33
دو ہندسوں کےبیچ میں پلس کا نشان دونوں کوالگ الگ کرتا ہے۔ آصف و نواز اورعمران و قادری اورالطاف وسراج تو تین گروہ ہوئے۔
نواز شریف اور آصف زرداری کی خواہش ہے کہ سسٹم یوں ہی چلتا رہے۔ وہ الزامات سن کر اسے جمہوریت بچانے کا نام دیتے ہیں۔ یہ تو ون پلس ون ہوگئے۔ عمران خان اور طاہر القادری کا کہنا ہے کہ موجودہ نظام نے پاکستانی عوام کو کچھ نہیں دیا۔ ان کی رائے ہے کہ دونوں بڑی پارٹیاں پچھلے کئی برسوں سے اپنے مفادات کا کھیل کھیل رہی ہیں۔ یہ چاروں مل کر ٹو پلس ٹو ہوگئے۔ باقی دو کون ہیں؟
تھری پلس تھری کا کیا مطلب ہے؟ اگر الطاف حسین اور سراج الحق کو ملا کر 3+3 ہوگئے ہیں تو کالم کا مقصد کیا ہے؟
دو ہندسوں کے بیچ میں پلس کا نشان دونوں کو الگ الگ کرتا ہے۔ آصف و نواز اور عمران و قادری اور الطاف و سراج تو تین گروہ ہوئے۔ وکٹ پر کھیلنے، آؤٹ کرنے کی کوشش کرنے والے اور پویلین میں بیٹھے خیر کی دعائیں مانگنے والے۔ پھر تین کا ہندسہ دو مرتبہ کیوں لکھا گیا ہے؟ چھ پارٹیاں ہیں تو انھیں 2+2+2 ہونا چاہیے۔ کالم نگار سے کوئی غلطی ہوئی ہے یا مقصد کوئی اور بات کہنے کا ہے؟ ایک منٹ میں آپ کو سوال کا جواب مل جائے گا اور پھر اگلے چار منٹ تک آپ اطمینان سے کالم پڑھتے جائیں گے۔
مسلم لیگ نوابوں کی پارٹی تھی۔ دس سال تک قائداعظم کی کوششوں نے اسے عوامی پارٹی بنایا۔ قائد کی وفات کے بعد ایک عشرے تک بدنظمی اور اگلی دہائی میں لیگ ایوب خان کے جیب کی گھڑی بنی رہی۔ نواز شریف نے اسے عوامی تو بنا دیا لیکن عمدہ تنظیم نہ دے سکے۔ حکومتوں میں رہنے اور بااثر ہونے نے کارکنوں کو لیگ کے قریب تو رکھا لیکن وہ اسے ایک منظم پارٹی کا روپ نہ دے سکے۔ مشرف کے مارشل لا نے ثابت کردیا کہ ''قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں'' والا نعرہ کتنا بودا تھا۔ جلاوطنی سے واپسی کے بعد تیسری مرتبہ اسلام آباد کا اقتدار لیگ کو عمدہ تنظیم دے سکے گا؟
ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور ہزار دن بھی نہ گزرے تھے کہ وہ پاکستان کے دوسرے بڑے لیڈر بن کر ابھرے۔ اگلے پونے چار سو دنوں میں وہ پاکستان کے حکمران بن گئے۔ ساڑھے پانچ سال کا اقتدار اور پونے دو سال کی قید و بند کے بعد پھانسی۔ بھٹو کو موقع ہی نہ مل سکا کہ وہ پارٹی کو منظم کر پاتے۔ تیز رفتار مقبولیت کے بعد سیاسی بحران اور پھر اقتدار و آزمائش میں عمر کی نقدی ختم ہوئی۔
بے نظیر کا رابطہ اپنے کارکنان سے گہرا تھا لیکن وہ بھی ان کی تربیت کا بہتر انتظام نہ کرسکیں۔ پہلے پانچ اور پھر دس سالہ جلاوطنی میں نہ کوئی لٹریچر تیار ہوا اور نہ شہادتوں و قربانیوں کے بڑے مقاصد کا پیغام جیالوں تک پہنچایا جاسکا۔ سالگرہ کے کیک پر لوٹ مار، چاول کی دیگوں پر ہڑبونگ اور اجلاسوں میں قائدین کے سامنے مقامی لیڈروں کے خلاف نعرے، ہماری مقبول پارٹیوں کا کلچر بن گیا ہے۔ اصلاح کے بجائے اسے سراہا جاتا رہا۔
تحریک انصاف کے ٹائیگرز کو بھی جیالوں اور متوالوں کی فہرست میں شامل کیا جا رہا ہے۔ اسٹیج پر بدنظمی کی تاریخ کے علاوہ کارکنان کے درمیان ہاتھا پائی اور قائدین کے قریب آنے میں افراتفری دیکھی جا رہی ہے۔ پچھلے تیرہ چودہ برسوں میں ''عزم نو'' کے پچاس کے لگ بھگ کالم کپتان اور ان کی پارٹی کے بارے میں تھے جب کہ درجن کے قریب تحریروں میں نظم و ضبط اور پارٹی ڈسپلن کا مشورہ تھا۔
عمران اس سوال کے جواب میں کہتے کہ ابتدائی پندرہ برس کی ناکامیاں انھیں تنہا کردیتیں۔ لیڈر اور کارکن چھوڑ جاتے تو تربیت کس کی کرتے؟ ممکن ہے بھٹو دور تک ایک ہی مقبول پارٹی کے سبب اس کی ضرورت محسوس نہ کی گئی ہو۔ شیر اور تیر کے انتخابی نشان والے کبھی فوجی حکومتوں کا تو کبھی جلاوطنی کا جواز پیش کرتے ہیں۔ 2008 سے پاکستان میں جمہوری نظام قائم و دائم ہے۔ پھر آج کی تین مقبول پارٹیاں کارکنان کی تربیت کرکے اپنے آپ کو ناقابل تسخیر کیوں نہیں بنالیتیں؟
3+3 کا نصف حصہ تکمیل کو پہنچا۔ کچھ دیر پہلے ہی قارئین سمجھ چکے ہیں کہ آج کس موضوع پر بات ہو رہی ہے۔آصف زرداری، نواز شریف اور عمران خان مقبولیت کی انتہا پر ہیں لیکن ان کی پارٹیاں غیر منظم ہیں۔ جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور پاکستان عوامی تحریک کو ملک کی منظم ترین پارٹیاں کہا جاسکتا ہے۔ نہ ان کے اجتماعات میں ہنگامہ آرائی ہوتی ہے اور نہ جلسوں میں بد نظمی۔ نہ پارٹی کے کارکنان ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگاتے ہیں اور نہ ہی مقامی قیادت سرعام مرکزی لیڈرشپ پر تنقید کرتی نظر آتی ہے۔ نہ کھانے پر چھینا جھپٹی اور نہ مخالفانہ نعرے بازی۔ آئیے ہم مختصر ان تین پارٹیوں کے اندرونی نظام کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جماعت اسلامی کو مولانا مودودی کے لٹریچر نے ایک منظم ترین سیاسی پارٹی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دیانتداری اور قربانی کا کلچر پچھلے 75 برسوں میں نکھر کر سامنے آیا ہے۔ کارکن کے بعد رفیق اور پھر رکن کا درجہ اسلامی جمعیت طلبہ میں دیکھا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث کا مطالعہ اور پھر اسٹڈی سرکل کارکنان کو مقصد کی جانب راغب رکھتے ہیں۔
نیچے سے اوپر تک تربیتی نشستوں کے اہتمام کے علاوہ باہمی احترام اور حفظ مراتب پر زور دینا جماعت کے نظم کی بنیاد ہے۔ ہر سطح پر انتخابات اور وہ بھی ایسے کہ نہ کوئی امیدوار ہے اور نہ کنوینسنگ ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دیگر بڑی پارٹیوں کے لیے اتنا کڑا معیار ممکن نہ ہو لیکن کسی حد تک کچھ لے کر خامیاں دور ہوسکتی ہیں۔
ایم کیو ایم نے الطاف حسین کی قیادت میں اپنی عمدہ تنظیم کے نقوش کئی مرتبہ چھوڑے ہیں۔ وزیر کے مقابل پارٹی انچارج کی اہمیت اور قائد کے لیے جان لڑا دینے کی مثال متحدہ میں ہی ملتی ہے۔ لٹریچر کے مطالعے کے علاوہ فکری نشستوں نے ایم کیو ایم کو منظم پارٹی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یونٹ، سرکل اور سیکٹر کی سطح پر تنظیمی سیٹ اپ کے علاوہ الطاف حسین کا کارکنان سے گہرا رابطہ متحدہ کی بقا کا سب سے بڑا راز ہے۔ حلف یافتہ کارکن کا مطلب پارٹی میں قائد سے وفاداری اور قربانیاں دینے کا نام قرار پایا۔
پاکستان عوامی تحریک نے تحریک منہاج القرآن کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ سیکڑوں تعلیمی ادارے اور ہزاروں تربیت یافتہ انسان ڈاکٹر طاہر القادری کی محنت و ذہانت کا نتیجہ ہے۔ دھرنوں سے قبل قربانی اور پھر آنسو گیس و فائرنگ کا مقابلہ اور سب سے بڑھ کر کئی مہینوں تک گھر سے دور جم کر بیٹھنا حیران کن ہے۔ سیاسی میدان میں قائد سے عقیدت کا مظاہرہ مثالی ہے۔
تین مقبول ترین اور تین منظم ترین سیاسی پارٹیوں کا خاکہ ہمارے سامنے ہے۔ خواہش ہے کہ جو مقبول ہیں وہ منظم ہوجائیں۔ سراج الحق، الطاف حسین اور طاہر القادری کی ملک گیر مقبولیت تو عوام کے ہاتھوں میں ہے۔ آصف زرداری، نواز شریف اور عمران خان چاہیں تو ان کی مقبول عام پارٹیاں عمدہ تنظیم کا روپ دھار سکتی ہیں۔ یہ خواہش اس طرح ناممکن نہیں کہ کوئی شخص ایم اے پاس سترہ سالہ دوشیزہ کا رشتہ چاہے۔ ہم نے کسی مشکل خواہش کا اظہار تو نہیں کیا۔ بھارت میں کانگریس اور بی جے پی منظم سیاسی پارٹیاں ہیں۔ برطانیہ میں لیبر اور کنزرویٹو ہجوم نہیں اور نہ ری پبلکن اور ڈیموکریٹس کو امریکا میں بھیڑ سمجھا جاتا ہے۔
عمران اگر نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے منظم پارٹی اور تربیت یافتہ کارکنان کا ہونا لازمی شرط ہے۔ مختلف پارٹیوں سے تحریک انصاف میں شامل ہونے والوں میں جماعت اسلامی کے لوگ بھی ہیں۔ ان میں سے کسی کو جلد ازجلد ذمے داری سونپی جانی چاہیے۔ آصف زرداری کئی مرتبہ ''منصورہ'' کا دورہ کرچکے ہیں۔ وہ بڑے شہروں میں ''بلاول ہاؤس'' بنانا چاہتے ہیں۔ انھیں سچے پکے جیالوں کی تنظیم کرنے کے بارے میں سوچنا شروع کردینا چاہیے۔
نواز شریف کا ایک تعلق طاہر القادری سے رہا ہے۔ انھیں سمجھنا چاہیے کہ کروڑوں ووٹ لینے والوں کو قادری صاحب کے چند ہزار کارکنوں نے کتنی ٹف فائٹ دی ہے۔ مقبولیت کے ساتھ تنظیم ایک کالم نگار کا خواب ہے لیکن تین مقبول اور تین منظم پارٹیاں آج کی حقیقت ہیں اور انھیں یوں ہی لکھا جائے گا کہ وہ ہیں 3+3۔
تھری پلس تھری کا کیا مطلب ہے؟ اگر الطاف حسین اور سراج الحق کو ملا کر 3+3 ہوگئے ہیں تو کالم کا مقصد کیا ہے؟
دو ہندسوں کے بیچ میں پلس کا نشان دونوں کو الگ الگ کرتا ہے۔ آصف و نواز اور عمران و قادری اور الطاف و سراج تو تین گروہ ہوئے۔ وکٹ پر کھیلنے، آؤٹ کرنے کی کوشش کرنے والے اور پویلین میں بیٹھے خیر کی دعائیں مانگنے والے۔ پھر تین کا ہندسہ دو مرتبہ کیوں لکھا گیا ہے؟ چھ پارٹیاں ہیں تو انھیں 2+2+2 ہونا چاہیے۔ کالم نگار سے کوئی غلطی ہوئی ہے یا مقصد کوئی اور بات کہنے کا ہے؟ ایک منٹ میں آپ کو سوال کا جواب مل جائے گا اور پھر اگلے چار منٹ تک آپ اطمینان سے کالم پڑھتے جائیں گے۔
مسلم لیگ نوابوں کی پارٹی تھی۔ دس سال تک قائداعظم کی کوششوں نے اسے عوامی پارٹی بنایا۔ قائد کی وفات کے بعد ایک عشرے تک بدنظمی اور اگلی دہائی میں لیگ ایوب خان کے جیب کی گھڑی بنی رہی۔ نواز شریف نے اسے عوامی تو بنا دیا لیکن عمدہ تنظیم نہ دے سکے۔ حکومتوں میں رہنے اور بااثر ہونے نے کارکنوں کو لیگ کے قریب تو رکھا لیکن وہ اسے ایک منظم پارٹی کا روپ نہ دے سکے۔ مشرف کے مارشل لا نے ثابت کردیا کہ ''قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں'' والا نعرہ کتنا بودا تھا۔ جلاوطنی سے واپسی کے بعد تیسری مرتبہ اسلام آباد کا اقتدار لیگ کو عمدہ تنظیم دے سکے گا؟
ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور ہزار دن بھی نہ گزرے تھے کہ وہ پاکستان کے دوسرے بڑے لیڈر بن کر ابھرے۔ اگلے پونے چار سو دنوں میں وہ پاکستان کے حکمران بن گئے۔ ساڑھے پانچ سال کا اقتدار اور پونے دو سال کی قید و بند کے بعد پھانسی۔ بھٹو کو موقع ہی نہ مل سکا کہ وہ پارٹی کو منظم کر پاتے۔ تیز رفتار مقبولیت کے بعد سیاسی بحران اور پھر اقتدار و آزمائش میں عمر کی نقدی ختم ہوئی۔
بے نظیر کا رابطہ اپنے کارکنان سے گہرا تھا لیکن وہ بھی ان کی تربیت کا بہتر انتظام نہ کرسکیں۔ پہلے پانچ اور پھر دس سالہ جلاوطنی میں نہ کوئی لٹریچر تیار ہوا اور نہ شہادتوں و قربانیوں کے بڑے مقاصد کا پیغام جیالوں تک پہنچایا جاسکا۔ سالگرہ کے کیک پر لوٹ مار، چاول کی دیگوں پر ہڑبونگ اور اجلاسوں میں قائدین کے سامنے مقامی لیڈروں کے خلاف نعرے، ہماری مقبول پارٹیوں کا کلچر بن گیا ہے۔ اصلاح کے بجائے اسے سراہا جاتا رہا۔
تحریک انصاف کے ٹائیگرز کو بھی جیالوں اور متوالوں کی فہرست میں شامل کیا جا رہا ہے۔ اسٹیج پر بدنظمی کی تاریخ کے علاوہ کارکنان کے درمیان ہاتھا پائی اور قائدین کے قریب آنے میں افراتفری دیکھی جا رہی ہے۔ پچھلے تیرہ چودہ برسوں میں ''عزم نو'' کے پچاس کے لگ بھگ کالم کپتان اور ان کی پارٹی کے بارے میں تھے جب کہ درجن کے قریب تحریروں میں نظم و ضبط اور پارٹی ڈسپلن کا مشورہ تھا۔
عمران اس سوال کے جواب میں کہتے کہ ابتدائی پندرہ برس کی ناکامیاں انھیں تنہا کردیتیں۔ لیڈر اور کارکن چھوڑ جاتے تو تربیت کس کی کرتے؟ ممکن ہے بھٹو دور تک ایک ہی مقبول پارٹی کے سبب اس کی ضرورت محسوس نہ کی گئی ہو۔ شیر اور تیر کے انتخابی نشان والے کبھی فوجی حکومتوں کا تو کبھی جلاوطنی کا جواز پیش کرتے ہیں۔ 2008 سے پاکستان میں جمہوری نظام قائم و دائم ہے۔ پھر آج کی تین مقبول پارٹیاں کارکنان کی تربیت کرکے اپنے آپ کو ناقابل تسخیر کیوں نہیں بنالیتیں؟
3+3 کا نصف حصہ تکمیل کو پہنچا۔ کچھ دیر پہلے ہی قارئین سمجھ چکے ہیں کہ آج کس موضوع پر بات ہو رہی ہے۔آصف زرداری، نواز شریف اور عمران خان مقبولیت کی انتہا پر ہیں لیکن ان کی پارٹیاں غیر منظم ہیں۔ جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور پاکستان عوامی تحریک کو ملک کی منظم ترین پارٹیاں کہا جاسکتا ہے۔ نہ ان کے اجتماعات میں ہنگامہ آرائی ہوتی ہے اور نہ جلسوں میں بد نظمی۔ نہ پارٹی کے کارکنان ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگاتے ہیں اور نہ ہی مقامی قیادت سرعام مرکزی لیڈرشپ پر تنقید کرتی نظر آتی ہے۔ نہ کھانے پر چھینا جھپٹی اور نہ مخالفانہ نعرے بازی۔ آئیے ہم مختصر ان تین پارٹیوں کے اندرونی نظام کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جماعت اسلامی کو مولانا مودودی کے لٹریچر نے ایک منظم ترین سیاسی پارٹی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دیانتداری اور قربانی کا کلچر پچھلے 75 برسوں میں نکھر کر سامنے آیا ہے۔ کارکن کے بعد رفیق اور پھر رکن کا درجہ اسلامی جمعیت طلبہ میں دیکھا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث کا مطالعہ اور پھر اسٹڈی سرکل کارکنان کو مقصد کی جانب راغب رکھتے ہیں۔
نیچے سے اوپر تک تربیتی نشستوں کے اہتمام کے علاوہ باہمی احترام اور حفظ مراتب پر زور دینا جماعت کے نظم کی بنیاد ہے۔ ہر سطح پر انتخابات اور وہ بھی ایسے کہ نہ کوئی امیدوار ہے اور نہ کنوینسنگ ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دیگر بڑی پارٹیوں کے لیے اتنا کڑا معیار ممکن نہ ہو لیکن کسی حد تک کچھ لے کر خامیاں دور ہوسکتی ہیں۔
ایم کیو ایم نے الطاف حسین کی قیادت میں اپنی عمدہ تنظیم کے نقوش کئی مرتبہ چھوڑے ہیں۔ وزیر کے مقابل پارٹی انچارج کی اہمیت اور قائد کے لیے جان لڑا دینے کی مثال متحدہ میں ہی ملتی ہے۔ لٹریچر کے مطالعے کے علاوہ فکری نشستوں نے ایم کیو ایم کو منظم پارٹی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یونٹ، سرکل اور سیکٹر کی سطح پر تنظیمی سیٹ اپ کے علاوہ الطاف حسین کا کارکنان سے گہرا رابطہ متحدہ کی بقا کا سب سے بڑا راز ہے۔ حلف یافتہ کارکن کا مطلب پارٹی میں قائد سے وفاداری اور قربانیاں دینے کا نام قرار پایا۔
پاکستان عوامی تحریک نے تحریک منہاج القرآن کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ سیکڑوں تعلیمی ادارے اور ہزاروں تربیت یافتہ انسان ڈاکٹر طاہر القادری کی محنت و ذہانت کا نتیجہ ہے۔ دھرنوں سے قبل قربانی اور پھر آنسو گیس و فائرنگ کا مقابلہ اور سب سے بڑھ کر کئی مہینوں تک گھر سے دور جم کر بیٹھنا حیران کن ہے۔ سیاسی میدان میں قائد سے عقیدت کا مظاہرہ مثالی ہے۔
تین مقبول ترین اور تین منظم ترین سیاسی پارٹیوں کا خاکہ ہمارے سامنے ہے۔ خواہش ہے کہ جو مقبول ہیں وہ منظم ہوجائیں۔ سراج الحق، الطاف حسین اور طاہر القادری کی ملک گیر مقبولیت تو عوام کے ہاتھوں میں ہے۔ آصف زرداری، نواز شریف اور عمران خان چاہیں تو ان کی مقبول عام پارٹیاں عمدہ تنظیم کا روپ دھار سکتی ہیں۔ یہ خواہش اس طرح ناممکن نہیں کہ کوئی شخص ایم اے پاس سترہ سالہ دوشیزہ کا رشتہ چاہے۔ ہم نے کسی مشکل خواہش کا اظہار تو نہیں کیا۔ بھارت میں کانگریس اور بی جے پی منظم سیاسی پارٹیاں ہیں۔ برطانیہ میں لیبر اور کنزرویٹو ہجوم نہیں اور نہ ری پبلکن اور ڈیموکریٹس کو امریکا میں بھیڑ سمجھا جاتا ہے۔
عمران اگر نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے منظم پارٹی اور تربیت یافتہ کارکنان کا ہونا لازمی شرط ہے۔ مختلف پارٹیوں سے تحریک انصاف میں شامل ہونے والوں میں جماعت اسلامی کے لوگ بھی ہیں۔ ان میں سے کسی کو جلد ازجلد ذمے داری سونپی جانی چاہیے۔ آصف زرداری کئی مرتبہ ''منصورہ'' کا دورہ کرچکے ہیں۔ وہ بڑے شہروں میں ''بلاول ہاؤس'' بنانا چاہتے ہیں۔ انھیں سچے پکے جیالوں کی تنظیم کرنے کے بارے میں سوچنا شروع کردینا چاہیے۔
نواز شریف کا ایک تعلق طاہر القادری سے رہا ہے۔ انھیں سمجھنا چاہیے کہ کروڑوں ووٹ لینے والوں کو قادری صاحب کے چند ہزار کارکنوں نے کتنی ٹف فائٹ دی ہے۔ مقبولیت کے ساتھ تنظیم ایک کالم نگار کا خواب ہے لیکن تین مقبول اور تین منظم پارٹیاں آج کی حقیقت ہیں اور انھیں یوں ہی لکھا جائے گا کہ وہ ہیں 3+3۔