائے گا اور شرکا عید منانے اپنے گھروں پر جانے کے لیے اصرار کریں گے ۔ یوں یہ تاریخ کی طویل ترین تحریک اپنی موت آپ مر جائے گی لیکن ایسا کچھ نہ ہوا ۔ دھرنے کے شرکا نے ڈی چوک اور شاہراہ دستور پر ہی عید منائی اور ان لوگوں کی نیک خواہشوں کو ناکام بنادیا جو دھرنے کی معنویت اور گہرے مضمرات سے سہمے ہوئے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دھرنا شروع کرنے سے پہلے دھرنے کی قیادت کرنے والوں نے شاید اس کی پوری طرح منصوبہ بندی نہیں کی، نہ کوئی واضح حکمت عملی طے کی لیکن ان کمزوریوں کے باوجود دو ماہ کے لگ بھگ عرصے تک عوام مردوں، عورتوں اور بچوں کا نامساعد حالات اور موسم کے باوجود دھرنے پر بیٹھنے کا مطلب یہی ہوسکتاہے کہ شرکا اپنی 67 سالہ عذاب ناک زندگی کو بدلنا چاہتے ہیں ۔
اس سے پہلے کہ ہم اس دھرنے یا تحریک کی حمایت یا مخالفت پر نظر ڈالیں اس بات کا جائزہ لینا ضروری سمجھتے ہیں کہ دھرنے والے جس گلے سڑے کرپٹ ترین نظام کی تبدیلی کا مطالبہ کررہے ہیں کیا وہ درست اور جائز ہے؟ اس سوال کے جواب پر نظر ڈالی جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ اہل سیاست ، اہل خرد، اہل دانش، اہل قلم اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کی بھاری اکثریت اس بات سے اتفاق کرتی نظر آتی ہے کہ 67 سال کے دوران کوئی حکومت ڈلیور نہیں کرسکی یعنی عوام کے مسائل حل نہیں کرسکی ۔ اس بات کا رونا بھی سب ہی رو رہے ہیں کہ جمہوریت کی پوری تاریخ لوٹ مار سے عبارت ہے ۔
اس بات پر بھی کسی کو اختلاف نہیں کہ جمہوریت کے نام پر چند خاندان سیاست اور اقتدار پر اپنے خونی پنجے گاڑھے ہوئے ہیں ۔ اس بات کو بھی اہل علم، اہل قلم تسلیم کرتے ہیں کہ حکومت پر کام میرٹ کے بجائے اپنی پسند نا پسند سے کررہی ہے ۔ اس بات پر بھی اتفاق رائے پایاجاتاہے کہ ہر آنے والی حکومت، ہر جانے والی حکومت سے زیادہ بدعنوان ثابت ہوتی رہی ہے ۔ اس بات پر بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہورہا ہے ، اس حقیقت سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ عوام کا اربوں، کھربوں روپیہ غیر ملکی بینکوں میں موجود ہے ۔
تو پھر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ایسے بد ترین نظام کو ختم ہونا چاہیے یا نہیں؟ اگر ختم ہونا چاہیے تو پھر اسے باقی رکھنے کی ''ماہرانہ'' کوششیں کیوں کی جارہی ہیں، کیوں کہ حکمرانوں کو یہ مشورے دیے جارہے ہیں کہ وہ فلاں اقدام کرے، فلاں اصلاح کرے، بلدیاتی الیکشن کا اعلان کردے تاکہ دھرنے والے اس الیکشن میں مصروف ہوجائیں اور ان کی توجہ دھرنوں، جلسوں سے ہٹ جائے ۔ ہوسکتاہے یہ مشورے دیانت پر مبنی ہوں لیکن لگتا یہی ہے کہ اس قسم کے مشوروں کا مطلب اس کرپٹ اور نا اہل ترین حکومت کو سانس لینے کا موقع فراہم کرنا ہی ہوسکتاہے ۔ اگر اس حکومت میں وہ ساری برائیاں موجود ہیں جن کا سرسری ذکر ہم نے اوپر کیا ہے اور حکومت کو اصلاح کا مشورہ دینے والے بھی جب ان برائیوں کو تسلیم کررہے ہیں تو پھر اس حکومت کی خیر خواہی کا مطلب کیا ہے؟
دنیا بھر میں جمہوریت کا مطلب رائے عامہ کی برتری مانا جاتا ہے ۔ دھرنے والوں پر یہ اعتراض تھا کہ 20 کروڑ کی آبادی میں 25،20 ہزار عوام کا احتجاج کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ بالکل درست اعتراض ہے لیکن تحریک انصاف نے کراچی، لاہور، میانوالی، ملتان وغیرہ میں جلسے کر کے یہ ثابت کردیا ہے کہ اس ملک کے 20 کروڑ عوام اس ظالمانہ نظام کو ہر قیمت پر بدلنا چاہتے ہیں ۔ ان جلسوں میں لاکھوں انسان اپنی ٹرانسپورٹ، اپنی مرضی سے اپنے بال بچوں کے ساتھ آئے۔
کیا جمہوریت اور نظام کی تبدیلی کی خواہش کا اس سے بڑا کوئی ثبوت ہوسکتاہے؟ ہمارے انتخابی نظام کی تاریخ میں عموماً 40،50 فی صد لوگ ووٹ ڈالنے آتے ہیں ان میں بھی آدھے سے زیادہ جعلی ووٹر اور ووٹ ہوتے ہیں اس انتخابات کو ہماری سیاسی ایلیٹ عوام کے مینڈیٹ کا نام دے کر 5 سال تک عوام کا خون چوسنے کو جمہوریت کا نام دیتی ہے۔ کیا یہ جمہوریت ہے؟
اب یہ بات طے ہے کہ عوام کا حکومت ہی نہیں اس پورے نظام پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے اور اگر کسی اہل سیاست، اہل قلم کو اس میں کوئی شک ہے تو پھر یہ شک دور کرنے کا جمہوری طریقہ یہی رہ جاتا ہے کہ مڈ ٹرم الیکشن کروالیے جائیں، دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔ جب حکومت اور سسٹم اس قدر متنازعہ ہوجائے تو اس کا جمہوری حل یہی رہ جاتا ہے کہ عوام سے دوبارہ رجوع کیاجائے ۔ اس منطقی طریقہ کار کے بجائے اگر ہم بڑے خلوص سے عوام کی مسترد کردہ حکومت کو حکومت بچانے کے مخلصانہ اور قیمتی مشورے دیں تو کیا عوام ہمارے خلوص کو تسلیم کرلیں گے؟ کیا عوام ہماری ان مخلصانہ مشوروں کو بد نیتی اور بد دیانتی سے تعبیر نہیں کریں گے؟ اگر حکومت ڈیلیور نہیں کرسکی تو پھر اس کی جگہ کوئی اور حکومت آنا چاہیے اور عوام کے ووٹوں، عوام کی مرضی سے آنا چاہیے ۔
اگرچہ موجودہ بحران کا واحد حل یہی ہے کہ ملک میں مڈٹرم الیکشن ہوں ۔ ہمیں حیرت ہے کہ ایک بڑے سیاسی رہنما اور قائد حزب اختلاف نے ٹی وی پر کہاکہ ''وزیراعظم خود مڈٹرم الیکشن کا اعلان کریں'' لیکن حیرت کا مقام ہے کہ محض سیاسی مصلحتوں، سیاسی مفادات کی خاطر اپنے ہی بیان کی غلط تاویلیں پیش کی گئیں اور یہ کہا گیا کہ ہمارے کہنے کا مطلب ہرگز مڈٹرم الیکشن نہ تھا۔ کیا سیاست دانوں میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات پر ڈٹے رہیں۔
اصل مسئلہ محض مڈ ٹرم الیکشن کا ہی نہیں ہے بلکہ مڈ ٹرم الیکشن سے پہلے ان اصلاحات کا ہے جس کا مطالبہ عمران خان اور طاہر القادری کررہے ہیں ۔ یعنی زرعی اصلاحات ،انتخابی اصلاحات، الیکشن کمیشن کی از سر نو تشکیل، بلدیاتی انتخابات اور کرپٹ رہنماؤں کا احتساب۔ ان اصلاحات کے بغیر مڈ ٹرم الیکشن بے معنی اور غیر منطقی ہیں۔ اگر اہل دانش، اہل قلم نظام کو بہتر بنانے کے لیے نظام کی تبدیلی کے بجائے حکومت کو چند اصلاحات کا مشورہ دیتے ہیں تو یہ عوام دوستی نہیں ہوسکتی ۔