بات کچھ اِدھر اُدھر کی ریویو آپریشن زیرو ٹو ون
یہ فلم ایک سنجیدہ موضوع پر مبنی ہے لہذا اسے دیکھنے کے لئے تفریح سے زیادہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت درکار ہے۔
مانا کہ اب سینما کا وہ دور اس طرح نہیں رہا کہ جب لوگ ٹکٹ گھر پر لڑ جھگڑ رہے ہوتے تھے کہ ان سے پہلے کوئی اور ٹکٹ نہ لے جائے ۔مگر سینما ہال کا ایک سحر آج بھی فلم بینوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے کہ اگر ان کے سامنے میعاری اور با مقصد فلمز رکھی جائیں تو لوگوں کی ایک اچھی تعداد ٹکٹ کاؤنٹرز پرقطار باندھے دکھائی دیتی ہیں۔ اس بار عید پر تین فلمیں نا معلوم افراد، ایہہ کڑی لینی اے اور آپریشن زیرو ٹو ون ریلیز ہوئیں یا زبردستی کر دی گئیں اس کا فیصلہ تو آپ کوئی بھی ایک فلم دیکھ کر سکتے ہیں۔ البتہ اس بار فلم بینوں کے سامنے چوائس رکھ دی گئی تھی کہ وہ مزاح، تھرلر اور روایتی پنجابی فلم میں سے کسی ایک کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
میں ٹکٹ لئے ان لوگوں میں شامل تھا جو آج بھی اس امید پر پاکستانی فلم دیکھنا پسند کرتے ہیں کہ شاید اب کی بار کچھ اچھا دیکھنے کو ملے یا حادثاتی طور پر ہی فلمساز سے انجانے میں اچھی فلم بن گئی ہو۔جب میں نے آپریشن زیرو ٹو ون کا انتخاب کیا تومیں مایوس نہیں ہوا ۔اب آتے ہیں فلم کی طرف جو افغانستان میں چھپے کھربوں ڈالر کی معدینات اور اس کی ساری تفصیلات جو کہ ایک چپ میں موجود ہیں اس کے گرد گھومتی ہے۔ایوب کھوسو(عبداللہ) اس سازش کو بے نقاب کرنا چاہتے ہیں اور اسی سلسلے میں وہ اپنے ایک دوست کاشف صدیقی (شان) کی مدد حاصل کرتا ہے ۔کاشف ایک غیر ملکی ایجنسی کی ڈبل گیم کا شکار ہوکر ادارے سے نکالا ہوا آفیسر ہوتا ہے ، اسی گیم میں اس کی بیوی بھی ماری جاتی ہے۔
ایجنسی والے عبداللہ کو اٹھا کر لے جاتے ہیں لیکن تشدد کے باوجود وہ انہیں چپ کے بارے میں نہیں بتاتا ۔جس کے بعد ایجنسی والے کاشف کی تلاش شروع کر دیتے ہیں اور روایتی فلمز کی طرح اس کے بچوں کو ڈھال بنا کر وہ چپ حاصل کربھی لیتے ہیں مگر وہ جعلی نکلتی ہے۔عبداللہ اور کاشف اپنی اپنی سرزمین کو دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں اوراسی لئے ایک پر امن سرزمین کا خواب دیکھتے ہیں۔
فوٹو؛ آپریشن زیرو ٹو ون فیس بک پیج
لیکن ہمارے معاشرے میں فلمز کا جو روایتی تصور ہے اس کے معیار پر شاید یہ فلم پوری نہ اتر پائے، کیونکہ نہ ہی اس فلم میں ہیرو گنڈاسا اور کلاشنکوف لئے گھوڑے پر سوار چار سو بھاگتا اور تباہی پھیلاتا دکھائی نہیں دیتا اور نہ ہی اس میں بے موقع گانے ہیں ،اور خاص طور پر ایک بارش والا گانا بھی جو جانے کس ضرورت کے تحت ہمیشہ پکچر ائز کرایا جاتا ہے۔
اس فلم میں ایوب کھوسو، حمید شیخ،آمنہ شیخ، ایمان علی، شمعون عباسی، ایاز سمو، گوہر رشید اور دانیال راحیل نے عمدہ اداکاری کا مظاہرہ کیا ہے۔فلم شائیقین میں زیادہ مقبول نہ ہونے کی ایک وجہ اس کی ریلیز ٹائمنگ بھی ہوسکتی ہے۔ ایک تو ویسے ہی عید کے دن لوگ گوشت کھا کھا کر خماری کیفیت میں ہوتے ہیں اور وہ صرف تفریح اور مزاح کی خواہش لئے فلم دیکھنے سینما ہال جاتے ہیں۔ چونکہ یہ فلم ایک سنجیدہ موضوع پر مبنی ہے لہذا اسے دیکھنے کے لئے تفریح سے زیادہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت درکار ہے۔
فوٹو؛ آپریشن زیرو ٹو ون فیس بک پیج
اس فلم کی لوکیشنز، ڈائیلاگز اور اداکاروں کے تاثرات بہت عمدہ ہیں۔ آمنہ شیخ نے نتاشا(ایجنٹ) کا کردار بہت خوبی سے ادا کیا۔مگر ساری فلمز میں ایوب کھوسو اور شان چھائے رہے ہیں۔ جامی اور سمر نکس کی ڈائریکشن، زیبا بختیار، اذان سمی خان کی پروڈکشن، جامی ، سمر نکس، اذان سمی خان اور جوئے ٹوؤن کی لکھی ہوئی فلم پر پختہ اداکاروں نے اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔
فوٹو؛ آپریشن زیرو ٹو ون فیس بک پیج
اگر یہ فلم عید سے ہٹ کر ریلیز ہوئی ہوتی تو شاید اچھا بزنس کرسکتی۔ یہ فلم پاکستان کی فلمی تاریخ میں جدت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ تبدیلی آئی ہے اور اب لوگوں کو بھی اس جدت کو اپنانا ہوگا۔جبکہ اس فلم نے پاکستان سے ہٹ کر دوسرے ممالک میں بہت اچھا بزنس کیا ہے
یہ فلم اس حقیقت پر مبنی ہے کہ افغانستان میں معدینات کا بیش بہا خزانہ بھی ہے اور ساتھ ہی یہ گریٹ گیم بھی باآسانی سمجھ آتا ہے کہ ممالک میں بد امنی اور دہشت کا ماحول کس لئے قائم رکھا جاتا ہے۔ جنگ کے اور بھی بہت سے مقاصد ہو سکتے ہیں لیکن اس صدی کا سچ یہ ہے کہ اصل جنگیں اور سیاست وسائل کی بنیاد پر ہی کی جارہی ہیں اور اسی طرح کی جاتی رہیں گی۔
فوٹو؛ آپریشن زیرو ٹو ون فیس بک پیج
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
میں ٹکٹ لئے ان لوگوں میں شامل تھا جو آج بھی اس امید پر پاکستانی فلم دیکھنا پسند کرتے ہیں کہ شاید اب کی بار کچھ اچھا دیکھنے کو ملے یا حادثاتی طور پر ہی فلمساز سے انجانے میں اچھی فلم بن گئی ہو۔جب میں نے آپریشن زیرو ٹو ون کا انتخاب کیا تومیں مایوس نہیں ہوا ۔اب آتے ہیں فلم کی طرف جو افغانستان میں چھپے کھربوں ڈالر کی معدینات اور اس کی ساری تفصیلات جو کہ ایک چپ میں موجود ہیں اس کے گرد گھومتی ہے۔ایوب کھوسو(عبداللہ) اس سازش کو بے نقاب کرنا چاہتے ہیں اور اسی سلسلے میں وہ اپنے ایک دوست کاشف صدیقی (شان) کی مدد حاصل کرتا ہے ۔کاشف ایک غیر ملکی ایجنسی کی ڈبل گیم کا شکار ہوکر ادارے سے نکالا ہوا آفیسر ہوتا ہے ، اسی گیم میں اس کی بیوی بھی ماری جاتی ہے۔
ایجنسی والے عبداللہ کو اٹھا کر لے جاتے ہیں لیکن تشدد کے باوجود وہ انہیں چپ کے بارے میں نہیں بتاتا ۔جس کے بعد ایجنسی والے کاشف کی تلاش شروع کر دیتے ہیں اور روایتی فلمز کی طرح اس کے بچوں کو ڈھال بنا کر وہ چپ حاصل کربھی لیتے ہیں مگر وہ جعلی نکلتی ہے۔عبداللہ اور کاشف اپنی اپنی سرزمین کو دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں اوراسی لئے ایک پر امن سرزمین کا خواب دیکھتے ہیں۔
فوٹو؛ آپریشن زیرو ٹو ون فیس بک پیج
لیکن ہمارے معاشرے میں فلمز کا جو روایتی تصور ہے اس کے معیار پر شاید یہ فلم پوری نہ اتر پائے، کیونکہ نہ ہی اس فلم میں ہیرو گنڈاسا اور کلاشنکوف لئے گھوڑے پر سوار چار سو بھاگتا اور تباہی پھیلاتا دکھائی نہیں دیتا اور نہ ہی اس میں بے موقع گانے ہیں ،اور خاص طور پر ایک بارش والا گانا بھی جو جانے کس ضرورت کے تحت ہمیشہ پکچر ائز کرایا جاتا ہے۔
اس فلم میں ایوب کھوسو، حمید شیخ،آمنہ شیخ، ایمان علی، شمعون عباسی، ایاز سمو، گوہر رشید اور دانیال راحیل نے عمدہ اداکاری کا مظاہرہ کیا ہے۔فلم شائیقین میں زیادہ مقبول نہ ہونے کی ایک وجہ اس کی ریلیز ٹائمنگ بھی ہوسکتی ہے۔ ایک تو ویسے ہی عید کے دن لوگ گوشت کھا کھا کر خماری کیفیت میں ہوتے ہیں اور وہ صرف تفریح اور مزاح کی خواہش لئے فلم دیکھنے سینما ہال جاتے ہیں۔ چونکہ یہ فلم ایک سنجیدہ موضوع پر مبنی ہے لہذا اسے دیکھنے کے لئے تفریح سے زیادہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت درکار ہے۔
فوٹو؛ آپریشن زیرو ٹو ون فیس بک پیج
اس فلم کی لوکیشنز، ڈائیلاگز اور اداکاروں کے تاثرات بہت عمدہ ہیں۔ آمنہ شیخ نے نتاشا(ایجنٹ) کا کردار بہت خوبی سے ادا کیا۔مگر ساری فلمز میں ایوب کھوسو اور شان چھائے رہے ہیں۔ جامی اور سمر نکس کی ڈائریکشن، زیبا بختیار، اذان سمی خان کی پروڈکشن، جامی ، سمر نکس، اذان سمی خان اور جوئے ٹوؤن کی لکھی ہوئی فلم پر پختہ اداکاروں نے اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔
فوٹو؛ آپریشن زیرو ٹو ون فیس بک پیج
اگر یہ فلم عید سے ہٹ کر ریلیز ہوئی ہوتی تو شاید اچھا بزنس کرسکتی۔ یہ فلم پاکستان کی فلمی تاریخ میں جدت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ تبدیلی آئی ہے اور اب لوگوں کو بھی اس جدت کو اپنانا ہوگا۔جبکہ اس فلم نے پاکستان سے ہٹ کر دوسرے ممالک میں بہت اچھا بزنس کیا ہے
یہ فلم اس حقیقت پر مبنی ہے کہ افغانستان میں معدینات کا بیش بہا خزانہ بھی ہے اور ساتھ ہی یہ گریٹ گیم بھی باآسانی سمجھ آتا ہے کہ ممالک میں بد امنی اور دہشت کا ماحول کس لئے قائم رکھا جاتا ہے۔ جنگ کے اور بھی بہت سے مقاصد ہو سکتے ہیں لیکن اس صدی کا سچ یہ ہے کہ اصل جنگیں اور سیاست وسائل کی بنیاد پر ہی کی جارہی ہیں اور اسی طرح کی جاتی رہیں گی۔
فوٹو؛ آپریشن زیرو ٹو ون فیس بک پیج
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔