لو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم رشتہ دار ہیں
ہاتھی پھرے گاؤں گاؤں، جس کا ہاتھی اس کا ناؤں۔ہاتھی لاکھ رامپور میں آ گیا ہو مگر اس اصل تو اس کی سواتی ہی ہے۔
مبارک، مبارک، مبارک۔ ہم نے حیران ہو کر پوچھا کہ مبارک باد کس تقریب سے دی جا رہی ہے۔ ویسے تو ابھی پچھلے دنوں دور دور سے ایک ادبی حوالے سے ہمیں مبارک باد وصول ہوئی تھی۔ لیکن وہ مبارک باد تو ہمارے دیکھتے دیکھتے نئی پرانی ہو گئی۔ تو اب کس تقریب سے مبارک باد دی جا رہی ہے۔ مبارک باد دینے والے دوست نے کہا کہ ارے تم ابھی تک بے خبر ہو۔ تمہارے دوست مسعود اشعر کو سرخاب کا پر لگ گیا۔ تب ہم خوش بھی ہوئے، حیران بھی اور متجسس بھی پوچھا کہ سرخاب کا پر کس تقریب سے۔ جواب دیا کہ ارے ہم تو مسعود اشعر کو خالی مسعود اشعر سمجھتے تھے۔ مگر وہ تو بیچ میں ملالہ یوسف زئی کے رشتہ دار نکلے۔ اس خبر فرحت اثر سننے کے بعد تو ہم واقعی ورطۂ حیرت میں غرق ہو گئے۔ مگر پھر ہم اپنے اطمینان کے لیے مزید وضاحت چاہی۔ تم سے کس نے کہا۔ کسی نے ہوائی تو نہیں اڑائی۔ جواب ملا خود گھوڑے کے منہ سے یہ سنا ہے۔ یقین نہ آئے تو ان کا کالم پڑھ لو۔
تو واقعی مسعود اشعر نے خود یہ انکشاف کیا ہے اور کیسا بروقت انکشاف کیا ہے کہ ہمارے اجداد کا تعلق بھی اسی قبیلہ سے تھا جو ملالہ کا قبیلہ ہے۔ یعنی قبیلہ یوسف زئی سے، مسعود اشعر نے بتایا ہے کہ ان کے اجداد بھی یوسف زئی قبیلہ کے چشم و چراغ تھے۔ مگر پھر یوں ہوا کہ انھوں نے پہاڑوں سے اتر کر گنگا جمنی میدانوں کا رخ کیا اور رامپور میں ڈیرا ڈالا۔ لیکن رامپور تو سوات سے بہت دور ہے۔ مسعود اشعر نے کیا سوچ کر اپنے علاقہ کو چھوڑ کر اور اپنے قبیلہ سے کٹ کر اتنی دور آ کر ڈیرے ڈالے۔ کہاں سوات کہاں رامپور۔ مسعود اشعر کی رشتہ داری ملالہ سے برحق۔ مگر اب یہ دور پرے کی رشتہ داری ہے۔ خیر کوئی بات نہیں رشتہ تو ہے۔ دور ہی کا سہی۔ ارے کعبہ سے بتوں کا رشتہ تو اس سے بھی دور کا ہے۔ مگر شاعر نے بتایا اور ہم سب نے مانا کہ؎
کعبہ سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی
کعبہ سے بتوں کو نکالا گیا تھا۔ مگر مسعود اشعر کے اجداد نے خود اپنی مرضی سے سوات سے ہجرت کی اور رامپور کی مٹی سے رشتہ جوڑا۔ بہرحال ہاتھی پھرے گاؤں گاؤں، جس کا ہاتھی اس کا ناؤں۔ ہاتھی لاکھ رامپور میں آ گیا ہو مگر اس اصل تو اس کی سواتی ہی ہے۔ وہ اطمینان سے کہہ سکتے ہیں کہ میں لاکھ رامپوری سہی لیکن ؎
آبا مرے ہاتھی و سواتی
خیر سوات سے نہ سہی رامپور سے تو ہم بھی اپنا رشتہ جوڑ سکتے ہیں اس حساب سے کہ ہمارے دو دوست رامپوری گزرے ہیں۔ ایک گزر گئے، دوسرے گزر رہے ہیں۔ یعنی شاکر علی کتنے سال گزرے اللہ کو پیارے ہو چکے، مگر مسعود اشعر بفضلہ تعالیٰ زندہ و تندرست ہیں اور اب ملالہ کے نوبل لوریٹ ہونے کے بعد زیادہ زندہ نظر آتے ہیں۔
ویسے تو شاکر علی کو بھی اپنے حسب نسب پر بہت فخر تھا۔ ایک مرتبہ انھوں نے ہم پر جتایا بھی تھا کہ انتظار حسین تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم مولانا محمد علی کے خاندان سے ہیں۔ لیکن ہم جس طرح اب مسعود اشعر سے مرعوب ہیں شاکر صاحب سے مرعوب نہیں ہوئے۔ کیسے ہوتے۔ مولانا محمد علی اور ان کی تحریک خلافت دونوں غریق رحمت ہو چکے تھے اور خلافت تحریک پر تو بس چار دن کے لیے بہار آئی تھی۔ مگر ملالہ کا نوبل پرائز تو سدا بہار ہے۔
ارے ہاں ہمیں رامپور اور سوات سے ایک اور نسبت بھی تو ہے اور اس کے لیے ہم مسعود اشعر کے مرہون منت نہیں ہیں۔ وہ ہیں مکئی کے بھٹے، مکئی تو ہماری بستی کے قریب و دور کے کھیتوں میں اپنی بہار خوب دکھاتی تھی۔ بڑے ہونے پر مکئی کے پودے کیا خوب لہلہاتے تھے اور ان کے بیچ سے ایک لمبوتری شے سنہری بالوں اور ہرے پتوں میں لپٹی ہوئی کس حسن سے نمودار ہوتی تھی۔ لیجیے اس پر ہمیں ایک پہیلی یاد آ گئی۔
ہری تھی، من بھری تھی
موتیوں سے لدی تھی
راجہ جی کے باغ میں دوشالا اوڑھے کھڑی تھی
گندم کی روٹی برحق۔ مگر مکئی کی جو یہ شان ہے گیہوں اس کے سامنے کیا بیچتا ہے اور یہ جنس تو ویسے بھی حضرت آدمؑ کے وقت سے بدنام چلی آ رہی ہے۔ حضرت آدمؑ ایک دانۂ گندم کھا کر گنہگار بن گئے۔ اسی باعث انھیں جنت سے نکلنا پڑا مگر مکئی کے دامن پر کوئی ایسا داغ نہیں ہے اور ویسے تو اجناس اور بھی تھیں اور ہیں۔ جو، جوار، باجرہ، موٹھہ، مٹر، چنا لیکن مکئی کی بات ہی اور ہے۔ مکئی کے گرد جو سفید سنہرے لمبے لمبے بال لپٹے ہوتے ہیں انھیں اب پتہ چلا کہ ملالہ کے قبیلہ والے مکئی کے پھول کہتے ہیں۔ صحیح کہتے ہیں۔ ان بالوں کی مونچھیں بنا کر جب ہم اپنی ناک کے نیچے سجاتے تھے تو کتنے خوش ہوتے تھے۔ ان بالوں کی مہک الگ، بھٹوں کے زرد زرد دانوں کا علاقہ الگ۔
خیر غالبؔ نے تو بیسنی روٹی کی تعریف کی ہے۔ وہ بھی اس تقریب سے کہ حضور پر نور نے انھیں بیسنی روٹی بھیجی۔ پھر تو اس روٹی کو سرخاب کا پر لگ گیا۔
وہ شاہی روٹی بن گئی اور غالبؔ نے لکھا
نہ پوچھ اس کی حقیقت حضور والا نے
مجھے جو بھیجی ہے بیسن کی روغنی روٹی
نہ کھاتے گیہوں نکلتے نہ خلد سے باہر
جو کھاتے حضرت آدم یہ بیسنی روٹی
اب ہم کیا کہیں۔ بادشاہ کی بھیجی ہوئی بیسنی روٹی۔ غالبؔ نے اسے جنت کی جنس سے بھی بالا قرار دیدیا۔ ورنہ کجا بیسنی روٹی اور کجا مکئی کی روٹی۔ سرسوں کے ساگ کی بھجیا ساتھ کھائے تو کھانے والے کے دل و دماغ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں اور اس روٹی کا ملیدہ بنا کر کھائیں تو پھر اس کا ذائقہ اور سے اور ہو جاتا ہے۔
تو واقعی مسعود اشعر نے خود یہ انکشاف کیا ہے اور کیسا بروقت انکشاف کیا ہے کہ ہمارے اجداد کا تعلق بھی اسی قبیلہ سے تھا جو ملالہ کا قبیلہ ہے۔ یعنی قبیلہ یوسف زئی سے، مسعود اشعر نے بتایا ہے کہ ان کے اجداد بھی یوسف زئی قبیلہ کے چشم و چراغ تھے۔ مگر پھر یوں ہوا کہ انھوں نے پہاڑوں سے اتر کر گنگا جمنی میدانوں کا رخ کیا اور رامپور میں ڈیرا ڈالا۔ لیکن رامپور تو سوات سے بہت دور ہے۔ مسعود اشعر نے کیا سوچ کر اپنے علاقہ کو چھوڑ کر اور اپنے قبیلہ سے کٹ کر اتنی دور آ کر ڈیرے ڈالے۔ کہاں سوات کہاں رامپور۔ مسعود اشعر کی رشتہ داری ملالہ سے برحق۔ مگر اب یہ دور پرے کی رشتہ داری ہے۔ خیر کوئی بات نہیں رشتہ تو ہے۔ دور ہی کا سہی۔ ارے کعبہ سے بتوں کا رشتہ تو اس سے بھی دور کا ہے۔ مگر شاعر نے بتایا اور ہم سب نے مانا کہ؎
کعبہ سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی
کعبہ سے بتوں کو نکالا گیا تھا۔ مگر مسعود اشعر کے اجداد نے خود اپنی مرضی سے سوات سے ہجرت کی اور رامپور کی مٹی سے رشتہ جوڑا۔ بہرحال ہاتھی پھرے گاؤں گاؤں، جس کا ہاتھی اس کا ناؤں۔ ہاتھی لاکھ رامپور میں آ گیا ہو مگر اس اصل تو اس کی سواتی ہی ہے۔ وہ اطمینان سے کہہ سکتے ہیں کہ میں لاکھ رامپوری سہی لیکن ؎
آبا مرے ہاتھی و سواتی
خیر سوات سے نہ سہی رامپور سے تو ہم بھی اپنا رشتہ جوڑ سکتے ہیں اس حساب سے کہ ہمارے دو دوست رامپوری گزرے ہیں۔ ایک گزر گئے، دوسرے گزر رہے ہیں۔ یعنی شاکر علی کتنے سال گزرے اللہ کو پیارے ہو چکے، مگر مسعود اشعر بفضلہ تعالیٰ زندہ و تندرست ہیں اور اب ملالہ کے نوبل لوریٹ ہونے کے بعد زیادہ زندہ نظر آتے ہیں۔
ویسے تو شاکر علی کو بھی اپنے حسب نسب پر بہت فخر تھا۔ ایک مرتبہ انھوں نے ہم پر جتایا بھی تھا کہ انتظار حسین تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم مولانا محمد علی کے خاندان سے ہیں۔ لیکن ہم جس طرح اب مسعود اشعر سے مرعوب ہیں شاکر صاحب سے مرعوب نہیں ہوئے۔ کیسے ہوتے۔ مولانا محمد علی اور ان کی تحریک خلافت دونوں غریق رحمت ہو چکے تھے اور خلافت تحریک پر تو بس چار دن کے لیے بہار آئی تھی۔ مگر ملالہ کا نوبل پرائز تو سدا بہار ہے۔
ارے ہاں ہمیں رامپور اور سوات سے ایک اور نسبت بھی تو ہے اور اس کے لیے ہم مسعود اشعر کے مرہون منت نہیں ہیں۔ وہ ہیں مکئی کے بھٹے، مکئی تو ہماری بستی کے قریب و دور کے کھیتوں میں اپنی بہار خوب دکھاتی تھی۔ بڑے ہونے پر مکئی کے پودے کیا خوب لہلہاتے تھے اور ان کے بیچ سے ایک لمبوتری شے سنہری بالوں اور ہرے پتوں میں لپٹی ہوئی کس حسن سے نمودار ہوتی تھی۔ لیجیے اس پر ہمیں ایک پہیلی یاد آ گئی۔
ہری تھی، من بھری تھی
موتیوں سے لدی تھی
راجہ جی کے باغ میں دوشالا اوڑھے کھڑی تھی
گندم کی روٹی برحق۔ مگر مکئی کی جو یہ شان ہے گیہوں اس کے سامنے کیا بیچتا ہے اور یہ جنس تو ویسے بھی حضرت آدمؑ کے وقت سے بدنام چلی آ رہی ہے۔ حضرت آدمؑ ایک دانۂ گندم کھا کر گنہگار بن گئے۔ اسی باعث انھیں جنت سے نکلنا پڑا مگر مکئی کے دامن پر کوئی ایسا داغ نہیں ہے اور ویسے تو اجناس اور بھی تھیں اور ہیں۔ جو، جوار، باجرہ، موٹھہ، مٹر، چنا لیکن مکئی کی بات ہی اور ہے۔ مکئی کے گرد جو سفید سنہرے لمبے لمبے بال لپٹے ہوتے ہیں انھیں اب پتہ چلا کہ ملالہ کے قبیلہ والے مکئی کے پھول کہتے ہیں۔ صحیح کہتے ہیں۔ ان بالوں کی مونچھیں بنا کر جب ہم اپنی ناک کے نیچے سجاتے تھے تو کتنے خوش ہوتے تھے۔ ان بالوں کی مہک الگ، بھٹوں کے زرد زرد دانوں کا علاقہ الگ۔
خیر غالبؔ نے تو بیسنی روٹی کی تعریف کی ہے۔ وہ بھی اس تقریب سے کہ حضور پر نور نے انھیں بیسنی روٹی بھیجی۔ پھر تو اس روٹی کو سرخاب کا پر لگ گیا۔
وہ شاہی روٹی بن گئی اور غالبؔ نے لکھا
نہ پوچھ اس کی حقیقت حضور والا نے
مجھے جو بھیجی ہے بیسن کی روغنی روٹی
نہ کھاتے گیہوں نکلتے نہ خلد سے باہر
جو کھاتے حضرت آدم یہ بیسنی روٹی
اب ہم کیا کہیں۔ بادشاہ کی بھیجی ہوئی بیسنی روٹی۔ غالبؔ نے اسے جنت کی جنس سے بھی بالا قرار دیدیا۔ ورنہ کجا بیسنی روٹی اور کجا مکئی کی روٹی۔ سرسوں کے ساگ کی بھجیا ساتھ کھائے تو کھانے والے کے دل و دماغ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں اور اس روٹی کا ملیدہ بنا کر کھائیں تو پھر اس کا ذائقہ اور سے اور ہو جاتا ہے۔