جلسوں کے بعد کا لائحہ عمل
ملتان کے جلسے میں سات جانوں کا ضیاع جلسے کرنے والوں کی اہلیت و قابلیت کے لیے سوالیہ نشان بن چکا ہے ۔
GUJRANWALA:
پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریکِ انصاف نے گزشتہ چند ماہ سے ہمارے عوام اور الیکٹرانک میڈیا کو ایک ایسے شغل میلے میں مصروف کر دیا ہے کہ وہ تمام کوششوں کے باوجود خود کو اِس سے باہر ہی نہیں نکال پاتے ہیں ۔عوام اپنے روزمرّہ کے مسائل و مصائب کو بھول کر اِن سیاسی سرگرمیوں کے اسیر ہوچکے ہیں ۔جون جولائی میں بہت شور ہوا کہ 14ء اگست کو اسلام آباد میں سابقہ الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے خلاف دھرنا دیا جائے گا اور جو وزیرِ اعظم کے استعفیٰ کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہوگا ۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ وزیرِ اعظم کا استعفیٰ تو نہیں آیا مگر دھرنے والوں کا دھرنا بھی مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی جگہ قائم و دائم ہی رہا۔ البتہ اُن دھرنوں میں اب وہ جوش و خروش اور آب و تاب باقی نہیں رہی جو اِس کے ابتدائی دنوں میں نظر آرہی تھی۔اِسی لیے اپنے لوگوں کو مایوسی سے بچانے کے لیے سیاسی جلسوں کا اہتمام کیا جانے لگا۔دھرنے کی ابتدائی آب و تاب کی طرح یہ سیاسی جلسے بھی اپنی مثال آپ ہیں اور جب لوگ اِن سے بھی اُکتا جائیں گے تو اِن کا حال بھی شاید دھرنوں کی موجودہ کیفیت کی مانند ہو جائے گا ۔عوام بھلا کب تک ایک ہی قسم کی تقریریں اور الزامات سنتے رہیں گے ۔
عمران خان کی تقریروں میں بھی اب و ہ ولولہ اور دم خم باقی نہیں رہا جو کسی نادیدہ امپائرکی یقین دہانیوں کی بدولت جوش دِکھا رہا تھا ۔دھرنے کی دوپہر والی نشست بھی اب مکمل طور پر برخاست ہو چکی ہے جب وہ کنٹینر کی چھت پر چڑھ کراپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کرکے چالیس پچاس چکّروں پر مشتمل خوب جوگنگ کیا کرتے تھے اور میڈیا والے اِس منظر کو اپنے کیمروں میں محفوظ بھی کرلیا کرتے تھے ۔ لیکن اب وہ منظر بھی باقی نہیں رہا اور منظر کشی کرنے والے بھی ٹھنڈے پڑگئے ۔
اِدھر عمران خان کے جلسوں کو دیکھ کر ڈاکٹر طاہرالقادری کو بھی اسلام آباد کے کنٹینر سے باہر نکلنے کا خیال ستانے لگا اور وہ بھی جلسوں کے ریکارڈ بنانے کے لیے سرگرم ہو چکے ہیں۔اِن سیاسی جلسوں کی مقرر کردہ تاریخوں اور شیڈول کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ بھی چار سے چھ مہینوں کا ایسا پروگرام ہے کہ جب تک حاضرین کی تعداد خطرناک حد تک نچلی سطح کو چھونے نہیں لگے گی یہ سلسلہ جوں کا توں چلتا رہے گا ۔اب پاکستان پیپلز پارٹی بھی اِن جلسوں کے غیر موسمی قومی گیمز میں حصہ لینے کا تہیہ کر بیٹھی ہے اور وہ سونے کے نہیں تو کم از کم چاندی کے تمغوں کی تو حقدار ضرور ہو سکتی ہے اِس میں تو کسی کو کوئی شک وشبہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ بڑے بڑے سیاسی جلسے منعقد کرنے اور جلوس نکالنے میں کسی سے کم نہیں ۔
ویسے تو ایم کیو ایم اور جماعتِ اسلامی بھی اسٹریٹ پاوردکھانے میں بڑی ماہر سیاسی جماعتیں ہیں ، اگر وہ میدان میں اُتر آئیں تو بیچارے عوام کا کیا بنے گا وہ تو اپنے کام کاج سے یقیناً گئے، بس روزانہ صبح و شام روزگار اور کاروبار چھوڑ کر اور اِن جلسوں میں شریک ہو کر اپنے قائدین کی حسرتوں کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے ۔فی الحال مولانا فضل الرحمان کو یہ شوق نہیں ستا رہا ورنہ وہ بھی چالیس پچاس ہزار افراد کا مجمع لگا لینا خوب جانتے ہیں ۔ جب کہ اُن کے مجمعے میں خواتین کا کوئی عمل دخل نہیں ہوا کرتا ورنہ اُن کا مجمع توشاید سب پر بازی لے جاتا ۔شیخ رشید صاحب کو ہمیشہ اپنے عوام سے یہ گلا رہتا تھا کہ وہ اپنے جائز حقوق کے لیے بھی سڑکوں پر نہیں نکلتے ہیں لیکن اب اُن کا یہ شکوہ دور ہو گیا ہوگا ۔عوام نے ہر جلسے کو اپنی شرکت اور حاضری سے رونق بخش کر شیخ صاحب کی یہ خواہش بھی پوری کر دی ہے ۔
اب شیخ صاحب خود کیا کمال دِکھاتے ہیں عوام اِس کے انتظار میں اُن کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ بقرہ عید سے پہلے قربانی ہوگی کا دعویٰ تو ہواؤں میں تحلیل ہو چکا ہے اب وہ کونسا نیا دعویٰ کرتے ہیں ۔ سابقہ زرداری دور میں بھی وہ حکومت جانے کی ہر روز ایک نئی تار یخ دیا کرتے تھے ۔ اگر قوم کا حافظہ اتنا کمزور نہ ہوتا تو شاید لال حویلی کے اِس سیاسی پنڈت کی اب کسی بات پر وہ اعتبار نہ کرتے ۔
کراچی، لاہور ، میانوالی اور ملتان کے جلسوں کے بعد عمران خان اب دیگر شہروں کا رخ کرنے والے ہیں ۔ دیکھتے ہیں یہ سلسلہ کہاں جاکر تھمتا ہے ۔دو ماہ سے جاری دھرنوں کا کوئی نتیجہ تو ہنوز برآمد نہیں ہوا ۔اِن جلسوں سے بھلا میاں صاحب کی صحت پر کیا اثر پڑے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ سانحہ ملتان کے بعد توسانحہ لاہور (ماڈل ٹاؤن )کی دھند بھی بیٹھنے لگی ہے ۔ ملتان کے جلسے میں سات جانوں کا ضیاع جلسے کرنے والوں کی اہلیت و قابلیت کے لیے سوالیہ نشان بن چکا ہے ۔ اور اب اُنہیں اپنے اگلے جلسوں میں ڈسپلن اور تنظیم کا بڑا خیال رکھنا ہوگا ۔عوام کی بڑی تعداد دیکھ کر بہک جانا کوئی اچھا شگون ثابت نہیں ہوا کرتا ۔جو کچھ کیمرے کی آنکھوں نے دیکھا ہے اُسے ہم صرف انتظامیہ کی ذمے داری کہ کر اپنا دامن نہیں بچا سکتے ہیں ۔
خان صاحب کو تو اپنے ورکروں پر بڑا ناز تھا ۔ منتظمین اور قائدین سمیت سب کے سب بہت بڑی غفلت اور کوتاہی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ مخالفوں پر الزام تراشی کا گُر یہاں کارگر ثابت نہیں ہو پائے گا ، ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ یہ بہرحال ہماری اپنی غلطی بھی تھی ۔ ہمیں اِسے درست کرنے کی ضرورت ہے ۔اِسے دوسروں کے کاندھوں پہ ڈال کر ہم اپنی اصلاح نہیں کر پائیں گے۔ عمران خان اب شہر شہر جاکر جلسے کر رہے ہیں ۔ دھرنوں کی طرح اگر اِن کا بھی کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا تو پھر اُنکی سیاست کا کس مقام پر کھڑی ہوگی ۔اب بھی وقت ہے اپنے لائحہ عمل پر نظر ثانی کریں اور الیکشن کی جوڈیشل کمیشن کے ذریعے غیر جانبدارانہ تحقیقات ہوجانے دیں ۔دھرنوں اور جلسوں سے حکومتیں ختم نہیں کی جا سکتی ۔ آج ساری پارلیمنٹ جمہوریت کے نام پر میاں صاحب کے ساتھ کھڑی ہے گرچہ دھاندلی کی شکایت ذاتی طور پر اُنہیں بھی ہے ۔ مگر چونکہ انتخابات کے وقت ایک غیرجانبدار حکومت برسرِاقتدار تھی اور میاں صاحب خود کسی حکومتی عہدے پر فائز بھی نہ تھے ۔
چیف الیکشن کمیشن بھی عمران خان صاحب کا ہی نامزد کردہ شخص تھا ۔ پھر بھلا اگر الیکشن شفاف اور درست نہ ہوئے تو ذمے دار کون تھا ۔دھاندلی کی شکایت تو ہر صوبے میں کی گئی ۔ مگر یہ صرف پنجاب ہی ہے جہاں عمران خان آج شور مچا رہے ہیں ورنہ الیکشن والے دن تو اُنہیں کراچی میں بھی بڑی شکایتیں تھیں اب اگر مصلحتاً وہ خاموش ہوچکے ہیں توحقائق تو نہیں بدلیے جسٹس فخرالدین جی ابراہیم نے بھی دھاندلی کوئی دانستہ طور پر نہیں کی تھی اور نہ کوئی پہلے سے طے شدہ منظم دھاندلی کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا۔ جس کا جہاں داؤ چلا اُس نے اپنے طور پر یہ ہنرمندی دکھائی لہذا اِسے ہم ایک منظم دھاندلی کہہ کر سارے الیکشن پروسس کو دھاندلی زدہ قرار نہیں دے سکتے۔ا س کے باوجود اگر مسئلہ کا کوئی سنجیدہ حل تلاش کرنا ہے تو جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات پر رضامند ہونا ہی پڑے گا ۔ ورنہ انتشار اور انارکی پھیلا کر ہم نہ صرف اپنے ساتھ زیادتی کر رہے ہونگے بلکہ اپنی قوم اور اپنے وطن سے دشمنی کے مرتکب ہو رہے ہوں گے ۔
پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریکِ انصاف نے گزشتہ چند ماہ سے ہمارے عوام اور الیکٹرانک میڈیا کو ایک ایسے شغل میلے میں مصروف کر دیا ہے کہ وہ تمام کوششوں کے باوجود خود کو اِس سے باہر ہی نہیں نکال پاتے ہیں ۔عوام اپنے روزمرّہ کے مسائل و مصائب کو بھول کر اِن سیاسی سرگرمیوں کے اسیر ہوچکے ہیں ۔جون جولائی میں بہت شور ہوا کہ 14ء اگست کو اسلام آباد میں سابقہ الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے خلاف دھرنا دیا جائے گا اور جو وزیرِ اعظم کے استعفیٰ کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہوگا ۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ وزیرِ اعظم کا استعفیٰ تو نہیں آیا مگر دھرنے والوں کا دھرنا بھی مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی جگہ قائم و دائم ہی رہا۔ البتہ اُن دھرنوں میں اب وہ جوش و خروش اور آب و تاب باقی نہیں رہی جو اِس کے ابتدائی دنوں میں نظر آرہی تھی۔اِسی لیے اپنے لوگوں کو مایوسی سے بچانے کے لیے سیاسی جلسوں کا اہتمام کیا جانے لگا۔دھرنے کی ابتدائی آب و تاب کی طرح یہ سیاسی جلسے بھی اپنی مثال آپ ہیں اور جب لوگ اِن سے بھی اُکتا جائیں گے تو اِن کا حال بھی شاید دھرنوں کی موجودہ کیفیت کی مانند ہو جائے گا ۔عوام بھلا کب تک ایک ہی قسم کی تقریریں اور الزامات سنتے رہیں گے ۔
عمران خان کی تقریروں میں بھی اب و ہ ولولہ اور دم خم باقی نہیں رہا جو کسی نادیدہ امپائرکی یقین دہانیوں کی بدولت جوش دِکھا رہا تھا ۔دھرنے کی دوپہر والی نشست بھی اب مکمل طور پر برخاست ہو چکی ہے جب وہ کنٹینر کی چھت پر چڑھ کراپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کرکے چالیس پچاس چکّروں پر مشتمل خوب جوگنگ کیا کرتے تھے اور میڈیا والے اِس منظر کو اپنے کیمروں میں محفوظ بھی کرلیا کرتے تھے ۔ لیکن اب وہ منظر بھی باقی نہیں رہا اور منظر کشی کرنے والے بھی ٹھنڈے پڑگئے ۔
اِدھر عمران خان کے جلسوں کو دیکھ کر ڈاکٹر طاہرالقادری کو بھی اسلام آباد کے کنٹینر سے باہر نکلنے کا خیال ستانے لگا اور وہ بھی جلسوں کے ریکارڈ بنانے کے لیے سرگرم ہو چکے ہیں۔اِن سیاسی جلسوں کی مقرر کردہ تاریخوں اور شیڈول کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ بھی چار سے چھ مہینوں کا ایسا پروگرام ہے کہ جب تک حاضرین کی تعداد خطرناک حد تک نچلی سطح کو چھونے نہیں لگے گی یہ سلسلہ جوں کا توں چلتا رہے گا ۔اب پاکستان پیپلز پارٹی بھی اِن جلسوں کے غیر موسمی قومی گیمز میں حصہ لینے کا تہیہ کر بیٹھی ہے اور وہ سونے کے نہیں تو کم از کم چاندی کے تمغوں کی تو حقدار ضرور ہو سکتی ہے اِس میں تو کسی کو کوئی شک وشبہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ بڑے بڑے سیاسی جلسے منعقد کرنے اور جلوس نکالنے میں کسی سے کم نہیں ۔
ویسے تو ایم کیو ایم اور جماعتِ اسلامی بھی اسٹریٹ پاوردکھانے میں بڑی ماہر سیاسی جماعتیں ہیں ، اگر وہ میدان میں اُتر آئیں تو بیچارے عوام کا کیا بنے گا وہ تو اپنے کام کاج سے یقیناً گئے، بس روزانہ صبح و شام روزگار اور کاروبار چھوڑ کر اور اِن جلسوں میں شریک ہو کر اپنے قائدین کی حسرتوں کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے ۔فی الحال مولانا فضل الرحمان کو یہ شوق نہیں ستا رہا ورنہ وہ بھی چالیس پچاس ہزار افراد کا مجمع لگا لینا خوب جانتے ہیں ۔ جب کہ اُن کے مجمعے میں خواتین کا کوئی عمل دخل نہیں ہوا کرتا ورنہ اُن کا مجمع توشاید سب پر بازی لے جاتا ۔شیخ رشید صاحب کو ہمیشہ اپنے عوام سے یہ گلا رہتا تھا کہ وہ اپنے جائز حقوق کے لیے بھی سڑکوں پر نہیں نکلتے ہیں لیکن اب اُن کا یہ شکوہ دور ہو گیا ہوگا ۔عوام نے ہر جلسے کو اپنی شرکت اور حاضری سے رونق بخش کر شیخ صاحب کی یہ خواہش بھی پوری کر دی ہے ۔
اب شیخ صاحب خود کیا کمال دِکھاتے ہیں عوام اِس کے انتظار میں اُن کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ بقرہ عید سے پہلے قربانی ہوگی کا دعویٰ تو ہواؤں میں تحلیل ہو چکا ہے اب وہ کونسا نیا دعویٰ کرتے ہیں ۔ سابقہ زرداری دور میں بھی وہ حکومت جانے کی ہر روز ایک نئی تار یخ دیا کرتے تھے ۔ اگر قوم کا حافظہ اتنا کمزور نہ ہوتا تو شاید لال حویلی کے اِس سیاسی پنڈت کی اب کسی بات پر وہ اعتبار نہ کرتے ۔
کراچی، لاہور ، میانوالی اور ملتان کے جلسوں کے بعد عمران خان اب دیگر شہروں کا رخ کرنے والے ہیں ۔ دیکھتے ہیں یہ سلسلہ کہاں جاکر تھمتا ہے ۔دو ماہ سے جاری دھرنوں کا کوئی نتیجہ تو ہنوز برآمد نہیں ہوا ۔اِن جلسوں سے بھلا میاں صاحب کی صحت پر کیا اثر پڑے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ سانحہ ملتان کے بعد توسانحہ لاہور (ماڈل ٹاؤن )کی دھند بھی بیٹھنے لگی ہے ۔ ملتان کے جلسے میں سات جانوں کا ضیاع جلسے کرنے والوں کی اہلیت و قابلیت کے لیے سوالیہ نشان بن چکا ہے ۔ اور اب اُنہیں اپنے اگلے جلسوں میں ڈسپلن اور تنظیم کا بڑا خیال رکھنا ہوگا ۔عوام کی بڑی تعداد دیکھ کر بہک جانا کوئی اچھا شگون ثابت نہیں ہوا کرتا ۔جو کچھ کیمرے کی آنکھوں نے دیکھا ہے اُسے ہم صرف انتظامیہ کی ذمے داری کہ کر اپنا دامن نہیں بچا سکتے ہیں ۔
خان صاحب کو تو اپنے ورکروں پر بڑا ناز تھا ۔ منتظمین اور قائدین سمیت سب کے سب بہت بڑی غفلت اور کوتاہی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ مخالفوں پر الزام تراشی کا گُر یہاں کارگر ثابت نہیں ہو پائے گا ، ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ یہ بہرحال ہماری اپنی غلطی بھی تھی ۔ ہمیں اِسے درست کرنے کی ضرورت ہے ۔اِسے دوسروں کے کاندھوں پہ ڈال کر ہم اپنی اصلاح نہیں کر پائیں گے۔ عمران خان اب شہر شہر جاکر جلسے کر رہے ہیں ۔ دھرنوں کی طرح اگر اِن کا بھی کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا تو پھر اُنکی سیاست کا کس مقام پر کھڑی ہوگی ۔اب بھی وقت ہے اپنے لائحہ عمل پر نظر ثانی کریں اور الیکشن کی جوڈیشل کمیشن کے ذریعے غیر جانبدارانہ تحقیقات ہوجانے دیں ۔دھرنوں اور جلسوں سے حکومتیں ختم نہیں کی جا سکتی ۔ آج ساری پارلیمنٹ جمہوریت کے نام پر میاں صاحب کے ساتھ کھڑی ہے گرچہ دھاندلی کی شکایت ذاتی طور پر اُنہیں بھی ہے ۔ مگر چونکہ انتخابات کے وقت ایک غیرجانبدار حکومت برسرِاقتدار تھی اور میاں صاحب خود کسی حکومتی عہدے پر فائز بھی نہ تھے ۔
چیف الیکشن کمیشن بھی عمران خان صاحب کا ہی نامزد کردہ شخص تھا ۔ پھر بھلا اگر الیکشن شفاف اور درست نہ ہوئے تو ذمے دار کون تھا ۔دھاندلی کی شکایت تو ہر صوبے میں کی گئی ۔ مگر یہ صرف پنجاب ہی ہے جہاں عمران خان آج شور مچا رہے ہیں ورنہ الیکشن والے دن تو اُنہیں کراچی میں بھی بڑی شکایتیں تھیں اب اگر مصلحتاً وہ خاموش ہوچکے ہیں توحقائق تو نہیں بدلیے جسٹس فخرالدین جی ابراہیم نے بھی دھاندلی کوئی دانستہ طور پر نہیں کی تھی اور نہ کوئی پہلے سے طے شدہ منظم دھاندلی کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا۔ جس کا جہاں داؤ چلا اُس نے اپنے طور پر یہ ہنرمندی دکھائی لہذا اِسے ہم ایک منظم دھاندلی کہہ کر سارے الیکشن پروسس کو دھاندلی زدہ قرار نہیں دے سکتے۔ا س کے باوجود اگر مسئلہ کا کوئی سنجیدہ حل تلاش کرنا ہے تو جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات پر رضامند ہونا ہی پڑے گا ۔ ورنہ انتشار اور انارکی پھیلا کر ہم نہ صرف اپنے ساتھ زیادتی کر رہے ہونگے بلکہ اپنی قوم اور اپنے وطن سے دشمنی کے مرتکب ہو رہے ہوں گے ۔