پیٹ اور گھر بھر گئے

روایت کے مطابق انسانوں کی گنتی جتنی بڑھ جائے لیکن کتوں کی آبادی نہیں بڑھنی چاہیے۔

muhammad.anis@expressnews.tv

اسلام آباد کیا سوچ رہا ہے ، پنجاب میں انقلابیوں اور انصافیوں کے جلسے ، انڈین فلم ''دھوم '' کا پاکستانی ورژن کیسا بھی پیش کر رہے ہوں اور کراچی میں فتح کے جھنڈے گاڑھنے والے جیالے ''دلا تیر بجاں'' پر جیسے چاہیں ناچ رہے ہوں ، حیدرآباد کا مسئلہ صرف اور صرف کتے ہیں اور کتے بھی وہ نہیں جو بھونکنے کو اپنا عظیم کارنامہ سمجھتے ہیں ،بلکہ کاٹنے کو اپنا اولین مقصد سمجھتے ہیں ۔

بظاہر صحت مند نظر آنے والے یہ وحشی کسی نظام کے خلاف نہیں بلکہ انسانوں کے دشمن ہیں، جس کی وجہ سے کتوں سے زخمی ہونے والے انسانوں کے لیے سرکاری اسپتال کے کاونٹر پر ہر وقت دھرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن کتے ہیں کہ کاٹنے سے باز ہی نہیں آتے ۔ ہوا یوں کہ روایت کے مطابق انسانوں کی گنتی جتنی بڑھ جائے لیکن کتوں کی آبادی نہیں بڑھنی چاہیے ۔کتے انسانوں کو بس تھوڑا سا کاٹ لے تو ہم نعرے بازی شروع کر دیتے ہیں لیکن آج تک کتوں نے اپنے قتل عام کے خلاف آواز کیوں نہیں اُٹھائی ؟ تحقیق ہمارے یہاں انسانوں پر نہیں ہوتی کتوں پر ریسرچ کے لیے کون وقت نکالے گا ۔

خیرحیدرآباد کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے اور آوارہ کتوں نے انسانوں کی آوارگی پر پابندی لگا دی ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ ہم جو چاہیں کریں لیکن کسی انسان کو آوارگی نہیں کرنے دیں گے ۔جس کی وجہ سے وہاں کے سرکاری اسپتالوں میں رش لگ گیا ہے ۔کچھ لوگوں نے وہاں'' گو۔۔گو '' کے نعرے بھی لگائے لیکن بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی ۔ کتوں کے بڑھتے ہوئے ظلم کی وجہ سے روزانہ 50 لوگ آتے ہیں جن کی کُل تعداد کئی بڑے دھرنوں سے زیادہ ہے۔

سول اسپتال حیدرآباد کے سربراہ کو ووٹ کی تو نہیں البتہ سپورٹ اور نوٹ کی ضرورت ہے ۔اسی لیے انھوں نے دھرنے کو جلسے میں بدلنے سے پہلے بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد کو فون کر کے سمجھایا کہ برائے مہربانی آپ جلد سے جلد کتوں کا علاج کریں ہم اُن کے کاٹے ہوئے لوگوں کا علاج کر کر کے تھک گئے ہیں ۔ شاید ایڈمنسٹریٹر صاحب کو ڈر ہے کہ کہیں کتے اُن کے خلاف نہ ہو جائیں اور اُن کے دفتر کے باہر بھوکنا نہ شروع کر دیں اس لیے وہ کتوں کے خلاف آپریشن سے ڈر رہے ہیں اور ابھی تک اس کھوج میں ہیں کہ کہیں کتے کسی سازش کا حصہ تو نہیں ہے ۔

کبھی وہ اسے اسلام آباد سے جوڑتے ہیں تو کبھی ملتان سے۔ کسی دوست نے انھیں یہ بھی مشورہ دیا ہے کہ امریکا اور داعش پر بھی نظر رکھیں ۔ مگر خبر کے مطابق حیدرآباد کے سرکاری اسپتال کو روزانہ ہزاروں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں اور انھیں ڈر ہے کہ کہیں اُن کا خزانہ خالی نہ ہو جائے اس لیے اطلاع کے مطابق اسپتال کے سربراہ ڈاکٹر رفیق الحسن کھوکھر نے خود اعلی حکام کی منت سماجت کی ہے ۔

مگر اعلی حکام جلسہ کی مصروفیات کی وجہ سے یہ مسئلہ حل نہیں کر پائے ۔ سیاحت کو سخت نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے اور دیس دیس سے آنے والے سیاحوں نے دہشت گرد کتوں کی وجہ سے حیدرآباد آنے کا پروگرام منسوخ کر دیا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کہیں کتوں کا خوف اتنا نہ بڑھ جائے کہ حیدرآباد کے لوگوں کو نقل مکانی کرنی پڑ جائے ۔ اور پھر بڑا آپریشن ہو ۔ اس وجہ سے ہماری درخواست ہے برائے مہربانی امریکا اس معاملہ میں خصوصی دلچسپی لے ۔ کیونکہ علاقہ مکینوں کے مطابق یہاں کوئی بھی مسئلہ اُس وقت تک حل نہیں ہوتا جب تک امریکا کی مرضی شامل نہ ہو اس لیے ہم اوباما کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ وہ یہاں ضرور آئے یا پھر اپنا وفد بھیجیں ۔


جہاں حیدرآباد کے کتے شہرت پا رہے ہیں وہیں سکھر کے ڈاکٹر بھی بے مثال ہیں ۔ ایک خاتون کو دل کا مرض لگ گیا۔یہ حقیقی والا دل ہے اس لیے کوئی اسے ویلنٹائن والا دل نہ سمجھے۔ ان صاحبہ کو سکھر کے سرکاری اسپتال لایا گیا ۔ ڈاکٹروں نے شروع میں حقیقی دل کو مصیبت میں جانا اور اُسے داخل کر لیا گیا ۔ وہ بیچاری مرض سے لڑتی رہی اور دو دن بعد اُسے دھکے دے کر اسپتال سے ایسے نکال دیا جیسے حیدرآباد انتظامیہ نے کتوں کو نکالا ہوا ہے ۔

گھر والوں نے شدید احتجاج کیا تو ہماری آنکھیں کھولی کہ یہ خاتون کوئی معمولی نہیں تھی یہ وہاں کے سینئر ڈسپنسر کی بیٹی تھی ۔ اب آپ خود سوچیں کہ ہمارے یہاں شفافیت کتنی ہے کہ ہم نے ایک سینئر بندے کی بات نہیں سُنی ۔پھر بھی سندھ حکومت پر الزام لگتا ہے کہ وہ کرپشن کرتی ہے اور لوگوں کو نوازتی ہے ؟ یہ میڈیا والے پتہ نہیں کیوں سندھ حکومت کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ۔ دیکھیں شفافیت کی کتنی اعلیٰ مثال قائم کی ہے مگر پھر بھی سب الزام دیتے ہیں ۔

ایک اور اعلی مثال سنیں ۔کراچی کے سول اسپتال کے سرجیکل 2 وارڈ میں ڈیوٹی پر موجود ایک ڈاکٹر ایک مریض کو انجیکشن لگانے کی تیاری کر رہا تھا ۔ کہ ایک خوبصورت ہاؤس جاب کرنے والی مسیحا آگئی ۔ انجیکشن لگانے والے ڈاکٹر نے اپنا ہاتھ روک دیا ۔ تو آنے والی خاتون ڈاکٹر نے کہا کہ ایک 60 سال کی مریضہ دو دن سے ایمرجنسی میں ہے اور اُسے کوئی ایڈمٹ نہیں کر رہا ۔ ہاتھ میں انجیکشن پکڑے ہوئے ڈاکٹر ،خوبصورت التجا کرنے والی کے دکھ درد میں شامل ہو گیا ، مریض کو چھوڑ کر وہ دونوں ہمکلام ہو گئے ۔ان کی بحث سُن کر اندازہ ہوا کہ ہمارے یہاں کیوں کتے انسانوں کو کاٹ رہے ہیں ۔

60 سال کی مریضہ درمیانی شب ایمرجنسی میں آئی ۔اُسے وارڈ 6 والوں نے چیک کیا لیکن اُن کا ٹائم صبح 9 بجے ختم ہو جاتا ہے ۔ اگلے دن اُس وارڈ 2 کی ڈیوٹی تھی ۔لیکن کیونکہ اُسے وارڈ 6 والوں نے چیک کیا تھا اس لیے وہ اُسے اسپتال میں داخل نہیں کر رہے تھے ۔ پھر اُس کے بعد اگلے وارڈ کی ڈیوٹی لگی اور اس طرح تین دن سے اُس بے چاری کی فائل گھوم رہی تھی اور اُس کے گھر والے ایمرجنسی کے باہر دھرنا دیے ہوئے تھے ۔ڈیوٹی والے ڈاکٹر کو مریضہ سے زیادہ ''اس'' لیڈی ڈاکٹر کا خیال آیا اور اُس نے اپنی سینئر کو فون کیا ۔ سینئر نے کہا دوسروں کی کہانی اپنے سر نہ لو ۔۔اور ڈاکٹر نے وہ ہی کیا ۔ایک بار پھر پھر خوبصورت لڑکی ،60 سالہ مریضہ کی فائل لے کر ایک اور وارڈ میں چلی گئی ۔

تین کہانیاں اور تینوں سچی ۔ ایک طرف جہاں ہم بھونکنے والے اور کاٹنے والے کتوں سے تنگ ہے تو دوسری طرف ہر بااختیار بھی بے اختیار ہے ۔ جس کا زور جہاں چلتا ہے وہ وہاں چلاتا ہے ۔ نظام کو سونگھنے والے .....صرف وہی دم ہلاتے ہیں جہاں سے اُن کے مفادات کی ہڈی حاصل ہوتی ہے ۔ یہاں ہر غریب روز ظلم نظام کی چکی میں پستا ہے اور وہ بھی اُس وقت شیر ہو جاتا ہے جب اُس کی ہلائی ہوئی دم سے کوئی اُس کے پاس ہڈی پھینک دیتا ہے ۔وسائل اتنے ضرور ہیں کہ کتوں کا علاج کیا جاسکے لیکن نظام بھی تو چلانا ہے ۔سُنا تو آپ نے بھی ہو گا کہ اللہ کسی کو اسپتال نہ لے جائے ۔ کیونکہ اسپتال میں جہاں مریض کا برا حال ہوتا ہے وہاں اسپتال والوں کے مزے آجاتے ہیں ۔

مریض کے مرض کا تو معلوم نہیں اور نہ اسپتال کے کھانے کا پتہ ہے لیکن اسپتال مریض کے گھر والوں کی جمع پونجھی ضرور کھا لیتے ہیں ۔کراچی کے بڑے سرکاری اسپتالوں میں کھانا عموما فلاحی ادارے دیتے ہیں لیکن کراچی کے سول اسپتال میں صرف ایک کینٹین ساڑھے6 کروڑ کی بنی ہے جس سے کئی لوگوں کے پیٹ اور گھر بھر گئے ۔ مگرکتے بھی بھونک رہے ہیں ، ایک عورت اپنا دل پکڑے بیٹھی ہے اور ایک ماں 60 سال اس دھرتی کو دینے کے باوجود بھی اسپتال کی ایمرجنسی کے باہر وارڈ میں داخلہ کے لیے لیٹی ہے ۔ پر ''سانوں کی '' ۔۔۔۔آؤ جلسے میں چلتے ہیں۔
Load Next Story