موسم بہار آنے کو ہے
آج ہر طرف ہاہاکار مچی ہے میدان سیاست ہاتھ سے جاتا دکھائی دیا تو سارے خرگوش میدان میں آ گئے۔
خرگوش اور کچھوے کی کہانی سب کو پتہ ہے اور سب نے پڑھی بھی ہے۔ یہ کہانی ہر دور کی سچائی ہے۔ جب کبھی کسی خوبصورت زمانے میں دنیا کی مقبول ترین تصنیف ''الف لیلیٰ'' لکھی گئی تھی، داستان امیر حمزہ وجود میں آئی، طلسم ہوش ربا کے محیر العقول واقعات پڑھ کر لکھنے والے کے ذہن رسا اور تخیل کی داد دینی پڑی۔ وہیں ان کلاسیکی اور لازوال داستانوں کے بعض کردار ضرب المثل کی صورت اختیار کر گئے۔
جیسے عمرو عیار کی زنبیل، جام جمشید، خواجہ سگ پرست، اڑن کھٹولہ اور اڑنے والا قالین وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ خیالی باتیں جو لکھنے والے کی صرف ذہنی اختراع تھیں۔ زمانے نے دیکھا کہ وہ سب طلسماتی اور خیالی دنیا اب پوری سچائی کے ساتھ ہمارے سامنے ہے۔ اڑن کھٹولہ کی جگہ ہوائی جہاز، جام جمشید کی جگہ ٹیلی ویژن، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ۔ عمرو عیار کی زنبیل کی جگہ پاکستانی سیاست دانوں اور بے ایمان حکمرانوں کے خزانے بھرتے جاتے ہیں لیکن ہوس ختم نہیں ہوتی۔
آئی ایم ایف سے اربوں روپوں کے قرضے پاکستانی معیشت کی گرتی ہوئی صورت حال کو سنبھالنے کے لیے لیے جاتے ہیں لیکن وہ سب حکمرانوں کے ذاتی بینک اکاؤنٹس میں جمع ہو جاتے ہیں۔ قرضوں کی ادائیگی کے لیے عوام پر ٹیکس بڑھا دیے جاتے ہیں۔ گیس، بجلی، پانی، چاول، آٹا، دالیں، دودھ، دہی، سبزیوں اور گوشت کی قیمتیں بڑھا کر ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے ان ہی عوام کی جیبوں سے پیسہ نکالا جاتا ہے۔
جن کے نام پر وہ قرضہ حاصل کیا گیا، اسی طرح زلزلے اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا ازالہ کرنے کے لیے ہمسایہ اور دوست ممالک کے آگے تھری پیس سوٹ یا شلوار قمیض پہن کر کشکول پھیلا دیا جاتا ہے۔ اور وہ رقم بھی بے حس لیڈر اپنی اپنی زنبیلوں میں ڈال کر پھر اگلے سیلاب کا انتظار کرتے ہیں تا کہ لوگ پھر مریں، پھر بربادی ہو اور وہ پھر کاسہ گداگری اٹھا کر دوسروں سے مدد کے طالب ہوں اور پھر سے اپنے بلونگڑوں کے لیے خفیہ خزانوں میں بھیک میں ملنے والا پیسہ محفوظ کر سکیں۔
بات شروع ہوئی تھی خرگوش اور کچھوے کی کہانی سے جو ہر نسل کو یاد ہے۔ کیا آج وہ پوری سچائی کے ساتھ عیاں نہیں ہو رہی؟ خواب خرگوش والا محاورہ بھی اپنی پوری توانائی کے ساتھ زندہ ہو گیا ہے۔ خرگوش عیاشی اور عیش و عشرت کی نیند سے یکدم بیدار ہو گئے ہیں۔ جلسے جلوس، مکے لہراتے منہ سے کف جاری کرتے ننھے ننھے خرگوشوں کو میدان میں اتار جا رہا ہے۔ وہ جو سب کچھ ہضم کر کے میٹھی نیند سو رہے تھے اور سمجھتے تھے کہ سست رفتار کچھوا ہماری تیزی و طراری کا بھلا کیا مقابلہ کر سکے گا۔ لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ اپنے مقصد میں کامیابی اور منزل تک پہنچنے کے لیے جہد مسلسل اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے۔
سو ہوا یوں کہ اپنی اکڑ، غرور اور نخوت سے لبریز طاقت کے نشے میں چور خرگوش نے کچھ دوسرے لالچی خرگوشوں کو ملا کر ایک گروپ بنایا۔ اور طے کیا کہ اب بجائے لڑنے کے مل کر میٹھی اور گہری نیند کے مزے لیں گے۔ لیکن کچھوے نے ایسا کچھ نہ کیا وہ مسلسل دوڑتا رہا تا کہ اپنے ہدف کو حاصل کر سکے۔ اس نے یہ سوچا ہی نہیں کہ خرگوش تیز رفتار ہے وہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ لیکن وہ شرط لگا چکا تھا اس لیے چپ چاپ دوڑتا رہا۔ لیکن کہاں کچھوے کی چال اور کہاں خرگوش کی چھلانگ؟ بس یہیں خرگوش مار کھا گیا۔ نخوت اور غرور ہر ذی کو لے ڈوبتا ہے۔ کچھوا مستقل مزاجی سے مسلسل چلتا رہا اور مقررہ وقت پہ منزل پہ پہنچ گیا۔
اس کی جیت کے گواہ جنگل کے تمام جانور تھے۔ جو خرگوش کے پہنچنے کا انتظار کر رہے تھے۔ لیکن خرگوش میٹھی نیند سے بیدار ہو کر ایک آنکھ کھول کر دیکھتا کہ کچھوا کہاں تک پہنچا ہو گا۔ اور پھر اس اعتماد اور غرور کے ساتھ سو جاتا کہ ابھی بہت وقت ہے۔ اور جب وہ جاگا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ کچھوا مقابلہ جیت چکا تھا اور تمام چھوٹے بڑے جانور اس کے گرد جمع تھے۔ اور اس کی کامیابی کا جشن منا رہے تھے۔
خرگوش یہ صورت حال دیکھ کر بہت پریشان ہوا۔ اور پھر اس نے ایک جگہ تمام خرگوشوں کو جمع کیا اور بتایا کہ وہ حیران ہے کہ یہ سب کیسے ہو گیا؟ پھر انھوں نے اپنے اپنے بچوں کو جمع کیا اور کہا کہ اب کچھوؤں کا مقابلہ تمہیں مل کر کرنا ہے۔ لہٰذا نئی حکمت عملی ترتیب دی گئی خرگوش جاگ گئے اور میدان ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر ننھے ننھے خرگوشوں کو میدان میں اتار دیا گیا۔ ننھے منے بچوں کو ابھی ٹھیک سے ہاتھ پاؤں چلانا بھی نہیں آئے تھے۔ گاجر بھی ابا کے ہاتھ سے کھاتے تھے۔ لیکن بڑے خرگوشوں نے ان کو اداکاری کرنا سکھائی۔ کب پھوں پھاں کرنی ہے، کب گاجر آدھی کھا کر پھینکنی ہے، اور کب ننھے سے ہاتھ کا مکا بنا کر کچھوؤں پہ لہرانا ہے۔ اور بتانا ہے کہ خرگوش ہمیشہ تیز رفتار ہیں اور رہیں گے۔ کیا ہوا اگر غفلت اور طاقت کے نشے کی نیند سو گئے۔ اب ان کے بچے بازی جیتنے اور مقابلے کے لیے تیار ہیں۔
کیا یہ آج کا منظر نامہ نہیں؟ موجودہ اور سابقہ حکومتوں کو خواب خرگوش سے کس نے جگایا؟ آج ہر طرف ہاہاکار مچی ہے میدان سیاست ہاتھ سے جاتا دکھائی دیا تو سارے خرگوش میدان میں آ گئے۔ لیکن زمانہ بدل چکا ہے۔ لوگ نیند سے بیدار ہو کر احتجاج پہ آمادہ ہیں۔ صرف اس لیے کہ ناپاک، بدبودار اور گھن لگے لیڈروں کی عیاشیاں اور بے ایمانیاں نہ صرف کھل کر سامنے آ چکی ہیں بلکہ ان کی خبیث حرکتوں پہ لوگوں نے چپ سادھ لینا چھوڑ دیا ہے۔ کیونکہ کسی نے ان کے شعور کو جھنجھوڑا ہے اور احساس دلایا ہے کہ بدکردار، عیاش، ظالم اور سنگدل حکمرانوں کی ہر زیادتی پہ خاموش رہنا اور اس کے خلاف احتجاج نہ کرنا ہی اس عذاب کی جڑ ہے۔
خواب خرگوش کے مزے لینے والے جو اچانک جاگ گئے ہیں۔ کاش وہ اس حقیقت کا ادراک رکھتے کہ بروقت اگر مریض کا علاج نہ کیا جائے تو وہ موت کے منہ میں پہنچ جاتا ہے۔ زرداری اور نواز شریف دونوں کے گٹھ جوڑ سے جو پارلیمنٹ کا بازار سجا ہے اسے اگر ''مصر کے بازار غلاماں'' سے تشبیہہ دی جائے تو غلط نہ ہو گا۔ جہاں سے بادشاہ، حاکم، امیر زادے اپنی اپنی مرضی کی قیمت دے کر غلام خرید لاتے تھے۔ ان غلاموں کے خون میں وفاداری اس حد تک رچی بسی ہوتی تھی کہ وہ اپنے مالک کی ہر غلط بات کو صبح صادق کی طرح سچ ثابت کر سکتے تھے۔ اس غلامانہ ذہنیت کا صلہ بھی انھیں ان کے آقا ان کی اوقات کے مطابق دیا کرتے تھے۔
کسی کو داماد بنا لیتے تھے، کسی کو سمدھی، اس طرح غلاموں کی نسل در نسل حکومتیں قائم رہتی تھیں۔ آج نام نہاد ارکان اسمبلی جس طرح اپنے اپنے ''آقاؤں'' کی قصیدہ خوانی کر رہے ہیں، اس کا ایک نمونہ سب نے سڑکوں اور کھمبوں کے ساتھ لگے ان بینرز میں ضرور دیکھا ہو گا، جن میں زرداری گروپ سے وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے، بھٹو کے انداز میں ان کے نواسے کی تصاویر آویزاں کی گئی ہیں، کہیں کہیں بھٹو کی بیٹی بھی موجود ہیں۔
بینروں میں منجانب کر کے اس جیالے کا نام بھی ہے جس کی طرف سے یہ بینرز لگائے گئے ہیں۔ کراچی شہر تو ان بینرز سے بھرا پڑا ہے۔ یہ بینرز ان غلاموں کی مستقبل کی سرمایہ کاری ہے۔ یہ ابھی تک اسی نشے میں سرشار ہیں کہ جب غلاموں کی حکمت عملی سے ''گو نواز گو'' کا نعرہ دم توڑ دے گا۔ اور ''اب کی باری پھر؟'' کا نعرہ وجود میں آئے گا۔ اور یہ سب نیبو نچوڑ اپنے اپنے بینرز اور حکومت کے حق میں لگائے گئے پوسٹروں کے ساتھ بادشاہ سلامت کے قدموں میں جھکے ہوں گے اور اپنی خدمات کا معاوضہ طلب کر رہے ہوں گے۔
لیکن ہوا کا رخ بدل چکا ہے۔ خزاں کے بعد پرانے پرتے گر جاتے ہیں اور نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں۔ وراثتی سیاست دم توڑ چکی ہے۔ صرف پتے گرنا باقی ہیں۔ خزاں کے بعد بہار قدرت کا قانون ہے۔ انشاء اللہ ہم سب بہت جلد ''موسم بہار'' دیکھیں گے۔
جیسے عمرو عیار کی زنبیل، جام جمشید، خواجہ سگ پرست، اڑن کھٹولہ اور اڑنے والا قالین وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ خیالی باتیں جو لکھنے والے کی صرف ذہنی اختراع تھیں۔ زمانے نے دیکھا کہ وہ سب طلسماتی اور خیالی دنیا اب پوری سچائی کے ساتھ ہمارے سامنے ہے۔ اڑن کھٹولہ کی جگہ ہوائی جہاز، جام جمشید کی جگہ ٹیلی ویژن، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ۔ عمرو عیار کی زنبیل کی جگہ پاکستانی سیاست دانوں اور بے ایمان حکمرانوں کے خزانے بھرتے جاتے ہیں لیکن ہوس ختم نہیں ہوتی۔
آئی ایم ایف سے اربوں روپوں کے قرضے پاکستانی معیشت کی گرتی ہوئی صورت حال کو سنبھالنے کے لیے لیے جاتے ہیں لیکن وہ سب حکمرانوں کے ذاتی بینک اکاؤنٹس میں جمع ہو جاتے ہیں۔ قرضوں کی ادائیگی کے لیے عوام پر ٹیکس بڑھا دیے جاتے ہیں۔ گیس، بجلی، پانی، چاول، آٹا، دالیں، دودھ، دہی، سبزیوں اور گوشت کی قیمتیں بڑھا کر ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے ان ہی عوام کی جیبوں سے پیسہ نکالا جاتا ہے۔
جن کے نام پر وہ قرضہ حاصل کیا گیا، اسی طرح زلزلے اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا ازالہ کرنے کے لیے ہمسایہ اور دوست ممالک کے آگے تھری پیس سوٹ یا شلوار قمیض پہن کر کشکول پھیلا دیا جاتا ہے۔ اور وہ رقم بھی بے حس لیڈر اپنی اپنی زنبیلوں میں ڈال کر پھر اگلے سیلاب کا انتظار کرتے ہیں تا کہ لوگ پھر مریں، پھر بربادی ہو اور وہ پھر کاسہ گداگری اٹھا کر دوسروں سے مدد کے طالب ہوں اور پھر سے اپنے بلونگڑوں کے لیے خفیہ خزانوں میں بھیک میں ملنے والا پیسہ محفوظ کر سکیں۔
بات شروع ہوئی تھی خرگوش اور کچھوے کی کہانی سے جو ہر نسل کو یاد ہے۔ کیا آج وہ پوری سچائی کے ساتھ عیاں نہیں ہو رہی؟ خواب خرگوش والا محاورہ بھی اپنی پوری توانائی کے ساتھ زندہ ہو گیا ہے۔ خرگوش عیاشی اور عیش و عشرت کی نیند سے یکدم بیدار ہو گئے ہیں۔ جلسے جلوس، مکے لہراتے منہ سے کف جاری کرتے ننھے ننھے خرگوشوں کو میدان میں اتار جا رہا ہے۔ وہ جو سب کچھ ہضم کر کے میٹھی نیند سو رہے تھے اور سمجھتے تھے کہ سست رفتار کچھوا ہماری تیزی و طراری کا بھلا کیا مقابلہ کر سکے گا۔ لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ اپنے مقصد میں کامیابی اور منزل تک پہنچنے کے لیے جہد مسلسل اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے۔
سو ہوا یوں کہ اپنی اکڑ، غرور اور نخوت سے لبریز طاقت کے نشے میں چور خرگوش نے کچھ دوسرے لالچی خرگوشوں کو ملا کر ایک گروپ بنایا۔ اور طے کیا کہ اب بجائے لڑنے کے مل کر میٹھی اور گہری نیند کے مزے لیں گے۔ لیکن کچھوے نے ایسا کچھ نہ کیا وہ مسلسل دوڑتا رہا تا کہ اپنے ہدف کو حاصل کر سکے۔ اس نے یہ سوچا ہی نہیں کہ خرگوش تیز رفتار ہے وہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ لیکن وہ شرط لگا چکا تھا اس لیے چپ چاپ دوڑتا رہا۔ لیکن کہاں کچھوے کی چال اور کہاں خرگوش کی چھلانگ؟ بس یہیں خرگوش مار کھا گیا۔ نخوت اور غرور ہر ذی کو لے ڈوبتا ہے۔ کچھوا مستقل مزاجی سے مسلسل چلتا رہا اور مقررہ وقت پہ منزل پہ پہنچ گیا۔
اس کی جیت کے گواہ جنگل کے تمام جانور تھے۔ جو خرگوش کے پہنچنے کا انتظار کر رہے تھے۔ لیکن خرگوش میٹھی نیند سے بیدار ہو کر ایک آنکھ کھول کر دیکھتا کہ کچھوا کہاں تک پہنچا ہو گا۔ اور پھر اس اعتماد اور غرور کے ساتھ سو جاتا کہ ابھی بہت وقت ہے۔ اور جب وہ جاگا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ کچھوا مقابلہ جیت چکا تھا اور تمام چھوٹے بڑے جانور اس کے گرد جمع تھے۔ اور اس کی کامیابی کا جشن منا رہے تھے۔
خرگوش یہ صورت حال دیکھ کر بہت پریشان ہوا۔ اور پھر اس نے ایک جگہ تمام خرگوشوں کو جمع کیا اور بتایا کہ وہ حیران ہے کہ یہ سب کیسے ہو گیا؟ پھر انھوں نے اپنے اپنے بچوں کو جمع کیا اور کہا کہ اب کچھوؤں کا مقابلہ تمہیں مل کر کرنا ہے۔ لہٰذا نئی حکمت عملی ترتیب دی گئی خرگوش جاگ گئے اور میدان ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر ننھے ننھے خرگوشوں کو میدان میں اتار دیا گیا۔ ننھے منے بچوں کو ابھی ٹھیک سے ہاتھ پاؤں چلانا بھی نہیں آئے تھے۔ گاجر بھی ابا کے ہاتھ سے کھاتے تھے۔ لیکن بڑے خرگوشوں نے ان کو اداکاری کرنا سکھائی۔ کب پھوں پھاں کرنی ہے، کب گاجر آدھی کھا کر پھینکنی ہے، اور کب ننھے سے ہاتھ کا مکا بنا کر کچھوؤں پہ لہرانا ہے۔ اور بتانا ہے کہ خرگوش ہمیشہ تیز رفتار ہیں اور رہیں گے۔ کیا ہوا اگر غفلت اور طاقت کے نشے کی نیند سو گئے۔ اب ان کے بچے بازی جیتنے اور مقابلے کے لیے تیار ہیں۔
کیا یہ آج کا منظر نامہ نہیں؟ موجودہ اور سابقہ حکومتوں کو خواب خرگوش سے کس نے جگایا؟ آج ہر طرف ہاہاکار مچی ہے میدان سیاست ہاتھ سے جاتا دکھائی دیا تو سارے خرگوش میدان میں آ گئے۔ لیکن زمانہ بدل چکا ہے۔ لوگ نیند سے بیدار ہو کر احتجاج پہ آمادہ ہیں۔ صرف اس لیے کہ ناپاک، بدبودار اور گھن لگے لیڈروں کی عیاشیاں اور بے ایمانیاں نہ صرف کھل کر سامنے آ چکی ہیں بلکہ ان کی خبیث حرکتوں پہ لوگوں نے چپ سادھ لینا چھوڑ دیا ہے۔ کیونکہ کسی نے ان کے شعور کو جھنجھوڑا ہے اور احساس دلایا ہے کہ بدکردار، عیاش، ظالم اور سنگدل حکمرانوں کی ہر زیادتی پہ خاموش رہنا اور اس کے خلاف احتجاج نہ کرنا ہی اس عذاب کی جڑ ہے۔
خواب خرگوش کے مزے لینے والے جو اچانک جاگ گئے ہیں۔ کاش وہ اس حقیقت کا ادراک رکھتے کہ بروقت اگر مریض کا علاج نہ کیا جائے تو وہ موت کے منہ میں پہنچ جاتا ہے۔ زرداری اور نواز شریف دونوں کے گٹھ جوڑ سے جو پارلیمنٹ کا بازار سجا ہے اسے اگر ''مصر کے بازار غلاماں'' سے تشبیہہ دی جائے تو غلط نہ ہو گا۔ جہاں سے بادشاہ، حاکم، امیر زادے اپنی اپنی مرضی کی قیمت دے کر غلام خرید لاتے تھے۔ ان غلاموں کے خون میں وفاداری اس حد تک رچی بسی ہوتی تھی کہ وہ اپنے مالک کی ہر غلط بات کو صبح صادق کی طرح سچ ثابت کر سکتے تھے۔ اس غلامانہ ذہنیت کا صلہ بھی انھیں ان کے آقا ان کی اوقات کے مطابق دیا کرتے تھے۔
کسی کو داماد بنا لیتے تھے، کسی کو سمدھی، اس طرح غلاموں کی نسل در نسل حکومتیں قائم رہتی تھیں۔ آج نام نہاد ارکان اسمبلی جس طرح اپنے اپنے ''آقاؤں'' کی قصیدہ خوانی کر رہے ہیں، اس کا ایک نمونہ سب نے سڑکوں اور کھمبوں کے ساتھ لگے ان بینرز میں ضرور دیکھا ہو گا، جن میں زرداری گروپ سے وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے، بھٹو کے انداز میں ان کے نواسے کی تصاویر آویزاں کی گئی ہیں، کہیں کہیں بھٹو کی بیٹی بھی موجود ہیں۔
بینروں میں منجانب کر کے اس جیالے کا نام بھی ہے جس کی طرف سے یہ بینرز لگائے گئے ہیں۔ کراچی شہر تو ان بینرز سے بھرا پڑا ہے۔ یہ بینرز ان غلاموں کی مستقبل کی سرمایہ کاری ہے۔ یہ ابھی تک اسی نشے میں سرشار ہیں کہ جب غلاموں کی حکمت عملی سے ''گو نواز گو'' کا نعرہ دم توڑ دے گا۔ اور ''اب کی باری پھر؟'' کا نعرہ وجود میں آئے گا۔ اور یہ سب نیبو نچوڑ اپنے اپنے بینرز اور حکومت کے حق میں لگائے گئے پوسٹروں کے ساتھ بادشاہ سلامت کے قدموں میں جھکے ہوں گے اور اپنی خدمات کا معاوضہ طلب کر رہے ہوں گے۔
لیکن ہوا کا رخ بدل چکا ہے۔ خزاں کے بعد پرانے پرتے گر جاتے ہیں اور نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں۔ وراثتی سیاست دم توڑ چکی ہے۔ صرف پتے گرنا باقی ہیں۔ خزاں کے بعد بہار قدرت کا قانون ہے۔ انشاء اللہ ہم سب بہت جلد ''موسم بہار'' دیکھیں گے۔