پیوٹن کا دورہ پاکستان کیوں ملتوی ہوا
اسی دورے کو یقینی بنانے کے لیے انھوں نے ماسکو جانے کا انتظام بھی کر لیا تھا۔
بدھ کی صبح سے پتہ نہیں کیوں میرے دل و دماغ میں بار بار یہ خدشہ اُبھرتا رہا کہ روسی صدر پاکستان کا دورہ منسوخ کر سکتے ہیں۔
خدشات میں گھر ے 24 گھنٹے گزارنے کے بعد مجھے یقیناً اس وقت بہت افسوس ہوا جب پاکستان کی وزارت خارجہ نے انٹرنیٹ پر چند سطریں لکھ کر اس دورے کے منسوخ ہو جانے کی خبر چپکا دی۔ پاکستان کے قومی سلامتی سے متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر صدر زرداری، پیوٹن کے دورہ پاکستان کی راہ نکالنے میں بڑے عرصے سے سرگرم تھے۔
اسی دورے کو یقینی بنانے کے لیے انھوں نے ماسکو جانے کا انتظام بھی کر لیا تھا۔ مگر عین اسی روز جب انھیں روس جانے کے لیے جہاز میں بیٹھنا تھا یوسف رضا گیلانی کو نا اہل قرار دے کر وزیر اعظم کے دفتر سے نکال دیا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو ایک نیا وزیر اعظم ڈھونڈنے اور اس کے لیے ووٹ اِکٹھا کرنے کی مصیبت نے آن لیا۔
پیوٹن کو ٹیلی فون کر کے معذرت کرنا پڑی۔ ابھی وہ معذرت بھرا فون ختم بھی نہ ہوا تھا کہ اطلاع آئی کہ وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیے گئے مخدوم شہاب الدین تو ''منشیات پھیلانے کے گھنائونے دھندے میں ملوث پائے گئے ہیں۔'' سخت گیر فوجی افسران کے ذریعے چلائی جانے والی انسدادِ منشیات کی فورس تو ان کے وارنٹ لیے گھوم رہی ہے۔ مخدوم صاحب گرفتاری سے بچنے کے لیے پشاور ہائی کورٹ سے ضمانت لینے چل پڑے۔ قرعہ راجہ پرویز اشرف کا نکل آیا۔
پھر سرگوشیوں میں یہ بات چل نکلی کہ راجہ پرویز اشرف کو وزیر اعظم کے عہدے پر کچھ عرصہ قائم رکھنے کے لیے ''درمیانی راستہ'' ڈھونڈا جا رہا ہے۔ نام نہاد ''سسٹم'' کو بچانا اس کا مقصد بتایا گیا۔
مگر اسلام آباد کے وہ رہائشی جو پنڈی والوں کے بہت قریب ہونے کے دعوے دار ہوا کرتے ہیں، اپنی راتوں کو سجائی محفلوں میں یہ کہنا شروع ہو گئے کہ ''سسٹم کو بچانے'' سے کہیں زیادہ ضرورت دنیا کو یہ بتانا ہے کہ پاکستان کی حکومت اتنی بھی ''غیر مستحکم'' نہیں۔ اس کے ساتھ طویل المدت معاملات طے کرنے والے مذاکرات کیے جا سکتے ہیں۔
دوسرے ملکوں سے معاملات طے کرنے کے ضمن میں بڑا زور اسی بات پر دیا جا رہا تھا کہ روس کے صدر پاکستان آئیں تو ایک ''عارضی'' حکومت کے وزیر اعظم سے مذاکرات نہ کریں۔
ان کا دورہ مکمل ہو جائے تو اسلام آباد میں بیٹھی حکومت والے اپنی پوری توانائی اس بات پر مرکوز کر دیں کہ بھارتی وزیر اعظم ننکانہ صاحب میں متھا ٹیکنے کے بہانے ہی سہی اس سال نومبر میں پاکستان کا دورہ بھی کر لیں۔ ''درمیانی راستے'' کی تلاش کو ''باخبر'' لوگوں نے پیوٹن اور من موہن سنگھ کے ممکنہ دوروں سے جوڑنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ میں ان کی باتیں خاموشی سے سنتا مگر اس کالم میں دُہراتا رہا۔ اسی تناظر میں ہم میں سے اکثر یہ بھی طے کر بیٹھے کہ ''اس خط'' کے معاملے کو 5 اکتوبر تک ٹالنے کے بعد پیوٹن کے دورے کو ممکن بنا لیا گیا ہے۔
وزیر قانون کے بدھ کو سپریم کورٹ کے رو برو پیشی سے دو دن پہلے میں ایک سفارتی تقریب میں موجود تھا۔ وہاں ایک غیر ملکی سفارتکار نے، جو پاکستان کے سرکاری حلقوں میں روس سے روابط بڑھانے کے بارے میں پائی جانے والی گرم جوشی کے بارے میں کبھی خوش نظر نہ آئے تھے، مجھے اطلاع دی کہ ''یوم عشق رسولﷺ'' کے نام پر پشاور سے کراچی تک لگائی جانے والی آگ نے روسی صدر کے دفتر سے متعلقہ چند اہل کاروں کو بڑا پریشان کر دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان ان کے صدر کے لیے ''محفوظ ملک'' نہیں۔ بہتر ہے کہ 2 اکتوبر والا دورہ منسوخ کر دیا جائے۔
اگر یہ دورہ منسوخ نہ ہو تو اس بات کا اہتمام ضرور کر لیا جائے کہ روسی صدر محض چند گھنٹے اسلام آباد میں رہیں اور سرسری ملاقاتوں کے بعد واپس پرواز کر جائیں۔ جمعرات کو روسی صدر کے مجوزہ دورے کے التواء کی خبر آنے کے بعد البتہ دعویٰ یہ کیا جا رہا ہے کہ پیوٹن نے پاکستان نہ آنے کا فیصلہ اس وجہ سے کیا کہ ہماری سرکار ان کے یہاں قیام کے دوران روس میں تیل کی پیداوار سے متعلق سب سے بڑی کمپنی GA2 PROM کو ایران سے پاکستان کو تیل و گیس پہنچانے والی پائپ لائن بچھانے کا ٹھیکہ دینے کو ابھی تک تیار نہیں ہوئی۔
روس کی یہ کمپنی جس کا نام سرگوشیوں میں گردش کر رہا ہے تقریباََ دو سال پہلے تک یہ ٹھیکہ لینے کو یقیناً بہت بے چین تھی۔ اس کو پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب بھارت نے امریکا سے ایٹمی توانائی کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے لیے تعاون حاصل کرنے کے بعد خود کو پاک ایران پائپ لائن کے مصنوبے سے الگ کر لیا۔ گزشتہ دو سالوں سے امریکا، فرانس اور برطانیہ نے یک جا ہو کر ایران کا معاشی بائیکاٹ کر رکھا ہے۔
ایران کے گرد گھیرے کو مزید تنگ کرنے کے لیے اب ان بین الاقوامی کمپنیوں سے کاروبار بھی روک دیا جائے گا جو اس ملک سے کسی بھی طرح کا دھندا کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ ان حالات میں GA2 PROM کی پاک۔ایران پائپ لائن کے منصوبے میں دلچسپی اس شدت سے موجود ہے جیسی کبھی نظر آیا کرتی تھی۔ روسی صدر کا آخری لمحات میں پاکستان نہ آنے کا فیصلہ کچھ اور وجوہات کی بناء پر کیا گیا ہے۔ مجھے ان وجوہات کا کچھ علم نہیں۔
ہماری وزارت خارجہ اور قومی سلامتی کے اداروں سے تعلق رکھنے والے بڑے لوگ کمی کمین صحافیوں کو اپنے سے پرے پرے رکھا کرتے ہیں۔ صدر زرداری ان میں سے کسی پر بھی اعتبار نہیں کرتے۔ کوئی اپنی قیمت ذرا بہتر لگوانے کی خواہش کا اظہار کرے تو اس کو فوری مدد فراہم کر دیا کرتے ہیں۔
اس طرح ان کے ''دیالو'' اور ''یاروں کا یار'' ہونے کا تاثر بھی برقرار رہتا ہے اور ان کے دربار میں حاضر ہونے والا صحافی ''اصل خبر'' پوچھنے کا وقت بھی نہیں حاصل کر پاتا۔ رہی بات وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی تو کم از کم میں یہ بات بڑے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ پاکستان کے خارجہ امور کے معاملات کے بارے میں اتنے ہی بے خبر ہیں جتنا میرے اور آپ جیسے عامی ہوا کرتے ہیں۔
محض ایک ''عادی رپورٹر'' ہوتے ہوئے میں نے چند ماہ پہلے اُڑتی اُڑتی یہ خبر ضرور سنی تھی کہ روسی صدر کے پاکستان آنے سے پہلے شاید جنرل کیانی ان کے ملک جا کر اپنے ہم منصبوں سے ملاقاتیں کریں گے۔ میری اطلاع کے مطابق وہ دورہ بھی نہیں ہوا۔ کیوں؟ اس کی بابت بھی کچھ خبر نہیں۔
روس کے ساتھ کاروباری تعلقات بڑھانے کے ضمن میں چند ہفتوں سے یہ بات بھی چل رہی تھی کہ پیوٹن کے ملک کی کچھ ٹیلی کام کے شعبے میں دلچسپی رکھنے والی کمپنیاں ہمارے دوست چین کی ایک ٹیلی کام کمپنی کی طرح پاکستان میں دھندا کرنا چاہ رہی ہیں۔ ان کی دلچسپی مگر 3-G والے سسٹم میں ہو گی۔
ہمارے وزیر خزانہ نے اس سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے پاکستان میں 3-G کے لائسنسوں کے لیے بولیاں لے کر قطعی فیصلہ کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ 2012 اپنی آخری سہ ماہی میں داخل ہونے ہی والا ہے مگر ابھی تک یہ طے ہی نہیں ہو سکا کہ 3-G کے لائسنس دینے کا سلسلہ کب، کس طرح اور کن شرائط کے ساتھ طے کیا جائے گا۔
پتہ نہیں مجھے کیوں یہ شک پڑ رہا ہے کہ GA2 PROM سے کہیں زیادہ 3-G کے معاملے میں تعطل و ابہام بھی صدر پیوٹن کے مجوزہ دورے کے التواء کا باعث بنا ہے۔ وہ لوگ جو ایسے معاملات کو جانتے ہیں میری تصحیح فرمانے کو آمادہ ہوں تو میں ان کے بلاتے ہی حاضر ہو جائوں گا۔ پورا سچ چاہے لکھ نہ سکوں اسے جاننا میرا حق نہ سہی پیشہ وارانہ مجبوری تو ہے۔
خدشات میں گھر ے 24 گھنٹے گزارنے کے بعد مجھے یقیناً اس وقت بہت افسوس ہوا جب پاکستان کی وزارت خارجہ نے انٹرنیٹ پر چند سطریں لکھ کر اس دورے کے منسوخ ہو جانے کی خبر چپکا دی۔ پاکستان کے قومی سلامتی سے متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر صدر زرداری، پیوٹن کے دورہ پاکستان کی راہ نکالنے میں بڑے عرصے سے سرگرم تھے۔
اسی دورے کو یقینی بنانے کے لیے انھوں نے ماسکو جانے کا انتظام بھی کر لیا تھا۔ مگر عین اسی روز جب انھیں روس جانے کے لیے جہاز میں بیٹھنا تھا یوسف رضا گیلانی کو نا اہل قرار دے کر وزیر اعظم کے دفتر سے نکال دیا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو ایک نیا وزیر اعظم ڈھونڈنے اور اس کے لیے ووٹ اِکٹھا کرنے کی مصیبت نے آن لیا۔
پیوٹن کو ٹیلی فون کر کے معذرت کرنا پڑی۔ ابھی وہ معذرت بھرا فون ختم بھی نہ ہوا تھا کہ اطلاع آئی کہ وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیے گئے مخدوم شہاب الدین تو ''منشیات پھیلانے کے گھنائونے دھندے میں ملوث پائے گئے ہیں۔'' سخت گیر فوجی افسران کے ذریعے چلائی جانے والی انسدادِ منشیات کی فورس تو ان کے وارنٹ لیے گھوم رہی ہے۔ مخدوم صاحب گرفتاری سے بچنے کے لیے پشاور ہائی کورٹ سے ضمانت لینے چل پڑے۔ قرعہ راجہ پرویز اشرف کا نکل آیا۔
پھر سرگوشیوں میں یہ بات چل نکلی کہ راجہ پرویز اشرف کو وزیر اعظم کے عہدے پر کچھ عرصہ قائم رکھنے کے لیے ''درمیانی راستہ'' ڈھونڈا جا رہا ہے۔ نام نہاد ''سسٹم'' کو بچانا اس کا مقصد بتایا گیا۔
مگر اسلام آباد کے وہ رہائشی جو پنڈی والوں کے بہت قریب ہونے کے دعوے دار ہوا کرتے ہیں، اپنی راتوں کو سجائی محفلوں میں یہ کہنا شروع ہو گئے کہ ''سسٹم کو بچانے'' سے کہیں زیادہ ضرورت دنیا کو یہ بتانا ہے کہ پاکستان کی حکومت اتنی بھی ''غیر مستحکم'' نہیں۔ اس کے ساتھ طویل المدت معاملات طے کرنے والے مذاکرات کیے جا سکتے ہیں۔
دوسرے ملکوں سے معاملات طے کرنے کے ضمن میں بڑا زور اسی بات پر دیا جا رہا تھا کہ روس کے صدر پاکستان آئیں تو ایک ''عارضی'' حکومت کے وزیر اعظم سے مذاکرات نہ کریں۔
ان کا دورہ مکمل ہو جائے تو اسلام آباد میں بیٹھی حکومت والے اپنی پوری توانائی اس بات پر مرکوز کر دیں کہ بھارتی وزیر اعظم ننکانہ صاحب میں متھا ٹیکنے کے بہانے ہی سہی اس سال نومبر میں پاکستان کا دورہ بھی کر لیں۔ ''درمیانی راستے'' کی تلاش کو ''باخبر'' لوگوں نے پیوٹن اور من موہن سنگھ کے ممکنہ دوروں سے جوڑنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ میں ان کی باتیں خاموشی سے سنتا مگر اس کالم میں دُہراتا رہا۔ اسی تناظر میں ہم میں سے اکثر یہ بھی طے کر بیٹھے کہ ''اس خط'' کے معاملے کو 5 اکتوبر تک ٹالنے کے بعد پیوٹن کے دورے کو ممکن بنا لیا گیا ہے۔
وزیر قانون کے بدھ کو سپریم کورٹ کے رو برو پیشی سے دو دن پہلے میں ایک سفارتی تقریب میں موجود تھا۔ وہاں ایک غیر ملکی سفارتکار نے، جو پاکستان کے سرکاری حلقوں میں روس سے روابط بڑھانے کے بارے میں پائی جانے والی گرم جوشی کے بارے میں کبھی خوش نظر نہ آئے تھے، مجھے اطلاع دی کہ ''یوم عشق رسولﷺ'' کے نام پر پشاور سے کراچی تک لگائی جانے والی آگ نے روسی صدر کے دفتر سے متعلقہ چند اہل کاروں کو بڑا پریشان کر دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان ان کے صدر کے لیے ''محفوظ ملک'' نہیں۔ بہتر ہے کہ 2 اکتوبر والا دورہ منسوخ کر دیا جائے۔
اگر یہ دورہ منسوخ نہ ہو تو اس بات کا اہتمام ضرور کر لیا جائے کہ روسی صدر محض چند گھنٹے اسلام آباد میں رہیں اور سرسری ملاقاتوں کے بعد واپس پرواز کر جائیں۔ جمعرات کو روسی صدر کے مجوزہ دورے کے التواء کی خبر آنے کے بعد البتہ دعویٰ یہ کیا جا رہا ہے کہ پیوٹن نے پاکستان نہ آنے کا فیصلہ اس وجہ سے کیا کہ ہماری سرکار ان کے یہاں قیام کے دوران روس میں تیل کی پیداوار سے متعلق سب سے بڑی کمپنی GA2 PROM کو ایران سے پاکستان کو تیل و گیس پہنچانے والی پائپ لائن بچھانے کا ٹھیکہ دینے کو ابھی تک تیار نہیں ہوئی۔
روس کی یہ کمپنی جس کا نام سرگوشیوں میں گردش کر رہا ہے تقریباََ دو سال پہلے تک یہ ٹھیکہ لینے کو یقیناً بہت بے چین تھی۔ اس کو پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب بھارت نے امریکا سے ایٹمی توانائی کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے لیے تعاون حاصل کرنے کے بعد خود کو پاک ایران پائپ لائن کے مصنوبے سے الگ کر لیا۔ گزشتہ دو سالوں سے امریکا، فرانس اور برطانیہ نے یک جا ہو کر ایران کا معاشی بائیکاٹ کر رکھا ہے۔
ایران کے گرد گھیرے کو مزید تنگ کرنے کے لیے اب ان بین الاقوامی کمپنیوں سے کاروبار بھی روک دیا جائے گا جو اس ملک سے کسی بھی طرح کا دھندا کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ ان حالات میں GA2 PROM کی پاک۔ایران پائپ لائن کے منصوبے میں دلچسپی اس شدت سے موجود ہے جیسی کبھی نظر آیا کرتی تھی۔ روسی صدر کا آخری لمحات میں پاکستان نہ آنے کا فیصلہ کچھ اور وجوہات کی بناء پر کیا گیا ہے۔ مجھے ان وجوہات کا کچھ علم نہیں۔
ہماری وزارت خارجہ اور قومی سلامتی کے اداروں سے تعلق رکھنے والے بڑے لوگ کمی کمین صحافیوں کو اپنے سے پرے پرے رکھا کرتے ہیں۔ صدر زرداری ان میں سے کسی پر بھی اعتبار نہیں کرتے۔ کوئی اپنی قیمت ذرا بہتر لگوانے کی خواہش کا اظہار کرے تو اس کو فوری مدد فراہم کر دیا کرتے ہیں۔
اس طرح ان کے ''دیالو'' اور ''یاروں کا یار'' ہونے کا تاثر بھی برقرار رہتا ہے اور ان کے دربار میں حاضر ہونے والا صحافی ''اصل خبر'' پوچھنے کا وقت بھی نہیں حاصل کر پاتا۔ رہی بات وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی تو کم از کم میں یہ بات بڑے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ پاکستان کے خارجہ امور کے معاملات کے بارے میں اتنے ہی بے خبر ہیں جتنا میرے اور آپ جیسے عامی ہوا کرتے ہیں۔
محض ایک ''عادی رپورٹر'' ہوتے ہوئے میں نے چند ماہ پہلے اُڑتی اُڑتی یہ خبر ضرور سنی تھی کہ روسی صدر کے پاکستان آنے سے پہلے شاید جنرل کیانی ان کے ملک جا کر اپنے ہم منصبوں سے ملاقاتیں کریں گے۔ میری اطلاع کے مطابق وہ دورہ بھی نہیں ہوا۔ کیوں؟ اس کی بابت بھی کچھ خبر نہیں۔
روس کے ساتھ کاروباری تعلقات بڑھانے کے ضمن میں چند ہفتوں سے یہ بات بھی چل رہی تھی کہ پیوٹن کے ملک کی کچھ ٹیلی کام کے شعبے میں دلچسپی رکھنے والی کمپنیاں ہمارے دوست چین کی ایک ٹیلی کام کمپنی کی طرح پاکستان میں دھندا کرنا چاہ رہی ہیں۔ ان کی دلچسپی مگر 3-G والے سسٹم میں ہو گی۔
ہمارے وزیر خزانہ نے اس سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے پاکستان میں 3-G کے لائسنسوں کے لیے بولیاں لے کر قطعی فیصلہ کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ 2012 اپنی آخری سہ ماہی میں داخل ہونے ہی والا ہے مگر ابھی تک یہ طے ہی نہیں ہو سکا کہ 3-G کے لائسنس دینے کا سلسلہ کب، کس طرح اور کن شرائط کے ساتھ طے کیا جائے گا۔
پتہ نہیں مجھے کیوں یہ شک پڑ رہا ہے کہ GA2 PROM سے کہیں زیادہ 3-G کے معاملے میں تعطل و ابہام بھی صدر پیوٹن کے مجوزہ دورے کے التواء کا باعث بنا ہے۔ وہ لوگ جو ایسے معاملات کو جانتے ہیں میری تصحیح فرمانے کو آمادہ ہوں تو میں ان کے بلاتے ہی حاضر ہو جائوں گا۔ پورا سچ چاہے لکھ نہ سکوں اسے جاننا میرا حق نہ سہی پیشہ وارانہ مجبوری تو ہے۔