نوبل انعام اور بھارتی جارحیت
بھارت نے کنٹرول لائن پر منی جنگ کا آغاز کر کے پاک بھارت امن مذاکرات کے راستے بھی مسدود کر دیے
اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ لا تعداد گمبھیر مسائل اور آزمائشوں کے گرداب میں گھرے 18 کروڑ پاکستانیوں کے لیے یہ خبر خوشی و انبساط اور فخر کا باعث بنی ہے کہ پاکستان کی ایک بہادر، جرأت مند، پرعزم اور جواں ہمت بیٹی ملالہ یوسف زئی نے تنہا اپنی کوششوں، جدوجہد اور بچوں کے لیے تعلیمی میدان میں خدمات انجام دینے کے صلے میں دنیا کا سب سے بڑا اعزاز نوبل انعام جیت کر عالمی برادری کو یہ پیغام دیا ہے کہ اس کا ملک پاکستان اور اس کے 18 کروڑ عوام بین الاقوامی سطح پر امن کے حامی اور خواہاں ہیں اور ایک پر امن ملک کے طور پر اپنی شناخت برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کی امن کی خواہش کو سبوتاژ کرنے کے لیے بعض اندرونی و بیرونی عناصر دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو بدنام کرنے کی جو گھناؤنی سازشیں کر رہے ہیں اسے عوام اور ہماری بہادر فوج مل کر پوری قوت کے ساتھ ناکام بنا دینے کا نہ صرف عزم و یقین رکھتے ہیں بلکہ اس ضمن میں پاک فوج ضرب عضب جنگ کے ذریعے شمالی وزیرستان میں داخلی طور پر سرگرم دہشت گرد عناصر کو کچلنے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہی ہے، پوری قوم پاک فوج کی پشت پر سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہے، آرمی چیف جنرل راحیل شریف بارہا اپنے عزم کا برملا اظہار کر چکے ہیں کہ دہشت گردوں کا پورے ملک میں پیچھا کیا جائے گا اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک یہ مشن جاری رہے گا۔ شمالی وزیرستان کے ہیڈ کوارٹر میران شاہ میں وزیر اعظم میاں نواز شریف نے فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے آپریشن ضرب عضب کو ملکی بقا کی جنگ قرار دیا جو آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی قیادت میں وطن عزیز کے تحفظ، بہتر اور پرامن مستقبل کے لیے لڑی جارہی ہے۔
بات قوم کی قابل فخر بیٹی ملالہ کی ہو رہی ہے جو بچوں کی تعلیم بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم کے حصول میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی خواہاں ہے جو لڑکیوں اور عورتوں کو اپنے روایتی معاشرے کی دقیانوسی سوچ سے آزاد کرا کے 21 ویں صدی کے تقاضوں کے مطابق زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی آرزومند ہے۔ جو اپنے قبائلی رسم و رواج کے بوسیدہ خیالات کو جدید و ترقی یافتہ اپروچ سے ہم آہنگ کرنا اپنا اخلاقی، سماجی اور قومی فرض سمجھتی ہے، ملالہ کی اسی سوچ و آواز کو خاموش کرنے کے لیے 9 اکتوبر 2012ء کو دہشت گرد عناصر نے اسے گولیوں کا نشانہ بنایا جس میں وہ شدید زخمی ہو گئی۔
ابتدائی علاج کے بعد اسے برمنگھم کے ''کوئن الزیبتھ اسپتال'' برطانیہ میں داخل کروا دیا گیا پوری دنیا میں ملالہ کی صحت یابی کے لیے کروڑوں لڑکیوں نے بچوں اور خواتین و بزرگوں نے دعائیں مانگی۔ اس کے کاز کے حق میں مظاہرے کیے گئے اور ریلیاں نکالی گئیں، صحت یابی کے بعد ملالہ پھر سے اپنی جدوجہد میں مصروف ہو گئی اس کی کوششیں ثمر آور ثابت ہوئیں اور بالآخر وہ امن کا نوبل انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی اور علم دشمن دہشت گرد عناصر کو یہ پیغام دیا کہ اس کے بلند حوصلے اور عزم و یقین کو بارود کے شعلے بھی متزلزل نہیں کر سکتے۔ ملالہ پاکستان کی دوسری شخصیت ہے جسے نوبل انعام کا حق دار قرار دیا گیا اس سے قبل فزکس کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دینے پر پاکستان کے مایہ ناز سپوت اور سرمایہ افتخار ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔
ملالہ یوسف زئی کو امن کا نوبل انعام بھارت کے کیلاش سیتارتھی کے ہمراہ مشترکہ طور پر دیا گیا ہے، کیلاش کو یہ انعام چائلڈ لیبر اور نوجوانوں کے استحصال کے خلاف جدوجہد کرنے کے اعتراف میں دیا گیا ہے، کیلاش کو نوبل انعام کا حق دار قرار دینا بھارتی عوام کے لیے بھی یقینا خوشی کا مقام ہے لیکن دیکھنے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کی دو شخصیات کو امن کا نوبل انعام ایک ایسے موقع پر دیا جا رہا ہے کہ ایک طرف تو پاکستان عالمی امن کے لیے بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی کوششوں میں شامل اور عالمی برادری کا ہم آواز ہے اور دہشت گردی کے خلاف اور قیام امن کے لیے جاری جنگ میں دنیا کے ساتھ کھڑا ہے جب کہ دوسری طرف اس کا پڑوسی ملک بھارت کنٹرول لائن پر جارحانہ کارروائیاں کر کے جنوبی ایشیا کے امن کو سبوتاژ کرنے کی سازشیں کر رہا ہے۔
جس کا مقصد یہ ہے کہ بھارت کی سیاسی و فوجی قیادت اپنے قابل فخر سپوت کیلاش ستیارتھی کی امن کی کوششوں اور اس کے نوبل انعام کو نظر انداز کرنے پر تلی بیٹھی ہے یہی وجہ ہے کہ بھارتی فوج گزشتہ کئی دنوں سے آزاد کشمیر اور سیالکوٹ کے مختلف سرحدی علاقوں سے متصل گاؤں، دیہات پر تسلسل کے ساتھ بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں اب تک 20 سے زائد بے گناہ دیہاتی شہید جب کہ درجنوں زخمی ہو چکے ہیں اور سیکڑوں کی تعداد میں ان کے مال مویشی ہلاک ہو چکے ہیں، مکانات، اسکول، بازار سب ملبے کا ڈھیر بن گئے اگرچہ سرحدوں پر تعینات پاک فوج کے بہادر جوان بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دے رہے ہیں اس کے باوجود وقفے وقفے سے بھارتی فوجی کنٹرول لائن کی خلاف ورزیاں کر کے جنگی ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
دراصل بھارت کی نئی سیاسی و عسکری قیادت اول دن ہی سے مسلم دشمن اور پاکستان مخالفت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور تنازعہ کشمیر پر پاکستانی موقف کو کمزور کرنے اس کی توجہ اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہٹانے کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوششیں کر رہی ہے، کنٹرول لائن کی خلاف ورزیاں اسی سلسلے کی کڑی ہیں، پاکستان نے تو اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کو جنگ بندی کی بھارتی خلاف ورزیوں سے آگاہ کرنے کے لیے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرا دیا ہے لیکن بھارت ایسا کرنے سے مسلسل انکاری ہے جس سے اس کے دل کا چور ظاہر ہو گیا ہے۔ بھارت خبردار رہے کہ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت اور 18 کروڑ عوام بھارت کے ناپاک عزائم خاک چٹانے کے لیے اپنے تمام تر اختلافات بھلا کر مقابلے کے لیے پوری طرح تیار ہیں، بھارت ہماری خواہش امن کو کمزوری سمجھ کر جو غلطی کر رہا ہے اس کا بھی اندازہ نہیں ہے۔ ملک کو درپیش تازہ صورت حال کے پیش نظر وزیر اعظم نواز شریف کی قیادت میں فوجی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس ہوا ۔
جس میں فیصلہ کیا گیا کہ ملکی سلامتی کو درپیش خطرات ختم کرنے کے لیے بھارت کو پوری قوت سے جواب دیا جائے گا، خطے میں بھارتی اجارہ داری کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی، اجلاس میں کنٹرول لائن پر حالیہ بھارتی جارحیت کو سفارتی سطح پر بھی اٹھانے اور عالمی برادری کو بھارتی عزائم سے آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بھارت نے کنٹرول لائن پر منی جنگ کا آغاز کر کے پاک بھارت امن مذاکرات کے راستے بھی مسدود کر دیے، عالمی برادری کو بھارتی جارحیت اور خطے کے امن کو سبوتاژ کرنے کی اشتعال انگیزی کا نوٹس لینا چاہیے۔
پاکستان کی امن کی خواہش کو سبوتاژ کرنے کے لیے بعض اندرونی و بیرونی عناصر دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو بدنام کرنے کی جو گھناؤنی سازشیں کر رہے ہیں اسے عوام اور ہماری بہادر فوج مل کر پوری قوت کے ساتھ ناکام بنا دینے کا نہ صرف عزم و یقین رکھتے ہیں بلکہ اس ضمن میں پاک فوج ضرب عضب جنگ کے ذریعے شمالی وزیرستان میں داخلی طور پر سرگرم دہشت گرد عناصر کو کچلنے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہی ہے، پوری قوم پاک فوج کی پشت پر سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہے، آرمی چیف جنرل راحیل شریف بارہا اپنے عزم کا برملا اظہار کر چکے ہیں کہ دہشت گردوں کا پورے ملک میں پیچھا کیا جائے گا اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک یہ مشن جاری رہے گا۔ شمالی وزیرستان کے ہیڈ کوارٹر میران شاہ میں وزیر اعظم میاں نواز شریف نے فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے آپریشن ضرب عضب کو ملکی بقا کی جنگ قرار دیا جو آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی قیادت میں وطن عزیز کے تحفظ، بہتر اور پرامن مستقبل کے لیے لڑی جارہی ہے۔
بات قوم کی قابل فخر بیٹی ملالہ کی ہو رہی ہے جو بچوں کی تعلیم بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم کے حصول میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی خواہاں ہے جو لڑکیوں اور عورتوں کو اپنے روایتی معاشرے کی دقیانوسی سوچ سے آزاد کرا کے 21 ویں صدی کے تقاضوں کے مطابق زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی آرزومند ہے۔ جو اپنے قبائلی رسم و رواج کے بوسیدہ خیالات کو جدید و ترقی یافتہ اپروچ سے ہم آہنگ کرنا اپنا اخلاقی، سماجی اور قومی فرض سمجھتی ہے، ملالہ کی اسی سوچ و آواز کو خاموش کرنے کے لیے 9 اکتوبر 2012ء کو دہشت گرد عناصر نے اسے گولیوں کا نشانہ بنایا جس میں وہ شدید زخمی ہو گئی۔
ابتدائی علاج کے بعد اسے برمنگھم کے ''کوئن الزیبتھ اسپتال'' برطانیہ میں داخل کروا دیا گیا پوری دنیا میں ملالہ کی صحت یابی کے لیے کروڑوں لڑکیوں نے بچوں اور خواتین و بزرگوں نے دعائیں مانگی۔ اس کے کاز کے حق میں مظاہرے کیے گئے اور ریلیاں نکالی گئیں، صحت یابی کے بعد ملالہ پھر سے اپنی جدوجہد میں مصروف ہو گئی اس کی کوششیں ثمر آور ثابت ہوئیں اور بالآخر وہ امن کا نوبل انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی اور علم دشمن دہشت گرد عناصر کو یہ پیغام دیا کہ اس کے بلند حوصلے اور عزم و یقین کو بارود کے شعلے بھی متزلزل نہیں کر سکتے۔ ملالہ پاکستان کی دوسری شخصیت ہے جسے نوبل انعام کا حق دار قرار دیا گیا اس سے قبل فزکس کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دینے پر پاکستان کے مایہ ناز سپوت اور سرمایہ افتخار ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔
ملالہ یوسف زئی کو امن کا نوبل انعام بھارت کے کیلاش سیتارتھی کے ہمراہ مشترکہ طور پر دیا گیا ہے، کیلاش کو یہ انعام چائلڈ لیبر اور نوجوانوں کے استحصال کے خلاف جدوجہد کرنے کے اعتراف میں دیا گیا ہے، کیلاش کو نوبل انعام کا حق دار قرار دینا بھارتی عوام کے لیے بھی یقینا خوشی کا مقام ہے لیکن دیکھنے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کی دو شخصیات کو امن کا نوبل انعام ایک ایسے موقع پر دیا جا رہا ہے کہ ایک طرف تو پاکستان عالمی امن کے لیے بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی کوششوں میں شامل اور عالمی برادری کا ہم آواز ہے اور دہشت گردی کے خلاف اور قیام امن کے لیے جاری جنگ میں دنیا کے ساتھ کھڑا ہے جب کہ دوسری طرف اس کا پڑوسی ملک بھارت کنٹرول لائن پر جارحانہ کارروائیاں کر کے جنوبی ایشیا کے امن کو سبوتاژ کرنے کی سازشیں کر رہا ہے۔
جس کا مقصد یہ ہے کہ بھارت کی سیاسی و فوجی قیادت اپنے قابل فخر سپوت کیلاش ستیارتھی کی امن کی کوششوں اور اس کے نوبل انعام کو نظر انداز کرنے پر تلی بیٹھی ہے یہی وجہ ہے کہ بھارتی فوج گزشتہ کئی دنوں سے آزاد کشمیر اور سیالکوٹ کے مختلف سرحدی علاقوں سے متصل گاؤں، دیہات پر تسلسل کے ساتھ بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں اب تک 20 سے زائد بے گناہ دیہاتی شہید جب کہ درجنوں زخمی ہو چکے ہیں اور سیکڑوں کی تعداد میں ان کے مال مویشی ہلاک ہو چکے ہیں، مکانات، اسکول، بازار سب ملبے کا ڈھیر بن گئے اگرچہ سرحدوں پر تعینات پاک فوج کے بہادر جوان بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دے رہے ہیں اس کے باوجود وقفے وقفے سے بھارتی فوجی کنٹرول لائن کی خلاف ورزیاں کر کے جنگی ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
دراصل بھارت کی نئی سیاسی و عسکری قیادت اول دن ہی سے مسلم دشمن اور پاکستان مخالفت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور تنازعہ کشمیر پر پاکستانی موقف کو کمزور کرنے اس کی توجہ اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہٹانے کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوششیں کر رہی ہے، کنٹرول لائن کی خلاف ورزیاں اسی سلسلے کی کڑی ہیں، پاکستان نے تو اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کو جنگ بندی کی بھارتی خلاف ورزیوں سے آگاہ کرنے کے لیے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرا دیا ہے لیکن بھارت ایسا کرنے سے مسلسل انکاری ہے جس سے اس کے دل کا چور ظاہر ہو گیا ہے۔ بھارت خبردار رہے کہ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت اور 18 کروڑ عوام بھارت کے ناپاک عزائم خاک چٹانے کے لیے اپنے تمام تر اختلافات بھلا کر مقابلے کے لیے پوری طرح تیار ہیں، بھارت ہماری خواہش امن کو کمزوری سمجھ کر جو غلطی کر رہا ہے اس کا بھی اندازہ نہیں ہے۔ ملک کو درپیش تازہ صورت حال کے پیش نظر وزیر اعظم نواز شریف کی قیادت میں فوجی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس ہوا ۔
جس میں فیصلہ کیا گیا کہ ملکی سلامتی کو درپیش خطرات ختم کرنے کے لیے بھارت کو پوری قوت سے جواب دیا جائے گا، خطے میں بھارتی اجارہ داری کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی، اجلاس میں کنٹرول لائن پر حالیہ بھارتی جارحیت کو سفارتی سطح پر بھی اٹھانے اور عالمی برادری کو بھارتی عزائم سے آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بھارت نے کنٹرول لائن پر منی جنگ کا آغاز کر کے پاک بھارت امن مذاکرات کے راستے بھی مسدود کر دیے، عالمی برادری کو بھارتی جارحیت اور خطے کے امن کو سبوتاژ کرنے کی اشتعال انگیزی کا نوٹس لینا چاہیے۔