سیلاب وجوہات اور حفاظتی تدابیر

دنیا کے کسی نہ کسی ملک میں سیلاب آتے ہی رہتے ہیں، جن کے سبب جانی، مالی خواہ زرعی نقصانات ہوتے رہتے ہیں۔

دنیا کے کسی نہ کسی ملک میں سیلاب آتے ہی رہتے ہیں، جن کے سبب جانی، مالی خواہ زرعی نقصانات ہوتے رہتے ہیں۔ ہمارے پیارے ملک میں اکثر سیلاب تو بڑے بڑے لوگوں کی زمینوں کو بچانے کے لیے لائے جاتے ہیں ۔ ہمارا دریائے سندھ مانسرو ور جھیل سے نکلتا ہے، جو کہ پنجاب میں آکر پنجند کے مقام پر باقی دریاؤں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے ۔دریاؤں کا پانی پورے ملک میں نہروں کے ذریعے ہمارے کھیتوں کو سیراب کرتا ہے، جس سے ہم کھانے کی اجناس پیدا کرتے ہیں اور اس کے علاوہ ایسی فصلیں بھی ، جن سے ہم کپڑا بناتے ہیں وغیرہ ۔ ہم بارشوں کا پانی ڈیموں میں ذخیرہ کرتے ہیں اور ایسے اوقات میں جب دریاؤں میں پانی کم ہو جاتا ہے تو ہم ان ڈیموں سے پانی لے کر استعمال کرتے ہیں ۔

یہ بات اور ہے کہ 67 سالوں میں ہم پورے ملک کے لوگوں تک صاف پانی تک نہیں پہنچا سکے(اور جس رفتار سے ہمارے ملک میں کام ہو رہے ہیں، آئندہ67 سالوں میں بھی ایسی کوئی امید نہیں کرنی چاہیے)۔ پانی کو صاف بنانے کے لیے اوورہیڈ ٹینکز میں کلورین ڈالی جاتی ہے، جہاں سے وہ پانی گھروں میں پائپ لائنوں کر ذریعے پہنچایا جاتا ہے، لیکن وہ کلورین صرف کتابوں میں لکھی ہوتی ہے، ٹنکیوں میں نہیں ڈالی جاتی ہے اور دروغ برگردنِ راوی، یہ کرشمہ ہمارے رشوت خور سرکاری افسران سرانجام دیتے ہیں ۔ان کا ساتھ ہمارے کچھ منتخب بلدیاتی نمائندے بھی اپنے دور میں دیتے ہیں ۔

یہ تو ہوئی شہروں کی حالت، گاؤں میں تو لوگ برساتوں سے جمع شدہ جوہڑوں کا پانی پیتے ہیں اور ان کے ساتھ جانور بھی اسی جوہڑ سے۔ آخر انسان بھی تو ایک سماجی جانور ہے نا، یعنی Man is a Social Animalجیسا کہ اوپر عرض کر چکا ہوں، آبپاشی کا نظام پانی دریاؤں سے نہروں کے ذریعے زمینوں تک پہنچتا ہے، لیکن وہ براہ راست نہیں ہوتا۔ اسے نہروں سے برانچ، برانچ سے شاخ اور شاخوں سے واٹر کورس کا سفر طے کرنا ہوتا ہے۔ یہ قانونی طریقہ ہے، لیکن پھر ایک بار دروغ برگردنِ راوی، ہمارے ملک کے بااثر (جن کی سیاسی پارٹیاں بھلے مختلف ہوں، لیکن مفادات مشترکہ ہوتے ہیں)، رشوت خور سرکاری افسران کی مدد سے نہروں سے لفٹ پمپوں سے براہ راست پانی لے لیتے ہیں، جس سے ان کی زمینیں سونا اگلتی ہیں، لیکن چھوٹے آبادگاروں کی زمینیں، آبادی تو دور، پینے کے لیے بھی ترستی ہیں۔ اور ہم ان بااثر لوگوں کو ہر الیکشن میں اپنے قیمتی (جو دراصل دو ٹکے کے ہوتے ہیں)ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھی بھیجتے ہیں ۔


مٹی پانی کے ساتھ ساتھ دریاؤں، ڈیموں، نہروں سے لے کر واٹر کورسوں تک پہنچتی ہے اور ان کی تہ میں جم جاتی ہے، جس کی وجہ سے ان میں پانی لے جانے کی سَکت کم ہو جاتی ہے۔ اس لیے ہر سال اس مٹی کی صفائی کرائی جانی چاہیے تو ہوتی ہے، لیکن اس میں بھی غفلت برتی جاتی ہے، جس کی وجہ سے پانی کی سطح اوپر سے تو اونچی دکھائی دیتی ہے، لیکن پانی کی مقدار کم ہوتی ہے۔ چین کی ایک ندی میں جب یہ صورتحال ہوئی، تو انھوں نے وہ مٹی نکالنے کے لیے جیلوں سے قیدیوں کو اس شرط پہ باہر نکالا کہ وہ اس کی 20 فٹ گہرائی تک کھدائی کریں گے تو چھوٹے مجرموں کی سزائیں معاف کردی جائیں گی اور بڑے مجرموں کی سزاؤں میں تخفیف کی جائے گی ۔ ماہرین آبپاشی کا کہنا ہے کہ ڈیموں سے یہ مٹی نکالنا ممکن نہیں ہے، اس لیے وہ 50,60 سالوں کے بعد ناکارہ ہو جاتے ہیں اور ملک کو نئے ڈیموں کی ضرورت ہے ۔ ہمارے ملک میں یہ مسئلہ ابھی تک بھی اٹکا ہوا ہے ۔

اب آتے ہیں اصل موضوع پر ۔ فرانس میں 1910 میں سیلاب آیا تھا، جس کے بعد انھوں نے دریاؤں کی کھدائی کی ، ملک میں جگہ جگہ جھیلیں بنائی اور ایسے اقدام کیے کہ اس کے بعد ابھی تک ان کے ہاں ایک دفعہ بھی سیلاب نہیں آیا ، حالانکہ بارشیں بالکل ہوتی رہتی ہیں ۔ ایک دوست نے مزے کی بات بتائی ۔ ہندوستان کا محکمہ موسمیات ان کی ندیوں کے پانی کے متعلق معلومات انڈین واٹر کمیشن کو بھیجتا ہے، جو وہ ہمارے متعلقہ محکمے کو بذریعہ فیکس بھیجتا ہے، لیکن وہ فیکس ہم تک پہنچتے پہنچتے پڑھنے کے قابل نہیں رہتا (شاید آتے آتے پانی میں بھیگ جاتا ہے)، اس لیے اس پر عمل ہو نہیں پاتا اور وہاں سے پانی آ دھمکتا ہے اور ہمارے ہاں سیلاب آ جاتا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ 1964 کو جون کے مہینے میں سندھ میں ایک طوفانی رات میں اتنی شدید بارش ہوئی تھی کہ ہر جگہ پانی ہی پانی بھرگیا، اور تو اور کراچی کے چندریگر روڈ پر بھی لوگوں کو آدھی رات تک پانی سے گذر کر ایک طرف سے دوسری طرف کا سفر کرنا پڑا تھا ۔ اس حالت میں اندرون سندھ میں کیا حال ہوا ہوگا، اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ کچھ دنوں بعد ایک پٹواری صاحب سے ملاقات ہوئی ۔ اس نے بتایا کہ لوگوں کے لیے سرکاری امداد ابھی تک نہیں جاری ہوئی ۔وہ بہت متفکر دکھائی دے رہے تھے ۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ ایک سرکاری عمال لوگوں کے لیے اتنا متفکر تھا ۔ جب میں نے اس سے اس کا سبب پوچھا تو کہنے لگا بھائی، سرکاری پیسے آئیں گے تو ان میں کچھ ہمارا حصہ بھی ہوگا ۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کچھ دن پہلے ایک فورم پر کہا کہ عالمی ماحولیات میں جلدی جلدی تبدیلیاں آرہی ہیں، اسی طرح موسموں میں بھی، جس کی وجہ سے سیلاب، حادثات اور تباہیاں آ رہی ہیں۔ اس مہینے ماحولیات کے موضوع پر 2014 کی چوٹی کی کانفرنس منعقد ہونے والی ہے، جس میں حکومتی، مالیاتی، تجارتی اور سول سوسائٹی کے لوگوں کو مدعو کیا گیا ہے، جس میں وہ انھیں آگاہی دیں گے، خاص طور پر زمیں کی گرمی (گلوبل وارمنگ ) میں اضافے کے بارے میں ۔ اس سلسلے میں وہ ان پر زور دیں گے کہ2015 میں پیرس میں ہونے والی کانفرنس میں وہ ٹھوس اقدامات کی تجاویز لے کر آئیں ۔
Load Next Story