زکوٰۃ ایک مالی عبادت
ان کے اموال سے زکوٰۃ وصول کرکے ان کا تزکیہ کیجیے۔‘‘ (القرآن)
توحیدو رسالت کی شہادت اور نماز کے بعد زکوٰۃ اسلام کا تیسرا بنیادی رکن ہے۔ یہ خالص مالی عبادت ہے جو تمام انبیائے کرام کی امتوں پر فرض کی گئی۔ جس طرح انسان کو جسمانی امراض لاحق ہوتے ہیں، اسی طرح روحانی اور اخلاقی امراض بھی لاحق ہوتے ہیں، ان میں نمایاں اخلاقی بیماری مال کی محبت اور کثرت کی خواہش ہے جس کے نتیجے میں انسان کے دل میں تکبر، حرص، بخل، ہوس اور خود غرضی پیدا ہوتی ہے۔
قرآن نے فرمایا:''تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں۔''
ان اخلاقی امراض کے ازالے کے لیے اﷲ نے زکوٰۃ فرض کی ہے۔ عربی میں زکوٰۃ کے معنی پاک ہونے اور بڑھنے کے ہیں اور شریعت میں خالص اﷲ کی خوش نودی اور شرح کے حکم کے مطابق ایک مقررہ اور متعین مال کسی مستحق کو دینے کا نام زکوٰۃ ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ زکوٰۃ دینے والا زکوٰۃ پانے والے سے کسی قسم کا فائدہ نہ اٹھائے گا اور اس کے عوض میں اگر اس کی امید رکھے گا تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔ شریعت میں اس مالی عبادت کو زکوٰۃ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس سے آدمی کا باقی مال پاک ہوجاتا ہے۔ لغت میں زکوٰۃ کے معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ مال اور دولت سے انسان میں بخل، تکبر اور حرص پیدا ہوتی ہے، مالی عبادت کے طور پر اﷲ تعالیٰ نے زکوٰۃ فرض کی ہے، تاکہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے ان اخلاقی امراض کا خاتمہ ہو اور انسان میں قناعت، انکساری اور تقویٰ پیدا ہو۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:''ان کے اموال سے زکوٰۃ وصول کرکے ان کے (قلب و ذہن) کا تزکیہ کیجیے۔'' (سورۂ توبہ)
قرآن کریم کی رو سے زکوٰۃ ادا کرکے دولت مند، غریب، مفلس و نادار پر کسی بھی قسم کا کوئی احسان نہیں کرتا، بلکہ وہ حق دار کو اس کا حق لوٹاتا ہے جو مال و دولت عطا کرنے والے رب کریم نے اس کے مال میں شامل کر رکھا ہے۔
قرآن کریم میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اور ان (مال داروں) کے مال میں سائل اور مال سے محروم لوگوں کا حق ہے۔''
٭زکوٰۃ کی فرضیت:
زکوٰۃ کا حکم اوائل اسلام میں مکہ مکرمہ ہی میں آچکا تھا۔ سورۂ مدثر میں اشارۃً اور سورۂ مزمل میں صراحۃً اس کا ذکر موجود ہے، لیکن اس کے نصاب سے متعلق احکامات ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔
زکوٰۃ کی فرضیت کے لیے مدینہ منورہ میں رمضان ایک ہجری میں سورۂ توبہ کی آیت 13نازل ہوئی:''ان کے مال میں سے زکوٰۃ وصول کرو، تاکہ اس کے ذریعے تم ان کے مال کو پاک و صاف بھی کرسکو۔''
٭ زکوٰۃ کا نصاب:
زکوٰۃ ایک مالی عبادت ہے جو ہر ایسے عاقل اور آزاد مسلمان پر فرض ہے جس کی ملکیت میں ایک سال تک مال بقدر نصاب موجود ہو جس کے پاس ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے باون تولے چاندی ہو یا اس ملکیت کے برابر نقدی ہو تو اس کا ڈھائی فیصد یا چالیسواں حصہ بطور زکوٰۃ دینا واجب ہے۔
٭اسلام میں زکوٰۃ کی اہمیت:اسلام میں نماز کے بعد جو سب سے اہم فریضہ نظر آتا ہے، وہ زکوٰۃ ہے۔ نماز حقوق الٰہی میں سے ہے اور زکوٰۃ حقوق العباد میں سے۔ ان دونوں فریضوں کا آپس میں لازم و ملزوم تعلق ہونا اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ اسلام میں حقوق اﷲ کے ساتھ حقوق العباد کا بھی یکساں لحاظ رکھا گیا ہے۔قرآن مجید میں جہاں کہیں نماز کا ذکر ہے، اس کے ساتھ ہی زکوٰۃ کا بھی ذکر ہے۔ بیس مقامات پر ''نماز قائم کرو'' کے ساتھ ہی ''زکوٰۃ ادا کرو'' کا حکم آیا ہے۔ رسول کریم ﷺ سے جب کسی نے اسلام کے احکام دریافت کیے تو آپ ﷺ نے نماز کے بعد زکوٰۃ کو ہمیشہ پہلا درجہ دیا۔زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کے بارے میں اﷲ رب العزت کا فرمان ہے:''اور جو لوگ سونا چاندی ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے تو (اے نبی!) انہیں اس دن کے درد ناک عذاب کی وعید سنائیے جب ان کے اپنے جمع کیے ہوئے مال کو دوزخ کی آگ پر دہکایا جائے گا اور پھر اس سے ان کی پیشانیاں، پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (اور ان سے کہا جائے گا) یہ ہے اس مال کا انجام جسے تم نے (بے پناہ چاہت) سے جمع کیا تھا تو اب اپنے (اس) مال کا مزہ چکھو جو تم (دنیا میں بخل سے) جمع کیا کرتے تھے۔'' (توبہ34-35)
ارشاد باری ہے:''اور جو لوگ اس مال میں، جسے اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے انھیں عطا فرمایا ہے، بخل کرتے ہیں (اور اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے) وہ یہ سمجھ لیں کہ ایسا مال ان کے حق میں خیر نہیں ہے، بلکہ یہ ان کے لیے شر ہے اور عنقریب (قیامت کے دن) ان کے گلے میں بخل سے جمع کئے ہوئے مال کا طوق پہنایا جائے گا۔''
(آل عمران180)
٭مصارف زکوٰۃ:
زکوٰۃ کے آٹھ مصارف ہیں: فقرا، مساکین، عاملین، (زکوٰۃ کے محکمے کے ملازمین) مولفۃ القلوب، رقاب ، غارمین، (قرض دار) فی سبیل اﷲ، مسافر۔
٭ فقرا: زکوٰۃ تو فقیروں، غریبوں اور مسکینوں اور ان لوگوں کے لیے ہے جو دوسرے لوگوں کی مدد اور تعاون کے محتاج ہوتے ہیں۔ یہ لفظ تمام حاجت مندوں کے لیے عام ہے، خواہ وہ جسمانی خامی یا بڑھاپے کی وجہ سے مستقل طور پر محتاج ہوں یا کسی اور وجہ سے ۔ فقیر عالم کو زکوٰۃ دینا فقیر جاہل کو دینے سے افضل ہے۔
٭ مساکین: مساکین سے مراد وہ لوگ ہیں جو نہایت تنگ دستی کے باوجود کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ ایک حدیث میں آیا ہے:''مساکین وہ لوگ ہیں جو اپنی حالت کسی سے کہہ نہیں پاتے کہ ان کی مدد کی جائے۔''
٭ عاملین زکوٰۃ: عاملین سے مراد وہ لوگ ہیں جو اسلامی حکومت کی طرف سے صدقات، زکوٰۃ اور عشر وغیرہ وصول کرکے بیت المال میں جمع کرنے کی خدمات پر مامور ہوتے ہیں، ان لوگوں کا حق الخدمت زکوٰۃ ہی کی مد سے دیا جائے گا۔
٭ مؤلفہ القلوب: اس سے مراد ایسے لوگ ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی محبت پیدا کرنا اور بڑھانا مقصود ہو۔ اس میں نو مسلم اور مخصوص حالات میں ایسے غیر مسلم بھی شامل ہیں جن کی مالی اعانت سے ان کے قبول اسلام کی امید ہو۔
٭ رقاب: رقاب سے مراد وہ غلام ہیں جن کے آقائوں نے مقدار مال مقرر کردیا ہو کہ اتنا کماکر ہمیں دو، ایسے غلاموں کو زکوٰۃ کی رقم میں سے امداد دے کر اس غلامی سے آزادی دلائی جاسکتی ہے۔
٭ غارمین: غارمین سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے ذمے کسی کا قرض ہو اور ان کے پاس اس کو ادا کرنے کے لئے کچھ نہ ہو تو ایسی صورت میں زکوٰۃ کی مد میں سے قرض ادا کیا جاسکتا ہے، مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ اس کے پاس اتنا مال نہ ہو کہ قرض ادا کیا جاسکے، خواہ وہ کمانے والا ہو یا بے روزگار، دونوں صورتوں میں عنایت ہے۔
٭ فی سبیل اﷲ: فی سبیل اﷲ سے مراد، اﷲ تعالیٰ کی راہ ہے جس سے مراد نیکی کے وہ تمام کام ہیں جن میں اﷲ تعالیٰ کی رضا شامل ہو۔
٭ مسافر: مسافر اگرچہ اپنے وطن میں مال دار ہو، لیکن حالت سفر میں اس کے پاس خرچ ختم ہوگیا ہو یا کوئی اور ایسی وجہ ہوگئی ہو کہ گھر تک پہنچنے کا خرچ نہیں ہو تو ایسے مسافر کو زکوٰۃ دینا جائز ہے۔
زکوٰۃ دیتے وقت پہلے اپنے قریبی رشتے داروں کا خیال رکھا جائے، باہر کے لوگوں کو بعد میں دیا جائے۔ اسی طرح جو لوگ بڑھ کر خود سوال نہیں کرتے، ۔ غربت کے باوجود غیرت مند ہوتے ہیں، انہیں تلاش کرکے زکوٰۃ اور صدقات دیے جائیں۔
قرآن نے فرمایا:''تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں۔''
ان اخلاقی امراض کے ازالے کے لیے اﷲ نے زکوٰۃ فرض کی ہے۔ عربی میں زکوٰۃ کے معنی پاک ہونے اور بڑھنے کے ہیں اور شریعت میں خالص اﷲ کی خوش نودی اور شرح کے حکم کے مطابق ایک مقررہ اور متعین مال کسی مستحق کو دینے کا نام زکوٰۃ ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ زکوٰۃ دینے والا زکوٰۃ پانے والے سے کسی قسم کا فائدہ نہ اٹھائے گا اور اس کے عوض میں اگر اس کی امید رکھے گا تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔ شریعت میں اس مالی عبادت کو زکوٰۃ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس سے آدمی کا باقی مال پاک ہوجاتا ہے۔ لغت میں زکوٰۃ کے معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ مال اور دولت سے انسان میں بخل، تکبر اور حرص پیدا ہوتی ہے، مالی عبادت کے طور پر اﷲ تعالیٰ نے زکوٰۃ فرض کی ہے، تاکہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے ان اخلاقی امراض کا خاتمہ ہو اور انسان میں قناعت، انکساری اور تقویٰ پیدا ہو۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:''ان کے اموال سے زکوٰۃ وصول کرکے ان کے (قلب و ذہن) کا تزکیہ کیجیے۔'' (سورۂ توبہ)
قرآن کریم کی رو سے زکوٰۃ ادا کرکے دولت مند، غریب، مفلس و نادار پر کسی بھی قسم کا کوئی احسان نہیں کرتا، بلکہ وہ حق دار کو اس کا حق لوٹاتا ہے جو مال و دولت عطا کرنے والے رب کریم نے اس کے مال میں شامل کر رکھا ہے۔
قرآن کریم میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اور ان (مال داروں) کے مال میں سائل اور مال سے محروم لوگوں کا حق ہے۔''
٭زکوٰۃ کی فرضیت:
زکوٰۃ کا حکم اوائل اسلام میں مکہ مکرمہ ہی میں آچکا تھا۔ سورۂ مدثر میں اشارۃً اور سورۂ مزمل میں صراحۃً اس کا ذکر موجود ہے، لیکن اس کے نصاب سے متعلق احکامات ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔
زکوٰۃ کی فرضیت کے لیے مدینہ منورہ میں رمضان ایک ہجری میں سورۂ توبہ کی آیت 13نازل ہوئی:''ان کے مال میں سے زکوٰۃ وصول کرو، تاکہ اس کے ذریعے تم ان کے مال کو پاک و صاف بھی کرسکو۔''
٭ زکوٰۃ کا نصاب:
زکوٰۃ ایک مالی عبادت ہے جو ہر ایسے عاقل اور آزاد مسلمان پر فرض ہے جس کی ملکیت میں ایک سال تک مال بقدر نصاب موجود ہو جس کے پاس ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے باون تولے چاندی ہو یا اس ملکیت کے برابر نقدی ہو تو اس کا ڈھائی فیصد یا چالیسواں حصہ بطور زکوٰۃ دینا واجب ہے۔
٭اسلام میں زکوٰۃ کی اہمیت:اسلام میں نماز کے بعد جو سب سے اہم فریضہ نظر آتا ہے، وہ زکوٰۃ ہے۔ نماز حقوق الٰہی میں سے ہے اور زکوٰۃ حقوق العباد میں سے۔ ان دونوں فریضوں کا آپس میں لازم و ملزوم تعلق ہونا اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ اسلام میں حقوق اﷲ کے ساتھ حقوق العباد کا بھی یکساں لحاظ رکھا گیا ہے۔قرآن مجید میں جہاں کہیں نماز کا ذکر ہے، اس کے ساتھ ہی زکوٰۃ کا بھی ذکر ہے۔ بیس مقامات پر ''نماز قائم کرو'' کے ساتھ ہی ''زکوٰۃ ادا کرو'' کا حکم آیا ہے۔ رسول کریم ﷺ سے جب کسی نے اسلام کے احکام دریافت کیے تو آپ ﷺ نے نماز کے بعد زکوٰۃ کو ہمیشہ پہلا درجہ دیا۔زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کے بارے میں اﷲ رب العزت کا فرمان ہے:''اور جو لوگ سونا چاندی ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے تو (اے نبی!) انہیں اس دن کے درد ناک عذاب کی وعید سنائیے جب ان کے اپنے جمع کیے ہوئے مال کو دوزخ کی آگ پر دہکایا جائے گا اور پھر اس سے ان کی پیشانیاں، پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (اور ان سے کہا جائے گا) یہ ہے اس مال کا انجام جسے تم نے (بے پناہ چاہت) سے جمع کیا تھا تو اب اپنے (اس) مال کا مزہ چکھو جو تم (دنیا میں بخل سے) جمع کیا کرتے تھے۔'' (توبہ34-35)
ارشاد باری ہے:''اور جو لوگ اس مال میں، جسے اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے انھیں عطا فرمایا ہے، بخل کرتے ہیں (اور اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے) وہ یہ سمجھ لیں کہ ایسا مال ان کے حق میں خیر نہیں ہے، بلکہ یہ ان کے لیے شر ہے اور عنقریب (قیامت کے دن) ان کے گلے میں بخل سے جمع کئے ہوئے مال کا طوق پہنایا جائے گا۔''
(آل عمران180)
٭مصارف زکوٰۃ:
زکوٰۃ کے آٹھ مصارف ہیں: فقرا، مساکین، عاملین، (زکوٰۃ کے محکمے کے ملازمین) مولفۃ القلوب، رقاب ، غارمین، (قرض دار) فی سبیل اﷲ، مسافر۔
٭ فقرا: زکوٰۃ تو فقیروں، غریبوں اور مسکینوں اور ان لوگوں کے لیے ہے جو دوسرے لوگوں کی مدد اور تعاون کے محتاج ہوتے ہیں۔ یہ لفظ تمام حاجت مندوں کے لیے عام ہے، خواہ وہ جسمانی خامی یا بڑھاپے کی وجہ سے مستقل طور پر محتاج ہوں یا کسی اور وجہ سے ۔ فقیر عالم کو زکوٰۃ دینا فقیر جاہل کو دینے سے افضل ہے۔
٭ مساکین: مساکین سے مراد وہ لوگ ہیں جو نہایت تنگ دستی کے باوجود کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ ایک حدیث میں آیا ہے:''مساکین وہ لوگ ہیں جو اپنی حالت کسی سے کہہ نہیں پاتے کہ ان کی مدد کی جائے۔''
٭ عاملین زکوٰۃ: عاملین سے مراد وہ لوگ ہیں جو اسلامی حکومت کی طرف سے صدقات، زکوٰۃ اور عشر وغیرہ وصول کرکے بیت المال میں جمع کرنے کی خدمات پر مامور ہوتے ہیں، ان لوگوں کا حق الخدمت زکوٰۃ ہی کی مد سے دیا جائے گا۔
٭ مؤلفہ القلوب: اس سے مراد ایسے لوگ ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی محبت پیدا کرنا اور بڑھانا مقصود ہو۔ اس میں نو مسلم اور مخصوص حالات میں ایسے غیر مسلم بھی شامل ہیں جن کی مالی اعانت سے ان کے قبول اسلام کی امید ہو۔
٭ رقاب: رقاب سے مراد وہ غلام ہیں جن کے آقائوں نے مقدار مال مقرر کردیا ہو کہ اتنا کماکر ہمیں دو، ایسے غلاموں کو زکوٰۃ کی رقم میں سے امداد دے کر اس غلامی سے آزادی دلائی جاسکتی ہے۔
٭ غارمین: غارمین سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے ذمے کسی کا قرض ہو اور ان کے پاس اس کو ادا کرنے کے لئے کچھ نہ ہو تو ایسی صورت میں زکوٰۃ کی مد میں سے قرض ادا کیا جاسکتا ہے، مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ اس کے پاس اتنا مال نہ ہو کہ قرض ادا کیا جاسکے، خواہ وہ کمانے والا ہو یا بے روزگار، دونوں صورتوں میں عنایت ہے۔
٭ فی سبیل اﷲ: فی سبیل اﷲ سے مراد، اﷲ تعالیٰ کی راہ ہے جس سے مراد نیکی کے وہ تمام کام ہیں جن میں اﷲ تعالیٰ کی رضا شامل ہو۔
٭ مسافر: مسافر اگرچہ اپنے وطن میں مال دار ہو، لیکن حالت سفر میں اس کے پاس خرچ ختم ہوگیا ہو یا کوئی اور ایسی وجہ ہوگئی ہو کہ گھر تک پہنچنے کا خرچ نہیں ہو تو ایسے مسافر کو زکوٰۃ دینا جائز ہے۔
زکوٰۃ دیتے وقت پہلے اپنے قریبی رشتے داروں کا خیال رکھا جائے، باہر کے لوگوں کو بعد میں دیا جائے۔ اسی طرح جو لوگ بڑھ کر خود سوال نہیں کرتے، ۔ غربت کے باوجود غیرت مند ہوتے ہیں، انہیں تلاش کرکے زکوٰۃ اور صدقات دیے جائیں۔