ٹرانسپورٹ کا عذاب اور شہریوں کی بے بسی
منی پاکستان کے تقریباً ایک کروڑ کے لگ بھگ شہریوں کو ماضی میں ڈبل ڈیکر بسوں سے سفر کی سہولتیں حاصل تھیں.
کراچی میں ماس ٹرانزٹ سسٹم کو سرخ فیتہ کی نذر کرانے میں جن قوتوں کی کرشمہ سازی ہے ان میں ٹرانسپورٹ مافیا کا حوالہ نہ دینا سخت بے انصافی ہو گی کیونکہ منی پاکستان کے تقریباً ایک کروڑ کے لگ بھگ شہریوں کو ماضی میں ڈبل ڈیکر بسوں سے سفر کی سہولتیں حاصل تھیں جس کے بعد سرکاری ٹرانسپورٹ منظم کی گئی، مگر آج چند گرین بسوں کے سوا باقی ساری بسیں، منی بسیں اور کوچز ٹرانسپورٹ مالکان کی ہیں جب کہ اس شہر کے ٹریفک اور ٹرانسپورٹ کے اس نجی نیٹ ورک کے باعث شہریوں کو ٹرانسپورٹ کی سرکاری سہولتیں برائے نام حاصل ہیں۔ مسافروں کو زیادہ تر کوچز، منی بسوں اور عام بسوں سے سفر کرنے کی مجبوری نے بے حال کر دیا ہے۔
عام طور پر عوام اس بے ہنگم اور پھیلے ہوئے شہر میں ان ہی سفری سہولتوں سے استفادہ کرتے ہیں جو ٹرانسپورٹرز مہیا کرتے ہیں، ان کا یہ کنٹری بیوشن کم قابل قدر نہیں مگر جو ان کی چیرہ دستیاں اور لوٹ کھسوٹ کا دھندا ہے اسے سختی سے کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے، مشاہدے میں یہ بات آئی ہے اور عوامی شکایت نمبر ایک بھی یہی ہے کہ نجی بس اور کوچ مالکان کی ہدایت کے تحت ڈرائیور اور کنڈکٹرز کرایہ من مانا وصول کرتے ہیں اور اس مافیا کی طاقت، دیدہ دلیری اور اثر و رسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سی این جی کی بندش یا ناغہ کے نام پر بعض منی بسز اور کوچز مسافروں سے پورا کرایہ لینے کے بعد انھیں منزل تک نہیں پہنچاتے اور درمیان میں بس روک کر انھیں دوسری بس میں ٹھوس ٹھانس کر بٹھا دیتے ہیں یا سرے سے انکار کرتے ہیں کہ بس آگے نہیں جائے گی سی این جی ختم ہو گئی ہے۔
اس سارے غیر قانونی اور گھناؤنے چکر میں پولیس ٹریفک اہکار اور سارجنٹ حضرات کی ملی بھگت صاف نظر آتی ہے۔ شہریوں کی شکایت کے مطابق N5، کوچ نے وتیرہ بنا لیا ہے کہ وہ کالا پل پر یا اس سے پہلے مسافروں کو دوسری بھری ہوئی منی بس یا کوچ میں زبردستی سوار کراتے ہیں جس کی چھت پر بھی لوگ بیٹھے ہوتے ہیں اور فٹ بورڈ پر پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ غیر قانون ٹوکن سسٹم نے تو صورتحال مزید خراب کر دی ہے جس کے باعث بسیں اور کوچز تیزرفتاری میں کسی مسافر کی نہیں سنتے، اور سنگین حادثات اسی سبب سے ہوتے ہیں۔ خواتین کے کمپارٹمنٹ میں مردوں کا قبضہ اور نازیبا ریکارڈنگ ان کے لیے سوہان روح بن جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ٹریفک اہلکاروں اور سارجنٹ حضرات کے ''دیو استبداد '' سے ٹرانسپورٹ مافیا کیونکر آزاد کرایا جائے۔ میٹرو پولیس کی یہ حالت زار کیوں ہے کہ شہری مناسب ٹرانسپورٹ سہولتوں سے محروم ہیں، اوور چارجنگ کا عذاب سہتے ہیں اور دوران سفر ان سے بد تہذیبی معمول میں شامل ہو گئی ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ ٹریفک حکام اس صورتحال کا کوئی مثبت حل نکال لیں گے۔
عام طور پر عوام اس بے ہنگم اور پھیلے ہوئے شہر میں ان ہی سفری سہولتوں سے استفادہ کرتے ہیں جو ٹرانسپورٹرز مہیا کرتے ہیں، ان کا یہ کنٹری بیوشن کم قابل قدر نہیں مگر جو ان کی چیرہ دستیاں اور لوٹ کھسوٹ کا دھندا ہے اسے سختی سے کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے، مشاہدے میں یہ بات آئی ہے اور عوامی شکایت نمبر ایک بھی یہی ہے کہ نجی بس اور کوچ مالکان کی ہدایت کے تحت ڈرائیور اور کنڈکٹرز کرایہ من مانا وصول کرتے ہیں اور اس مافیا کی طاقت، دیدہ دلیری اور اثر و رسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سی این جی کی بندش یا ناغہ کے نام پر بعض منی بسز اور کوچز مسافروں سے پورا کرایہ لینے کے بعد انھیں منزل تک نہیں پہنچاتے اور درمیان میں بس روک کر انھیں دوسری بس میں ٹھوس ٹھانس کر بٹھا دیتے ہیں یا سرے سے انکار کرتے ہیں کہ بس آگے نہیں جائے گی سی این جی ختم ہو گئی ہے۔
اس سارے غیر قانونی اور گھناؤنے چکر میں پولیس ٹریفک اہکار اور سارجنٹ حضرات کی ملی بھگت صاف نظر آتی ہے۔ شہریوں کی شکایت کے مطابق N5، کوچ نے وتیرہ بنا لیا ہے کہ وہ کالا پل پر یا اس سے پہلے مسافروں کو دوسری بھری ہوئی منی بس یا کوچ میں زبردستی سوار کراتے ہیں جس کی چھت پر بھی لوگ بیٹھے ہوتے ہیں اور فٹ بورڈ پر پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ غیر قانون ٹوکن سسٹم نے تو صورتحال مزید خراب کر دی ہے جس کے باعث بسیں اور کوچز تیزرفتاری میں کسی مسافر کی نہیں سنتے، اور سنگین حادثات اسی سبب سے ہوتے ہیں۔ خواتین کے کمپارٹمنٹ میں مردوں کا قبضہ اور نازیبا ریکارڈنگ ان کے لیے سوہان روح بن جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ٹریفک اہلکاروں اور سارجنٹ حضرات کے ''دیو استبداد '' سے ٹرانسپورٹ مافیا کیونکر آزاد کرایا جائے۔ میٹرو پولیس کی یہ حالت زار کیوں ہے کہ شہری مناسب ٹرانسپورٹ سہولتوں سے محروم ہیں، اوور چارجنگ کا عذاب سہتے ہیں اور دوران سفر ان سے بد تہذیبی معمول میں شامل ہو گئی ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ ٹریفک حکام اس صورتحال کا کوئی مثبت حل نکال لیں گے۔