بے سہارا بچوں کا سہارا ’’کیلاش ستیارتھی‘‘
معصوم بچوں کی خوشیاں لوٹانے پہ جُتے ایک بھارتی سماجی رہنما کا قصہ ِحیات، عزم ِمصمم نے اسے نوبل انعام کا حقدار بنا دیا
FAISALABAD:
''انسان جب بھی کسی دوسرے کو سہارا دے، تو وہ انسانیت کو سربلند کردیتا ہے۔'' یہ خوبصورت قول ان مرد وزن پر موزوں بیٹھتا ہے جو دوسروں کے لیے جیتے اور بے بس انسانوں کی زندگیاں آسان بناتے ہیں۔ ایسے ہی خوش نصیب لوگوں میں 2014ء کا امن نوبل انعام پانے والے بھارتی سماجی رہنما، کیلاش ستیارتھی بھی شامل ہیں۔
ساٹھ سالہ کیلاش مشہور شہر بھوپال کے نزدیک واقع قصبے، ودیشا میں 11 جنوری 1954 کو پیدا ہوئے۔ کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق تھا، چناں چہ لاڈ پیار سے پرورش ہوئی۔ جو خواہش کرتے والدین پوری کردیتے۔ لیکن کیلاش جب سکول جانے لگے، تو پہلی بار انہیں علم ہوا کہ سبھی بچے ان کی طرح آسائشوں اور آسانیوں سے بھری زندگی نہیں گزار رہے۔
اسکول آتے جاتے وہ دیکھتے کہ ان کی عمر کے بچے دکانوں میں کام کررہے ہیں۔ کوئی منا سودا بیچتا، تو دوسرا گاڑیاں ٹھیک کرنے میں مگن ہوتا۔ادھر منی بھیک مانگ رہی ہوتی۔ والدین سے دریافت کرنے پر افشا ہوا کہ یہ بچے غریب ہیں اور پڑھنے کا خرچ نہیں اٹھاسکتے۔
تعلیم پاکر کیلاش الیکٹریکل انجینئر بن گئے اور بھوپال کے ایک سکول میں پڑھانے لگے۔ تاہم اپنے دیس کے نادار بچوں کی حالت زار دیکھ کر وہ اندر ہی اندر کڑھتے رہتے۔ تب تک وہ سیکڑوں برس سے چلے آرہے اس گھن چکر کو بھی سمجھ چکے تھے جس کی وجہ سے دنیا بھر میں کروڑوں بچے بچپن ہی میں کام کرنے لگتے اور اپنی معصومیت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
اس انوکھے چکر کی تشریح یہ ہے کہ ایک غریب گھرانا اپنے بچوں کو کم عمری ہی میں کام پر لگا دیتا ہے تاکہ وہ خاندان کی آمدن بڑھا سکیں۔ بھارت اور پاکستان میں تو لاکھوں والدین اپنے بچوں کو زمینداروں یا کارخانے داروں کے ہاں فروخت کردیتے ہیں۔ چناں چہ فروخت شدہ بچے زمینوں، فیکٹریوں، دکانوں وغیرہ میں بہ حیثیت ''بندوا مزدور'' (bonded labour) تقریباً ساری عمر کام کرتے اور بڑی بھیانک زندگی گذارتے ہیں۔
کیلاش سوچنے لگے کہ اس چکر کو کیسے توڑا جائے تاکہ غریب گھرانوں کے بچے اپنے بچپن سے محروم نہ ہوں۔ وہ بھی عام بچوں کی طرح آزادی سے زندگی بسر کریں۔ نیلے آکاش تلے کھیلیں، پھولوں کی خوشبو اور چڑیوں کی چہچہار سے لطف اٹھائیں، زندگی کے تلخ و شیریں ذائقوں سے روشناس ہوں اور اپنی حیاتی کسی مفید کام پر لگائیں۔
سوچ بچار کے بعد انہیں خیال آیا کہ صرف تعلیم ہی غریب بچوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرسکتی ہے۔ لیکن انھیں تعلیم دلانے سے قبل ضروری تھا کہ خصوصاً ''بندوا مزدور بچوں'' کو بالغوں کی آمریت، خود غرضی،لالچ اور ظلم و ستم سے نجات دلائی جائے۔
بیشتر جگہوں پر یہ مزدور بچے انتہائی ستم رسیدہ زندگی بسر کررہے تھے۔ کئی ناخواندہ مالک مزدور بچوں کو اپنا غلام سمجھتے اور ان سے جانوروں جیسا سلوک کرتے۔ روزانہ مارپیٹ عام بات تھی۔ ورنہ بچوں کے معصوم جسم سگریٹ سے داغے جاتے اور اسی طرح کی دیگر اذیت ناک سزائیں انہیں دی جاتیں تاکہ وہ کام سے منہ نہ موڑیں اور گھنٹوں جتے رہیں۔
بندوا مزدور بچوں کو آزادی دلانے کی خاطر ہی کیلاش ستیارتھی نے اپنے پُر کشش کیرئیر کو خیر باد کہا اور 1980ء میں ایک سماجی تنظیم، بچپن بچاؤ اندولن (تحریک) کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کے جھنڈے تلے انہوں نے پھر بھارت بھر میں یہ مہم چلائی کہ معصوم بچوں سے گھروں، فیکٹریوں اور دکانوں میں کام نہ کرایا جائے۔ حقوق اطفال کے قوانین بھی اس ظالمانہ روش کو روکتے ہیں۔ مگر سبھی ترقی پذیر ممالک کی طرح بھارت میں بھی قانون و انصاف امرا کے گریبانوں میں ہاتھ نہیں ڈال سکتے، چناں چہ بچوں کا کھلے عام استحصال ہوتا ہے۔
بہرحال جوں جوں بھارتی معاشرے میں آگاہی پھیلی، حقوق اطفال نمایاں ہونے لگے۔ اس دوران عوام بھی اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ ہوئے اور قانون کے ہاتھ مضبوط و لمبے ہونے لگے۔ اس آگاہی نے بچپن بچاؤ تحریک کو تقویت پہنچائی۔ کیلاش کی سربراہی میں تحریک کے رضا کار مختلف فیکٹریوں، دفاتر اور گھروں میں چھاپے مارنے لگے۔ جہاں بندوا مزدور بچے ملتے، انہیں بزور آزاد کرالیا جاتا۔
کیلاش پھر ان بچوں کو بے یارو مددگار نہ چھوڑتے بلکہ انہیں سہارا اور تحفظ فراہم کرتے۔ بچوں کوکوئی ہنر سکھایا جاتا تاکہ وہ بالغ ہوکر کمائی کے قابل ہوسکیں۔ پچھلے چونتیس برس میں کیلاش اپنے ساتھیوں کے ساتھ 80 ہزار سے زائد بھارتی بندوا مزدور بچوں کو محنت و مشقت کی زنجیروں سے آزادی دلواچکے۔
کیلاش کا نظریہ یہ ہے کہ غربت کی وجہ سے بچے کو کام کرنے پر مجبور کرنا ظلم ہے۔ وجہ یہ کہ یوں بچے کا سہانا بچپن ہی نہیں چھنتا، بلکہ وہ ساری عمر غریب ہی رہتا ہے۔ تمام زندگی محنت و مشقت کرنا اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ چناں چہ غربت کے اس شیطانی چکر سے چھٹکارے کا واحد راستہ یہ ہے کہ بچے کو تعلیم و ہنر سے آراستہ کیا جائے۔
نوبل انعام یافتہ کیلاش ستیارتھی بچوں کو اپنا دوست ہی نہیں استاد بھی سمجھتے ہیں۔ کہتے ہیں ''میں بچوں کو کبھی اس نظریے سے نہیں دیکھتا کہ وہ رحم یا مدد کے قابل ہیں۔ یہ تصور دقیانوسی ہوچکا۔ زمانہ قدیم میں لوگ بچوں کے رویے کو بچکانہ و احمقانہ سمجھتے تھے۔ مگر اس طرز فکر کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ بڑے بھی بچوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ سچے ہوتے اور صاف بات کرتے ہیں، کسی کے خلاف چھل کپٹ نہیں رکھتے۔ بچے سادگی وخلوص کا استعارہ ہیں اور ان کی دوستی سے مجھ پر زندگی و خوبصورتی کے نئے معنی آشکارا ہوئے۔''
معصوم مزدور بچوں کو آزاد کرانے کی خاطر کئی بار کیلاش نے اپنی جان بھی داؤ پر لگائی۔ دیہی علاقوں میں مقیم زمیندار، مل اونر، کانوں کے مالک وغیرہ عموماً اپنے علاقے میں موالی بنے ہوتے ہیں۔ جو کوئی ان کی حکومت کو چیلنج کرے، وہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ کیلاش ستیارتھی نے بھی غنڈوں کے ہاتھوں کئی بار مار کھائی، حتیٰ کہ خونم خون ہوکر قبر کنارے تک جاپہنچے، مگر غلام بچوں کو آزاد کراکر ہی دم لیا۔ اپنے مشن سے شدید محبت رکھنے والے کیلاش بچوں بڑوں میں ''بھائی صاحب'' کے عرف سے مقبول ہیں۔
کیلاش اپنی تحریک کے سلسلے میں پاکستان سمیت دیگر ممالک بھی جا چکے۔ وہاں حقوق اطفال کی آواز بلند کرنے والے سماجی رہنماؤں سے تبادلہ خیال اور ان کے ساتھ کام کیا۔ صد افسوس کہ کیلاش ستیارتھی اور ان کی سرگرمیوں کے متعلق بھارتی سیاست دانوں اور افسر شاہی کا کردار بڑا مایوس کن بلکہ شرمناک رہا۔بیشتر بھارتیوں نے نوبل انعام ملنے کے بعد ہی ان کا نام سنا حالانکہ وہ پچھلے بیس سال میں کئی عالمی اعزاز حاصل کر چکے۔
یہ لمحہ فکریہ ہے کہ آج بھی بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور کئی ترقی پذیر ممالک میں لاکھوں ظالم والدین ''غربت کی مجبوری'' کے نام پر اپنے کروڑوں معصوم بچوں کو کام پر لگاتے اور ان سے سہانا بچپن چھیننے کا بہت بڑا گناہ کرتے ہیں۔ امید ہے کہ کیلاش ستیارتھی کو نوبل انعام ملنے سے عوام میں حقوق اطفال کے بارے میں آگاہی بڑھے گی اور وہ یہ حقیقت جانیں گے کہ ایک بچہ کام پر لگنے سے محض تعلیم و ہنر ہی نہیں پاتا بلکہ مفید شہری بن جاتا ہے اور یوں اس کی زندگی بھی سنور جاتی ہے۔
''انسان جب بھی کسی دوسرے کو سہارا دے، تو وہ انسانیت کو سربلند کردیتا ہے۔'' یہ خوبصورت قول ان مرد وزن پر موزوں بیٹھتا ہے جو دوسروں کے لیے جیتے اور بے بس انسانوں کی زندگیاں آسان بناتے ہیں۔ ایسے ہی خوش نصیب لوگوں میں 2014ء کا امن نوبل انعام پانے والے بھارتی سماجی رہنما، کیلاش ستیارتھی بھی شامل ہیں۔
ساٹھ سالہ کیلاش مشہور شہر بھوپال کے نزدیک واقع قصبے، ودیشا میں 11 جنوری 1954 کو پیدا ہوئے۔ کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق تھا، چناں چہ لاڈ پیار سے پرورش ہوئی۔ جو خواہش کرتے والدین پوری کردیتے۔ لیکن کیلاش جب سکول جانے لگے، تو پہلی بار انہیں علم ہوا کہ سبھی بچے ان کی طرح آسائشوں اور آسانیوں سے بھری زندگی نہیں گزار رہے۔
اسکول آتے جاتے وہ دیکھتے کہ ان کی عمر کے بچے دکانوں میں کام کررہے ہیں۔ کوئی منا سودا بیچتا، تو دوسرا گاڑیاں ٹھیک کرنے میں مگن ہوتا۔ادھر منی بھیک مانگ رہی ہوتی۔ والدین سے دریافت کرنے پر افشا ہوا کہ یہ بچے غریب ہیں اور پڑھنے کا خرچ نہیں اٹھاسکتے۔
تعلیم پاکر کیلاش الیکٹریکل انجینئر بن گئے اور بھوپال کے ایک سکول میں پڑھانے لگے۔ تاہم اپنے دیس کے نادار بچوں کی حالت زار دیکھ کر وہ اندر ہی اندر کڑھتے رہتے۔ تب تک وہ سیکڑوں برس سے چلے آرہے اس گھن چکر کو بھی سمجھ چکے تھے جس کی وجہ سے دنیا بھر میں کروڑوں بچے بچپن ہی میں کام کرنے لگتے اور اپنی معصومیت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
اس انوکھے چکر کی تشریح یہ ہے کہ ایک غریب گھرانا اپنے بچوں کو کم عمری ہی میں کام پر لگا دیتا ہے تاکہ وہ خاندان کی آمدن بڑھا سکیں۔ بھارت اور پاکستان میں تو لاکھوں والدین اپنے بچوں کو زمینداروں یا کارخانے داروں کے ہاں فروخت کردیتے ہیں۔ چناں چہ فروخت شدہ بچے زمینوں، فیکٹریوں، دکانوں وغیرہ میں بہ حیثیت ''بندوا مزدور'' (bonded labour) تقریباً ساری عمر کام کرتے اور بڑی بھیانک زندگی گذارتے ہیں۔
کیلاش سوچنے لگے کہ اس چکر کو کیسے توڑا جائے تاکہ غریب گھرانوں کے بچے اپنے بچپن سے محروم نہ ہوں۔ وہ بھی عام بچوں کی طرح آزادی سے زندگی بسر کریں۔ نیلے آکاش تلے کھیلیں، پھولوں کی خوشبو اور چڑیوں کی چہچہار سے لطف اٹھائیں، زندگی کے تلخ و شیریں ذائقوں سے روشناس ہوں اور اپنی حیاتی کسی مفید کام پر لگائیں۔
سوچ بچار کے بعد انہیں خیال آیا کہ صرف تعلیم ہی غریب بچوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرسکتی ہے۔ لیکن انھیں تعلیم دلانے سے قبل ضروری تھا کہ خصوصاً ''بندوا مزدور بچوں'' کو بالغوں کی آمریت، خود غرضی،لالچ اور ظلم و ستم سے نجات دلائی جائے۔
بیشتر جگہوں پر یہ مزدور بچے انتہائی ستم رسیدہ زندگی بسر کررہے تھے۔ کئی ناخواندہ مالک مزدور بچوں کو اپنا غلام سمجھتے اور ان سے جانوروں جیسا سلوک کرتے۔ روزانہ مارپیٹ عام بات تھی۔ ورنہ بچوں کے معصوم جسم سگریٹ سے داغے جاتے اور اسی طرح کی دیگر اذیت ناک سزائیں انہیں دی جاتیں تاکہ وہ کام سے منہ نہ موڑیں اور گھنٹوں جتے رہیں۔
بندوا مزدور بچوں کو آزادی دلانے کی خاطر ہی کیلاش ستیارتھی نے اپنے پُر کشش کیرئیر کو خیر باد کہا اور 1980ء میں ایک سماجی تنظیم، بچپن بچاؤ اندولن (تحریک) کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کے جھنڈے تلے انہوں نے پھر بھارت بھر میں یہ مہم چلائی کہ معصوم بچوں سے گھروں، فیکٹریوں اور دکانوں میں کام نہ کرایا جائے۔ حقوق اطفال کے قوانین بھی اس ظالمانہ روش کو روکتے ہیں۔ مگر سبھی ترقی پذیر ممالک کی طرح بھارت میں بھی قانون و انصاف امرا کے گریبانوں میں ہاتھ نہیں ڈال سکتے، چناں چہ بچوں کا کھلے عام استحصال ہوتا ہے۔
بہرحال جوں جوں بھارتی معاشرے میں آگاہی پھیلی، حقوق اطفال نمایاں ہونے لگے۔ اس دوران عوام بھی اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ ہوئے اور قانون کے ہاتھ مضبوط و لمبے ہونے لگے۔ اس آگاہی نے بچپن بچاؤ تحریک کو تقویت پہنچائی۔ کیلاش کی سربراہی میں تحریک کے رضا کار مختلف فیکٹریوں، دفاتر اور گھروں میں چھاپے مارنے لگے۔ جہاں بندوا مزدور بچے ملتے، انہیں بزور آزاد کرالیا جاتا۔
کیلاش پھر ان بچوں کو بے یارو مددگار نہ چھوڑتے بلکہ انہیں سہارا اور تحفظ فراہم کرتے۔ بچوں کوکوئی ہنر سکھایا جاتا تاکہ وہ بالغ ہوکر کمائی کے قابل ہوسکیں۔ پچھلے چونتیس برس میں کیلاش اپنے ساتھیوں کے ساتھ 80 ہزار سے زائد بھارتی بندوا مزدور بچوں کو محنت و مشقت کی زنجیروں سے آزادی دلواچکے۔
کیلاش کا نظریہ یہ ہے کہ غربت کی وجہ سے بچے کو کام کرنے پر مجبور کرنا ظلم ہے۔ وجہ یہ کہ یوں بچے کا سہانا بچپن ہی نہیں چھنتا، بلکہ وہ ساری عمر غریب ہی رہتا ہے۔ تمام زندگی محنت و مشقت کرنا اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ چناں چہ غربت کے اس شیطانی چکر سے چھٹکارے کا واحد راستہ یہ ہے کہ بچے کو تعلیم و ہنر سے آراستہ کیا جائے۔
نوبل انعام یافتہ کیلاش ستیارتھی بچوں کو اپنا دوست ہی نہیں استاد بھی سمجھتے ہیں۔ کہتے ہیں ''میں بچوں کو کبھی اس نظریے سے نہیں دیکھتا کہ وہ رحم یا مدد کے قابل ہیں۔ یہ تصور دقیانوسی ہوچکا۔ زمانہ قدیم میں لوگ بچوں کے رویے کو بچکانہ و احمقانہ سمجھتے تھے۔ مگر اس طرز فکر کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ بڑے بھی بچوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ سچے ہوتے اور صاف بات کرتے ہیں، کسی کے خلاف چھل کپٹ نہیں رکھتے۔ بچے سادگی وخلوص کا استعارہ ہیں اور ان کی دوستی سے مجھ پر زندگی و خوبصورتی کے نئے معنی آشکارا ہوئے۔''
معصوم مزدور بچوں کو آزاد کرانے کی خاطر کئی بار کیلاش نے اپنی جان بھی داؤ پر لگائی۔ دیہی علاقوں میں مقیم زمیندار، مل اونر، کانوں کے مالک وغیرہ عموماً اپنے علاقے میں موالی بنے ہوتے ہیں۔ جو کوئی ان کی حکومت کو چیلنج کرے، وہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ کیلاش ستیارتھی نے بھی غنڈوں کے ہاتھوں کئی بار مار کھائی، حتیٰ کہ خونم خون ہوکر قبر کنارے تک جاپہنچے، مگر غلام بچوں کو آزاد کراکر ہی دم لیا۔ اپنے مشن سے شدید محبت رکھنے والے کیلاش بچوں بڑوں میں ''بھائی صاحب'' کے عرف سے مقبول ہیں۔
کیلاش اپنی تحریک کے سلسلے میں پاکستان سمیت دیگر ممالک بھی جا چکے۔ وہاں حقوق اطفال کی آواز بلند کرنے والے سماجی رہنماؤں سے تبادلہ خیال اور ان کے ساتھ کام کیا۔ صد افسوس کہ کیلاش ستیارتھی اور ان کی سرگرمیوں کے متعلق بھارتی سیاست دانوں اور افسر شاہی کا کردار بڑا مایوس کن بلکہ شرمناک رہا۔بیشتر بھارتیوں نے نوبل انعام ملنے کے بعد ہی ان کا نام سنا حالانکہ وہ پچھلے بیس سال میں کئی عالمی اعزاز حاصل کر چکے۔
یہ لمحہ فکریہ ہے کہ آج بھی بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور کئی ترقی پذیر ممالک میں لاکھوں ظالم والدین ''غربت کی مجبوری'' کے نام پر اپنے کروڑوں معصوم بچوں کو کام پر لگاتے اور ان سے سہانا بچپن چھیننے کا بہت بڑا گناہ کرتے ہیں۔ امید ہے کہ کیلاش ستیارتھی کو نوبل انعام ملنے سے عوام میں حقوق اطفال کے بارے میں آگاہی بڑھے گی اور وہ یہ حقیقت جانیں گے کہ ایک بچہ کام پر لگنے سے محض تعلیم و ہنر ہی نہیں پاتا بلکہ مفید شہری بن جاتا ہے اور یوں اس کی زندگی بھی سنور جاتی ہے۔