پیپلزپارٹی… نظریہ اور عمل
عمران خان نے تو پشاور میں شوکت خانم کینسر اسپتال بنایا ہے‘ اب اس کے مقابلے میں بلاول ہاؤس کیسا لگے گا۔
جناب آصف علی زرداری نے فرمایا ہے کہ پشاور میں بھی بلاول ہاؤس بنے گا' اس کے لیے 5کنال اراضی کی تجویز پیش ہوئی لیکن اسے رد کر دیا گیا اور اب یہ 10ایکڑ پر تعمیر ہو گا۔مجھے یہ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی اور حیرت بھی۔ خوشی اس بات کی کہ چلو بلاول ہاؤس تعمیر ہونے سے پشاور والوں کو بھی یہ تسلی ہو جائے گی کہ وہ کراچی اور لاہور کے برابر آ گئے ہیں۔اس وجہ سے ان کا احساس محرومی دور ہو گا' ویسے اے این پی کے ہوتے احساس محرومی ہمیشہ رہے گا۔
حیرت اس بات پرہوئی کہ عمران خان نے تو پشاور میں شوکت خانم کینسر اسپتال بنایا ہے' اب اس کے مقابلے میں بلاول ہاؤس کیسا لگے گا' اس کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا تاہم میرے ایک دوست نے سوال کیا ہے کہ پشاور کا بلاول ہاؤس کوئی چیرٹی ادارہ ہو گا یا پارٹی سیکریٹریٹ یا ذاتی رہائش گاہ۔ میں اس کا کیا جواب دیتا' چپ رہا۔ ویسے لاہور والا بلاول ہاؤس تو نجی رہائش گاہ ہے پارٹی کی جائیداد نہیں ہے۔ جیسے رائیونڈ میں میاں صاحبان کی رہائش گاہیں ہیں جنھیں ان کے سیاسی مخالفین محلات کہتے ہیں۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف وہاں اکثر غیر ملکی مہمانوں اور اپنے پارٹی رہنماؤں کو بلاتے رہتے ہیںلیکن یہ مسلم لیگ ن کی ملکیت نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی رفاعی ادارے ہیں، میاں صاحبان کی ذاتی جائیدادیں ہیں۔بالکل اسی طرح جیسے اسلام آباد میں بنی گالا عمران خان کی ذاتی رہائش گاہ ہے'سنا ہے اس کا رقبہ بھی کئی ایکڑ ہے۔
یوں دیکھا جائے تو پشاور کا بلاول ہاؤس بھی نجی جائیداد ہی ہو گی' یہ الگ بات ہے کہ وہاں پارٹی کے اجلاس بھی ہوا کریں گے۔ ویسے میرا مشورہ ہے کہ اسے کسی اور نام سے منسوب کیا جانا چاہیے۔ بلاول پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں' پیپلز پارٹی کا منشور روٹی کپڑا اور مکان ہے اور وہ ملک کے غریب عوام کی نمایندہ ہے' پاکستان کے ترقی پسندوں کا پیپلز پارٹی سے رومانس رہا ہے' یہ رومانس کسی حد تک اب بھی موجود ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی مقبولیت و احترام بڑے بڑے گھر تعمیر کرنے کی وجہ سے نہیں بلکہ نظریے اور کمٹمنٹ کی وجہ سے تھا' پیپلز پارٹی کو فعال کرنے کے لیے پارٹی سیکریٹریٹ کو ترجیح دینی چاہیے نہ کہ کئی کئی ایکڑ پر مشتمل ذاتی رہائش گاہیں تعمیر کی جائیں۔یہ شاہانہ مزاج کی نشاندہی کرتا ہے جب کہ پیپلز پارٹی تو قائم ہی بادشاہتوں کے خاتمے کے لیے ہوئی تھی۔
رہا پارٹی لیڈروں کی رہائش کا مسئلہ تو اس کے لیے بھی پارٹی سیکریٹریٹ میں ہی رہائشی بلاک بنایا جا سکتا ہے جیسے جماعت اسلامی کے امیر لاہور آئیں تو منصورہ میں ہی رہائش اختیار کرتے ہیں۔بلکہ امیر جماعت کی مستقل رہائش گاہ ہی منصورہ میں ہوتی ہے ۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین کا رنگ عوامی ہونا چاہیے بڑی بڑی عمارتوں کے ساتھ ان کا نام منسوب ہونا' کوئی بڑائی کی بات نہیں۔ پشاور میں اگر کوئی عمارت بنانی ہے تو اسے پیپلز سیکریٹریٹ کا نام دیا جانا چاہیے ، بہر حال بڑے لوگوں کی بڑی باتیں ہوتی ہیں۔ حسرت موہانی کا ایک شعر یاد آرہا ہے؎
خرد کا نام جنوںرکھ د یا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
میرے ایک دوست نے زرداری صاحب کو پاکستانی سیاست کا بڑا سائنس دان قرار دیا ہے۔ پاکستانی سیاست میں انھوں نے مفاہمت کا جو کلچر پروان چڑھایا ہے' جیالوں کی سمجھ میں وہ ابھی تک نہیں آ رہا۔ جیالے بیچارے آج تک ضیاء الحق اور ان کی باقیات سے لڑتے آئے ہیں' وہ جاگیرداری، سرمایہ داری اور اجارہ داری کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرتے آ رہے ہیں' نظام میں تبدیلی ان کا نعرہ ہے' اسٹیٹس کو برقرار رکھنا پیپلز پارٹی کا منشور یا سیاسی کلچر کبھی نہیں رہا۔اب اچانک انھیں پتہ چلا کہ جو دیکھا خواب تھا' جو سمجھا سراب تھا' اصل دشمن تو تحریک انصاف ہے' جیالا پریشان ہے کہ ایک ایسی پارٹی جو حکومت میں ہی نہیں ہے' جس نے کسی جیالے پر تشدد کیا' کوڑے مارے نہ اسے جیل میں ڈالا' وہ اس کے خلاف میدان میں کیسے نکلے۔ یہ وہ معمہ ہے جس میں جیالا پھنسا ہوا ہے۔
جناب آصف زرداری عید سے پہلے لاہور تشریف لائے ہیں اور ان کا مقصد پنجاب میں پیپلز پارٹی کو دوبارہ وہی مقام دلانا ہے جو اسے ذوالفقار علی بھٹو اور پھر محترمہ بینظیر بھٹو کے دور میں حاصل تھا' اس مقصد کے لیے وہ کراچی میں ایک بڑا جلسہ عام منعقد کر رہے ہیں' کیسی خوبصورت سیاسی حکمت عملی ہے' پیپلز پارٹی کو مضبوط پنجاب میں بنانا ہے اور جلسہ کراچی میں کرناہے۔ پنجاب سے دو ٹرینیں ورکروں کو لے کر کراچی جائیں گی' سنا ہے کہ ان ٹرینوں کا کرایہ لگ بھگ 55 لاکھ روپے کے قریب ہے' ان کارکنوں کو کراچی میں ٹھہرانا بھی ہے' اس پر بھی خرچہ ہوگا' کوئی بات نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی جیسی ملک گیر سیاسی جماعت کے لیے اتنا خرچہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ بہر حال ایک بات یہ ہے کہ ملتان میں جاوید ہاشمی کے خلاف الیکشن لڑنے والا عامر ڈوگر پیپلز پارٹی چھوڑ کر الیکشن لڑ رہا ہے' ایسا لگتا ہے کہ عامر ڈوگر نے جناب زرداری صاحب کی مفاہمتی پالیسی نہیں اپنائی' اب جنوبی پنجاب میں پارٹی کو مقبول بنانے کا سارا بوجھ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر آ گیا ہے۔
پیپلز پارٹی کی طاقت اس کا عوام دوست نظریہ و فلسفہ ہے۔ پیپلز پارٹی پاکستان میں لبرل ازم' عوام کی حاکمیت' اجارہ داریوں کے خاتمے کے لیے میدان عمل میں آئی تھی۔ پنجاب میں اس کی مقبولیت کی وجہ بھی یہی تھی کہ پیپلز پارٹی پاکستان کی واحد سیاسی جماعت تھی جس نے ڈنکے کی چوٹ پر سوشلزم کا نعرہ بلند کیا تھا' سوشلزم کا نام سرمایہ داروں' جاگیرداروں اور اجارہ داروں کے لیے خوف کی علامت تھا' اسی لیے پورے ملک کے رجعت پسند اکٹھے ہو گئے جب کہ پاکستان کے محروم' پسماندہ اور پسے ہوئے عوام پیپلز پارٹی کے کیمپ میں چلے آئے۔ ملک کے روشن ضمیر دانشوروں' شاعروں، ادیبوں اور اہل علم نے پیپلز پارٹی کا ترنگا اٹھا لیا ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں کسی سرمایہ دار، چوہدری ، جاگیردار یا نام نہاد الکٹیبلز کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے فکر و فلسفہ سے مضبوط و مقبول ہوئی' اسٹیبلشمنٹ سے اس کی لڑائی بھی یہی تھی ۔
پیپلز پارٹی کو دانشوروں' اہل علم اورعوام دوست حلقوں میں یہ تاثر نہیں دینا چاہیے کہ وہ اسٹیٹس کو کے خلاف لڑنے والی نہیں بلکہ اسٹیٹس کو برقرار رکھنے والی جماعت ہے' اسے اپنا مزاحمتی اور عوام دوست کردار بحال کرنا ہو گا' مفاہمت کی پالیسی اپنانی ہے تو پھر دھرنے والوں کو بھی گالی نہیں دینی چاہیے بلکہ ان سے بھی بات کرنا چاہیے۔عوام کے دکھوں پر دھیان دیں اور ان کے جذبات پڑھیں، ان کی بنیاد پر سیاسی حکمت عملی ترتیب دیں۔ عالی شان گھر تعمیر کرنے یا معافی مانگنے سے نظریاتی پارٹیاں کبھی مقبول نہیں ہوئیں' پیپلز پارٹی کی روح اس کا اینٹی فیوڈل' اینٹی کیپٹلسٹ نظریہ ہے' اگر یہ روح نکل جائے تو پھر اسے کوئی مقبول تو کیا زندہ بھی نہیں کر سکتا۔
حیرت اس بات پرہوئی کہ عمران خان نے تو پشاور میں شوکت خانم کینسر اسپتال بنایا ہے' اب اس کے مقابلے میں بلاول ہاؤس کیسا لگے گا' اس کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا تاہم میرے ایک دوست نے سوال کیا ہے کہ پشاور کا بلاول ہاؤس کوئی چیرٹی ادارہ ہو گا یا پارٹی سیکریٹریٹ یا ذاتی رہائش گاہ۔ میں اس کا کیا جواب دیتا' چپ رہا۔ ویسے لاہور والا بلاول ہاؤس تو نجی رہائش گاہ ہے پارٹی کی جائیداد نہیں ہے۔ جیسے رائیونڈ میں میاں صاحبان کی رہائش گاہیں ہیں جنھیں ان کے سیاسی مخالفین محلات کہتے ہیں۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف وہاں اکثر غیر ملکی مہمانوں اور اپنے پارٹی رہنماؤں کو بلاتے رہتے ہیںلیکن یہ مسلم لیگ ن کی ملکیت نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی رفاعی ادارے ہیں، میاں صاحبان کی ذاتی جائیدادیں ہیں۔بالکل اسی طرح جیسے اسلام آباد میں بنی گالا عمران خان کی ذاتی رہائش گاہ ہے'سنا ہے اس کا رقبہ بھی کئی ایکڑ ہے۔
یوں دیکھا جائے تو پشاور کا بلاول ہاؤس بھی نجی جائیداد ہی ہو گی' یہ الگ بات ہے کہ وہاں پارٹی کے اجلاس بھی ہوا کریں گے۔ ویسے میرا مشورہ ہے کہ اسے کسی اور نام سے منسوب کیا جانا چاہیے۔ بلاول پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں' پیپلز پارٹی کا منشور روٹی کپڑا اور مکان ہے اور وہ ملک کے غریب عوام کی نمایندہ ہے' پاکستان کے ترقی پسندوں کا پیپلز پارٹی سے رومانس رہا ہے' یہ رومانس کسی حد تک اب بھی موجود ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی مقبولیت و احترام بڑے بڑے گھر تعمیر کرنے کی وجہ سے نہیں بلکہ نظریے اور کمٹمنٹ کی وجہ سے تھا' پیپلز پارٹی کو فعال کرنے کے لیے پارٹی سیکریٹریٹ کو ترجیح دینی چاہیے نہ کہ کئی کئی ایکڑ پر مشتمل ذاتی رہائش گاہیں تعمیر کی جائیں۔یہ شاہانہ مزاج کی نشاندہی کرتا ہے جب کہ پیپلز پارٹی تو قائم ہی بادشاہتوں کے خاتمے کے لیے ہوئی تھی۔
رہا پارٹی لیڈروں کی رہائش کا مسئلہ تو اس کے لیے بھی پارٹی سیکریٹریٹ میں ہی رہائشی بلاک بنایا جا سکتا ہے جیسے جماعت اسلامی کے امیر لاہور آئیں تو منصورہ میں ہی رہائش اختیار کرتے ہیں۔بلکہ امیر جماعت کی مستقل رہائش گاہ ہی منصورہ میں ہوتی ہے ۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین کا رنگ عوامی ہونا چاہیے بڑی بڑی عمارتوں کے ساتھ ان کا نام منسوب ہونا' کوئی بڑائی کی بات نہیں۔ پشاور میں اگر کوئی عمارت بنانی ہے تو اسے پیپلز سیکریٹریٹ کا نام دیا جانا چاہیے ، بہر حال بڑے لوگوں کی بڑی باتیں ہوتی ہیں۔ حسرت موہانی کا ایک شعر یاد آرہا ہے؎
خرد کا نام جنوںرکھ د یا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
میرے ایک دوست نے زرداری صاحب کو پاکستانی سیاست کا بڑا سائنس دان قرار دیا ہے۔ پاکستانی سیاست میں انھوں نے مفاہمت کا جو کلچر پروان چڑھایا ہے' جیالوں کی سمجھ میں وہ ابھی تک نہیں آ رہا۔ جیالے بیچارے آج تک ضیاء الحق اور ان کی باقیات سے لڑتے آئے ہیں' وہ جاگیرداری، سرمایہ داری اور اجارہ داری کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرتے آ رہے ہیں' نظام میں تبدیلی ان کا نعرہ ہے' اسٹیٹس کو برقرار رکھنا پیپلز پارٹی کا منشور یا سیاسی کلچر کبھی نہیں رہا۔اب اچانک انھیں پتہ چلا کہ جو دیکھا خواب تھا' جو سمجھا سراب تھا' اصل دشمن تو تحریک انصاف ہے' جیالا پریشان ہے کہ ایک ایسی پارٹی جو حکومت میں ہی نہیں ہے' جس نے کسی جیالے پر تشدد کیا' کوڑے مارے نہ اسے جیل میں ڈالا' وہ اس کے خلاف میدان میں کیسے نکلے۔ یہ وہ معمہ ہے جس میں جیالا پھنسا ہوا ہے۔
جناب آصف زرداری عید سے پہلے لاہور تشریف لائے ہیں اور ان کا مقصد پنجاب میں پیپلز پارٹی کو دوبارہ وہی مقام دلانا ہے جو اسے ذوالفقار علی بھٹو اور پھر محترمہ بینظیر بھٹو کے دور میں حاصل تھا' اس مقصد کے لیے وہ کراچی میں ایک بڑا جلسہ عام منعقد کر رہے ہیں' کیسی خوبصورت سیاسی حکمت عملی ہے' پیپلز پارٹی کو مضبوط پنجاب میں بنانا ہے اور جلسہ کراچی میں کرناہے۔ پنجاب سے دو ٹرینیں ورکروں کو لے کر کراچی جائیں گی' سنا ہے کہ ان ٹرینوں کا کرایہ لگ بھگ 55 لاکھ روپے کے قریب ہے' ان کارکنوں کو کراچی میں ٹھہرانا بھی ہے' اس پر بھی خرچہ ہوگا' کوئی بات نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی جیسی ملک گیر سیاسی جماعت کے لیے اتنا خرچہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ بہر حال ایک بات یہ ہے کہ ملتان میں جاوید ہاشمی کے خلاف الیکشن لڑنے والا عامر ڈوگر پیپلز پارٹی چھوڑ کر الیکشن لڑ رہا ہے' ایسا لگتا ہے کہ عامر ڈوگر نے جناب زرداری صاحب کی مفاہمتی پالیسی نہیں اپنائی' اب جنوبی پنجاب میں پارٹی کو مقبول بنانے کا سارا بوجھ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر آ گیا ہے۔
پیپلز پارٹی کی طاقت اس کا عوام دوست نظریہ و فلسفہ ہے۔ پیپلز پارٹی پاکستان میں لبرل ازم' عوام کی حاکمیت' اجارہ داریوں کے خاتمے کے لیے میدان عمل میں آئی تھی۔ پنجاب میں اس کی مقبولیت کی وجہ بھی یہی تھی کہ پیپلز پارٹی پاکستان کی واحد سیاسی جماعت تھی جس نے ڈنکے کی چوٹ پر سوشلزم کا نعرہ بلند کیا تھا' سوشلزم کا نام سرمایہ داروں' جاگیرداروں اور اجارہ داروں کے لیے خوف کی علامت تھا' اسی لیے پورے ملک کے رجعت پسند اکٹھے ہو گئے جب کہ پاکستان کے محروم' پسماندہ اور پسے ہوئے عوام پیپلز پارٹی کے کیمپ میں چلے آئے۔ ملک کے روشن ضمیر دانشوروں' شاعروں، ادیبوں اور اہل علم نے پیپلز پارٹی کا ترنگا اٹھا لیا ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں کسی سرمایہ دار، چوہدری ، جاگیردار یا نام نہاد الکٹیبلز کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے فکر و فلسفہ سے مضبوط و مقبول ہوئی' اسٹیبلشمنٹ سے اس کی لڑائی بھی یہی تھی ۔
پیپلز پارٹی کو دانشوروں' اہل علم اورعوام دوست حلقوں میں یہ تاثر نہیں دینا چاہیے کہ وہ اسٹیٹس کو کے خلاف لڑنے والی نہیں بلکہ اسٹیٹس کو برقرار رکھنے والی جماعت ہے' اسے اپنا مزاحمتی اور عوام دوست کردار بحال کرنا ہو گا' مفاہمت کی پالیسی اپنانی ہے تو پھر دھرنے والوں کو بھی گالی نہیں دینی چاہیے بلکہ ان سے بھی بات کرنا چاہیے۔عوام کے دکھوں پر دھیان دیں اور ان کے جذبات پڑھیں، ان کی بنیاد پر سیاسی حکمت عملی ترتیب دیں۔ عالی شان گھر تعمیر کرنے یا معافی مانگنے سے نظریاتی پارٹیاں کبھی مقبول نہیں ہوئیں' پیپلز پارٹی کی روح اس کا اینٹی فیوڈل' اینٹی کیپٹلسٹ نظریہ ہے' اگر یہ روح نکل جائے تو پھر اسے کوئی مقبول تو کیا زندہ بھی نہیں کر سکتا۔