ایران کی طرف سے سرحدی خلاف ورزی
ایران پاکستان دو ہمسایہ اسلامی ممالک ہیں جس کے باعث یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہماری یہ سرحد قطعی طور پر محفوظ ہے۔
بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقہ مند پر جمعرات کی رات ایرانی سرحدی فوجوں کے حملے سے فرنٹیر کور (ایف سی) کا ایک صوبیدار شہید جب کہ چار دیگر اہلکار زخمی ہو گئے۔ اس کا اعلان بلوچستان کے سیکریٹری داخلہ اکبر درانی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔
پاکستان کے برادر پڑوسی ملک کی طرف سے اس قسم کا جارحانہ واقعہ نہایت افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ اخباری خبر کے مطابق پاکستانی فورسز کے جوان ایرانی سرحد کے قریب پینے کا پانی لینے گئے تھے جب انھوں نے دیکھا کہ دو موٹر سائیکلوں پر مشتبہ افراد ادھر گشت کر رہے ہیں تو ایف سی اہلکاروں کے پیچھا کرنے پر مشتبہ افراد فائرنگ کرتے ہوئے سرحد عبور کر گئے۔ ایف سی نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے ان کا تعاقب کیا کہ اسی دوران ایرانی سرحدی محافظوں نے فائرنگ اور گولہ باری شروع کر دی۔ انھوں نے راکٹ بھی برسائے جو ایف سی کی گاڑی کو لگے جس سے ایف سی کا صوبیدار شہید اور چار اہلکار زخمی ہو گئے۔
ہوم سیکریٹری کے مطابق یہ راکٹ پاکستان کے اندر آٹھ کلومیٹر کے فاصلے تک گرے، ایف سی افسروں نے جوابی فائرنگ کی۔ جمعہ کے دن ایرانی فورسز نے دوبارہ پاکستان کی سرحدی خلاف ورزی کی اور پاکستان میں داخل ہو کر گولہ باری کی جس کا ادھر سے بھی جواب دیا گیا۔ ایف سی کے ترجمان نے الزام لگایا ہے کہ ایرانی سرحدی سیکیورٹی فورسز نے پاکستانی حدود میں داخل ہو کر شہریوں کو ہراساں اور انھیں زد و کوب کیا اورایک گھر سے ایک گاڑی اور دیگر اشیا بھی لے گئے۔ چاغی کی ضلعی انتظامیہ نے فوری طور پر ایرانی حکام کو اس کی تحریری شکایت کی۔
ہفتے کے دن انھوں نے ایرانی سرحدی محافظوں کے افسران سے ملاقات بھی کی اور گزشتہ واقعات پر بازپرس کی۔ صوبائی سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ انھوں نے وفاقی حکومت کو اس واقعہ سے مطلع کر دیا ہے جب کہ سرحد پر گشت میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ایک غیرملکی ایجنسی کے مطابق ایران کے دو سرحدی محافظ بھی ہلاک ہوئے ہیں جب کہ ان کی طرف سے بہت سے باغیوں کو ہلاک کرنے کا بھی دعویٰ کیا گیا ہے۔
ایران پاکستان دو ہمسایہ اسلامی ممالک ہیں جس کے باعث یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہماری یہ سرحد قطعی طور پر محفوظ ہے اور اس طرف سے کوئی خطرہ نہیں۔ دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر چلے آ رہے اور بہت سے معاملات میں ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے رہے ہیں لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے ایران اور پاکستان کی سرحد پر تناؤ اور کشیدگی کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے اور دونوں ممالک کی سیکیورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کے ناخوشگوار واقعات سامنے آ رہے ہیں جو تشویشناک ہے۔ اگر دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان کچھ غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہیں تو انھیں ابھی سے مل بیٹھ کر اسے دور کرنا چاہیے۔
اگر ان غلط فہمیوں کو معمولی سمجھتے ہوئے نظرانداز کر دیا گیا تو مستقبل میں یہ بڑھتے بڑھتے مزید مسائل کا باعث بن سکتی ہیں۔ پاکستان کو پہلے ہی اپنی مشرقی اور شمال مغربی سرحد پر کشیدہ صورت حال کا سامنا ہے۔ اگر ایران کے ساتھ بھی سرحدی کشیدگی جنم لینا شروع ہو جاتی ہے تو اس سے پاکستان کے مسائل میں مزید اضافہ ہو گا جو قطعی طور پر خوش آئند نہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ ہو سکتا ہے کہ بعض عالمی قوتوں کی یہ کوشش ہو کہ ان دو مسلم ممالک کے درمیان غلط فہمیوں کو ہوا دے کر خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر دیا جائے۔ اس خطے میں یہ دو اسلامی ممالک ہی طاقت ور مسلح افواج کے حامل ہیں۔
عالمی سازشی عناصر کی نگاہوں میں یہ دونوں قوتیں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہیں۔ انھوں نے ایک سازش کے تحت ایران عراق جنگ کروا کر دونوں ممالک کو شدید نقصان پہنچایا، اب عراق، شام، لیبیا اور یمن کی صورت حال سب کے سامنے ہے۔ یہ مسلم ممالک خانہ جنگی کا شکار ہو کر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ ان کا سوشل سیٹ اپ ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔ ممکن ہے کہ عالمی سازشی قوتیں پاکستان اور ایران کا حشر بھی عراق اور شام کی طرح کرنے کے لیے کوئی کھیل کھیل رہی ہوں۔ اس سے پہلے کہ سازشی عناصر اپنے مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوں، ان دو مسلم ممالک کے حکام کو ابھی سے غلط فہمیوں کو دور کر کے اپنی سرحدوں کو پرامن بنانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ پاکستان اور ایران کی سرحد پر حالیہ رونما ہونے والا واقعہ تشویشناک ہے جو دونوں ممالک کے درمیان اشتعال انگیزی کا باعث بن رہا ہے ۔
دریں اثناء پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایران کی طرف سے پاکستان پر دراندازی کے الزام کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اس کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس حوالے سے ایران کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت ہے تو اسے پیش کیا جائے تا کہ اس شکایت کا تدارک کیا جا سکے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے یاد دلایا کہ کچھ عرصہ قبل پاکستان پر ایران نے اپنے سرحدی محافظوں کے اغوا کا سنگین الزام عاید کیا تھا مگر تحقیقات سے ثابت ہوا کہ ایرانی محافظوں کے اغوا کا واقعہ پاکستانی نہیں بلکہ ایرانی سرزمین کے اندر پیش آیا تھا۔ اس پر ایران کو غلط الزام لگانے پر معذرت کرنی چاہیے تھی مگر ایسا نہ ہوا اور اب ہمارا برادر اسلامی پڑوسی ملک ایک بار پھر الزام تراشی پر اتر آیا ہے بلکہ اب تو سرحدوں پر کھلی جارحیت کے مظاہرے بھی نظر آنے لگے ہیں۔
ہفتے کے روز پاکستان نے ایرانی ناظم الامور کو دفتر خارجہ میں طلب کر کے باقاعدہ احتجاج ریکارڈ کرایا۔ گزشتہ روز پیش آنے والے واقعے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے ایف سی ترجمان نے پاک ایران سرحدی علاقے چوکاب، تحصیل مند میں ایرانی سرحدی محافظوں کی جانب سے ایف سی کی گشتی پارٹی پر فائرنگ سے صوبیدار کی شہادت اور چار اہلکاروں کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔ ایرانی فورسز چھ گاڑیوں میں تیس گارڈز کے ہمراہ پاکستانی حدود میں دو کلومیٹر اندر تک داخل ہوئیں۔ حکومت بلوچستان کے ترجمان جان محمد بلیدی نے ایرانی فورسز کی کارروائی کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت بلوچستان وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ ایرانی فورسز کی جانب سے کی جانے والی اس سنگین خلاف ورزی کو فوری اور بھرپور طریقہ سے ایران کی حکومت کے سامنے اٹھایا جائے۔
واضح رہے پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایران کے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا ہے کہ پاکستانی سرزمین سے ایران کے اندر دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کی در اندازی ہو رہی ہے۔ دفترخارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے جمعہ کے روز ہفتہ وار پریس بریفنگ سے خطاب میں کہاکہ اگر چند مخصوص قسم کے واقعات ہوتے ہیں تو ان کے ردعمل میں بے بنیاد الزامات عائد نہیں کیے جانے چاہئیں۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے لہذا دونوں ممالک کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تعاون کرنا چاہیے، پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے ہم دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، پاکستان کی خواہش ہے کہ تمام ہمسایہ ممالک دہشت گردی کے خلاف جنگ اور کوششوں میں اس کے ساتھ تعاون کریں۔اس سے پہلے کہ معاملات مزید خراب ہوں پاکستان کو ایرانی حکام کے ساتھ مل کر ایسا میکنیزم تیار کرنا چاہیے جس سے سرحدوں پر دوبارہ ایسے ناخوشگوار واقعات رونما نہ ہوں۔
پاکستان کے برادر پڑوسی ملک کی طرف سے اس قسم کا جارحانہ واقعہ نہایت افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ اخباری خبر کے مطابق پاکستانی فورسز کے جوان ایرانی سرحد کے قریب پینے کا پانی لینے گئے تھے جب انھوں نے دیکھا کہ دو موٹر سائیکلوں پر مشتبہ افراد ادھر گشت کر رہے ہیں تو ایف سی اہلکاروں کے پیچھا کرنے پر مشتبہ افراد فائرنگ کرتے ہوئے سرحد عبور کر گئے۔ ایف سی نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے ان کا تعاقب کیا کہ اسی دوران ایرانی سرحدی محافظوں نے فائرنگ اور گولہ باری شروع کر دی۔ انھوں نے راکٹ بھی برسائے جو ایف سی کی گاڑی کو لگے جس سے ایف سی کا صوبیدار شہید اور چار اہلکار زخمی ہو گئے۔
ہوم سیکریٹری کے مطابق یہ راکٹ پاکستان کے اندر آٹھ کلومیٹر کے فاصلے تک گرے، ایف سی افسروں نے جوابی فائرنگ کی۔ جمعہ کے دن ایرانی فورسز نے دوبارہ پاکستان کی سرحدی خلاف ورزی کی اور پاکستان میں داخل ہو کر گولہ باری کی جس کا ادھر سے بھی جواب دیا گیا۔ ایف سی کے ترجمان نے الزام لگایا ہے کہ ایرانی سرحدی سیکیورٹی فورسز نے پاکستانی حدود میں داخل ہو کر شہریوں کو ہراساں اور انھیں زد و کوب کیا اورایک گھر سے ایک گاڑی اور دیگر اشیا بھی لے گئے۔ چاغی کی ضلعی انتظامیہ نے فوری طور پر ایرانی حکام کو اس کی تحریری شکایت کی۔
ہفتے کے دن انھوں نے ایرانی سرحدی محافظوں کے افسران سے ملاقات بھی کی اور گزشتہ واقعات پر بازپرس کی۔ صوبائی سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ انھوں نے وفاقی حکومت کو اس واقعہ سے مطلع کر دیا ہے جب کہ سرحد پر گشت میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ایک غیرملکی ایجنسی کے مطابق ایران کے دو سرحدی محافظ بھی ہلاک ہوئے ہیں جب کہ ان کی طرف سے بہت سے باغیوں کو ہلاک کرنے کا بھی دعویٰ کیا گیا ہے۔
ایران پاکستان دو ہمسایہ اسلامی ممالک ہیں جس کے باعث یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہماری یہ سرحد قطعی طور پر محفوظ ہے اور اس طرف سے کوئی خطرہ نہیں۔ دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر چلے آ رہے اور بہت سے معاملات میں ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے رہے ہیں لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے ایران اور پاکستان کی سرحد پر تناؤ اور کشیدگی کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے اور دونوں ممالک کی سیکیورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کے ناخوشگوار واقعات سامنے آ رہے ہیں جو تشویشناک ہے۔ اگر دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان کچھ غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہیں تو انھیں ابھی سے مل بیٹھ کر اسے دور کرنا چاہیے۔
اگر ان غلط فہمیوں کو معمولی سمجھتے ہوئے نظرانداز کر دیا گیا تو مستقبل میں یہ بڑھتے بڑھتے مزید مسائل کا باعث بن سکتی ہیں۔ پاکستان کو پہلے ہی اپنی مشرقی اور شمال مغربی سرحد پر کشیدہ صورت حال کا سامنا ہے۔ اگر ایران کے ساتھ بھی سرحدی کشیدگی جنم لینا شروع ہو جاتی ہے تو اس سے پاکستان کے مسائل میں مزید اضافہ ہو گا جو قطعی طور پر خوش آئند نہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ ہو سکتا ہے کہ بعض عالمی قوتوں کی یہ کوشش ہو کہ ان دو مسلم ممالک کے درمیان غلط فہمیوں کو ہوا دے کر خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر دیا جائے۔ اس خطے میں یہ دو اسلامی ممالک ہی طاقت ور مسلح افواج کے حامل ہیں۔
عالمی سازشی عناصر کی نگاہوں میں یہ دونوں قوتیں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہیں۔ انھوں نے ایک سازش کے تحت ایران عراق جنگ کروا کر دونوں ممالک کو شدید نقصان پہنچایا، اب عراق، شام، لیبیا اور یمن کی صورت حال سب کے سامنے ہے۔ یہ مسلم ممالک خانہ جنگی کا شکار ہو کر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ ان کا سوشل سیٹ اپ ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔ ممکن ہے کہ عالمی سازشی قوتیں پاکستان اور ایران کا حشر بھی عراق اور شام کی طرح کرنے کے لیے کوئی کھیل کھیل رہی ہوں۔ اس سے پہلے کہ سازشی عناصر اپنے مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوں، ان دو مسلم ممالک کے حکام کو ابھی سے غلط فہمیوں کو دور کر کے اپنی سرحدوں کو پرامن بنانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ پاکستان اور ایران کی سرحد پر حالیہ رونما ہونے والا واقعہ تشویشناک ہے جو دونوں ممالک کے درمیان اشتعال انگیزی کا باعث بن رہا ہے ۔
دریں اثناء پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایران کی طرف سے پاکستان پر دراندازی کے الزام کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اس کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس حوالے سے ایران کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت ہے تو اسے پیش کیا جائے تا کہ اس شکایت کا تدارک کیا جا سکے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے یاد دلایا کہ کچھ عرصہ قبل پاکستان پر ایران نے اپنے سرحدی محافظوں کے اغوا کا سنگین الزام عاید کیا تھا مگر تحقیقات سے ثابت ہوا کہ ایرانی محافظوں کے اغوا کا واقعہ پاکستانی نہیں بلکہ ایرانی سرزمین کے اندر پیش آیا تھا۔ اس پر ایران کو غلط الزام لگانے پر معذرت کرنی چاہیے تھی مگر ایسا نہ ہوا اور اب ہمارا برادر اسلامی پڑوسی ملک ایک بار پھر الزام تراشی پر اتر آیا ہے بلکہ اب تو سرحدوں پر کھلی جارحیت کے مظاہرے بھی نظر آنے لگے ہیں۔
ہفتے کے روز پاکستان نے ایرانی ناظم الامور کو دفتر خارجہ میں طلب کر کے باقاعدہ احتجاج ریکارڈ کرایا۔ گزشتہ روز پیش آنے والے واقعے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے ایف سی ترجمان نے پاک ایران سرحدی علاقے چوکاب، تحصیل مند میں ایرانی سرحدی محافظوں کی جانب سے ایف سی کی گشتی پارٹی پر فائرنگ سے صوبیدار کی شہادت اور چار اہلکاروں کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔ ایرانی فورسز چھ گاڑیوں میں تیس گارڈز کے ہمراہ پاکستانی حدود میں دو کلومیٹر اندر تک داخل ہوئیں۔ حکومت بلوچستان کے ترجمان جان محمد بلیدی نے ایرانی فورسز کی کارروائی کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت بلوچستان وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ ایرانی فورسز کی جانب سے کی جانے والی اس سنگین خلاف ورزی کو فوری اور بھرپور طریقہ سے ایران کی حکومت کے سامنے اٹھایا جائے۔
واضح رہے پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایران کے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا ہے کہ پاکستانی سرزمین سے ایران کے اندر دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کی در اندازی ہو رہی ہے۔ دفترخارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے جمعہ کے روز ہفتہ وار پریس بریفنگ سے خطاب میں کہاکہ اگر چند مخصوص قسم کے واقعات ہوتے ہیں تو ان کے ردعمل میں بے بنیاد الزامات عائد نہیں کیے جانے چاہئیں۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے لہذا دونوں ممالک کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تعاون کرنا چاہیے، پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے ہم دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، پاکستان کی خواہش ہے کہ تمام ہمسایہ ممالک دہشت گردی کے خلاف جنگ اور کوششوں میں اس کے ساتھ تعاون کریں۔اس سے پہلے کہ معاملات مزید خراب ہوں پاکستان کو ایرانی حکام کے ساتھ مل کر ایسا میکنیزم تیار کرنا چاہیے جس سے سرحدوں پر دوبارہ ایسے ناخوشگوار واقعات رونما نہ ہوں۔