غربت کے خلاف بھرپور جنگ میں شکلا بوس نے تعلیم کو ہتھیار بنا لیا

بھارتی سماجی رہنما کی سبق آموز داستان جولاکھوں روپے والی ملازمت تج کرغریب بچوں کو اپنے پیروں پہ کھڑا کرنا مشن بناچکی

بھارتی سماجی رہنما کی سبق آموز داستان جو لاکھوں روپے والی ملازمت تج کر غریب بچوں کو اپنے پیروں پہ کھڑا کرنا مشن بنا چکی۔ فوٹو : فائل

یہ آج سے عشرہ قبل کی بات ہے، مشہور بھارتی شہر بنگلور میں جنم لینے والی چھبیس سالہ شکلا بوس (Shukla Bose) بھارت کی ملٹی نیشنل کمپنی، اوبرائے گروپ میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھی۔

ماہانہ لاکھوں روپے کماتی، سو اسے ہر آسائش میسر تھی، شاندار بنگلہ، قیمتی گاڑی، بیش قیمت ملبوسات اور عمدہ کھانے! مگر شکلا اپنی زندگی میں خلا سا محسوس کرتی۔ سوچ بچار کے بعد اسے احساس ہوا، وہ اس لیے بے چین ہے کہ اپنے خول میں سمٹ چکی...اس کی ذات سے کسی دوسرے کو فائدہ نہیں ہورہا۔ حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو بازو اسی لیے دیئے ہیں کہ ایک سے اپنے اور دوسرے سے دوسروں کے کام کرے۔

قبل ازیں شکلا نوجوانی میں مدر ٹریسا کی تنظیم میں شامل ہو کر غریبوں اور وسائل سے محروم انسانوں کا سہارا بن چکی تھی۔ یہ سماجی کام کرتے ہوئے اسے بہت لطف آیا، چناں چہ وہی اطمینان و سکون پانے اور اپنی بے چینی و گھٹن دور کرنے کی خاطر شکلا نے اپنی لاکھوں روپے کی ملازمت کو خیرباد کہا اور غریبوں کی مدد کرنے میدان عمل میں اتر آئی۔ اپنا مقصد پانے کے لیے اس بار شکلا نے تعلیم کو اپنا اسلحہ بنایا۔میدان عمل میں داخل ہو کے تجربات نے اسے یہ سنہرا سبق دیا تھا کہ جو انسان زیور تعلیم سے آراستہ ہوجائے، وہ پھر دنیا میں کوئی بھی کارنامہ انجام دے سکتا ہے۔

شکلا نے جمع پونجی اکٹھی کی، کچھ دوستوں سے مدد لی اور تقریباً ایک کروڑ روپے کے سرمائے سے اپنے آبائی شہر، بنگلور میں ایک فلاحی ادارے ''پریکر ما ہیومینٹی فاؤنڈیشن''(Parikrma Humanity Foundation) کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کے زیر اہتمام ایسی بستی میں پہلا سکول کھولا گیا جہاں مزدور، چمار، پھیری والے اور دوسرے غریب بستے تھے۔ ان غریبوں کی ماہانہ آمدن صرف تین تا پانچ ہزار روپے کے درمیان تھی۔ یہ 2003ء کی بات ہے۔

کئی سال پہلے شاعر مشرقؒ نے فرمایا تھا:
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، جنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا، جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا

اب شکلا بوس نے بھی اپنی ذات فراموش کرکے معصوم غریب بچوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا مشن بنالیا۔ اور یہ بالکل سچ بات ہے کہ جو انسان خدا کے بندوں کی مدد کرے، اللہ تعالیٰ بھی اس پر نظر کرم ڈالتے ہیں۔ چناں چہ آج شکلا کا سماجی تعلیمی ادارہ دنیا والوں کے لیے مینارہ نور بن چکا۔ وہ سبھی دولت مند و تعلیم یافتہ مردوزن کو راستہ دکھا رہا ہے کہ انہیں اپنی دولت اور علم کس طرح دوسرے انسانوں میں تقسیم کرنا چاہیے۔

آج شکلا کی تنظیم بنگلور کی کچی آبادیوں میں چار پرائمری اسکول، ایک کالج اور لڑکوں کا ایک ہوسٹل چلارہی ہے۔ ان تعلیمی اداروں میں صرف غریب ترین خاندانوں کے بچے ہی داخل کیے جاتے ہیں۔ خصوصاً وہ بچے جو ٹوٹے پھوٹے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

ان کے باپ نشئی یا شرابی ہوں اور مائیں کام کاج کرکے گھر چلاتی ہوں۔ چناں چہ حقیقتاً ان کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا۔پریکر ما ہیومینٹی فاؤنڈیشن ایسے ہی بے یارومددگار بچوں کو اپنے پُرشفقت دامن میں سمیٹ لیتی ہے۔ جو بچہ شکلا کے کسی اسکول کا حصہ بن جائے، تو پھر وہ صبح سے سہ پہر تک وہیں رہتا ہے۔ اسکول ہی میں اسے ناشتہ، دوپہر کا کھانا اور سہ پہر کی چائے ملتی ہے۔ظاہر ہے،ایک بھوکا بچہ کیونکر عمدہ انداز میں پڑھ سکتا ہے؟ کتابیں، بستر، سٹیشنری، کپڑا، کتاب...غرض ہر شے اسکول بچے کو فراہم کرتا ہے۔ انہیں صحت مند اور بیماریوں سے محفوظ رکھنا بھی پریکر ماہیومینٹی فاؤنڈیشن کی ذمے داری بن جاتی ہے۔




یہ تمام کشٹ اٹھانے کا مدعا کیا ہے... یہی کہ غریب بچہ تعلیم یافتہ اور بااخلاق انسان بن کر نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑا ہو بلکہ معاشرے کے لیے بھی مفید شہری ثابت ہو۔ آج شکلا کے اسکولوں میں ''ڈیڑھ ہزار'' سے زائد بچے بچیاں زیر تعلیم ہیں۔ ان اسکولوں کے بیشتر اخراجات مخیر حضرات کے تعاون سے پورے ہوتے ہیں۔

یہ اسکول اپنی بعض منفرد خصوصیات کی وجہ سے اندرون ملک ہی نہیں بین الاقوامی سطح پر بھی شہرت پاچکے۔ ان بھارتی اسکولوں کی پہلی خوبی یہ ہے کہ وہاں ہر استاد و استانی اپنے شاگردوں سے قریبی تعلق رکھتی ہے۔ بچے کو شاگرد نہیں بلکہ بیٹا یا بیٹی سمجھ کر پڑھایا جاتا ہے۔ اسی لیے سبھی بچے بچیاں اپنے مسائل کی بابت اساتذہ کو بتاتے اور ان کی مدد سے انہیں حل کرتے ہیں۔ گویا اسکولوں میں بالکل گھر جیسا ماحول ہے۔

دوسری خوبی یہ ہے کہ انہی اسکولوں میں بچوں کے ناخواندہ والدین کو بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ نیز شرابیوں، موالیوں اور نشیؤں کا علاج بھی ہوتا ہے، نتیجتاً پچھلے گیارہ برس میں کئی شرابی و موالی بالغ صحت یاب ہوکر بحیثیت باورچی، ڈرائیور، چپڑاسی یا کلرک انہی اسکولوں میں کام کر رہے ہیں۔ انسان دوست و بہادر شکلا نے اپنی ذہانت و خلوص سے کام لے کر ان کی مجرمانہ زندگی کو بامقصد بنادیا۔

بھارت کے نوبل انعام یافتہ' کیلاش ستیارتھی کی زندگی کا مشن ہے کہ مزدور بچوں کو تعلیم یافتہ بنایا جائے۔ اسی طرح شکلا بوس اور اس کی فاؤنڈیشن کا بھی یہی مطمع نظر ہے کہ غریب خاندانوں کے بچوں کو تعلیم دے کر انہیں غربت کے بے رحم پنجوں سے رہائی دلوائی جائے۔ شکلا کی سعی ہے کہ ہر غریب خاندان میں کم از کم ایک بچہ ضرور زیور تعلیم سے آراستہ ہو جائے۔



پریکر ما ہیومینٹی فاؤنڈیشن کے تعلیمی اداروں میں تعلیم کا معیار بہت بلند ہے۔ مدعا یہی ہے کہ اس میں پڑھنے والے غریب بچے بچیاں مہنگے اسکولوں میں زیر تعلیم امیر طلبہ و طالبات سے کسی صورت پیچھے نہیں رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فاؤنڈیشن کے مدرسوں میں زیرتعلیم طالبان علم اب تعلیمی میدان میں شاندار کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ مثال کے طور پہ سنتوش کمار کوڑا چننے والے کا بیٹا ہے۔ پچھلے سال اس نے ہوٹل مینجمنٹ میں ڈگری لی۔

اب وہ بنگلور کے ہلٹن انٹرنیشنل ہوٹل میں بہ حیثیت نائب چیف کام کر رہا ہے۔ اسی طرح علاقہ منی پور کے یتیم بچے' تھنگا مل کو لیجیے، اس نے میٹرک امتحان میں اے ون گریڈ لیا اور اب وہ قانون کی تعلیم دینے والے بہترین بھارتی کالج' نیشنل لا اسکول (بنگلور) میں پڑھ رہا ہے۔ حال ہی میں فاؤنڈیشن نے غریب خاندانوں کو سود کے بغیر چھوٹے قرضے دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ چنانچہ کئی گھرانے سبزی یا پھلوں کے ٹھیلے لگا کر اپنا معیار زندگی بلند کر چکے۔ فاؤنڈیشن کے تمام اسکولوں اور دفاتر میں ہر غریب گھرانے کی عزت و وقار کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ نیز کسی طالب علم یا طالبہ سے امتیازی سلوک نہیں ہوتا' بلکہ سب بچے بچیوں پر یکساں توجہ دی جاتی ہے۔

جنوبی افریقا کے آئکون ،نیلسن منڈیلا نے ایک بار کہا تھا ''تعلیم ہی وہ سب سے طاقتور ہتھیار ہے جس کی مدد سے دنیا میں انقلاب لانا ممکن ہے'' اور شکلا بوس اس قول پہ کامل ایمان رکھتی ہیں۔ان کا قول وفعل اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔کیا کوئی مخیر پاکستانی ان کے نقش قدم پہ چلنے کو تیار ہے؟
Load Next Story