عالمی معیشت کو درپیش بحران
ترقی یافتہ معیشتوں میں قرض برائے جی ڈی پی تناسب بہت بلند ہے اور اس میں مزید کمی کی ضرورت ہے۔
1872ء میں سینٹ ایمائر، سوئٹزر لینڈ میں پہلی انٹرنیشنل کی پانچویں کانگریس میں کامریڈ میخائل الیگزینڈر باکونن نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ 'سر ما یہ دا ری کا کام ہی یہ ہے کہ منافع کے نام پر دولت کا انبار لگا دے اور دوسری جا نب پیداواری کارکنان بھوک، افلاس اور بے روزگاری کے شکار ہوں۔
وقت گزر نے کے سا تھ سا تھ یہ خلیج بڑھتی جائے گی اور پیداواری کارکنان، محنت کش، شہری اس سرمایہ داری کو نہ صرف اکھاڑ پھینکیں گے بلکہ ریاستی سرحدوں کو بھی نیست و نابود کر کے دنیا کو سار ے عوام کی ملکیت بنا دیں گے۔' آ ج کامریڈ باکونن کا یہ موقف درست ثابت ہو رہا ہے۔ آج عالمی سرمایہ داری کے سرغنے بھی اپنی انحطاط پزیری کو تسلیم کر نے پر مجبور ہیں۔ حال ہی میں آئی ایم ایف کے نما یند ے نے کہا ہے کہ عا لمی معیشت کو زیا دہ پیداواری سرمایہ کاری اور سٹے با زی پر مبنی اثاثوں کی کم ضرورت ہے جن کی قیمتیں اپنی قدر سے زیادہ ہو گئی ہیں اور وہ معا شی استحکام کے لیے بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔
عالمی معیشت کو لاحق خطرات کے حوا لے سے تازہ ترین تجزیہ کرتے ہو ئے کہا کہ ترقی یافتہ معیشتوں کے مرکزی بینکوں کی جانب سے فراہم کردہ سرمائے میں سے زیادہ رقم ایسی اقتصادی سرگرمیوں میں نہیں لگائی گئی جس سے معا شی نمو کو فروغ ہو بلکہ بہت زیادہ سرمایہ مالیاتی خطرے کے حامل اثاثوں میں چلا گیا جو فی الوقت عالمی معاشی استحکام کے لیے بڑا خطرہ بن چکے ہیں، مالیاتی بحران کے بعد سے چھ سال سے زائد گزرنے کے بعد بھی عالمی معیشت کا انحصار ترقی یافتہ معیشتوں کی پا لیسی پر ہے لیکن اس کا فا ئدہ نہ ہو نے کے برا بر ہے۔
بہت زیادہ سرمایہ ایسے اثاثوں اور سٹے بازی کی نذر ہو گیا جو فروخت بڑھنے پر نقصان کا باعث ہو سکتی ہے، عالمی معیشت کو مالیاتی خطرہ مول لینے میں حد سے تجاوز کر نے کی وجہ سے خدشات لاحق ہیں، بہت سے اثاثوں کی قیمتیں ان کی قدروں سے زیا دہ ہیں، اس کے علاوہ چار کھرب ڈالر کے قریب رسکی سرمایہ ابھرتی معیشتوں کی ایکوٹیز اور بانڈز میں لگایا جا چکا ہے جو سرمایہ کے بہاؤ کی سمت میں اچا نک تبدیلی سے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اور یہ سب کچھ تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس سے عالمی معیشت کو دھچکا لگے گا اور وہ ہے روس یوکرائن بحران کی شدت میں اضافہ اور امریکی پا لیسی کو غلط طریقے سے سخت کیا جا نا۔ امریکی بینکاری ریگولیٹر کو سخت کر نے کے باقی دنیا پر ہو نے وا لے اثرات کو ذہن میں رکھنا چاہیے، ترقی یافتہ معیشتوں کے دھچکے بہت تیزی سے ابھر تی معیشتوں تک پہنچے گی۔
ادھر آئی ایم ایف نے امیر مما لک پر قرضوں میں کمی لانے پر زور دیا ہے۔ گزشتہ روز جاری عالمی معیشت کو لاحق خطرات کے حوالے سے تازہ ترین جا ئزے میں کہا گیا کہ ترقی یافتہ معیشتوں میں قرض برائے جی ڈی پی تناسب بہت بلند ہے اور اس میں مزید کمی کی ضرورت ہے، رواں سال ترقی یا فتہ معیشتوں کو اوسط قرض جی ڈی پی کے105.5 فیصد پہنچنے کا خطرہ ہے۔ کئی ترقی یافتہ معیشتوں میں بے روزگا ری کی شرح بلند سطح پر ہے، اس لیے کہ حکومتوں نے اخراجات اور قرضوں میں حد سے زیادہ کٹو تی کی ہے۔ آ ئی ایم ایف کی جا نب سے عالمی معاشی نمو پر نظرثانی اور کمزور جرمن اقتصادی اعداد و شمار کے منظر عام پر آنے کے بعد ایشیا کی بیشتر حصص مارکیٹوں میں مندی کا رحجان دیکھا گیا۔ جا پان، جنو بی کو ریا اور آسٹریلیا کی مار کٹیں بیٹھ گئیں جب کہ ہانگ کانگ میں بھی منفی رجحان رہا، تائی پے اور منیلا میں بھی فروخت پر دبا ؤ دیکھا گیا۔
وا ضح رہے کہ آ ئی ایم ایف کی جا نب سے عالمی معاشی نمو کی شرح نظر ثا نی کر کے کم کیے جانے سے امریکا اور یورپی حصص مارکیٹوں میں سرمایہ کاروں نے بڑے پیمانے پر سرمائے کا انخلا کیا جس کو دیکھتے ہو ئے ایشیائی حصص مارکیٹوں میں بھی سرمایہ کاروں نے فروخت پر دبا ؤ بڑھا دیا جس کی وجہ سے ٹوکیو کی حصص مارکیٹوں میں1.19 فیصد کمی دیکھی گئی جب کہ سیؤل کی مارکیٹ میں0.39 فیصد، سڈنی 0.81 فیصد اور ہانگ کانگ میں0.68 فیصد مندی دیکھی گئی، منیلا کی مارکیٹ میں بھی مندی رہی اور انڈیکس0.74 فیصد گر گیا۔ ادھر آ ئی ایم ایف نے برازیل کی معاشی نمو سے متعلق تخمینے میں کمی کر دی گئی، محدود سرمایہ کاری اور کمزور طلب کی وجہ سے برا زیل کی شرح نمو پرا نے اندا زے سے ایک فیصد کم رہے گی اور رواں سال اس کا گروتھ ریٹ0.3 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ وا ضح رہے کہ برازیل دنیا کی سا تویں بڑی معیشت ہے جو رواں سال کی پہلی ششماہی میں کساد بازاری کا شکار ہو گئی تھی۔ کمزور مسابقت کم کاروباری اعتماد اور سخت مالیاتی حالات نے سرمایہ کاری محدود کر دی جب کہ روزگار کے مواقعے کی فراہمی اور کریڈٹ گروتھ میں سست روی کی و جہ سے کھپت پر دباؤ بڑھا جب کہ افراط زر کی شرح بھی6.3 فیصد تک پہنچ گئی ہے جس سے سیا سی بے یقینی نے صورت حال کو بگاڑ دیا ہے۔
ترکی میں بھی معا شی صورتحال بدتر ہوئی ہے۔ ترکی نے شام اور عراق میں بدامنی سمیت دیگر بیرونی عوا مل کے باعث نمو کے ہدف پر نظر ثا نی کر دی، نا ئب وزیر اعظم علی بابا کان نے پریس کانفرنس کے دوران اقتصادی پروگرام پیش کر تے ہو ئے بتایا کہ رواں سا ل کے لیے معاشی نمو کا ہدف نظرثانی کے بعد چار فیصد سے گھٹا کر3.3 فیصد کر دیا گیا ہے کیونکہ روس، یوکرین اور عراق کو خطے کی سیاسی کشیدگی کی وجہ سے برآمدات میں کمی ہوئی ہے جب کہ بد قسمتی سے عراق اور شام میں حالات بہتر نہیں ہو ئے، انھوں نے افراط زر کی شرح کے جا ئزے پر بھی نظر ثانی کر تے ہو ئے کہا ہے کہ رواں سال افراط زر کی شرح7.6 فیصد سے 9.4 فیصد تک رہنے کا خدشہ ہے۔ یہ عالمی سر ما یہ داری کی انحطاط پزیری کی صورتحال ہے۔ اس کے نتیجے میں دنیا کی سات ارب آ بادی میں ساڑھے پا نچ ارب غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار نے پر مجبور ہے۔ ان مسائل کا واحد حل ایک غیر طبقاتی کمیونسٹ نظام میں مضمر ہے۔
وقت گزر نے کے سا تھ سا تھ یہ خلیج بڑھتی جائے گی اور پیداواری کارکنان، محنت کش، شہری اس سرمایہ داری کو نہ صرف اکھاڑ پھینکیں گے بلکہ ریاستی سرحدوں کو بھی نیست و نابود کر کے دنیا کو سار ے عوام کی ملکیت بنا دیں گے۔' آ ج کامریڈ باکونن کا یہ موقف درست ثابت ہو رہا ہے۔ آج عالمی سرمایہ داری کے سرغنے بھی اپنی انحطاط پزیری کو تسلیم کر نے پر مجبور ہیں۔ حال ہی میں آئی ایم ایف کے نما یند ے نے کہا ہے کہ عا لمی معیشت کو زیا دہ پیداواری سرمایہ کاری اور سٹے با زی پر مبنی اثاثوں کی کم ضرورت ہے جن کی قیمتیں اپنی قدر سے زیادہ ہو گئی ہیں اور وہ معا شی استحکام کے لیے بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔
عالمی معیشت کو لاحق خطرات کے حوا لے سے تازہ ترین تجزیہ کرتے ہو ئے کہا کہ ترقی یافتہ معیشتوں کے مرکزی بینکوں کی جانب سے فراہم کردہ سرمائے میں سے زیادہ رقم ایسی اقتصادی سرگرمیوں میں نہیں لگائی گئی جس سے معا شی نمو کو فروغ ہو بلکہ بہت زیادہ سرمایہ مالیاتی خطرے کے حامل اثاثوں میں چلا گیا جو فی الوقت عالمی معاشی استحکام کے لیے بڑا خطرہ بن چکے ہیں، مالیاتی بحران کے بعد سے چھ سال سے زائد گزرنے کے بعد بھی عالمی معیشت کا انحصار ترقی یافتہ معیشتوں کی پا لیسی پر ہے لیکن اس کا فا ئدہ نہ ہو نے کے برا بر ہے۔
بہت زیادہ سرمایہ ایسے اثاثوں اور سٹے بازی کی نذر ہو گیا جو فروخت بڑھنے پر نقصان کا باعث ہو سکتی ہے، عالمی معیشت کو مالیاتی خطرہ مول لینے میں حد سے تجاوز کر نے کی وجہ سے خدشات لاحق ہیں، بہت سے اثاثوں کی قیمتیں ان کی قدروں سے زیا دہ ہیں، اس کے علاوہ چار کھرب ڈالر کے قریب رسکی سرمایہ ابھرتی معیشتوں کی ایکوٹیز اور بانڈز میں لگایا جا چکا ہے جو سرمایہ کے بہاؤ کی سمت میں اچا نک تبدیلی سے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اور یہ سب کچھ تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس سے عالمی معیشت کو دھچکا لگے گا اور وہ ہے روس یوکرائن بحران کی شدت میں اضافہ اور امریکی پا لیسی کو غلط طریقے سے سخت کیا جا نا۔ امریکی بینکاری ریگولیٹر کو سخت کر نے کے باقی دنیا پر ہو نے وا لے اثرات کو ذہن میں رکھنا چاہیے، ترقی یافتہ معیشتوں کے دھچکے بہت تیزی سے ابھر تی معیشتوں تک پہنچے گی۔
ادھر آئی ایم ایف نے امیر مما لک پر قرضوں میں کمی لانے پر زور دیا ہے۔ گزشتہ روز جاری عالمی معیشت کو لاحق خطرات کے حوالے سے تازہ ترین جا ئزے میں کہا گیا کہ ترقی یافتہ معیشتوں میں قرض برائے جی ڈی پی تناسب بہت بلند ہے اور اس میں مزید کمی کی ضرورت ہے، رواں سال ترقی یا فتہ معیشتوں کو اوسط قرض جی ڈی پی کے105.5 فیصد پہنچنے کا خطرہ ہے۔ کئی ترقی یافتہ معیشتوں میں بے روزگا ری کی شرح بلند سطح پر ہے، اس لیے کہ حکومتوں نے اخراجات اور قرضوں میں حد سے زیادہ کٹو تی کی ہے۔ آ ئی ایم ایف کی جا نب سے عالمی معاشی نمو پر نظرثانی اور کمزور جرمن اقتصادی اعداد و شمار کے منظر عام پر آنے کے بعد ایشیا کی بیشتر حصص مارکیٹوں میں مندی کا رحجان دیکھا گیا۔ جا پان، جنو بی کو ریا اور آسٹریلیا کی مار کٹیں بیٹھ گئیں جب کہ ہانگ کانگ میں بھی منفی رجحان رہا، تائی پے اور منیلا میں بھی فروخت پر دبا ؤ دیکھا گیا۔
وا ضح رہے کہ آ ئی ایم ایف کی جا نب سے عالمی معاشی نمو کی شرح نظر ثا نی کر کے کم کیے جانے سے امریکا اور یورپی حصص مارکیٹوں میں سرمایہ کاروں نے بڑے پیمانے پر سرمائے کا انخلا کیا جس کو دیکھتے ہو ئے ایشیائی حصص مارکیٹوں میں بھی سرمایہ کاروں نے فروخت پر دبا ؤ بڑھا دیا جس کی وجہ سے ٹوکیو کی حصص مارکیٹوں میں1.19 فیصد کمی دیکھی گئی جب کہ سیؤل کی مارکیٹ میں0.39 فیصد، سڈنی 0.81 فیصد اور ہانگ کانگ میں0.68 فیصد مندی دیکھی گئی، منیلا کی مارکیٹ میں بھی مندی رہی اور انڈیکس0.74 فیصد گر گیا۔ ادھر آ ئی ایم ایف نے برازیل کی معاشی نمو سے متعلق تخمینے میں کمی کر دی گئی، محدود سرمایہ کاری اور کمزور طلب کی وجہ سے برا زیل کی شرح نمو پرا نے اندا زے سے ایک فیصد کم رہے گی اور رواں سال اس کا گروتھ ریٹ0.3 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ وا ضح رہے کہ برازیل دنیا کی سا تویں بڑی معیشت ہے جو رواں سال کی پہلی ششماہی میں کساد بازاری کا شکار ہو گئی تھی۔ کمزور مسابقت کم کاروباری اعتماد اور سخت مالیاتی حالات نے سرمایہ کاری محدود کر دی جب کہ روزگار کے مواقعے کی فراہمی اور کریڈٹ گروتھ میں سست روی کی و جہ سے کھپت پر دباؤ بڑھا جب کہ افراط زر کی شرح بھی6.3 فیصد تک پہنچ گئی ہے جس سے سیا سی بے یقینی نے صورت حال کو بگاڑ دیا ہے۔
ترکی میں بھی معا شی صورتحال بدتر ہوئی ہے۔ ترکی نے شام اور عراق میں بدامنی سمیت دیگر بیرونی عوا مل کے باعث نمو کے ہدف پر نظر ثا نی کر دی، نا ئب وزیر اعظم علی بابا کان نے پریس کانفرنس کے دوران اقتصادی پروگرام پیش کر تے ہو ئے بتایا کہ رواں سا ل کے لیے معاشی نمو کا ہدف نظرثانی کے بعد چار فیصد سے گھٹا کر3.3 فیصد کر دیا گیا ہے کیونکہ روس، یوکرین اور عراق کو خطے کی سیاسی کشیدگی کی وجہ سے برآمدات میں کمی ہوئی ہے جب کہ بد قسمتی سے عراق اور شام میں حالات بہتر نہیں ہو ئے، انھوں نے افراط زر کی شرح کے جا ئزے پر بھی نظر ثانی کر تے ہو ئے کہا ہے کہ رواں سال افراط زر کی شرح7.6 فیصد سے 9.4 فیصد تک رہنے کا خدشہ ہے۔ یہ عالمی سر ما یہ داری کی انحطاط پزیری کی صورتحال ہے۔ اس کے نتیجے میں دنیا کی سات ارب آ بادی میں ساڑھے پا نچ ارب غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار نے پر مجبور ہے۔ ان مسائل کا واحد حل ایک غیر طبقاتی کمیونسٹ نظام میں مضمر ہے۔