پُرآشوب دور کا پُرعزم حکم راں

قائدِ ملت لیاقت علی خان کو بہ طور وزیرِاعظم بُحرانوں سے عہدہ برا ہونا پڑا

قائدِ ملت لیاقت علی خان کو بہ طور وزیرِاعظم بُحرانوں سے عہدہ برا ہونا پڑا۔ فوٹو: فائل

FAISALABAD:
پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کا دورِ حکومت چار سال اور دو ماہ کی مدت پر محیط ہے۔

انہوں نے 15 اگست 1947 کو وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا اور 16 اگست 1951 تک وہ اسی منصب پر فائز رہے۔ چار سال کی یہ مدت ایک پُرآشوب دور کی حیثیت رکھتی ہے، جس میں نوزائیدہ مملکتِ پاکستان تقسیمِ ہند کے بعد کے واقعات سے عہدہ برا ہورہی تھی۔ یہ ایک پُرآشوب دور تھا جس کی حشرسامانیاں تاریخ میں اپنی نظیر نہیں رکھتیں۔ پاکستان اپنے قیام پر ہی بقا کی آزمائش سے دوچار ہوچکا تھا۔ اسی دور میں ملک کے مستقبل کے خدوخال بھی کسی نہ کسی حد تک اُجاگر ہونا شروع ہوگئے تھے اور بعد کے برسوں میں پاکستان نے جن سیاسی بحرانوں کا مشاہدہ کیا، اُن کے ابتدائی نقوش بھی اسی دور میں نمایاں ہونے شروع ہوئے تھے۔ غرض چار سال کی اس مدت کو چند سطور میں سمیٹنا خاصا دشوار کام ہے۔

لیاقت علی خان کے حوالے سے یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد وزارتِ عظمیٰ کے منصب کے لیے قائداعظم کی نگاہ لیاقت علی خان پر جاکر ٹھہری۔ یہ بات بجائے خود اہم ہے، کیوںکہ اُس وقت مسلم لیگ میں بہت زیادہ نہ سہی چند ایک ایسے راہ نما اور بھی موجود تھے، جنہیں اس منصب کے لیے زیرِغور لایا جاسکتا تھا۔ مثلاً چوہدری خلیق الزماں اور حسین شہید سہروردی ایسے راہ نما تھے جنہوں نے ہندوستان کی سیاست میں اپنے لیے ایک مقام بنایا تھا اور خود مسلم لیگ کے لیے ان کی خدمات کچھ کم اہم نہیں تھیں۔

ہوسکتا ہے کہ قائداعظم نے ان ناموں پر بھی غور کیا ہو اور پھر اُن کا حتمی فیصلہ لیاقت علی خان کے حق میں رہا ہو۔ سیاست کی دنیا میں کسی بھی فیصلے کے حوالے سے دو آراء ہوسکتی ہیں، مثلاً آج یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر پاکستان کے پہلے وزیراعظم کے طور پر سہروردی کا انتخاب کیا جاتا تو شاید یہ ملک کے مستقبل کے نقطۂ نظر سے بہتر فیصلہ ہوتا۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم کا تقرر کرتے وقت قائداعظم نے کسی ایک یا دوسرے صوبے کی قیادت میں سے کسی کو منتخب کرنے کے بجائے مسلم لیگ کی مرکزی قیادت میں سے کسی کو منتخب کرنا پسند کیا۔

مسلم لیگ کے سیکریٹری کی حیثیت سے لیاقت علی خان، قائداعظم سے قریب بھی تھے اور دونوں میں اچھی ورکنگ ریلیشن شپ بھی موجود تھی۔ قائداعظم اُن کی تنظیمی صلاحیتوں اور خلوص کے بھی معترف تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خاصا عرصہ ساتھ کام کرنے کے نتیجے میں دونوں میں شخصی سطح پر ایک طرح کی ہم آہنگی اور باہمی مزاج شناسی بھی پیدا ہوگئی تھی، جو اُن کی آپس کی مراسلت سے بھی واضح ہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد کے تیرہ ماہ میں، جب کہ قائداعظم حیات تھے، اُس وقت تک ظاہر ہے کہ لیاقت علی خان کا کردار محض ثانوی نوعیت کا تھا۔ یہی نہیں بلکہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 اور قانونِ آزادیٔ ہند نے گورنر جنرل کو جو غیرمعمولی اختیارات دے رکھے تھے، اُن کی موجودگی میں ایک نام زد کردہ وزیراعظم، جس کا انتخاب بھی معروف پارلیمانی طریقے سے نہ ہوا ہو، ویسے بھی بے اختیار ہی ہوسکتا تھا۔

لیاقت علی خان کا سیاسی قد کاٹھ اُس وقت نکلا جب قائداعظم کی وفات کے بعد خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل کے منصب پر فائز ہوئے۔ ناظم الدین نے گورنر جنرل کے اختیارات کو صرف واجبی طور پر ہی استعمال کیا۔ بیوروکریسی میں کیوںکہ بنگال کا حصہ نہ ہونے کے برابر تھا، جب کہ گورنر جنرل کے اختیارات کا استعمال زیادہ تر بیوروکریسی کے ذریعے ہی ہوتا تھا، اس لیے بھی ناظم الدین زیادہ مؤثر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے اور یوں لیاقت علی خان کو زیادہ وسیع دائرۂ عمل میسر آگیا۔

لیاقت علی خان کے دور کا جائزہ لیں تو جو نمایاں ترین حقائق ہمارے سامنے آتے ہیں، اُن میں سرفہرست تقسیم ہند کے بعد کی بحرانی صورتِ حال تھی، جس سے انہیں عہدہ برا ہونا پڑا۔ تقسیم کے وقت کے فسادات، لاکھوں افراد کی نقل آبادی اور ہندوستان کے ساتھ اثاثوں کی تقسیم کے معاملات بہت زیادہ اعصابی قوت اور سیاسی سمجھ بوجھ کا تقاضا کرتے تھے۔ لیاقت علی خان کی حکومت اس بحران سے کسی نہ کسی طور پر نکلنے میں کام یاب ہوگئی۔ اس ضمن میں نہرو سے اُن کی ملاقاتیں اہمیت کی حامل تھیں، جن میں تقسیم کے بعد کے بعض پیچیدہ مسئلوں کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کیا گیا۔



ملک میں انتظامی ڈھانچے کی تعمیر، پاکستان کے بیرونی ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات کا قیام اور ملک میں بنیادی اقتصادی اداروں کا قیام اُن کی حکومت کے چند ایک ایسے کام تھے، جن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیاقت علی خان کو ایک اور بڑا مسئلہ کشمیر کی جنگ کی صورت میں درپیش ہوا۔ اسے انگریزی استعمار کا ناقابلِ فراموش جرم ہی قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس نے ہندوستان کی تقسیم کے وقت ایسے بہت سے اُمور کو تشنہ اور نامکمل چھوڑ دیا جو بعد میں بڑے قضیوں کا موضوع بنے۔

انگریزی استعمار جس کو اپنی جہاں بانی اور سیاسی بصیرت پر غیرمعمولی ناز تھا، نہ تو ریاستوں کے بارے میں کوئی قابلِ اطمینان فیصلہ کرسکا اور نہ ہی ہندوستان اور پاکستان کی سرحدوں کے تعین اور دونوں ملکوں میں اثاثوں کی تقسیم کے کام کو خوش اسلوبی اور سلیقے کے ساتھ سرانجام دے سکا۔ تقسیم کے وقت کے فسادات اور ان میں لاکھوں لوگوں کی ہلاکت انگریزی حکومت کی سب سے بڑی ناکامی ہے، جو نہ تو اِن واقعات کا پیشگی اندازہ کرسکی اور نہ ہی واقعات کے ظہور میں آنے کے بعد ان کی مناسب روک تھام کرسکی۔ لیاقت علی خان کی حکومت کو کشمیر کا بحران استعمار کے ورثے کے طور پر ملا اور اُن کی انتظامیہ کی بیشتر توانائی اس کی نذر ہوگئی۔

لیاقت علی خان کے دور کی ایک اور حقیقت ملک کی سیاسی بے سروسامانی تھی۔ مسلم لیگ باوجود تحریکِ آزادی میں مسلمانوں کی راہ نمائی کرنے کے، ایک سیاسی تنظیم کے طور پر زیادہ مضبوط نہیں بن سکی تھی۔ لیگ میں قائداعظم کا کردار کلیدی حیثیت کا حامل تھا اور اُن کے بعد جو لوگ صف آرا تھے وہ زیادہ تر صوبائی سطح کے لوگ تھے اور اُن میں سے بھی بیشتر گروہوں میں تقسیم تھے۔ اُدھر لیاقت علی خان ماضی میں جس حلقے سے منتخب ہوتے رہے تھے، وہ ہندوستان میں رہ گیا تھا اور پاکستان میں اُن کی سیاسی بنیاد ہمہ گیر نوعیت کی نہیں تھی۔

چناں چہ ایک طرف انہیں بیوروکریسی کے ساتھ ہم آہنگ ہونا پڑا، دوسری طرف مختلف صوبوں میں باہم دست بہ گریباں مسلم لیگی گروپوں میں سے ایک نہ ایک گروپ کی حمایت حاصل کرنی پڑی۔ مثلاً بنگال میں انہوں نے نورالامین کی پشت پناہی کی، سرحد میں خان قیوم خان کی اور پنجاب میں افتخار حسین ممدوٹ کے مقابلے میں ممتاز دولتانہ کی۔ اس طرزِعمل نے اُن کے قومی لیڈر ہونے کے تشخص کو مجروح کیا۔

قیامِ پاکستان کے بعد مسلم لیگ کی اس سوچ نے کہ، کیوںکہ اُس نے ملک بنایا ہے، لہٰذا صرف اُسی کو حکومت کرنے کا اختیار حاصل ہے، آغاز کار ہی میں ہمارے ہاں ایک ایسے رجحان کی داغ بیل ڈال دی جو ملک میں جمہوریت کے قیام اور فروغ کے نقطۂ نظر سے بہت نقصان دہ تھا۔ بدقسمتی سے لیاقت علی خان بھی مسلم لیگ کی اس سوچ سے خود کو جدا اور بلند نہیں رکھ سکے اور حزبِ اختلاف کی طرف خود اُن کا رویہ بھی کوئی مثالی جمہوری رویہ نہیں تھا۔ اس حقیقت سے بھی کون آنکھیں چُرا سکتا ہے کہ بہت سے کالے قوانین کا آغاز اُسی زمانے میں ہوا، جنہوں نے بعد میں ہمارے ہاں شہری آزادی اور بنیادی حقوق کے تصور کو ایک ایسا خواب بناکر رکھ دیا جس کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے قوم آج تک کام یاب نہیں ہوسکی۔

لیاقت علی خان کے دور کا ایک اہم واقعہ راولپنڈی سازش کیس ہے، جس کی تفصیلات بڑی حد تک منظرِعام پر آچکی ہیں۔ اس واقعے کا ایک پہلو جو بالعموم زیربحث نہیں آتا وہ یہ ہے کہ فوج کی اعلیٰ قیادت کو، جس میں ایوب خان سب سے نمایاں تھے، پہلے سے علم تھا کہ فوج کے چند افسران اس قسم کی مہم جوئی پر مائل ہیں۔ ایوب خان اپنی کتاب 'فرینڈز ناٹ ماسٹرز' میں لکھ چکے ہیں کہ ان کے پیش رو جنرل گریسی نے فوج کا منصبِ قیادت ان کے سپرد کرتے وقت انہیں بتا دیا تھا کہ فوج میں موجود چند 'ینگ ٹرکس' کسی مہم جوئی کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔

امریکی خفیہ دستاویزات سے یہ بات بھی منظرعام پر آئی ہے کہ سیکریٹری دفاع اسکندر مرزا امریکی سفارت خانے کے افسران کو بہت پہلے اس بات کا عندیہ دے چکے تھے کہ فوج میں بعض عناصر لیاقت حکومت کی بعض پالیسیوں سے مطمئن نہیں ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ نہ ہی اسکندر مرزا نے اور نا ہی ایوب خان نے وزیراعظم کو ان حقائق سے آگاہ کیا۔ راولپنڈی سازش کا انکشاف ایک سویلین ادارے یعنی پولیس کے ذریعے ہوا اور جب لیاقت علی خان نے اسکندر مرزا اور ایوب خان کو طلب کرکے اس کے بارے میں دریافت کیا، تو انہوں نے یہ تاثر دیا کہ جیسے ان کے لیے بھی یہ ایک انکشاف ہے اور یہ کہ وہ تحقیق کرکے کارروائی کریں گے۔

یہ کارروائی بعد میں ہوئی بھی، لیکن قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پنڈی سازش کرنے والے جنرل اکبر خان اور اُن کے ساتھی تو ناکام رہے، مگر ایوب خان اور اسکندر مرزا کا کردار یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ اپنے آخری دور میں لیاقت علی خان فوج اور افسرشاہی کے سامنے کس قدر بے یارومددگار ہوچکے تھے۔ گویا پاکستان اپنے پہلے وزیراعظم کے دور ہی میں اُس رجحان کا شکار ہوگیا تھا جو آج تک برقرار ہے، یعنی ملک کی سول اور ملٹری بیوروکریسی کے مقابل سیاسی حکومتوں کی بے وقعتی اور غیر مؤثری کا رجحان۔ یہ رجحان کب تک برقرار رہے گا، یہ کہنا بہت مشکل ہے، مگر یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ جب تک ملک میں عوام کے منتخب اداروں کی بالادستی قائم نہیں ہوگی، پاکستان سیاسی استحکام حاصل نہیں کرسکے گا۔

میں وہاں موجود تھا

15 اکتوبر کو خان لیاقت علی خان پنڈی آرہے تھے، مجھے باوثوق ذرایع سے اطلاع مل چکی تھی کہ قائدِ ملت راولپنڈی پہنچ کر ایک نہایت ہی اہم اعلان کریں گے۔ میں گیارہ بجے چک لالہ کے ہوائی اڈے پر پہنچ گیا۔ معززین شہر، ایم ایل اے حضرات، مسلم لیگ کے عہدے دار ایک طرف کھڑے تھے۔ تعلقات عامہ کشمیرکے ڈائریکٹر ضیاء الاسلام،فوج کے تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر کمانڈر مقبول اور اے پی پی اور پاکستان ٹائمز کے نمایندے بھی موجود تھے۔

ایک طرف نواب مشتاق احمد گورمانی وزیر امور کشمیر، مسٹر یوسف خٹک جنرل سیکریٹری پاکستان مسلم لیگ، لیفٹیننٹ جنرل ناصر علی خاں چیف آف اسٹاف، میجر جنرل یوسف، مسٹر انعام الرحیم کمشنر اور دوسرے حضرات بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک جانب ڈی آئی جی پولیس خان نجف خان، ڈی ایس پی عبدالرشید خاں ڈائریکٹر آف انٹیلی جینس چوہدری غلام مرتضیٰ اور کچھ اور حضرات کھڑے تھے۔ میں ان تمام حضرات سے تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے ملتا ہوا گراؤنڈ میں داخل ہوا تو قائدِ ملت کا ہوائی جہاز زمین کو چھو چکا تھا اور اسی طرف بڑھتا آرہا تھا۔ کسی کو کیا خبر تھی کہ یہ ان کی زندگی کا آخری سفر ہوگا۔

جہاز رُکا تو مسٹر گورمانی، مسٹر انعام الرحیم اور جنرل ناصر علی خاں آگے بڑھے۔ پہلے وزیر اعظم کے سیاسی سیکریٹری نواب صدیق علی خان اُترے، پھر لیاقت علی خان سامنے آئے۔ لیاقت کے چہرے پر ہم ہمیشہ جو شگفتگی دیکھا کرتے تھے، وہ آج ان کے چہرے پر نہ تھی۔ چہرے پر زردی تھی، کمزوری تھی اور تھکن کے آثار بہت نمایاں تھے۔

وزیر اعظم ہوائی فوج کے دستے کی سلامی لینے کے لیے تشریف لے گئے۔ پھر معززین شہر سے ملنے کے لیے تشریف لائے۔ کمشنر اور سٹی مسلم لیگ کے صدر نے حاضرین کو آپ سے متعارف کرایا۔ آپ نے ایک ایک سے ہاتھ ملایا مگر وہ شگفتگی جو ان کا ہمیشہ سے خاصہ رہی تھی، ان کے چہرے پر نہ آئی۔ ہم لوگوں کے متعلق کمشنر نے اخباری نمایندوں کا لفظ کہا تھا تو ہم میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے اخبار اور ادارے کا نام بتایا۔ وہ آگے بڑھے تو ہم ساتھ ہولیے۔ تعارف سے فارغ ہوتے ہی ہم نے انھیں گھیر لیا۔ میں نے ان سے دریافت کیا،''راولپنڈی میں آپ کی آمد کا مقصد کیا ہے؟''

انھوں نے مسکرا کر اور اپنے روایتی لہجہ میں کہا،''آپ لوگوں سے ملنے کے لیے۔''

پھر پاکستان ٹائمز کے نمایندے نے آپ سے دریافت کیا کہ وزیر صنعت چوہدری نذیر احمد کے خلاف تحقیقات کس مرحلے میں ہے؟ وزیر اعظم نے قدرے حیرت کا اظہار کیا اور پھر فرمایا،

''چوہدری نذیر احمد کے خلاف کوئی انکوائری نہیں ہورہی ہے، یہ بات قطعی غلط ہے۔''

میں نے آگے بڑھ کر ایک اور سوال کیا،''پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جو خلفشار پیدا ہوا تھا، کیا وہ اب نہیں رہا؟ اور جنگ کے جو امکانات واضح تھے، کیا اب ختم ہوگئے ہیں؟''

وزیر اعظم لمحے بھر کے لیے سنجیدہ ہوگئے اور پھر نیم مسکراہٹ کے ساتھ فرمانے لگے، اگر یہ بات آپ کو میں بتادوں تو جو پبلک جلسہ ہورہا ہے، اس میں کیا کہوں گا؟ اس کے متعلق میں جلسہ میں بتاؤں گا۔

میں نے آپ سے پھر ہاتھ ملایا اور وہ موٹر کی طرف تشریف لے گئے اور ہم نواب صدیق علی خان صاحب سے رسمی گفت گو کرنے لگے۔ اگلے روز یعنی اکتوبر کو کیمبل پور کی ایک اہم فوجی تقریب میں قائدِ ملت کو شریک ہونا تھا، میں نے ان کے قافلے کے ساتھ ہی کیمبل پور جانے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔ میں ہوائی اڈے سے موٹر میں بیٹھ کر کمپنی باغ کے راستے جلسہ گاہ کے انتظامات دیکھتا ہوا دفتر چلا آیا۔

کمپنی باغ میں: کمپنی باغ کا جلسۂ عام تین بجے شروع ہونا تھا اور ٹھیک چار بجے قائدِ ملت کو پہنچنا تھا۔ میں تین بجے جلسہ گاہ میں پہنچ گیا۔ اسٹیج اچھا بنایا گیا تھا اوردائیں طرف لاؤڈ اسپیکروں کا اور بائیں جانب ریڈیو پاکستان کا عملہ تھا۔ ان کے ساتھ ہی اخبارات کے نمایندے بیٹھے تھے۔ چار بجے تک نظمیں وغیرہ ہوتی رہیں۔ ٹھیک چار بجے بینڈ نے قائدِ ملت کے استقبال کا ترانہ چھیڑا اور آپ مسلم لیگ نیشنل گارڈ، قومی رضاکاروں، پولیس افسروں، سی آئی ڈی اور اعلیٰ حکام کے پہرے میں پنڈال میں داخل ہوئے۔ اسٹیج ایک بڑے قالین سے سجایا گیا تھا۔

ڈائس پر آتے ہی قائدِ ملت نے حسبِ عادت منٹ بھر تک ہجوم کی تسلیمات لیں مگر چہرے پر مسکراہٹ کے بجائے تفکر تھا۔ ڈائس پر ایک ہی کرسی تھی، جس پر قائدِ ملت کو بٹھایا گیا۔ صدر مسلم لیگ نے آپ کے گلے میں پھولوں کا ہار پہنایا اور فضا پاکستان زندہ باد، مسلم لیگ زندہ باد، قائد اعظم زندہ باد اور لیاقت علی خان زندہ باد کے پُرجوش نعروں سے گونج اُٹھی۔ جلسہ باقاعدہ شروع ہوا۔ سب سے پہلے مولانا عارف اﷲ نے تلاوتِ قرآن شریف کی، پھر بلدیہ کے صدر شیخ مسعود صادق ایم ایل اے نے ایک سپاس نامہ اہلِ شہر کی طرف سے پیش کیا۔

میں نے بارہا لیاقت علی خان کو جلسوں میں سپاس نامے سُنتے ہوئے دیکھا ہے، مگر اب کے جب سپاس نامہ پیش کرنے والے نے کشمیر اور دفاعِ وطن کا ذکر کیا تو لیاقت علی خان کی آنکھوں میںایک ایسا عزم اور ولولہ چھلکنے لگا، جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ آج انہیں بالخصوص اس مسئلے پر کچھ کہنا ہے اور میری یہ اطلاع دُرست ہے کہ وہ کوئی اہم اعلان کرنے والے ہیں۔ سپاس نامہ ختم ہونے کے بعد شیخ محمد عمر صاحب نے مختصر سی تقریر کی۔

لیاقت علی خان کو ہار پہناتے وقت چند رُوپہلے تار ان کی ٹوپی کے اوپر اٹک گئے تھے۔ نواب صدیق علی خان نے انھیں دیکھ لیا اور اُٹھ کر بڑے ادب کے ساتھ انھیں دُرست کردیا۔ شیخ محمد عمر کی تقریر ختم ہونے پر وزیر اعظم ایک عظمت و وقار اور سنجیدگی، عزم اور تفکر کا پیکر بنے کرسی سے دُور مائیکرو فون کے سامنے اسٹینڈ پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہوئے۔ انہوں نے ''برادرانِ ملت'' کا لفظ ابھی کہا ہی تھا کہ ٹھاہ ٹھاہ کی آواز آئی اور قائدِ ملت بایاں ہاتھ دِل پر رکھے ہوئے تیورا کر پیٹھ کے بل گِر پڑے۔ اسٹینڈ بھی ساتھ ہی گِرگیا۔




حملہ آور مجمع سے تقریباً چھے گز کے فاصلے پر ان کے بائیں کندھے کے برابر ترچھا بیٹھا تھا۔ اس کے گولی چلاتے ہی قریبی لوگوں نے اسے پکڑ لیا۔ حملہ آور نے تین چار گولیاں بعد میں بھی چلائیں، جن سے دو آدمیوں کی ٹانگوں میں زخم آئے۔ ایسے میں پولیس نے ہوائی فائرنگ شروع کردی۔ یہ سب کچھ اس قدر غیر متوقع اور یک دم ہوا کہ کسی کے بھی حواس بجا نہ رہے اور گویا سب کی آنکھیں پتھرا گئیں۔

جذبات سے بے قابو ہجوم نے گھونسے، لاتیں، گملے، لاٹھیاں اور برچھیاں مار مار کر قاتل کی ہڈیاں تک ٹکڑے کر ڈالیں۔ کچھ لوگ گولیاں چلنے کی دہشت سے میزوں اور اسٹیج کے نیچے چھپ گئے تھے۔ غرض ہر طرف افراتفری پھیلی ہوئی تھی۔ میں ایسے میں فوراً اچک کر اسٹیج پر پہنچ گیا، جہاں وزیر اعظم بالکل چت پڑے تھے۔ ان کا چہرہ زرد تھا اور آنکھیں پوری طرح کُھلی ہوئی تھیں۔ حملہ ہونے کے بعد شیخ محمد عمر نے انھیں سنبھالا دیا اور ان کے گِرنے کے بعد جو شخص سب سے پہلے لپک کر ان تک پہنچا، وہ پنڈی کے ڈپٹی کمشنر مسٹر ہارڈی تھے۔

ساتھ ہی پولیٹیکل سیکریٹری نواب صدیق علی خان، پھر راولپنڈی سول اسپتال کے انچارج ڈاکٹر اقبال انصاری اور راقم الحروف پہنچے، پھر پروفیسر عنایت اﷲ اور ایک اور ڈاکٹر صاحب، جنہیں میں نہیں جانتا۔ مسٹر جاوید نمایندہ پاکستان ٹائمز اور وزیر اعظم کے افسر رابطہ مسٹر جمیل پہنچ گئے۔ بہت سے لوگ روتے پیٹتے چیخ چلا رہے تھے۔ میں نے پیچھے مُڑ کر ایک نظر دیکھا۔ قاتل کھڑا تھا اور لوگ اسے دبوچ رہے تھے۔ منٹ بھر بعد میں نے اسے اوندھے منہ پڑے ہوئے اور برچھیاں کھاتے ہوئے دیکھا۔

حملہ آور: یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ حملہ آور نے بیٹھے ہوئے گولیاں چلائیں۔ اس نے ریوالور سے نہیں بلکہ پستول سے گولیاں چلائیں اور ظالم نے ایسا نشانہ لگایا کہ ٹھیک دِل کے مقام پر جا کر لگا۔ اس نے ٹھیک اس وقت گولی چلائی، جب ہجوم میں سے ہر ایک کی نگاہ قائدِ ملت کے چہرے پر گڑی ہوئی تھیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے قاتل کو کندھے پر چادر رکھے ہوئے دیکھا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ اس نے چادر کی آڑ سے نشانہ لگایا ہو ویسے قاتل کے اردگرد کے چند آدمی لامحالہ اس کے ساتھ ہوں گے کیوں کہ کم از کم ہاتھ سیدھا کرتے اور پستول کا رینج لیتے وقت اس کے ساتھی کو پتا چل جانا ضروری تھا۔

میں ذکر کررہا تھا کہ بہت سے لوگ روتے پیٹے حواس باختہ، سخت مغلوب الغضب اور مختل تھے۔ ڈاکٹر اقبال انصاری پریشانی سے کہنے لگے، گولی کہاں لگی ہے۔ میں نے انھیں بتایا کہ شیروانی دِل کے پاس سے تھوڑی سی کٹی ہوئی ہے۔ چناں چہ میں نے اور ڈاکٹر صاحب نے مل کر شیروانی کے بٹن کھولے اور انھوں نے قمیص پھاڑ ڈالی۔ اتنے میں لیاقت علی خان نے ہونٹوں پر زبان پھیری۔ ڈاکٹر صاحب نے پانی منگایا، پانی شہید کے منہ کے ساتھ لگایا گیا تو ہم دونوں ان پر جھک گئے۔

ان کے منہ سے آواز آئی، ''اﷲ'' پھر انھوں نے کلمہ تین مرتبہ پڑھا، اس کے بعد لیاقت علی خان کی زُبان سے رُک رُک کر یہ الفاظ نکلے ''پاکستان، پاکستان، خدا، پاکستان کا خدا حافظ۔'' پھر انھوں نے بائیں آنکھ میچ لی، دائیں آنکھ کُھلی تھی۔ ڈاکٹر انصاری نے ہاتھ سے دائیں آنکھ بند کرنے کی کوشش کی مگر پوری بند نہ ہوئی۔ پھر انھوں نے نبض دیکھی اور قمیص پھاڑ کر دِل کی جگہ کان رکھا اور چیخ کر کہا، جلدی اسپتال لے چلو، اس سے یہ اُمید ہوگئی کہ لیاقت علی خان شاید بچ جائیں ہیں۔

میں نے ڈائس پر آتے ہی قائدِ ملت لیاقت علی خان کی ٹوپی جو ان کے سر کے پاس گِر گئی تھی، اٹھالی۔ ہم سب نے قائدِ ملت کا بے جان جسم اُٹھا کر ایک کار میں لٹادیا۔ کار کو ڈاکٹر اقبال انصاری کمائنڈ ملٹری اسپتال لے گئے۔ میں اور مسٹر جاوید دوسری کار میں اسپتال پہنچے۔ (اے پی پی کے نامہ نگار کی یہ اطلاع کہ وہ خود موقع پر موجود تھا، بالکل غلط ہے) راستے بھر لوگ چیخ رہے تھے اور لیاقت علی خان کی زندگی کے لیے اپنے بچوں کی زندگیوں کی پیش کش بارگاہِ الٰہی میں کررہے تھے۔

اسپتال اور پھر فوج کا اسپتال کسی کو کچھ پتا نہ تھا کہ کیا حال ہے۔ تاہم پتا چلا کہ آپریشن کیا گیا اور دو گولیاں نکالی گئیں۔ ان کے جسم میں خون بھی داخل کیا گیا۔ ہم باہر منتظر تھے کہ پہلے شہیدِ ملت کا اردلی بے ہوش ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد شیخ مسعود صادق بھی صدمے سے بے ہوش ہوگئے۔ کچھ دیر کے بعد آپریشن روم سے جو لوگ باہر نکلے ان کے چہرے پر کچھ اچھے تاثرات نہ تھے۔ تاہم، بتایا یہی گیا کہ وہ زندہ ہیں۔

میں اور جاوید ایک موٹر لے کر ٹیلی گراف آفس پہنچے۔ میں نے ''آفاق'' کے لیے کال بُک کرائی اور جاوید نے ''پاکستان ٹائمز'' کے لیے۔ دونوں کو کال مل بھی گئی مگر عین وقت پر مسٹر ضیاء الاسلام ڈی پی آر اور کمانڈر مقبول پہنچے اور ہمیں کال منسوخ کرادینے کے لیے کہا۔ میں اب اپنی خبر کے لیے عبارت تلاش کررہا تھا مگر بالکل سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا لکھوں۔ ہم واپس اسپتال پہنچے تو دروازے پر فوج کا پہرہ لگ چکا تھا اور تمام اعلیٰ سرکاری حکام بھی باہر حیران پھر رہے تھے۔

یہاں سے ہم اے پی پی کے دفتر آئے۔ دوسرے لوگ بھی یہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ میرے حواس بدستور مختل تھے کہ اتنے میں اے پی پی کے چشتی صاحب نے کریڈ دیکھ کر کہا، انا اﷲ وانا الیہ راجعون۔ میں باہر کی طرف چل پڑا اور صدر بازار آنکلا، ریڈیو پر تلاوت قرآن پاک ہورہی تھی اور ہر شخص گہرے رنج و غم کی تصویر بنا خاموش تھا، بازار بند تھے۔ ہڑتال ہوگئی تھی۔ ویسے دفعہ 144 کے نفاذ کا اعلان بھی ہوچکا تھا۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ شہید لیاقت علی خان نے خود راولپنڈی میں ایک عام جلسے سے خطاب کرنے کا ارادہ اور خواہش ظاہر فرمائی تھی۔ یہ بات کہ ڈائس پر ان کی کرسی کے سوا کوئی کرسی نہ ہو، اور پانچ فٹ سے اونچا اسٹیج ہو اور اس کے اوپر کوئی شامیانہ نہ ہو اور اس طرح ہو کہ تمام حاضرین ان کے سامنے رہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ ان کی منشا اور خواہش کے مطابق کیا گیا تھا۔

ہوائی اڈے سے لے کر ''برادران ملت'' کے آخری الفاظ کہنے تک ان کے چہرے پر شدید سنجیدگی، تھکن اور سب سے زیادہ تفکر اور گہرے تفکر کے آثار نمایاں تھے۔ سوائے اس لمحے کے جب انھوں نے ایئر پورٹ پر میرے سوالوں کا جواب دیا، ان کے چہرے پر کسی بھی وقت مسکراہٹ، بشاشت اور شگفتگی نہیں آئی۔ ٹھیک یہی سنجیدگی اور تفکر ان کے چہرے پر اس وقت بھی نمایاں تھا جب وہ گولی کھا کر کلمہ شریف اور پاکستان کا خدا حافظ کے آخری الفاظ کہہ کر بے ہوش ہوئے تھے۔ کراچی والوں نے شاید ان کا جنازہ پڑھتے وقت ان کے چہرے پر کوئی طمانیت دیکھی ہو۔

نوابی سے چند روپوں کے بینک اکاؤنٹ تک

نواب زادہ لیاقت علی خان قائد اعظم کے معتمد ساتھی ایک نواب گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ آپ یکم اکتوبر 1895 کو کرنال میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد نواب رستم علی خان کے اجداد ایران سے پانچ صدی قبل ہندوستان میں آکر آباد ہوئے، اور نوشیرواں کی اولاد کہلاتے تھے۔ گھر میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایم اے او کالج علی گڑھ میں داخلہ لیا اور وہاں سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس وقت علی گڑھ الٰہ آباد یونیورسٹی سے منسلک تھا، پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن چلے گئے جہاں سے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور اور وہاں سے 1921 میں آنرز اسکول آف جورس پروڈینس سے ڈگری حاصل کی۔ انٹرٹمپل سے 1924 میں بیرسٹر کی سند حاصل کی۔ پہلے مظفر نگر میں رہایش اختیار کی، جہاں ان کی جاگیر تھی، بعد میں دہلی چلے گئے۔

اس وقت دہلی لاہور ہائی کورٹ میں شامل تھی۔آپ نے لاہور ہائی کورٹ میں ایڈووکیٹ کی رکنیت حاصل کی۔ لائسینس کی اصل سند پنجاب میوزیم میں اب بھی موجود ہے اور اس کی کاپی لاہور ہائی کورٹ میں رکھی گئی۔ چوں کہ آپ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم بنے اس لیے یہ اقدام کیا گیا تھا۔

نواب زادہ لیاقت علی خان سے شرفِ ملاقات 1938 میں حاصل ہوا لیکن ان کی قربت جب میں نے وکالت شروع کی تو 1945 میں حاصل ہوئی۔ مسلم لیگ کے معاملات میں اور پھر آل انڈیا کونسل میں ان کی کوششوں اور کاوشوں کو بہ نظر غائر دیکھا جائے تو تاریخ میں ان کی مصروفیات اور مسلم لیگ کی جنرل سیکریٹری کے عہدے کے واقعات تو درج ہیں جو میں دہرانا نہیں چاہتا۔

اس پر اکتفا کروں گا کہ جیسے وہ نام کے وکیل تھے مجھے بھی انہوں نے نام کا وکیل بنانے کی کوشش کی لیکن فرق یہ تھا کہ وہ کسی عدالت میں پیش نہیں ہوتے تھے اور صرف سیاست داں تھے لیکن مجھے اگرچہ مسلم لیگ سے گہری وابستگی تھی اور میرا گھرانا بٹالہ ضلع گورداس پور میں ایک روحانی اور تعلیمی درس گاہ کا انتظام کرتا تھا، اس لیے جہاں جہاں بھی سلسلۂ قادریہ کے لوگ ہوتے تھے، اکثر مجھے وہاں جانا پڑتا تھا اور پھر تھوڑا بہت وکالت کو بھی میں نے تھامے رکھا۔ جہاں سیاسی الجھنوں کا حل درکار ہوتا وہاں قانونی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوتیں اور میں نے بہت کچھ اس سے بھی سیکھا۔

پھر فسادات کے زمانے میں تحریکِ پاکستان کے پنجاب میں گرفتار کارکنوں کی وکالت بھی کرتا تھا لیکن کم و بیش ہر ماہ میں ایک دو باران سے ملاقات ہوجاتی تھی۔ اکثر مذاق سے فرماتے، تم سیاست کے ساتھ ساتھ وکالت کو بھی نہیں چھوڑتے۔ عرض کرتا، بلا فیس وکالت کرتا ہوں اور اکثر سفر خرچ بھی نہیں ملتا۔ خیر نواب زادہ لیاقت علی خان کی ذاتِ گرامی ایک شگفتہ، متحمل مزاج، ذہین و متین سیاست داں کی عمدہ مثال تھی۔

قائد اعظمؒ کو ان پر بڑا اعتماد تھا۔ 6 دسمبر 1943 کو کراچی میں مسلم لیگ کی کونسل میٹنگ میں نواب زادہ صاحب کو دوبارہ جنرل سیکریٹری چُنا گیا۔ قائد اعظمؒ نے آپ کو اپنا دستِ راست کہہ کر پکارا۔ 1945 میں بھولا بھائی ڈیسائی کی نواب زادہ سے کانگریس مسلم لیگ اتحاد پر بات چیت ہوئی جس کا چرچا اخبارات میں بے حد ہوا۔ اخبارات میں اس کا ذکر لیاقت ڈیسائی مذاکرات کے نام سے ہوتا رہا۔ نواب زادہ صاحب نے 8 فروری 1945 کو اس کے متعلق اخبارات میں یہ بیان دیا کہ قائد اعظمؒ کے مشورے کے بغیر جو انھوں نے ابھی تک نہیں کیا کوئی معاہدہ مسٹر ڈیسائی کے ساتھ پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔

اگرچہ وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر مسٹر این بی کھارے نے بھی اس کا ذکر شاید مارچ 1944ء میں اسمبلی میں چھیڑا جس کی نواب زادہ لیاقت علی خان نے نہایت زور کے ساتھ تردید کی۔ لیکن پھر بھی وائسرائے نے سیکریٹری آف اسٹیٹ برائے ہندوستان کو یہ تجویز دی کہ ڈیسائی پلان ہندوستان کے مسئلے کی راہ ہم وار کرنے میں معاون ہوسکتا ہے۔ وائسرائے نے بوجوہ ڈیسائی کے اصرار پر سرجان کول کو قائداعظمؒ کے پاس بھیجا جو اس وقت بمبئی میں تھے۔ قائد اعظمؒ نے اس قسم کے کسی بھی معاہدے کے وجود کی تردید کی۔

1946 میں حکومتِ برطانیہ کے کیبنٹ مشن جس میں پیتھک لارنس، سر اسٹیفورڈ کرپس اور اے وی الیگزینڈر شامل تھے، ہندوستان بھیجا تاکہ وہ آئینی تعطل کو دُور کرواسکیں۔ لیاقت علی خان نے مسلم لیگ کے نمایندے کی حیثیت سے ان مذاکرات میں حصّہ لیا، مشن ناکام ہوا۔ اس میں تین ذیلی ریاستوں کا الحاق تھا۔ اوّل گروپ میں مدراس، بمبئی، یوپی، بہار، سی پی اور اڑیسہ، گروپ دوئم پنجاب، صوبۂ سرحد اور سندھ اور گروپ سوئم میں بنگال اور آسام کے صوبوں کو شامل کیا جانا تھا۔ لیگ اور کانگریس دونوں جماعتوں نے اسے منظور کیا لیکن فوراً ہی پنڈت جواہر لعل نہرو نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ جب نہرو نے انکار کیا تو قائد اعظمؒ نے بھی اس کی تائید سے دست برداری ظاہر کردی۔

وائسرائے نے ایگزیکٹو کونسل بنانے کی ٹھان لی۔ قائد اعظمؒ نے کانگریس کو کسی مسلم ممبر کی نام زدگی سے انکار کردیا کیوں کہ مسلم لیگ ہی الیکشن میں تمام ہندوستان میں مسلمانوں کی واحد نمایندہ جماعت کی حیثیت سے اُبھری تھی۔ مسلم لیگ نے ڈائریکٹ ایکشن کی دھمکی دی اور تمام خطاب یافتگان نے اپنے خطابات واپس کردیے۔



نواب زادہ صاحب نے بھی کہا کہ مجھے اب لیاقت علی خان کہا جائے۔ کانگریس نے عبوری حکومت میں شمولیت اختیار کرلی۔ نواب والی بھوپال نے قائد اعظمؒ، وائسرائے اور کانگریس کے درمیان رابطہ کیا اور قائد اعظمؒ کو درمیانی مدت تک حکومت میں شمولیت کے لیے منالیا۔ اس میں جناب لیاقت علی خان کو مسلم لیگ کے لیڈر کی حیثیت سے شامل کیا گیا۔ قائد اعظمؒ نے جوگندر ناتھ منڈل شیڈول کاسٹ کو اپنا نمایندہ نام زد کیا۔

لیاقت علی خان کو محکمۂ خزانہ اور ریاستی امور ملا۔ ہندوؤں کا خیال تھا کہ وہ اس میں کام یاب نہ ہوسکیں گے۔ کانگریس کے لوگ تو صوبوں میں حکومت کرچکے تھے اس لیے ان کو زعم تھا۔ مسلم لیگ کے ہاں یقیناً اس تجربے کی کمی تھی۔ بہ ہر حال، سردار عبدالرب نشتر سرحد میں وزیر رہ چکے تھے۔ راجہ غضنفر علی پنجاب میں پارلیمانی سیکریٹری رہ چکے تھے۔ چندریگر ایک فاضل وکیل تھے۔ غرض یہ کہ کانگریس کا یہ تخیل بھی غلط ثابت ہوا۔

میرے جیسے چند نوجوان وکیلوں نے اپنی خدمات پیش کیں تاکہ ہم فائلوں کو پڑھ کر صحیح فیصلہ وزراء سے کرواسکیں۔ زیادہ ہندو افسران تھے اور وہ گم راہ کُن نوٹ لکھتے تھے جو رولز کے خلاف ہوتے۔ اس سلسلے میں مجھے یہ فخر بھی حاصل ہوا کہ مجھے راجہ غضنفر علی، سردار عبدالرب نشتر اور لیاقت علی خان صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ ایک فائل پر میں نے ایک کاغذ پر نوٹ لکھ کر کامن پن سے چسپاں کردیا۔ جب یہ فائل لیاقت علی خان کے سامنے پہنچی تو انھوں نے بلایا اور کہا، قادری، بھئی، تمھاری محنت کا مجھے کیا فائدہ۔ یہ نوٹ تو مجھے ہی لکھنا پڑے گا۔

میں نے عرض کیا کہ اگر میں نوٹ فائل پر لکھ دیتا اور آپ اس پر دست خط کردیتے تو ہر کسی کو معلوم ہوجاتا کہ یہ حکم آپ کا نہیں کسی اور کا لکھا ہوا ہے۔ فوراً مجھے نہایت شفقت سے کہا کہ تمھارا تجربہ دُرست ہے۔ میں نے تجویز پیش کی آپ دیکھ لیں، میں ٹائپ کروادوں گا۔ اس پر آپ دست خط کردیں، پھر کسی کو اعتراض نہ ہوگا۔ یہ بات ان کو اتنی پسند آئی کہ آخر دم تک باوجود اس کے کہ بعد میں ہمارے سیاسی اختلاف ہوگئے، ہمیشہ میری قدر کرتے رہے۔

اسی دوران چمبہ ریاست میں راشٹریا سیوک سنگھ نے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ سرکاری طور پر انکوائری کے لیے مجھے بھیجا گیا۔ میری ابھی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ اپنی بیوی کو اپنے گھر بٹالہ چھوڑ کر چمبہ چلا گیا، جہاں میرے استاد میاں غلام حسین رہتے تھے۔ وہاں ریاست میں سرکاری طور پر ہماری بڑی توقیر و خاطر کی گئی لیکن غرب خان صاحب جو وہاں مسلمانوں میں سب سے زیادہ کاروباری اور صاحب ثروت شخصیت سمجھے جاتے تھے، ان کی وساطت سے پتا چلا کہ ہندو تو ہمیں ٹھکانے لگانے کی سوچ رہے ہیں۔

اس لیے واپسی پر ہم ہندو ٹوپیاں اور جوتیاں پہن کر دریائے راوی کے پل پر سے منہ اندھیرے گزرے اور 20 میل کا پہاڑی سفر خچر اور پیدل کرکے ڈلہوزی پہنچے۔جب ہم نے اپنی رپورٹ لیاقت علی خان کو دی تو انھوں نے وہاں کے انگریز ریذیڈنٹ مسٹرشیٹک، جو بنگال میں جناب حسین شہید سہروردی کے پرائیویٹ سیکریٹری رہ چکے تھے، کو ہدایات جاری کیں، اور جب تک تقسیم پر عمل درآمد نہ ہوچکا، چمبہ میں حالات بہتر رہے۔

میں نے لیاقت علی خان کو بہ طور وزیر اعظم کام کرتے بھی دیکھا۔مسلم لیگ پنجاب میں دولتانہ اور ممدوٹ کش مکش سے دوحصّوں میں بٹ چکی تھی۔ میں نے جناح مسلم لیگ کے ٹکٹ پر لاہور سے الیکشن لڑا اور کام یاب ہوا۔ جناب لیاقت علی خان میں بھی انسانی خوبیاں اور خامیاں تھیں کیوں کہ وہ فوق البشر نہ تھے۔ لیکن باوجود مخالف پارٹی میں ہونے کے جب پنجاب کے اسپیکر کا انتخاب کا وقت آیا تو لیاقت علی خان نے مجھے بُلوایا اور پوچھا کہ تمھاری نظر میں کوئی بزرگ روشن خیال قانون داں ممبر ہے۔

میں نے کہا کہ دولتانہ صاحب نے صلاح الدین کا نام تجویز کیا ہے اور وہ پارٹی کے لیڈر ہیں، خواہ مخواہ مجھ سے ناراض ہوجائیں گے۔ پھر مجھے کون بچائے گا۔ اس پر کہنے لگے کہ کوئی بات نہیں، میں تو موجود ہوں۔اب میں نے مسلم لیگ پارٹی سے بیرسٹر اور پُرانے مسلم لیگی، تعلیمی اور قانونی ماہر، خلیفہ شجاع الدین کا نام لیا، انھوں نے بہت پسند کیا۔ وہ حلقہ پنجاب یونیورسٹی سے کام یاب ہوئے تھے، اور اسپیکر بنادیے گئے۔

لیاقت علی خان نے ایک مُکا دِکھا کر ہندوستان کو ڈرا دیا تھا۔ قوم ان کے ساتھ تھی، حالاں کہ بے سروسامانی کا عالم تھا۔ آج بھی لیاقت علی خان کی زندگی کو نمونہ بنائیں تو سیاست داں ضرور کام یاب ہوسکتے ہیں۔ تحمل، بردباری اور قوتِ برداشت ہی سیاست کا دوسرا نام ہے۔ اختلافِ رائے ہو لیکن ذاتی رنجشیں، ذاتی مفاد اور ہوسِ زر کو چھوڑ دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ کام یاب نہ ہوں۔

ملک ہے تو سیاست داں، حاکم اور فوجی جرنیل اور افسر،سب ہی ہوں گے۔ خدانخواستہ ذاتی مفادات اور باہمی کش مکش کی وجہ سیملک کو نقصان پہنچا تو پھر بحیرۂ عرب ہی جائے پناہ ہوگا۔ اﷲ کریم ہمیں سیدھا راستہ دِکھائے۔ لیاقت علی خان نے اپنا خون پاکستان کے لیے وقف کیا اور دے دیا لیکن ہم اپنی انا کو ملک کی خاطر نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ یاد رہے کہ لیاقت علی خان جب شہید ہوئے تو ان کی جیب میں سے ایک سگریٹ کیس نکلا اور بینک میں چند روپوں کے سوا کوئی اثاثہ نہیں تھا۔
Load Next Story