سردار اختر مینگل کی تلخ نوائی
سردار اخترمینگل بلوچستان کے وزیراعلیٰ رہے ہیں‘ ان کے والد عطاء اللہ مینگل بھی بلوچستان کے وزیراعلیٰ رہے ہیں
مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے جمعے کو لاہور سے اسلام آباد جا کر بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل سے ملاقات کی۔
سردار اختر مینگل ان دنوں سپریم کورٹ میں اپنا بیان ریکارڈ کرانے اسلام آباد آئے ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میںسپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جمعرات کو بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت کی جس میں سردار اختر مینگل نے اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔
میاں نواز شریف کی سردار اخترمینگل سے ملاقات انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ ان دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں کن امور پر بات چیت ہوئی، اس کا اندازہ مشترکہ پریس کانفرنس میں ہو گیا ہے۔ سردار اختر مینگل نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وہی کچھ کہا جو وہ جمعرات کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے روبرو کہہ چکے ہیں۔
اختر مینگل نے سپریم کورٹ میں اپنے تحریری موقف میں واضح کیا کہ با مقصد اور با معنی مذاکرات کے لیے حکومت کو کچھ ضروری اقدامات کرنا ہوں گے۔ بلوچستان میں جاری تمام فوجی آپریشنز کو بند کیا جائے، تمام لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے، خفیہ ایجنسی اور اس کے زیر اثر اسکواڈ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے اقدامات سے روکا جائے۔
تمام بلوچ رہنمائوں کو سیاسی عمل میں شرکت کا موقع دیا جائے، بلوچ رہنمائوں اور کارکنوں کے قتل کے ذمے داروں کو کٹہرے میں لایا جائے، ہزاروں بلوچوں کو آبائی علاقوں میں پر امن زندگی گزارنے کاموقع دیا جائے، اعتماد سازی کے اقدامات کے بعد بلوچستان کی اصل قیادت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ میں مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔
انھوں نے بلوچستان کے معاملے کو کشمیر سے زیادہ سنگین قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہر حکومت لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتی رہی، بلوچوں کے کس جرم میں ان کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جاتا ہے، سپریم کورٹ کے سوا کسی پر اعتماد نہیں، اختر مینگل کا کہنا تھا کہ مایوسی کفر ہے لیکن حکومت اور ایجنسیز سے امید وابستہ کرنا بھی گناہ سمجھتا ہوں۔ 450 مسخ شدہ نعشیں کسی سونامی کا نتیجہ نہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ بڑا سوالیہ نشان ہے، قوم دیکھے گی عدالت اس کیس میں کس حد تک جاتی ہے، مقدمے کو نتیجہ خیز بنانا چاہتے ہیں۔
سردار اخترمینگل بلوچستان کے وزیراعلیٰ رہے ہیں' ان کے والد عطاء اللہ مینگل بھی بلوچستان کے وزیراعلیٰ رہے ہیں، بلوچستان میں ان کا اثر و رسوخ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اس پس منظر میں سردار اختر مینگل نے جو کچھ سپریم کورٹ میں اور پھر میاں نواز شریف سے ملاقات کے بعد صحافیوں کے سامنے کہا، ان کی باتوں کو معمولی نہیں سمجھا جا سکتا۔
مقتدر حلقوں کو ان پر غور نہیں بلکہ آگے بڑھ کر انھیں اعتماد میں لینا چاہیے۔ ان کی باتوں میں غصہ، ناراضی اور تلخی صاف جھلک رہی تھی لیکن اس غصے، تلخی اور ناراضی میں امید کی جھلک بھی نمایاں نظر آ رہی ہے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ انھیں سپریم کورٹ آف پاکستان پر اعتماد ہے، اس کا اظہار انھوں نے اپنے عدالتی بیان میں بھی کیا اور میاں نواز شریف کے ہمراہ اخبار نویسوں سے گفتگو کے دوران بھی کیا۔
انھوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے بلوچستان کے مسئلے سے جڑے ہوئے سب سے اہم مسئلے لاپتہ افراد کے معاملے کا نوٹس لیا۔ انھوں نے بات چیت کے دروازے کو بھی بند نہیں کیا البتہ یہ ضرور کہا ہے کہ یہ بامقصد ہونی چاہئیں۔ ان کا یہ کہنا غلط بھی نہیں ہے، مذاکرات کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ کسی مسئلے کا حل نکالا جائے، اس لیے بلوچ قیادت سے بھی مذاکرات کرنے ہیں تو وہ نتیجہ خیز ہونے چاہئیں۔
انھوں نے چھ نکات کی بات کی ہے۔ یہ نکات بھی وہ سپریم کورٹ میں پیش کر چکے ہیں۔ انھوں نے میاں نواز شریف کے ہمراہ صحافیوں سے بات چیت کے دوران واضح کیا کہ چھ نکات کو شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات سے مختلف نہ سمجھا جائے' انھوں نے یہ چیلنج بھی کیا کہ ان نکات میں کوئی ایسا نکتہ نہیں جو آئین پاکستان کے خلاف ہو' اگر کوئی نکتہ ہے تو وہ انھیں دکھایا جائے۔ انھوں نے خبردار کیا کہ اگر ان کے چھ نکات نہ مانے گئے تو بلوچستان ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں ہو گا۔
انھوں نے یہ بھی کہا الیکشن ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں' بلوچستان 12 سال سے حالت جنگ میں ہے۔ انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں پانچ فوجی آپریشن ہوئے ہیں۔ اس موقعے پر صحافیوں نے ان سے سوال کیا کہ کیا بہتر نہیں کہ آپ پاکستان کے دیگر لوگوں کے ساتھ اکٹھے چلیں، اس پر انھوں نے جواب دیا کہ ہم اکٹھے چلنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں اکٹھے چلایا نہیں جا رہا۔
اس موقع پر انھوں نے خان آف قلات نواب نو روز اور ان کے بیٹوں کی پھانسی کا ذکر کیا' انھوں نے سپریم کورٹ میں دیے گئے اپنے بیان کو دہرایا کہ اگر ہم اکٹھے نہیں چل سکتے تو ایک دوسرے کا گلا دبانے کے بجائے بہتر ہے کہ گلے مل کر الگ ہو جائیں۔ ان باتوں سے ان کے اندر چھپے ہوئے غصے، تلخی اور احساس محرومی کا واضح اظہار ہوتا ہے۔ سردار اختر مینگل کو حق حاصل ہے کہ وہ جو درست سمجھتے ہیں، وہ کہیں۔ ان کی تلخ باتوں میں بھی امید کے چراغ جل رہے ہیں۔
میاں نواز شریف کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے ناراض بلوچ قیادت سے رابطے کیے، جو کام حکومت کو کرنا چاہیے، وہ میاں نواز شریف کر رہے ہیں، مسلم لیگ ن قومی اسمبلی میں اپوزیشن پارٹی ہے، بلوچستان کے مسئلے پر اس نے آگے بڑھ کر یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان کے تحفظ اور سلامتی کے لیے کام کرنا محض حکومت کی ذمے داری نہیں ہے، ملک کی سیاسی جماعتوں کی قیادت کو اپنے طور پر بھی آگے بڑھنا چاہیے۔
میاں نواز شریف نے بڑے تحمل اور برد باری سے سردار اختر مینگل کی باتیں سنیں۔ انھوں نے واضح کیا کہ وہ وزیر اعظم تھے' انھیں بھی جیل بھیجا گیا۔ انھوں نے سات برس جلا وطنی کاٹی' انھوں نے اپنے والد محترم کا انتقال اور پھر ان کی لاہور میں تدفین کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انھیں جنازے میں شریک نہیں ہونے دیا گیا۔ اس صورت حال سے وہ بھی باغی بننے کے بہت قریب تھے۔ ان باتوں میں یہی پیغام تھا کہ اسٹیبلشمنٹ اور پنجاب میں فرق ہے۔ سب کے ساتھ زیادتی ڈکٹیٹروں نے کی ہے، کسی صوبے نے ایک دوسرے کے ساتھ زیادتی نہیں کی۔
انھوں نے تسلیم کیا کہ اس وقت بلوچ قیادت سخت مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ ہم سب ایک عجیب کشمکش میں ہیں کہ بلوچستان کے زخموں پر مرہم کیسے رکھا جائے۔ ہم مشرقی پاکستان کا المیہ دیکھ چکے ہیں' ہمیں اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ قوم کو سر جوڑ کر سوچنا چاہیے کہ وہ کونسے حالات اور غلطیاں ہیں جن کے باعث بلوچستان کا مسئلہ پیدا ہوا۔ بلوچستان کا مسئلہ سب کے سامنے آچکا ہے۔ ناراض بلوچ قیادت کو منانا، مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔
سردار اختر مینگل ان دنوں سپریم کورٹ میں اپنا بیان ریکارڈ کرانے اسلام آباد آئے ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میںسپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جمعرات کو بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت کی جس میں سردار اختر مینگل نے اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔
میاں نواز شریف کی سردار اخترمینگل سے ملاقات انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ ان دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں کن امور پر بات چیت ہوئی، اس کا اندازہ مشترکہ پریس کانفرنس میں ہو گیا ہے۔ سردار اختر مینگل نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وہی کچھ کہا جو وہ جمعرات کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے روبرو کہہ چکے ہیں۔
اختر مینگل نے سپریم کورٹ میں اپنے تحریری موقف میں واضح کیا کہ با مقصد اور با معنی مذاکرات کے لیے حکومت کو کچھ ضروری اقدامات کرنا ہوں گے۔ بلوچستان میں جاری تمام فوجی آپریشنز کو بند کیا جائے، تمام لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے، خفیہ ایجنسی اور اس کے زیر اثر اسکواڈ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے اقدامات سے روکا جائے۔
تمام بلوچ رہنمائوں کو سیاسی عمل میں شرکت کا موقع دیا جائے، بلوچ رہنمائوں اور کارکنوں کے قتل کے ذمے داروں کو کٹہرے میں لایا جائے، ہزاروں بلوچوں کو آبائی علاقوں میں پر امن زندگی گزارنے کاموقع دیا جائے، اعتماد سازی کے اقدامات کے بعد بلوچستان کی اصل قیادت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ میں مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔
انھوں نے بلوچستان کے معاملے کو کشمیر سے زیادہ سنگین قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہر حکومت لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتی رہی، بلوچوں کے کس جرم میں ان کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جاتا ہے، سپریم کورٹ کے سوا کسی پر اعتماد نہیں، اختر مینگل کا کہنا تھا کہ مایوسی کفر ہے لیکن حکومت اور ایجنسیز سے امید وابستہ کرنا بھی گناہ سمجھتا ہوں۔ 450 مسخ شدہ نعشیں کسی سونامی کا نتیجہ نہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ بڑا سوالیہ نشان ہے، قوم دیکھے گی عدالت اس کیس میں کس حد تک جاتی ہے، مقدمے کو نتیجہ خیز بنانا چاہتے ہیں۔
سردار اخترمینگل بلوچستان کے وزیراعلیٰ رہے ہیں' ان کے والد عطاء اللہ مینگل بھی بلوچستان کے وزیراعلیٰ رہے ہیں، بلوچستان میں ان کا اثر و رسوخ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اس پس منظر میں سردار اختر مینگل نے جو کچھ سپریم کورٹ میں اور پھر میاں نواز شریف سے ملاقات کے بعد صحافیوں کے سامنے کہا، ان کی باتوں کو معمولی نہیں سمجھا جا سکتا۔
مقتدر حلقوں کو ان پر غور نہیں بلکہ آگے بڑھ کر انھیں اعتماد میں لینا چاہیے۔ ان کی باتوں میں غصہ، ناراضی اور تلخی صاف جھلک رہی تھی لیکن اس غصے، تلخی اور ناراضی میں امید کی جھلک بھی نمایاں نظر آ رہی ہے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ انھیں سپریم کورٹ آف پاکستان پر اعتماد ہے، اس کا اظہار انھوں نے اپنے عدالتی بیان میں بھی کیا اور میاں نواز شریف کے ہمراہ اخبار نویسوں سے گفتگو کے دوران بھی کیا۔
انھوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے بلوچستان کے مسئلے سے جڑے ہوئے سب سے اہم مسئلے لاپتہ افراد کے معاملے کا نوٹس لیا۔ انھوں نے بات چیت کے دروازے کو بھی بند نہیں کیا البتہ یہ ضرور کہا ہے کہ یہ بامقصد ہونی چاہئیں۔ ان کا یہ کہنا غلط بھی نہیں ہے، مذاکرات کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ کسی مسئلے کا حل نکالا جائے، اس لیے بلوچ قیادت سے بھی مذاکرات کرنے ہیں تو وہ نتیجہ خیز ہونے چاہئیں۔
انھوں نے چھ نکات کی بات کی ہے۔ یہ نکات بھی وہ سپریم کورٹ میں پیش کر چکے ہیں۔ انھوں نے میاں نواز شریف کے ہمراہ صحافیوں سے بات چیت کے دوران واضح کیا کہ چھ نکات کو شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات سے مختلف نہ سمجھا جائے' انھوں نے یہ چیلنج بھی کیا کہ ان نکات میں کوئی ایسا نکتہ نہیں جو آئین پاکستان کے خلاف ہو' اگر کوئی نکتہ ہے تو وہ انھیں دکھایا جائے۔ انھوں نے خبردار کیا کہ اگر ان کے چھ نکات نہ مانے گئے تو بلوچستان ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں ہو گا۔
انھوں نے یہ بھی کہا الیکشن ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں' بلوچستان 12 سال سے حالت جنگ میں ہے۔ انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں پانچ فوجی آپریشن ہوئے ہیں۔ اس موقعے پر صحافیوں نے ان سے سوال کیا کہ کیا بہتر نہیں کہ آپ پاکستان کے دیگر لوگوں کے ساتھ اکٹھے چلیں، اس پر انھوں نے جواب دیا کہ ہم اکٹھے چلنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں اکٹھے چلایا نہیں جا رہا۔
اس موقع پر انھوں نے خان آف قلات نواب نو روز اور ان کے بیٹوں کی پھانسی کا ذکر کیا' انھوں نے سپریم کورٹ میں دیے گئے اپنے بیان کو دہرایا کہ اگر ہم اکٹھے نہیں چل سکتے تو ایک دوسرے کا گلا دبانے کے بجائے بہتر ہے کہ گلے مل کر الگ ہو جائیں۔ ان باتوں سے ان کے اندر چھپے ہوئے غصے، تلخی اور احساس محرومی کا واضح اظہار ہوتا ہے۔ سردار اختر مینگل کو حق حاصل ہے کہ وہ جو درست سمجھتے ہیں، وہ کہیں۔ ان کی تلخ باتوں میں بھی امید کے چراغ جل رہے ہیں۔
میاں نواز شریف کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے ناراض بلوچ قیادت سے رابطے کیے، جو کام حکومت کو کرنا چاہیے، وہ میاں نواز شریف کر رہے ہیں، مسلم لیگ ن قومی اسمبلی میں اپوزیشن پارٹی ہے، بلوچستان کے مسئلے پر اس نے آگے بڑھ کر یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان کے تحفظ اور سلامتی کے لیے کام کرنا محض حکومت کی ذمے داری نہیں ہے، ملک کی سیاسی جماعتوں کی قیادت کو اپنے طور پر بھی آگے بڑھنا چاہیے۔
میاں نواز شریف نے بڑے تحمل اور برد باری سے سردار اختر مینگل کی باتیں سنیں۔ انھوں نے واضح کیا کہ وہ وزیر اعظم تھے' انھیں بھی جیل بھیجا گیا۔ انھوں نے سات برس جلا وطنی کاٹی' انھوں نے اپنے والد محترم کا انتقال اور پھر ان کی لاہور میں تدفین کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انھیں جنازے میں شریک نہیں ہونے دیا گیا۔ اس صورت حال سے وہ بھی باغی بننے کے بہت قریب تھے۔ ان باتوں میں یہی پیغام تھا کہ اسٹیبلشمنٹ اور پنجاب میں فرق ہے۔ سب کے ساتھ زیادتی ڈکٹیٹروں نے کی ہے، کسی صوبے نے ایک دوسرے کے ساتھ زیادتی نہیں کی۔
انھوں نے تسلیم کیا کہ اس وقت بلوچ قیادت سخت مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ ہم سب ایک عجیب کشمکش میں ہیں کہ بلوچستان کے زخموں پر مرہم کیسے رکھا جائے۔ ہم مشرقی پاکستان کا المیہ دیکھ چکے ہیں' ہمیں اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ قوم کو سر جوڑ کر سوچنا چاہیے کہ وہ کونسے حالات اور غلطیاں ہیں جن کے باعث بلوچستان کا مسئلہ پیدا ہوا۔ بلوچستان کا مسئلہ سب کے سامنے آچکا ہے۔ ناراض بلوچ قیادت کو منانا، مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔