محبت کا موسم
جب دو محبت کرنے والے ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں تب ان کے احساسات میں بہاریں خوشبوئوں کے ساتھ امڈ آتی ہیں۔
جلتے ہوئے سورج اور تپتی ہوئی دھرتی کے درمیان موسم نے انگڑائی لی، ملک کے خوبصورت شہر اسلام آباد میں بادل برسے اور اس موسم کی ابتدا ہوگئی جس موسم کو شاعر مزاج لوگ محبت کا موسم کہتے ہیں۔ وہ موسم جس کا تذکرہ گیتوں میں ایک ایسی صدا کی صورت آتا رہتا ہے، جو ایک دل دوسرے دل کو اپنے قریب لانے کے لیے دیتی رہتی ہے۔
ہم اہل کراچی جب میڈیا پر سنتے ہیں کہ ملک کے بالائی حصوں میں سرد موسم کا آغاز ہو گیا ہے، تب بجلی کے پنکھوں کی اسپیڈ تیز کرکے یا اسپلٹ چلا کر لحاف اوڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر جہاں برف گرتی ہے، جہاں پہاڑوں کی سبز چوٹیاں سفید ہونے لگتی ہیں اور ٹھنڈی ہوائیں باذوق انسانوں کو ایسی غزلوں کی یاد دلاتی ہے کہ:
تنہا تنہا رونے کی... رت ہے پاگل ہونے کی
وہ رت جو ابھی تک اس شہر میں نہیں آئی، جس شہر میں سردیاں برائے نام آتی ہیں مگر پھر بھی یہ دل ہے کہ انتظار میں آنکھیں بچھا کر کسی ضدی بچے کی مانند سپنے کے سرہانے پر سر ٹیک کر بیٹھا ہوا ہے اور اسے انتظار ہے کہ جب سردیاں آئیں گی تو اپنے ساتھ اس وجود کو بھی لائیں گی جس میں محبت کی گرمی ایک توانائی فراہم کرتی ہے، اس وجود کو جو تنہائی کے تیر کھا کر زخمی ہوچکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ محبت بذات خود ایک موسم ہوا کرتی ہے۔ جس طرح ہمارے لوک شعرا عید کے حوالے سے کہتے ہیں کہ عید تو محبوب کی دید سے جنم لیتی ہے۔
ایسے ہی جب دو محبت کرنے والے ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں تب ان کے احساسات میں بہاریں خوشبوئوں کے ساتھ امڈ آتی ہیں، برساتیں نامعلوم بادلوں کے ہمراہ برسنے لگتی ہیں اور کہیں دور سے ہجرت کرنے والے پرندوں کی صدائیں فطرت کے گیت بن کر گونجنے لگتی ہیں۔ محبت اپنے آپ میں سارے احساسات کو مسرتوں سے آراستہ کرنے کے ہنر رکھتی ہے مگر جب انسان کو محبت میسر نہیں ہوتی تب وہ موسموں کا محتاج بن جاتا ہے۔
ہم اپنے ماحول کے اسیر ہیں۔ ہمارا ماحول اس قیدخانے کی طرح ہے جس میں صرف ایک موسم ٹھہرا رہتا ہے اور وہ موسم ہے انتظار کا موسم۔ اس انتظار کے موسم میں ابھی سردیوں کا انتظار بھی شامل ہوگیا ہے۔ کیونکہ سردیوں کے موسم میں دل کو اس امید کا سہارا مل جاتا ہے کہ گرمیوں میں گزرجانے والی جدائیوں کا اب اختتام ہوگا اور سردیوں کے آغاز میں ہمیں وہ محبت میسر ہوگی جس کے بغیر انسان اپنے آپ کو ادھورا ادھورا سا محسوس کرتا ہے۔
محبت کے موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، مگر یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ انسان جب بھی اپنے سامنے کورے کاغذ کو رکھتا ہے تو اس کا دل لبنان کے عظیم شاعر اور مفکر خلیل جبران کی طرح ایک ہی لفظ لکھنے کو کرتا ہے اور وہ لفظ ہے محبت۔ ہم نے محبت کے موضوع پر کتنا کچھ پڑھا ہے، کتنا کچھ سنا ہے اور کتنا کچھ کہا ہے مگر پھر بھی لگتا ہے کہ ہم نے محبت پر کچھ نہیں پڑھا، کچھ نہیں سنا اور کچھ نہیں کہا۔
محبت ایک ایسا مشروب ہے جس کے پینے سے پیاس بڑھتی جاتی ہے، محبت ایک ایسی غذا ہے جس کے کھانے سے بھوک مٹتی نہیں اور شدید ہوجاتی ہے۔ کیا یہ احساس، یہ کیفیت ایک جادو نہیں؟ اس جادو نگری جیسی بستی میں انسان جینا چاہتا ہے، ایک ایسے انسان کے ساتھ جس کی قربت اسے درد سے دور کرتی ہے اور جس کی وجہ سے بغیر دوائی قرار محسوس ہونے لگتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ فارسی زبان کے عظیم شاعر، فلسفی اور صوفی مولانا روم نے اپنے ایک شعر میں عشق سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ اے عشق تم میرے طبیب ہو۔
ہم جو مریض محبت ہیں اور جنھیں محبت کے بغیر سکون میسر نہیں اور اس مرض میں مبتلا صرف یہ قلمکار تو نہیں بلکہ وہ قارئین بھی ہیں جو ان الفاظ کو اپنے دل میں اترتا ہوا محسوس کررہے ہیں اور یہ کمال اس تحریر کا نہیں بلکہ اس تصویر کا ہے جو ہر دل کے فریم میں الگ الگ انداز سے آویزاں ہوا کرتی ہے۔ کسی تصویر میں وہ مسکراتی ہے اور کسی تصویر میں خاموش نظر آتی ہے، کسی تصویر میں ہنستی ہے اور کسی تصویر میں روتی ہے اور کسی تصویر میں پتھر سے تراشے ہوئے خوبصورت مجسموں کی طرح خاموشی کا خوب صورت منظر بن کر مہکتی ہے۔
مگر وہ ساری تصاویر ایک ہی کیفیت کے دھاگے میں پروئے ہوئے ان پھولوں کی طرح ہے جو الگ الگ شاخوں پر کھلنے کے باوجود ہار میں ایک جیسے لگتے ہیں۔ یہ اپنائیت اور ایک جیسا پن ہی انسان کو دنیا کی مختلف ثقافتوں اور زبانوں کے بندھنوں کے قید سے آزاد کرتا ہے۔ یہ احساس انسان کو ایک نئی زندگی جینے کا حوصلہ فراہم کرتا ہے۔ مگر اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ہمارے احساسات، تصورات، خیالات اور جی میں اٹھتے ہوئے سارے جذبات صرف داخلیت تک محدود نہیں ہوتے بلکہ ان میں خارجیت کا عمل دخل بھی ہوا کرتا ہے۔ اس خارجیت میں ہم موسموں کو کس طرح فراموش کر سکتے ہیں؟
موسم صرف انسانوں کو اپنے اثر میں نہیں لاتے بلکہ ان سے سارے پرند، چرند اور درند متاثر ہوتے ہیں۔ یہ موسموں کی خصوصیت ہے کہ ان کی وجہ سے زندگی کی سب سے ابتدائی صورت یعنی نباتات بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ یہ موسموں کی گردش ہے جو کبھی بہار کی صورت پھول کھلاتی ہے تو کبھی خزاں بن کر پتے گراتی ہے۔ کبھی بارش بن کر تن کے ساتھ ساتھ من بھی بھگوتی ہے تو کبھی گرمائش میں انسان کو موم بتی کی طرح پگھلاتی ہے اور کبھی سردیوں کی رت میں خود بھی روتی ہے اور ان کو بھی رلاتی ہے جو تنہا جینے کی سزا بھگتتے ہوئے چاند کو تکتے ہیں اور ستاروں سے پوچھتے ہیں کہ آخر یہ قید تنہائی کی مدت کب ختم ہوگی؟
جب انسان خود تنہائی کا شکار ہوتا ہے تب اسے کائنات کا ہر ذرہ اس اذیت سے گزرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ مگر گرمیوں کے موسم میں ایک عجیب سا شور ہوتا ہے۔ لوگوں کی بھیڑ ایک دوسرے سے دور بھاگنے کے باوجود ایک دوسرے کے قریب نظر آتی ہے مگر اس قربت میں بھی ایک ناپسندیدگی کا عنصر موجود ہوتا ہے جب کہ سردیوں کی سب سے خوب صورت بات یہ ہے کہ شام ڈھلتے ایک عجیب خاموشی کا ماحول جنم لیتا ہے۔ جب باہر کی آوازیں دم توڑ دیتی ہیں تب انسان اپنے اندر کی آواز سن سکتا ہے۔
اس موسم میں انسان اپنے دل کے گیت سن کر مسکراتا ہے لیکن اس کی مسکراہٹ سطحی خوشی کاعکس نہیں بلکہ گہرے غم کی عکاس ہوا کرتی ہے۔ وہ موسم اتنی دور نہیں کہ ہماری سانسوں کی صدائیں اس تک نہ پہنچ پائیں۔ وہ موسم بہت جلد کہر کے ساتھ ایک مہر وفا کا پیغام بن کر ہم پر چھانے والا ہے۔ جس موسم میں انسان ناپسندیدہ دنیا سے دور ہونے میں کوئی مشکل محسوس نہیں کرتا اور جس موسم میں انسان اپنے پسندیدہ انسانوں کو اپنے قریب لاتا ہے پھر چاہے وہ خوابوں اور کتابوں میں کیوں نہ ہوں۔ موسم سرما صرف محبت کا موسم نہیں بلکہ مطالعے کا موسم بھی ہے اور کیا محبت اور مطالعہ دو الگ الگ الفاظ ہیں؟
محبت صرف جسموں کے درمیان کشش کا نام نہیں۔ محبت تو روح کی وہ پکار ہے جو صرف روحوں کو سمجھ میں آتی ہے۔ محبت ایک ایسی کیفیت ہے جس میں ایک الگ کائنات بہت سارے ستاروں اور سیاروں کے ساتھ محو گردش رہتی ہے مگر یہ سب کچھ محسوس کرنے کے لیے جو ماحول درکار ہے وہ ماحول ہمیں موسم سرما کی معرفت ملتا ہے۔ وہ موسم سرما جس کی ابتدا بالائی علاقوں میں تو ہو چکی ہے مگر وہ دھیرے دھیرے اتر رہی ہے ان دیہاتوں اور شہروں کی طرف جنہوں نے گرمیوں کے جہنم میں ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹی ہے۔
جب یہ موسم پوری طرح سے دھرتی پر چھا جائے گا تب ہم محبت کے گیتوں میں ایک ملاقات محسوس کریں گے ان انسانوں کے ساتھ جنھیں ہم چھونا تو دور بلکہ یہ بات بھی سنا نہیں سکتے کہ ان کے بغیر زندگی کس قدر ادھوری ہے۔ ہم سب قدرت کے نامکمل مجسمے ہیں، محبت ہمیں تکمیل کے مراحل سے ہم آغوش کرتی ہے۔ اس آنے والے موسم میں ہم مکمل ہوں گے کہ نہیں؟ یہ سوال صرف خود سے نہیں بلکہ ان سے بھی ہے جنھیں ہم کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔
ہم اہل کراچی جب میڈیا پر سنتے ہیں کہ ملک کے بالائی حصوں میں سرد موسم کا آغاز ہو گیا ہے، تب بجلی کے پنکھوں کی اسپیڈ تیز کرکے یا اسپلٹ چلا کر لحاف اوڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر جہاں برف گرتی ہے، جہاں پہاڑوں کی سبز چوٹیاں سفید ہونے لگتی ہیں اور ٹھنڈی ہوائیں باذوق انسانوں کو ایسی غزلوں کی یاد دلاتی ہے کہ:
تنہا تنہا رونے کی... رت ہے پاگل ہونے کی
وہ رت جو ابھی تک اس شہر میں نہیں آئی، جس شہر میں سردیاں برائے نام آتی ہیں مگر پھر بھی یہ دل ہے کہ انتظار میں آنکھیں بچھا کر کسی ضدی بچے کی مانند سپنے کے سرہانے پر سر ٹیک کر بیٹھا ہوا ہے اور اسے انتظار ہے کہ جب سردیاں آئیں گی تو اپنے ساتھ اس وجود کو بھی لائیں گی جس میں محبت کی گرمی ایک توانائی فراہم کرتی ہے، اس وجود کو جو تنہائی کے تیر کھا کر زخمی ہوچکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ محبت بذات خود ایک موسم ہوا کرتی ہے۔ جس طرح ہمارے لوک شعرا عید کے حوالے سے کہتے ہیں کہ عید تو محبوب کی دید سے جنم لیتی ہے۔
ایسے ہی جب دو محبت کرنے والے ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں تب ان کے احساسات میں بہاریں خوشبوئوں کے ساتھ امڈ آتی ہیں، برساتیں نامعلوم بادلوں کے ہمراہ برسنے لگتی ہیں اور کہیں دور سے ہجرت کرنے والے پرندوں کی صدائیں فطرت کے گیت بن کر گونجنے لگتی ہیں۔ محبت اپنے آپ میں سارے احساسات کو مسرتوں سے آراستہ کرنے کے ہنر رکھتی ہے مگر جب انسان کو محبت میسر نہیں ہوتی تب وہ موسموں کا محتاج بن جاتا ہے۔
ہم اپنے ماحول کے اسیر ہیں۔ ہمارا ماحول اس قیدخانے کی طرح ہے جس میں صرف ایک موسم ٹھہرا رہتا ہے اور وہ موسم ہے انتظار کا موسم۔ اس انتظار کے موسم میں ابھی سردیوں کا انتظار بھی شامل ہوگیا ہے۔ کیونکہ سردیوں کے موسم میں دل کو اس امید کا سہارا مل جاتا ہے کہ گرمیوں میں گزرجانے والی جدائیوں کا اب اختتام ہوگا اور سردیوں کے آغاز میں ہمیں وہ محبت میسر ہوگی جس کے بغیر انسان اپنے آپ کو ادھورا ادھورا سا محسوس کرتا ہے۔
محبت کے موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، مگر یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ انسان جب بھی اپنے سامنے کورے کاغذ کو رکھتا ہے تو اس کا دل لبنان کے عظیم شاعر اور مفکر خلیل جبران کی طرح ایک ہی لفظ لکھنے کو کرتا ہے اور وہ لفظ ہے محبت۔ ہم نے محبت کے موضوع پر کتنا کچھ پڑھا ہے، کتنا کچھ سنا ہے اور کتنا کچھ کہا ہے مگر پھر بھی لگتا ہے کہ ہم نے محبت پر کچھ نہیں پڑھا، کچھ نہیں سنا اور کچھ نہیں کہا۔
محبت ایک ایسا مشروب ہے جس کے پینے سے پیاس بڑھتی جاتی ہے، محبت ایک ایسی غذا ہے جس کے کھانے سے بھوک مٹتی نہیں اور شدید ہوجاتی ہے۔ کیا یہ احساس، یہ کیفیت ایک جادو نہیں؟ اس جادو نگری جیسی بستی میں انسان جینا چاہتا ہے، ایک ایسے انسان کے ساتھ جس کی قربت اسے درد سے دور کرتی ہے اور جس کی وجہ سے بغیر دوائی قرار محسوس ہونے لگتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ فارسی زبان کے عظیم شاعر، فلسفی اور صوفی مولانا روم نے اپنے ایک شعر میں عشق سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ اے عشق تم میرے طبیب ہو۔
ہم جو مریض محبت ہیں اور جنھیں محبت کے بغیر سکون میسر نہیں اور اس مرض میں مبتلا صرف یہ قلمکار تو نہیں بلکہ وہ قارئین بھی ہیں جو ان الفاظ کو اپنے دل میں اترتا ہوا محسوس کررہے ہیں اور یہ کمال اس تحریر کا نہیں بلکہ اس تصویر کا ہے جو ہر دل کے فریم میں الگ الگ انداز سے آویزاں ہوا کرتی ہے۔ کسی تصویر میں وہ مسکراتی ہے اور کسی تصویر میں خاموش نظر آتی ہے، کسی تصویر میں ہنستی ہے اور کسی تصویر میں روتی ہے اور کسی تصویر میں پتھر سے تراشے ہوئے خوبصورت مجسموں کی طرح خاموشی کا خوب صورت منظر بن کر مہکتی ہے۔
مگر وہ ساری تصاویر ایک ہی کیفیت کے دھاگے میں پروئے ہوئے ان پھولوں کی طرح ہے جو الگ الگ شاخوں پر کھلنے کے باوجود ہار میں ایک جیسے لگتے ہیں۔ یہ اپنائیت اور ایک جیسا پن ہی انسان کو دنیا کی مختلف ثقافتوں اور زبانوں کے بندھنوں کے قید سے آزاد کرتا ہے۔ یہ احساس انسان کو ایک نئی زندگی جینے کا حوصلہ فراہم کرتا ہے۔ مگر اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ہمارے احساسات، تصورات، خیالات اور جی میں اٹھتے ہوئے سارے جذبات صرف داخلیت تک محدود نہیں ہوتے بلکہ ان میں خارجیت کا عمل دخل بھی ہوا کرتا ہے۔ اس خارجیت میں ہم موسموں کو کس طرح فراموش کر سکتے ہیں؟
موسم صرف انسانوں کو اپنے اثر میں نہیں لاتے بلکہ ان سے سارے پرند، چرند اور درند متاثر ہوتے ہیں۔ یہ موسموں کی خصوصیت ہے کہ ان کی وجہ سے زندگی کی سب سے ابتدائی صورت یعنی نباتات بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ یہ موسموں کی گردش ہے جو کبھی بہار کی صورت پھول کھلاتی ہے تو کبھی خزاں بن کر پتے گراتی ہے۔ کبھی بارش بن کر تن کے ساتھ ساتھ من بھی بھگوتی ہے تو کبھی گرمائش میں انسان کو موم بتی کی طرح پگھلاتی ہے اور کبھی سردیوں کی رت میں خود بھی روتی ہے اور ان کو بھی رلاتی ہے جو تنہا جینے کی سزا بھگتتے ہوئے چاند کو تکتے ہیں اور ستاروں سے پوچھتے ہیں کہ آخر یہ قید تنہائی کی مدت کب ختم ہوگی؟
جب انسان خود تنہائی کا شکار ہوتا ہے تب اسے کائنات کا ہر ذرہ اس اذیت سے گزرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ مگر گرمیوں کے موسم میں ایک عجیب سا شور ہوتا ہے۔ لوگوں کی بھیڑ ایک دوسرے سے دور بھاگنے کے باوجود ایک دوسرے کے قریب نظر آتی ہے مگر اس قربت میں بھی ایک ناپسندیدگی کا عنصر موجود ہوتا ہے جب کہ سردیوں کی سب سے خوب صورت بات یہ ہے کہ شام ڈھلتے ایک عجیب خاموشی کا ماحول جنم لیتا ہے۔ جب باہر کی آوازیں دم توڑ دیتی ہیں تب انسان اپنے اندر کی آواز سن سکتا ہے۔
اس موسم میں انسان اپنے دل کے گیت سن کر مسکراتا ہے لیکن اس کی مسکراہٹ سطحی خوشی کاعکس نہیں بلکہ گہرے غم کی عکاس ہوا کرتی ہے۔ وہ موسم اتنی دور نہیں کہ ہماری سانسوں کی صدائیں اس تک نہ پہنچ پائیں۔ وہ موسم بہت جلد کہر کے ساتھ ایک مہر وفا کا پیغام بن کر ہم پر چھانے والا ہے۔ جس موسم میں انسان ناپسندیدہ دنیا سے دور ہونے میں کوئی مشکل محسوس نہیں کرتا اور جس موسم میں انسان اپنے پسندیدہ انسانوں کو اپنے قریب لاتا ہے پھر چاہے وہ خوابوں اور کتابوں میں کیوں نہ ہوں۔ موسم سرما صرف محبت کا موسم نہیں بلکہ مطالعے کا موسم بھی ہے اور کیا محبت اور مطالعہ دو الگ الگ الفاظ ہیں؟
محبت صرف جسموں کے درمیان کشش کا نام نہیں۔ محبت تو روح کی وہ پکار ہے جو صرف روحوں کو سمجھ میں آتی ہے۔ محبت ایک ایسی کیفیت ہے جس میں ایک الگ کائنات بہت سارے ستاروں اور سیاروں کے ساتھ محو گردش رہتی ہے مگر یہ سب کچھ محسوس کرنے کے لیے جو ماحول درکار ہے وہ ماحول ہمیں موسم سرما کی معرفت ملتا ہے۔ وہ موسم سرما جس کی ابتدا بالائی علاقوں میں تو ہو چکی ہے مگر وہ دھیرے دھیرے اتر رہی ہے ان دیہاتوں اور شہروں کی طرف جنہوں نے گرمیوں کے جہنم میں ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹی ہے۔
جب یہ موسم پوری طرح سے دھرتی پر چھا جائے گا تب ہم محبت کے گیتوں میں ایک ملاقات محسوس کریں گے ان انسانوں کے ساتھ جنھیں ہم چھونا تو دور بلکہ یہ بات بھی سنا نہیں سکتے کہ ان کے بغیر زندگی کس قدر ادھوری ہے۔ ہم سب قدرت کے نامکمل مجسمے ہیں، محبت ہمیں تکمیل کے مراحل سے ہم آغوش کرتی ہے۔ اس آنے والے موسم میں ہم مکمل ہوں گے کہ نہیں؟ یہ سوال صرف خود سے نہیں بلکہ ان سے بھی ہے جنھیں ہم کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔