پاکستان ایک نظر میں اور وہ پھر روٹھ گئے
اسی لئے تو بزرگ کہتے ہیں کہ بے جوڑ رشتے گھر اجاڑ دیتے ہیں۔
پاکستانی سیاست میں اکثراصطلاحات درآمد ہوتی رہتی ہیں، جیسے کرکٹ ،فٹ بال اور سب سے بڑھ کرانگریزی اصطلاحات کے بغیر ہماری تمام تر گفتگو ادھوری رہتی ہے ۔ایسی ہی ایک اسلامی اصطلاح ''طلاق'' بھی ملکی سیاست میں زبان زد عام ہے ۔ یوں تو طلاق کو اسلامی ہدایات کے مطابق بہت ہی ناپسندیدہ امر قراردیا گیا ہے، لیکن دیکھا جائے تو جدید معاشرے میں اگر ایک طرف دوسرے رشتوں کے تقدس کو پامال کیا گیا تو دوسری جانب میاں بیوی کو مظبوطی سے جوڑے رکھنے کا واحد ذریعہ نکاح توڑنے کے واقعات بھی غیر معمولی نہیں رہے۔ اس کا اندازہ آئے دن پیش آنے والے طلاق کے واقعات سے لگایا جاسکتا ہے۔
میاں بیوی کے درمیان طلاق کے بعد اگر وہ اپنے فیصلے پر نادم ہوں یا کسی مجبوری کے تحت ساتھ رہنا چاہتے ہوں تو اسلامی احکامات کی روشنی میں حلالہ کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ تب جا کر دوبارہ نکاح جائز قراردیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہاں معاملہ الٹ ہے،پاکستانی سیاست میں طلاق کے بعد دوبارہ ساتھ رہنے کی خواہش جاگ اٹھے یا کسی مجبوری کے تحت ساتھ رہنا ضروری ٹھہرے تو حلالہ کی ضرورت نہیں پڑتی، جس کی واضح مثال ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے آئے روز کے طلاق اور پھر نکاح کرنے کی روش ہے۔
ذرا جائزہ لیں تو بخوبی اندازہ ہوجائیگا۔ 2008 کے انتخابات کے بعددونوں جماعتوں کا نکاح ہوگیا، کیونکہ اس سے قبل آصف علی زرداری نے گلے شکوے دور کرنے ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر حاضری دی تھی۔ معافی تلافی بھی ہوگئی۔اسی سال دونوں جماعتوں کے درمیان سندھ میں شراکت اقتدار کا فارمولہ طے پایا۔ 2009 میں دونوں جماعتوں کی قربتیں مزید بڑھ گئیں، لوہا گرم تھا یوں مرکز میں بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ اقتدار کے مزے لوٹنے کا فیصلہ کیا گیا۔اس کے بعد 2013 کے عام انتخابات تک دونوں جماعتوں کے قائدین کی ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں۔ ان تمام تر ملاقاتوں میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر ہی زور دیا گیا۔
2013کے عام انتخابات کے بعد ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیاں پھر طلاق واقع ہوگئی۔ کچھ عرصہ الگ رہنے کے بعد دوبارہ ایک ہونے کی خواہش جاگ اٹھی یا پھر مجبوری ٹھہری یہ ان کا اپنا درد سر ہے۔ لہذا اپریل2014 میں ایک بار پھر دو وزارتوں اور تین مشیروں کے عوض دونوں پارٹیوں کا نکاح ہوگیا ، اور یہ نکاح حلالہ کے عمل سے گزرے بغیر ہی ہوگیا تھا۔ جس کا بھیانک نتیجہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان حالیہ شدید قسم کی طلاق ہے۔ جس میں کھلم کھلا ایک دوسرے کی مخالفت کا اعلان کیا جارہا ہے۔ اسی لئے تو بزرگ کہتے ہیں کہ بے جوڑ رشتے گھر اجاڑ دیتے ہیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
میاں بیوی کے درمیان طلاق کے بعد اگر وہ اپنے فیصلے پر نادم ہوں یا کسی مجبوری کے تحت ساتھ رہنا چاہتے ہوں تو اسلامی احکامات کی روشنی میں حلالہ کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ تب جا کر دوبارہ نکاح جائز قراردیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہاں معاملہ الٹ ہے،پاکستانی سیاست میں طلاق کے بعد دوبارہ ساتھ رہنے کی خواہش جاگ اٹھے یا کسی مجبوری کے تحت ساتھ رہنا ضروری ٹھہرے تو حلالہ کی ضرورت نہیں پڑتی، جس کی واضح مثال ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے آئے روز کے طلاق اور پھر نکاح کرنے کی روش ہے۔
ذرا جائزہ لیں تو بخوبی اندازہ ہوجائیگا۔ 2008 کے انتخابات کے بعددونوں جماعتوں کا نکاح ہوگیا، کیونکہ اس سے قبل آصف علی زرداری نے گلے شکوے دور کرنے ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر حاضری دی تھی۔ معافی تلافی بھی ہوگئی۔اسی سال دونوں جماعتوں کے درمیان سندھ میں شراکت اقتدار کا فارمولہ طے پایا۔ 2009 میں دونوں جماعتوں کی قربتیں مزید بڑھ گئیں، لوہا گرم تھا یوں مرکز میں بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ اقتدار کے مزے لوٹنے کا فیصلہ کیا گیا۔اس کے بعد 2013 کے عام انتخابات تک دونوں جماعتوں کے قائدین کی ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں۔ ان تمام تر ملاقاتوں میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر ہی زور دیا گیا۔
2013کے عام انتخابات کے بعد ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیاں پھر طلاق واقع ہوگئی۔ کچھ عرصہ الگ رہنے کے بعد دوبارہ ایک ہونے کی خواہش جاگ اٹھی یا پھر مجبوری ٹھہری یہ ان کا اپنا درد سر ہے۔ لہذا اپریل2014 میں ایک بار پھر دو وزارتوں اور تین مشیروں کے عوض دونوں پارٹیوں کا نکاح ہوگیا ، اور یہ نکاح حلالہ کے عمل سے گزرے بغیر ہی ہوگیا تھا۔ جس کا بھیانک نتیجہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان حالیہ شدید قسم کی طلاق ہے۔ جس میں کھلم کھلا ایک دوسرے کی مخالفت کا اعلان کیا جارہا ہے۔ اسی لئے تو بزرگ کہتے ہیں کہ بے جوڑ رشتے گھر اجاڑ دیتے ہیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔