یہ وقت ہے اتحاد و اتفاق کا

شہر قائد کئی برس سے دہشت گردی کا نہ صرف نشانہ بنا ہوا ہے بلکہ یہاں کئی بڑے حادثات بھی رونما ہوچکے ہیں۔

najmalam.jafri@gmail.com

آپریشن ضرب عضب کی 80 فیصد کامیابی اور شہر قائد کے حالات میں کچھ بہتری کا سن کر جو سکون و اطمینان ہوا تھا وہ آج کے اخبارات نے نہ صرف کافور کردیا بلکہ ہوش ہی اڑا دیے۔ یہ خدشہ تو پہلے ہی تھا کہ مذاکرات میں جو وقت ضایع کیا گیا ہے بلکہ جو غیر سنجیدہ طرز عمل اس سلسلے میں اختیارکیا گیا ہے اس سے فائدہ اٹھاکر کہیں دہشت گرد اپنے ٹھکانے تبدیل نہ کرلیں بلکہ ملک بھر میں نہ پھیل جائیں۔ خاص کر کراچی تو ان کے لیے اچھی پناہ گاہ ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ ان کا نیٹ ورک یہاں پہلے سے موجود ہے اور پھر کراچی میں داخل ہونے والوں پر کسی قسم کی کوئی پابندی تو دور کی بات ان کا کوئی ریکارڈ تک نہیں رکھا جاتا۔ شناختی کارڈ سے لے کر پاسپورٹ تک کی سہولیات ان کو باآسانی میسر ہیں۔

یہ خدشہ اس وقت حقیقت بن کر سامنے آگیا جب اخبارات کے صفحہ اول پر یہ فکر انگیز خبر شایع ہوئی کہ کراچی سینٹرل جیل سے خطرناک دہشت گردوں کو فرار کرانے کے لیے ان کے باہر کے ساتھیوں نے 45 میٹر لمبی سرنگ کھود ڈالی جب کہ اس کے مکمل ہونے میں محض 10 میٹر کی کسر رہ گئی تھی، یعنی کمند اس وقت ٹوٹ گئی جب صرف دو چار ہاتھ لب بام رہ گیا۔ جیل سے متصل غوثیہ کالونی کے ایک مکان میں موجود پانی کے ٹینک سے اس سرنگ کا آغاز ہوا، بقول ذمے دار اہلکار کے یہ جیل کی بیرک نمبر 25 اور 26 میں موجود سو سے زیادہ خطرناک ملزمان فرار کرانے کی کوشش تھی جو بروقت اطلاعات کے باعث ناکام بنادی گئی۔

خبرکی تفصیلات کا علم تو کراچی کے ہر شہری کو ذرائع ابلاغ کے باعث ہو ہی چکا ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب چند ماہ قبل جیل میں خطرناک قیدیوں کے پاس موبائل فون کے ذریعے باہر ان کے رابطوں اور کاروبار (اغوا،بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ) کی خبریں بھی اخبارات میں تمام تر تفصیلات کے ساتھ منظر عام پر آچکی تھیں اس کے باوجود سینٹرل جیل کے معاملات پر کڑی نظر کیوں نہیں رکھی گئی؟ ایک طرف تو جیل گنجان آبادی کے درمیان ہے اس کے باوجود جیل کی دیوار سے بالکل قریب فلائی اوور کی تعمیر نے اس کو مزید غیر محفوظ بنادیا ہے اس سلسلے میں بھی لوگ اپنے خدشات کا اظہار کرچکے ہیں۔ جیل حکام اور ذمے دار اہلکاروں کے رویے پر بھی شکوک و شبہات کا تذکرہ ہوچکا ہے کہ قیدیوں کے پاس فون کیسے پہنچے اور ان کو پکڑا کیوں نہیں کیا؟

شہر قائد کئی برس سے دہشت گردی کا نہ صرف نشانہ بنا ہوا ہے بلکہ یہاں کئی بڑے حادثات بھی رونما ہوچکے ہیں جن میں شہریوں کے علاوہ پولیس اور رینجرز کے بھی کئی ذمے دار نشانہ بن چکے ہیں، اس کے باوجود سندھ کی صوبائی حکومت کے رویے اور طرز حکمرانی میں کوئی خاص تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ اگر دو چار دن مرنے والوں کی تعداد میں معمول سے کچھ کمی ہوجائے تو فوراً حکومت کی جانب سے بیان جاری ہوجاتا ہے کہ حالات پر بڑی حد تک قابو پالیا گیا ہے یا یہ کہ کراچی آپریشن کے بہتر نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ مگر اس بیان کی سیاہی خشک نہیں ہوتی کہ ملزمان پھر سرگرم عمل ہوجاتے ہیں۔


حالات کا بغور مشاہدہ کرنے والے اگر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہیں تو اول تو ان کو خاطر میں ہی نہیں لایا جاتا، اس کے علاوہ ان کا نہ صرف مذاق اڑایا جاتا ہے بلکہ تعصب کی عینک لگاکر ان کے بیانات کا جانبدارانہ تجزیہ کرکے کہا جاتا ہے ''اگر یوں ہے تو پھر آپ خود یوں کر لیجیے'' مطلب یہ کہ حکمرانوں اور ذمے داروں کے علاوہ سب غیر دانشمند ہی نہیں بلکہ غیر محب وطن بھی ہیں اور ان کا کام صرف حکومت پر تنقید کرنا ہے۔ جیل کو یوں توڑنے کی سازش خدانخواستہ بروقت نہ پکڑی جاتی تو اہلیان کراچی کے خدشات سے بھی بڑھ کر کوئی بڑا سانحہ رونما ہوسکتا تھا اور اب بھی اس منصوبے کو ناکام بنادینے کا مطلب یہ نہیں کہ تمام خدشات کا ہمیشہ کے لیے سدباب ہوچکا ہے، نہ جانے کتنے دہشت گردی کے مزید منصوبے زیر غور یا زیر عمل ہوں گے۔ کیونکہ شاید پہلے بھی کسی کالم میں یہ بات لکھی جاچکی ہے کہ تقریباً ہر روز درجنوں ملزمان گرفتار ہوتے ہیں اور اتنے ہی پولیس مقابلے میں ہلاک ہوجاتے ہیں۔

صرف ایک ہفتے کے اعداد وشمار جمع کیے جائیں تو پکڑے جانے والے اور مقابلے میں مارے جانے والوں کی تعداد کئی ہزاروں بنتی ہے۔ لیکن آج تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ آخر ان کا انجام کیا ہوتا ہے۔ کیفر کردار تک پہنچانے کے دعوے تو سنے اور پڑھے مگر عملی صورت کبھی سامنے نہیں آئی۔ عدالت کے احاطے تک سے ملزم فرار ہوچکے ہیں جب کہ دوسری جانب بعض تھانوں کے لاک اپ سے کئی بے گناہ بازیاب ہوچکے ہیں۔ اصل ملزمان کا کیا ہوتا ہے؟ کہاں جاتے ہیں، اس کا علم کسی کو نہیں ہوپاتا۔ جو پولیس اہلکار واقعی اپنا فرض دیانت داری سے ادا کرتے ہیں وہ بھی دہشت گردی کا نشانہ بن جاتے ہیں، اسی محکمے میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جن کو ہمارے فرض شناس فوٹو گرافر ان کے ہاتھوں اپنے کیمرے میں محفوظ کرلیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں جامعہ اردو کے قریب فلائی اوور کے نیچے چند موٹرسائیکل سواروں سے رشوت لیتے ہوئے جو اہلکاروں کی تصویر اخبار میں شایع ہوئی تھی اس کے کئی چشم دید گواہ ہوں گے جو اس وقت وہاں سے گزر رہے تھے اور یہ کام محکمے میں عام ہو رہا تھا، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب ہمارے محافظین خود ایسے کاموں میں ملوث ہوں تو ان کے ہوتے ہوئے کوئی صد فی صد مثبت نتائج کی توقع کیسے کرسکتا ہے۔

کیا عوام جیل تک رسائی کے لیے سرنگ کھودنے کے معاملے میں جیل کے اندر کسی کے ملوث ہونے کے امکان کو نظرانداز کرسکتے ہیں؟ جس مکان میں سرنگ کی کھدائی کا انکشاف ہوا وہ پانچ ماہ قبل اس کے اصل مالک سے خریدا گیا تھا اور اس سودے میں بھی کسی پولیس اہلکار کے ملوث ہونے کی اطلاعات ہیں۔ تو جب شہر اور عوام کی جان و مال کی حفاظت پر مامور افراد میں ہی میرجعفر اور میر صادق موجود ہوں تو پھر ایسے واقعات کا رونما ہونا کوئی اچھنبے کی بات تو نہیں۔ گھر کا بھیدی ہی لنکا ڈھاتا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان نے طالبان کے دیگر گروہوں سے الگ ہوکر دہشت گردانہ کارروائیوں سے تائب ہونے کا گزشتہ دنوں نہ صرف اعلان کیا تھا بلکہ انھوں نے خود کو قومی دھارے میں شامل ہوکر اپنے مقاصد کو دہشت گردی کے بجائے تبلیغ کے ذریعے حاصل کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا کہ وہ اسلامی نظام کا نفاذ اور غیر اسلامی کلچر کے خلاف تبلیغ کا راستہ اختیار کریں گے۔

مگر گزشتہ روز ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی اور قومی اسمبلی کے رکن ڈاکٹر فاروق ستار نے ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا ہے کہ ٹی ٹی پی نے قائد تحریک، رابطہ کمیٹی کے ارکان کے علاوہ قومی اسمبلی کے کئی ممبران کو باقاعدہ خطوط اور ایس ایم ایس کے ذریعے بھتہ ادا کرنے اور متحدہ کے مرکز نائن زیرو پر حملے کی کھلی دھمکیاں دی ہیں۔رابطہ کمیٹی کے ارکان نے اس صورتحال سے معہ خطوط کی کاپی صوبائی اور وفاقی حکومت کو آگاہ کردیا ہے۔ مگر اس کا کوئی خاطر خواہ جواب موصول نہ ہوا ۔ اس صورتحال سے کس طرح نمٹنا چاہیے یہ تو لکھنے کا حق رکھتے ہیں کہ اندرونی طور پر ایسے دگرگوں حالات اور سرحدوں پر بھارت کی جارحانہ کارروائیوں کے علاوہ افواج پاکستان کا آپریشن ضرب عضب اور سیلاب زدگان کی بحالی میں مصروف ہونا کیا ہم سب سے اتحاد و اتفاق کا مطالبہ نہیں کر رہی ہیں۔

ہماری تمام سیاسی جماعتیں آج بھی اپنی اپنی طاقت و مقبولیت کے اظہار کے علاوہ اقتدار کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ جب ایک عام آدمی یہ سمجھ سکتا ہے کہ ملک ہے اور پرامن ہے تو ہر کام وقت پر ہونے کے امکانات روشن ہیں۔ لیکن خاکم بہ دہن ملکی سلامتی ہی کو خطرہ لاحق ہو تو اقتدار یا وزارت عظمیٰ کس کام کی۔ تو کیا ہمارے سیاسی رہنما ملک کو اندرونی خلفشار اور بیرونی خطرات سے بچانے کی خاطر کچھ عرصے کے لیے اپنے اختلافات بھلاکر صرف وطن کی سلامتی کے لیے یکجا نہیں ہوسکتے؟
Load Next Story