پانی کا بڑھتا ہوا بحران سنگین مسئلہ ہے
آج ملک میں توانائی کے شدید بحران کی اہم ترین وجہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر نہ ہونا بھی ہے۔
دنیا کی روز افزوں آبادی کے باعث دستیاب وسائل کی کمیابی اور مسائل میں اضافے کا سامنا بنی نوع انسان کو ہے، پانی زندگی ہے اور اس کے بغیر زندگی کا تصور ناممکن ہے۔
کہتے ہیں کہ مستقبل میں جنگیں پانی کے مسئلے پر ہوں گی، لہٰذا اس خطرناک صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے دنیا کے بیشتر ممالک اپنی فہم وفراست سے اس مسئلے پر قابو پانے کی بھرپور منصوبہ بندی اور حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں، لیکن پاکستان کے حوالے سے اچھی خبر یوں بھی نہیں کہ آنے والے دس برسوں میں پاکستان کو پانی کے شدید ترین بحران کا سامنا کرنا پڑے گا، یہ بات ایک تحقیقاتی رپورٹ سے سامنے آئی ہے، مقام افسوس ہے کہ ہم نے اس بحران سے نمٹنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی ہے، تربیلا اور منگلا ڈیمز کی تہہ میں مٹی جمنے کے باعث پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں بالترتیب تینتس اور سترہ فیصد کمی واقع ہوچکی ہے جب کہ چشمہ میں تو یہ کمی چالیس فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
ہم تو کالا باغ ڈیم پر بھی قومی اتفاق رائے پیدا کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ آج ملک میں توانائی کے شدید بحران کی اہم ترین وجہ اس ڈیم کی تعمیر نہ ہونا بھی ہے۔ آئے روز سیلابوں کے عذاب بھی پاکستانی قوم سہتی ہے، سیکڑوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں، جانی ومالی نقصان بھی بے تحاشا ہوتا ہے، فصلوں کو پہنچنے والے نقصان سے برآمدات میں کمی واقع ہونے سے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے، لیکن ہمارے منصوبہ ساز اور حکومتیں اس سیلابی پانی کو ڈیمز بنا کر ذخیرہ کرنے پر غور تک نہیں فرماتے۔
جدید ٹیکنالوجی اور جدید طریقوں کے باعث زراعت کے شعبے میں پانی کے استعمال میں پچاس فیصد، صنعتی شعبے میں پندرہ فیصد اور بلندو بالا عمارتوں میں چھوٹے ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تنصیب سے پانچ فیصد تک بچت ممکن ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سنجیدگی سے تحقیقاتی رپورٹ کی مرتب کردہ تجاویز کی روشنی میں ایک مثبت پالیسی ترتیب دے تاکہ آیندہ برسوں میں قلت آب کے بحران کا ہمیں سامنا نہ کرنا پڑے۔
کہتے ہیں کہ مستقبل میں جنگیں پانی کے مسئلے پر ہوں گی، لہٰذا اس خطرناک صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے دنیا کے بیشتر ممالک اپنی فہم وفراست سے اس مسئلے پر قابو پانے کی بھرپور منصوبہ بندی اور حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں، لیکن پاکستان کے حوالے سے اچھی خبر یوں بھی نہیں کہ آنے والے دس برسوں میں پاکستان کو پانی کے شدید ترین بحران کا سامنا کرنا پڑے گا، یہ بات ایک تحقیقاتی رپورٹ سے سامنے آئی ہے، مقام افسوس ہے کہ ہم نے اس بحران سے نمٹنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی ہے، تربیلا اور منگلا ڈیمز کی تہہ میں مٹی جمنے کے باعث پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں بالترتیب تینتس اور سترہ فیصد کمی واقع ہوچکی ہے جب کہ چشمہ میں تو یہ کمی چالیس فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
ہم تو کالا باغ ڈیم پر بھی قومی اتفاق رائے پیدا کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ آج ملک میں توانائی کے شدید بحران کی اہم ترین وجہ اس ڈیم کی تعمیر نہ ہونا بھی ہے۔ آئے روز سیلابوں کے عذاب بھی پاکستانی قوم سہتی ہے، سیکڑوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں، جانی ومالی نقصان بھی بے تحاشا ہوتا ہے، فصلوں کو پہنچنے والے نقصان سے برآمدات میں کمی واقع ہونے سے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے، لیکن ہمارے منصوبہ ساز اور حکومتیں اس سیلابی پانی کو ڈیمز بنا کر ذخیرہ کرنے پر غور تک نہیں فرماتے۔
جدید ٹیکنالوجی اور جدید طریقوں کے باعث زراعت کے شعبے میں پانی کے استعمال میں پچاس فیصد، صنعتی شعبے میں پندرہ فیصد اور بلندو بالا عمارتوں میں چھوٹے ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تنصیب سے پانچ فیصد تک بچت ممکن ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سنجیدگی سے تحقیقاتی رپورٹ کی مرتب کردہ تجاویز کی روشنی میں ایک مثبت پالیسی ترتیب دے تاکہ آیندہ برسوں میں قلت آب کے بحران کا ہمیں سامنا نہ کرنا پڑے۔