بھٹو ازم یا کوئی اور ازم
بلاول نے کہا کہ ملک میں صرف دو قوتیں ہیں۔ ضیاء ازم اور بھٹو ازم۔
بلاول بھٹو زرداری نے مزار قائد کے سامنے ایک بڑے جلسے سے اپنے سیاسی کیرئیر کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔ ہفتے کی شام پورے ملک سے آنے والے افراد نے اس جلسے کی رونق بڑھائی مگر تعداد اتنی نہیں تھی جتنی توقع کی جا رہی تھی۔ بلاول نے اپنے نانا اور والدہ کے مشن کو آگے بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔
ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ بینظیر بھٹو کے جلسوں کا جائزہ لیا جائے تو اس کے مقابلے میں یہ جلسہ روایتی جوش و خروش سے قدرے عاری تھا۔ پیپلز پارٹی کے روایتی جلسوں میں جیالوں کا جوش دیدنی ہوتا ہے۔ کراچی کے جلسے میں اسٹیج پرجوش زیادہ تھا اور جلسہ گاہ میں کافی کم۔ اس جلسے میں جس طرح کا کراؤڈ تھا وہ لایا گیا زیادہ لگ رہا تھا۔ پورے جلسے کے دوران حاضرین گھومتے پھرتے نظر آئے۔ عہد حاضر میں عمران خان کے جلسوں میں جوش و خروش زیادہ نظر آتا ہے۔ پیپلز پارٹی نے اس جلسے کے لیے ڈی جے کا بھی انتظام کیا لیکن عمران کے جلسوں میں جو رنگ ڈی جے بٹ جماتا ہے وسیم ابراہیم وہ رنگ نہیں جما سکا۔
جلسے میں سابق صدر آصف علی زرداری بھی شریک ہوئے جب کہ میں توقع کر رہا تھا کہ وہ خود پس پردہ رہ کر بلاول کو تنہا سیاسی کیرئیر کے آغاز کا موقع دیں گے۔ آصف زرداری جب اسٹیج پر کھڑے ہوئے تو انھوں نے دونوں مکے ہوا میں لہرا کر جنرل پرویز مشرف کی یاد تازہ کر دی۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن کافی دیر تک مکے لہراتے رہے۔ جلسے کی کامیابی کے دعوے پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کی طرف سے بھی کیے گئے۔ مسلم لیگ ن والے خود اور ان کے حامی جلسے کو بڑا اور کامیاب قرار دے رہے تھے تو کچھ لوگوں کو حیرت ہو رہی تھی۔ اس میں البتہ حیران ہونے والی کوئی بات نہیں کیونکہ ان کا دشمن نمبر ایک عمران خان ہے اور انھیں اس جلسے کو بڑا اور کامیاب قرار دینا ہی تھا۔
جلسے میں ہونے والی تقریروں میں سب سے زیادہ ہلچل مچانے والی تقریر تو خود بلاول کی تھی۔ اس تقریر کا پہلا ردعمل اتوار کو سامنے آ گیا۔ ایم کیو ایم سندھ حکومت سے الگ ہو گئی۔ اس نے اپنا صوبہ لینے کا مطالبہ بھی کر دیا۔ ایم کیو ایم کا ایک ردعمل جمعے کو خورشید شاہ کے بیان پر بھی ہوا تھا لیکن خورشید شاہ نے فوری معافی مانگ کر معاملہ ختم کر دیا تھا۔ اس بار ایم کیو ایم ناراض ہوئی ہے تو مجھے نہیں لگتا اسے آسانی سے منایا جا سکے گا۔ آصف زرداری اگرچہ ہمیشہ پر اعتماد ہوتے ہیں کہ وہ الطاف حسین سے بات کریں گے اور انھیں منالیں گے مگر اب ایسا کرنا شاید مشکل ہو گا۔
بلاول نے اپنی تقریر میں سب سے زیادہ زور بھٹو ازم پر دیا۔ عمران خان نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کو ''اسٹیٹس کو'' کی جماعتیں قرار دیتے ہیں۔ وہ الزام لگاتے ہیں کہ ایک دوسرے کی کرپشن کو تحفظ دینے کے لیے یہ دونوں جماعتیں اکٹھی ہیں۔ بلاول نے کہا کہ ملک میں صرف دو قوتیں ہیں۔ ضیاء ازم اور بھٹو ازم۔ ضیاء ازم کی تعریف کرتے ہوئے انھوں نے عمران کے ساتھ ساتھ نواز شریف کو بھی ایک ہی پلڑے میں ڈال دیا۔ نواز شریف کو تو انھوں نے دعوت بھی دے دی کہ وہ ضیاء ازم چھوڑیں اور بھٹو ازم اپنا لیں۔ تیر سے شیر کا شکار ہو یا پنجاب حکومت اور شہباز شریف پر تنقید' بلاول نے ن لیگ کا بالکل لحاظ نہیں کیا۔ ایم کیو ایم نے کراچی کے حوالے سے بلاول کی تقریر پر اپنا ردعمل دے دیا۔ نواز لیگ نے اتنی سخت تنقید کے باوجود خاموشی اختیار کرنا مناسب سمجھا۔ دیکھتے ہیں یہ خاموشی کب تک برقرار رہتی ہے۔
پیپلز پارٹی سندھ اور پیپلز پارٹی پنجاب کے درمیان تضاد اس جلسے میں بھی نظر آیا۔ منظور وٹو اور اعتزاز احسن نے عمران کے بجائے نواز شریف اور پنجاب حکومت پر تنقید کی۔ اعتزاز احسن نے جب کہا کہ سیاسی قیادت بلاول کو دے کر 50 سال سے اوپر کے لوگ پیچھے ہٹ جائیں تو یوں لگا کہ وہ آصف زرداری کو بھی یہ مشورہ دے رہے ہیں۔ اعتزاز کی تقریر کے بعض پہلوؤں پر پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی نے اس جلسے کے ذریعے یہ اعلان کر دیا ہے کہ اس نے ملکی سیاست میں اپنا فعال کردار ادا کرنا ہے۔ اس جلسے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ نواز شریف کے ساتھ اختلافات کے باوجود پیپلز پارٹی ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ ن لیگ کی طرح اس کا بھی دشمن نمبر ایک عمران خان ہے۔
آصف زرداری اور بلاول نے سب سے زیادہ تنقید کپتان پر کی ہے۔ نواز شریف کی تقریروں میں بھی ہدف تنقید ان ہی کی ذات ہوتی ہے۔ عمران کا آئندہ جلسہ گجرات میں ہونے والا ہے۔ اس کے بعد محرم کا آغاز ہو جائے گا۔ طاہر القادری محرم سے پہلے اپنا آخری جلسہ لاہور میں کر چکے ہیں۔ یہ ایک بڑا جلسہ تھا۔ اس جلسے سے ایک دن پہلے تک یوں لگ رہا تھا کہ چوہدری برادران اور ڈاکٹر طاہر القادری میں اختلافات پیدا ہو چکے ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین کی جلسے میں شرکت کے بعد یہ تاثر زائل ہو گیا۔ چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت نے اعلان کیا ہے کہ محرم میں جلسے نہیں ہوں گے مگر دھرنے جاری رہیں گے۔ اتحادیوں کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے واضح کر دیا کہ ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔
دھرنے جاری ہیں۔ محرم کے بعد جلسے جلوس اور شاید شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام جیسی صورت حال بھی پیدا ہو۔ ایم کیو ایم سندھ حکومت سے الگ ہو گئی ہے۔ متحدہ کی ناراضی بڑھی تو سندھ اور قومی اسمبلی سے استعفے بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ اسلام آباد میں حکومت نے بقول محض ڈیڑھ فرلانگ کے دھرنوں سے معاشی صورت حال تباہ ہو رہی ہے۔ حکومت اپنی پریشانی چھپا نہیں پاتی۔ ایم کیو ایم نے جلسے جلوس منعقد کرنے یا دھرنوں کا فیصلہ کیا تو کراچی جام ہو جائے گا۔ کراچی میں ایک دن کاروبار بند ہو جائے تو اربوں روپے کا نقصان ہو جاتا ہے۔
وفاقی حکومت ہے، پر نہیں ہے کی عملی تصویر بنی ہوئی ہے۔ دھرنے والوں سے مذاکرات کرنے پر وہ راضی نہیں۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی میں دوریاں ختم کرانے میں موثر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں بھی نظر نہیں آ رہی۔ حکمران اگر سمجھتے ہیں کہ اس طرز عمل سے وہ پانچ سال پورے کر لیں گے تو یہ خام خیالی ہے۔ آج تمام سیاستدانوں میں اتفاق ہے کہ ملک میں مارشل لاء لگنے کا کوئی امکان نہیں۔ ملک میں جمہوریت تو موجود ہے مگر جمہوری رویے کہیں نظر نہیں آ رہے۔ جمہوریت کو قائم رکھنے کے لیے رویے تبدیل کرنا پڑیں گے۔ بلاول کی ''لانچ'' کے بعد الیکشن زیادہ دور نظر نہیں آ رہے۔
بلاول میدان میں سیاست میں آ گئے ہیں' دیکھیں ملک میں بھٹو ازم چھائے گا یا کوئی اور ازم۔
ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ بینظیر بھٹو کے جلسوں کا جائزہ لیا جائے تو اس کے مقابلے میں یہ جلسہ روایتی جوش و خروش سے قدرے عاری تھا۔ پیپلز پارٹی کے روایتی جلسوں میں جیالوں کا جوش دیدنی ہوتا ہے۔ کراچی کے جلسے میں اسٹیج پرجوش زیادہ تھا اور جلسہ گاہ میں کافی کم۔ اس جلسے میں جس طرح کا کراؤڈ تھا وہ لایا گیا زیادہ لگ رہا تھا۔ پورے جلسے کے دوران حاضرین گھومتے پھرتے نظر آئے۔ عہد حاضر میں عمران خان کے جلسوں میں جوش و خروش زیادہ نظر آتا ہے۔ پیپلز پارٹی نے اس جلسے کے لیے ڈی جے کا بھی انتظام کیا لیکن عمران کے جلسوں میں جو رنگ ڈی جے بٹ جماتا ہے وسیم ابراہیم وہ رنگ نہیں جما سکا۔
جلسے میں سابق صدر آصف علی زرداری بھی شریک ہوئے جب کہ میں توقع کر رہا تھا کہ وہ خود پس پردہ رہ کر بلاول کو تنہا سیاسی کیرئیر کے آغاز کا موقع دیں گے۔ آصف زرداری جب اسٹیج پر کھڑے ہوئے تو انھوں نے دونوں مکے ہوا میں لہرا کر جنرل پرویز مشرف کی یاد تازہ کر دی۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن کافی دیر تک مکے لہراتے رہے۔ جلسے کی کامیابی کے دعوے پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کی طرف سے بھی کیے گئے۔ مسلم لیگ ن والے خود اور ان کے حامی جلسے کو بڑا اور کامیاب قرار دے رہے تھے تو کچھ لوگوں کو حیرت ہو رہی تھی۔ اس میں البتہ حیران ہونے والی کوئی بات نہیں کیونکہ ان کا دشمن نمبر ایک عمران خان ہے اور انھیں اس جلسے کو بڑا اور کامیاب قرار دینا ہی تھا۔
جلسے میں ہونے والی تقریروں میں سب سے زیادہ ہلچل مچانے والی تقریر تو خود بلاول کی تھی۔ اس تقریر کا پہلا ردعمل اتوار کو سامنے آ گیا۔ ایم کیو ایم سندھ حکومت سے الگ ہو گئی۔ اس نے اپنا صوبہ لینے کا مطالبہ بھی کر دیا۔ ایم کیو ایم کا ایک ردعمل جمعے کو خورشید شاہ کے بیان پر بھی ہوا تھا لیکن خورشید شاہ نے فوری معافی مانگ کر معاملہ ختم کر دیا تھا۔ اس بار ایم کیو ایم ناراض ہوئی ہے تو مجھے نہیں لگتا اسے آسانی سے منایا جا سکے گا۔ آصف زرداری اگرچہ ہمیشہ پر اعتماد ہوتے ہیں کہ وہ الطاف حسین سے بات کریں گے اور انھیں منالیں گے مگر اب ایسا کرنا شاید مشکل ہو گا۔
بلاول نے اپنی تقریر میں سب سے زیادہ زور بھٹو ازم پر دیا۔ عمران خان نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کو ''اسٹیٹس کو'' کی جماعتیں قرار دیتے ہیں۔ وہ الزام لگاتے ہیں کہ ایک دوسرے کی کرپشن کو تحفظ دینے کے لیے یہ دونوں جماعتیں اکٹھی ہیں۔ بلاول نے کہا کہ ملک میں صرف دو قوتیں ہیں۔ ضیاء ازم اور بھٹو ازم۔ ضیاء ازم کی تعریف کرتے ہوئے انھوں نے عمران کے ساتھ ساتھ نواز شریف کو بھی ایک ہی پلڑے میں ڈال دیا۔ نواز شریف کو تو انھوں نے دعوت بھی دے دی کہ وہ ضیاء ازم چھوڑیں اور بھٹو ازم اپنا لیں۔ تیر سے شیر کا شکار ہو یا پنجاب حکومت اور شہباز شریف پر تنقید' بلاول نے ن لیگ کا بالکل لحاظ نہیں کیا۔ ایم کیو ایم نے کراچی کے حوالے سے بلاول کی تقریر پر اپنا ردعمل دے دیا۔ نواز لیگ نے اتنی سخت تنقید کے باوجود خاموشی اختیار کرنا مناسب سمجھا۔ دیکھتے ہیں یہ خاموشی کب تک برقرار رہتی ہے۔
پیپلز پارٹی سندھ اور پیپلز پارٹی پنجاب کے درمیان تضاد اس جلسے میں بھی نظر آیا۔ منظور وٹو اور اعتزاز احسن نے عمران کے بجائے نواز شریف اور پنجاب حکومت پر تنقید کی۔ اعتزاز احسن نے جب کہا کہ سیاسی قیادت بلاول کو دے کر 50 سال سے اوپر کے لوگ پیچھے ہٹ جائیں تو یوں لگا کہ وہ آصف زرداری کو بھی یہ مشورہ دے رہے ہیں۔ اعتزاز کی تقریر کے بعض پہلوؤں پر پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی نے اس جلسے کے ذریعے یہ اعلان کر دیا ہے کہ اس نے ملکی سیاست میں اپنا فعال کردار ادا کرنا ہے۔ اس جلسے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ نواز شریف کے ساتھ اختلافات کے باوجود پیپلز پارٹی ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ ن لیگ کی طرح اس کا بھی دشمن نمبر ایک عمران خان ہے۔
آصف زرداری اور بلاول نے سب سے زیادہ تنقید کپتان پر کی ہے۔ نواز شریف کی تقریروں میں بھی ہدف تنقید ان ہی کی ذات ہوتی ہے۔ عمران کا آئندہ جلسہ گجرات میں ہونے والا ہے۔ اس کے بعد محرم کا آغاز ہو جائے گا۔ طاہر القادری محرم سے پہلے اپنا آخری جلسہ لاہور میں کر چکے ہیں۔ یہ ایک بڑا جلسہ تھا۔ اس جلسے سے ایک دن پہلے تک یوں لگ رہا تھا کہ چوہدری برادران اور ڈاکٹر طاہر القادری میں اختلافات پیدا ہو چکے ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین کی جلسے میں شرکت کے بعد یہ تاثر زائل ہو گیا۔ چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت نے اعلان کیا ہے کہ محرم میں جلسے نہیں ہوں گے مگر دھرنے جاری رہیں گے۔ اتحادیوں کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے واضح کر دیا کہ ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔
دھرنے جاری ہیں۔ محرم کے بعد جلسے جلوس اور شاید شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام جیسی صورت حال بھی پیدا ہو۔ ایم کیو ایم سندھ حکومت سے الگ ہو گئی ہے۔ متحدہ کی ناراضی بڑھی تو سندھ اور قومی اسمبلی سے استعفے بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ اسلام آباد میں حکومت نے بقول محض ڈیڑھ فرلانگ کے دھرنوں سے معاشی صورت حال تباہ ہو رہی ہے۔ حکومت اپنی پریشانی چھپا نہیں پاتی۔ ایم کیو ایم نے جلسے جلوس منعقد کرنے یا دھرنوں کا فیصلہ کیا تو کراچی جام ہو جائے گا۔ کراچی میں ایک دن کاروبار بند ہو جائے تو اربوں روپے کا نقصان ہو جاتا ہے۔
وفاقی حکومت ہے، پر نہیں ہے کی عملی تصویر بنی ہوئی ہے۔ دھرنے والوں سے مذاکرات کرنے پر وہ راضی نہیں۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی میں دوریاں ختم کرانے میں موثر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں بھی نظر نہیں آ رہی۔ حکمران اگر سمجھتے ہیں کہ اس طرز عمل سے وہ پانچ سال پورے کر لیں گے تو یہ خام خیالی ہے۔ آج تمام سیاستدانوں میں اتفاق ہے کہ ملک میں مارشل لاء لگنے کا کوئی امکان نہیں۔ ملک میں جمہوریت تو موجود ہے مگر جمہوری رویے کہیں نظر نہیں آ رہے۔ جمہوریت کو قائم رکھنے کے لیے رویے تبدیل کرنا پڑیں گے۔ بلاول کی ''لانچ'' کے بعد الیکشن زیادہ دور نظر نہیں آ رہے۔
بلاول میدان میں سیاست میں آ گئے ہیں' دیکھیں ملک میں بھٹو ازم چھائے گا یا کوئی اور ازم۔