ایم کیو ایم کا سندھ کے بعد آزاد کشمیر حکومت سے بھی علیحدگی کا اعلان
بلاول بھٹو زرداری کے بیان کے بعد اب ہماری واپسی کا راستہ ممکن نہیں، ڈاکٹر فاروق ستار
متحدہ قومی موومنٹ نے سندھ کے بعد آزاد کشمیر حکومت سے بھی علیحدگی کا اعلان کردیا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ قانون کی حکمرانی کی دھجیاں اڑانے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے باوجود پاکستان میں جمہوریت کے استحکام، فروغ اور تسلسل کو موقع دینے کے لئے ایم کیو ایم پاکستان پیپلز پارٹی کے غیر سیاسی اور غیر جمہوری رویے کو برداشت کرتی رہی لیکن معاملات اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ پیپلز پارٹی کے کم عمر چیئرمین نے عمر کا لحاظ کئے بغیر ایم کیو ایم کے قائد کے خلاف تضحیک آمیز رویہ اختیار کیا، پیپلز پارٹی کے 26 سالہ چیئرمین نے اپنی حلیف سیاسی جماعت کے قائد کے بارے میں اس طرح کے جملے ادا کئے جس میں باقاعدہ دھمکی دی گئی تو پھر صبر کی انتہا ہوگئی۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے ناروا سلوک کی طویل داستانٰیں ہیں لیکن جب صبر کی تمام حدیں پار ہوگئیں اور پانی سر سے اوپر آگیا تو پھر ایم کیو ایم نے اپنا راستہ الگ کرلیا۔
ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان پالیسی کی شراکت نہیں تھی، ان کی جانب سے ہمیں کسی بھی قسم کی مشاورت میں شامل نہیں کیا جاتا تھا، اس کے باوجود آصف علی زرداری اور ایم کیو ایم کے قائد کے درمیان ہم آہنگی قائم رہی، ہمارے درمیان تعلقات میں اتار چڑھاؤ کے باوجود ایک دوسرے کے درمیان احترام کا تعلق رہا، عید کے روز الطاف حسین کے بارے میں جو بیان دیا گیا اس پر کوئی معذرت نہیں کی گئی، اگر یہ پیپلز پارٹی کی پالیسی ہے کہ آصف علی زرداری کی جانب سے بہتر رویہ رکھا جائے اور بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے دھمکی آمیز باتیں کی جائیں تو یہ کسی بھی طرح ٹھیک نہیں۔ ہم سیاست، جمہوریت ، فیصلہ سازی اور بنیادی مسائل کے حل کے لئے شراکت دار بن سکتے ہیں لیکن کرپشن، جرائم کی پشت پناہی ، لینڈ مافیا کی سرپرستی اور بھتہ مافیا کی حمایت پر شراکت قائم نہیں کرسکتے۔
ایم کیو ایم کے رہنما کا کہنا تھا کہ بھٹو کا وارث بھٹو ہوسکتا ہے زرداری نہیں، 26 سالہ چیئرمین کی جانب اپنے سیاسی کیرئیر کی ابتدا میں ہی قومی وژن دینے کے بجائے ساری سیاسی جماعتوں کے خلاف محاذ کھولنے سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے وارث نہیں ہوسکتے۔ جو سندھ کو ساتھ لے کر نہیں چل سکتے وہ پاکستان کے عوام کو ساتھ لے کر کیسے چلیں گے، جس نے اپنے کیرئیر کی ابتدا میں سیاسی جنگ کا نقارہ بجایا ہو وہ اس ملک کے عوام کی بھلائی کے لئے کیا کریں گے۔ بلاول بھٹو زرداری کے بیان کے بعد اب ہماری واپسی کا راستہ ممکن نہیں۔ اس لئے پارٹی نے یہ اصولی موقف اختیار کیا ہے کہ سندھ کے بعد آزاد کشمیر کی حکومت سے بھی علیحدگی اختیار کی جائے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ قانون کی حکمرانی کی دھجیاں اڑانے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے باوجود پاکستان میں جمہوریت کے استحکام، فروغ اور تسلسل کو موقع دینے کے لئے ایم کیو ایم پاکستان پیپلز پارٹی کے غیر سیاسی اور غیر جمہوری رویے کو برداشت کرتی رہی لیکن معاملات اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ پیپلز پارٹی کے کم عمر چیئرمین نے عمر کا لحاظ کئے بغیر ایم کیو ایم کے قائد کے خلاف تضحیک آمیز رویہ اختیار کیا، پیپلز پارٹی کے 26 سالہ چیئرمین نے اپنی حلیف سیاسی جماعت کے قائد کے بارے میں اس طرح کے جملے ادا کئے جس میں باقاعدہ دھمکی دی گئی تو پھر صبر کی انتہا ہوگئی۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے ناروا سلوک کی طویل داستانٰیں ہیں لیکن جب صبر کی تمام حدیں پار ہوگئیں اور پانی سر سے اوپر آگیا تو پھر ایم کیو ایم نے اپنا راستہ الگ کرلیا۔
ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان پالیسی کی شراکت نہیں تھی، ان کی جانب سے ہمیں کسی بھی قسم کی مشاورت میں شامل نہیں کیا جاتا تھا، اس کے باوجود آصف علی زرداری اور ایم کیو ایم کے قائد کے درمیان ہم آہنگی قائم رہی، ہمارے درمیان تعلقات میں اتار چڑھاؤ کے باوجود ایک دوسرے کے درمیان احترام کا تعلق رہا، عید کے روز الطاف حسین کے بارے میں جو بیان دیا گیا اس پر کوئی معذرت نہیں کی گئی، اگر یہ پیپلز پارٹی کی پالیسی ہے کہ آصف علی زرداری کی جانب سے بہتر رویہ رکھا جائے اور بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے دھمکی آمیز باتیں کی جائیں تو یہ کسی بھی طرح ٹھیک نہیں۔ ہم سیاست، جمہوریت ، فیصلہ سازی اور بنیادی مسائل کے حل کے لئے شراکت دار بن سکتے ہیں لیکن کرپشن، جرائم کی پشت پناہی ، لینڈ مافیا کی سرپرستی اور بھتہ مافیا کی حمایت پر شراکت قائم نہیں کرسکتے۔
ایم کیو ایم کے رہنما کا کہنا تھا کہ بھٹو کا وارث بھٹو ہوسکتا ہے زرداری نہیں، 26 سالہ چیئرمین کی جانب اپنے سیاسی کیرئیر کی ابتدا میں ہی قومی وژن دینے کے بجائے ساری سیاسی جماعتوں کے خلاف محاذ کھولنے سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے وارث نہیں ہوسکتے۔ جو سندھ کو ساتھ لے کر نہیں چل سکتے وہ پاکستان کے عوام کو ساتھ لے کر کیسے چلیں گے، جس نے اپنے کیرئیر کی ابتدا میں سیاسی جنگ کا نقارہ بجایا ہو وہ اس ملک کے عوام کی بھلائی کے لئے کیا کریں گے۔ بلاول بھٹو زرداری کے بیان کے بعد اب ہماری واپسی کا راستہ ممکن نہیں۔ اس لئے پارٹی نے یہ اصولی موقف اختیار کیا ہے کہ سندھ کے بعد آزاد کشمیر کی حکومت سے بھی علیحدگی اختیار کی جائے۔