طاقت کا کھیل

آج پاکستان اس جگہ جا پہنچا ہے، جہاں ملک میں سیاسی اور انتظامی ڈھانچے میں ساختی تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے

muqtidakhan@hotmail.com

پیپلز پارٹی نے بالآخر بلاول کو سیاسی میدان میں اتاردیا۔یہ فیصلہ جلد ہوا ہے یا بدیر ، اس پر تبصرہ بیکارہے ، کیونکہ ایک نہ ایک دن یہ ہوناہی تھا ۔البتہ تیزی سے تبدیل ہوتا سیاسی منظرنامہ اور عمران خان کا مظہر (Phenomenon) پیپلز پارٹی کے لیے پریشانی کا اصل سبب ہے۔ غلط حکمت عملیوںاور خراب حکمرانیوںکے باعث پنجاب سے تو پارٹی کے پاؤں پہلے ہی اکھڑگئے تھے ، اب سندھ میں بھی زمین پیروں تلے سے کھسکنے لگی ہے۔

یہ صورتحال پیپلز پارٹی کے مستقبل کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں ہے ۔لہٰذا پارٹی کو زندہ رکھنے کے لیے بعض فیصلے ضروری ہوگئے تھے، جن میں بلاول کو بحیثیت پارٹی چیئرمین میدان میں اتارنا بھی شامل تھا ۔ لیکن جس اندازمیں انھیں متعارف کرایا گیا ہے اس بارے میںکچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ نئی بوتل میں پرانی شراب انتہائی بھونڈے اندازمیں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔یہ بھی کہاجارہا ہے کہ نئے سربراہ کو سیاست میں متعارف کرانے کے لیے تناؤ اور ٹکراؤ کا جو طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے ، وہ پارٹی کو مزید مشکلات سے دوچار کرنے کا سبب بنے گا ۔اس لیے قیادت کی تبدیلی سے پارٹی کی مقبولیت میں کسی خاص اضافے کا امکان نظر نہیں آرہا۔

پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں پیپلز پارٹی گزشتہ نصف صدی سے ایک اہم فیکٹر کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کا اپنا ایک مخصوص حلقہ انتخاب رہا ہے لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس کی سیاست گہناتی چلی گئی۔ اس کے کئی اسباب ہیں۔اول،مڈل اور ورکنگ کلاس کے مفادات کی بنیاد پر قائم ہونے والی جماعت آہستہ آہستہ فیوڈل مفادات کی نگہبان جماعت بنتی چلی گئی ۔

دوئم، 1979 میں بھٹو مرحوم کی پھانسی کے بعد سے ایشیوز کی بنیاد پر سیاست کرنے کے بجائے صرف شہیدوں کے نام پر ہمدردیاں حاصل کرنے کا وطیرہ بنا لیا۔ سوئم ، بھٹو کی شہادت کے بعد سے اب تک اس جماعت کو وفاق میں تین اور سندھ میں چار بارحکومت ملی ، مگر اس نے عوام کے لیے کچھ کرنا تو دورکی بات ، بدترین حکمرانی کا نمونہ پیش کیا ۔پنجاب میںتو مسلم لیگ(ن) نے بہت پہلے متبادل قیادت پیش کردی۔مگرسندھ میں عوامی جذبات اور احساسات کی ترجمان کوئی منظم جماعت نہ ہونے کے باعث سندھی عوام اس جماعت کو اپنانمایندہ بنانے پر مجبور رہے۔

پیپلزپارٹی کے بارے میں غلط یا صحیح ایک عمومی تصور یہ رہا ہے کہ یہ لبرل اور سیکولر جماعت ہے جس میں غیر مسلموں سمیت ملک کے مختلف مسالک اور لسانی اکائیوں کے لیے گنجائش موجود رہتی ہے ۔یہ غلط بات بھی نہیں ہے ، کیونکہ پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے ، جس میں ہر عقیدے اور لسانی گروپ سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ مگر گزشتہ 47 برسوں کے دوران اس جماعت نے جو کردار ادا کیا ہے ، اس کی توقع کسی شدت پسند مذہبی جماعت سے بھی نہیں کی جاسکتی۔

دوسری آئینی ترمیم کی منظوری سے افغانستان میں سردار داؤد کی حکومت کے خلاف شدت پسند عناصر کو مدد فراہم کرنے تک اور1977ء میں اپنی حکومت بچانے کے لیے کیے گئے اقدامات سے افغان طالبان کو پروان چڑھانے تک ایسے فیصلے کیے ، جن کے نتیجے میں ملک میں شدت پسندی کو سراٹھانے کا موقع ملا ۔

دوسرا قابل غور پہلو یہ ہے کہ اگر ایک طرف اس کی قیادتوں کی قربانیاں ہیں، تو دوسری طرف وہ فاش غلطیوں اور کوتاہیوں کا انبار بھی ہے ، جو اس کی سیاست کو نقصان پہنچانے کا موجب بنتا رہا ہے ۔ لبرل اور سیکولر سیاست کے دعوؤں کے باوجود فیوڈل ازم اورStatus quo کی قوتوں کو مضبوط بنانے میں پیپلز پارٹی نے اہم ترین کردار ادا کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ پارٹی کی مقبولیت میں کمی آنے لگی ۔حالیہ برسوں کے دوران عمران خان اور ان کی تحریک انصاف نے پنجاب اور پختونخواہ کے علاوہ سندھی نوجوانوں میں بھی مقبولیت حاصل کی ہے۔اس کے علاوہ پیپلز پارٹی جو سندھ کو اپنی سیاسی جاگیر اور سندھ کارڈ کو بطور ہتھیار استعمال کرتی رہی ہے ، اس کی غلط پالیسیوں کے سبب یہ کارڈ بھی اپنی افادیت کھو چکا ہے ۔ یہ صورتحال پیپلزپارٹی کی قیادت کے لیے تشویش کا باعث بن گئی ہے ۔


اس صورتحال میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا پیپلز پارٹی نوجوان بلاول کی قیادت میں اس کلچر سے چھٹکارا پاسکے گی ، جو اس کے سیاسی زوال کا سبب بن رہاہے ۔ دوسرے وہ جو کچھ کہہ رہا ہے، کیا اس پر عمل کر پائے گا؟پھرکیا اس کے والد سمیت پارٹی کی دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت کے علاوہ سندھ سےElectables اس کے راستے کی دیوار بن کر راستہ روکنے کی کوشش نہیں کریں گے؟ جہاں تک ان سوالات کے جوابات کا تعلق ہے، تویہ طے ہے کہ بلاول نے اگربیان کردہ اصلاحات کے لیے کوئی بڑا قدم اٹھانے کی کوشش کی تو پنجاب اور پختونخواہ کے کارکنوں کی توانھیں حمایت حاصل ہوجائے گی ۔

مگر کم از کم سندھ میں اسے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا ، جہاں خود اس کے والد سمیت تمام بڑے رہنما اورElectables کے اس کے راستے کی دیوار بن جانے کے قوی امکانات ہیں ۔ لہٰذا پیپلز پارٹی کسی قسم کا بڑا رسک لینے کی پوزیشن میں نظر نہیں آرہی ۔دوسری بات یہ کہ اس نے کراچی کے جلسے میں جوکچھ کہا ، اگر وہ محض وقتی نعرے (Rhetoric)ہیں ، تو پھر اس نوجوان کے لیے پیپلزپارٹی کی ڈوبتی کشتی کو بچانا مزید نا ممکن ہوجائے گا ۔ میر غوث بخش بزنجو مرحوم اکثر کہا کرتے تھے کہ پیپلز پارٹی کو اس کے حریف نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ خود اس کی اپنی پالیسیاں اسے نقصان پہنچانے کا سبب بنتی ہیں ۔

آج پاکستان اس جگہ جا پہنچا ہے، جہاں ملک میں سیاسی اور انتظامی ڈھانچے میں ساختی تبدیلی(Structural Change) ناگزیر ہو چکی ہے۔ وطن عزیز میں زرعی اصلاحات، اقتدار واختیار کی نچلی ترین سطح تک منتقلی اور معاشی تنظیم نو وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکی ہیں ۔ اقتدار واختیار کیDevolution سے مراد صرف سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی نہیں ہے ، بلکہ عدالتی نظام کی بھی Devolution ضروری ہوچکی ہے۔ 2007ء میں چلنے والی تحریک کا مقصد عدلیہ کی آزادی کے ساتھ عدالتی نظام میں اصلاحات کی خواہش بھی تھی۔مگر سابق چیف جسٹس نے عدالتی نظام میں اصلاحات کی عوامی خواہش سے صرفِ نظر کرکے عوام کو مایوس کیا۔ لہٰذا تحریک انصاف اور علامہ قادری کے جلسوں میںعوام جس جذباتی انداز میں شریک ہو رہے ہیں، ان دونوں جماعتوں کے طریقہ سے اختلافات رکھنے والے حلقے بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ عوام موجودہ سیاسی وانتظامی سیٹ اپ سے عاجز آچکے ہیں اور کسی بڑی تبدیلی کے منتظرہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ بلاول کی قیادت میں پیپلز پارٹی ان اہداف کے حصول کے لیے کیا ترجیحی اقدامات کرتی ہے۔

ایوب خان اور جنرل مشرف کا رول ماڈل ترکی کے مصطفی کمال اتاترک تھے ۔ وہ پاکستان کو ترکی کی طرز پرجدید ریاست بنانے کے حامی تھے ۔ مگرکمال اتا ترک نے جس سخت گیری یا سفاکی (Ruthlessly) سے اصلاحات نافذ کیں، متذکرہ بالادونوں فوجی آمر مخصوص مصلحتوں کے باعث ویساکرنے میں ناکام رہے۔ بھٹو اسلامی سوشلزم اور جدیدیت کے حامی بن کر سامنے آئے تھے، مگر جلد ہی قدامت پرست قوتوں کے آگے سرنگوں ہوگئے ۔انھوں نے دوسری آئینی ترمیم اور پھرانہی قوتوں کے دباؤ میں آکر بعض ایسے فیصلے کیے، جن کا خمیازہ پاکستانی عوام آج تک بھگت رہے ہیں۔

جنرل ضیاء الحق اسلامائزیشن کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئے ۔ وہ گیارہ برس تک سوائے منافقتیں پھیلانے اور جہاد کے نام پر دہشت گردی کی آبیاری کرنے کے علاوہ کچھ اور نہ کرسکے ۔ آج گلی گلی پھیلی منشیات اور آتشیں اسلحے کی لعنت بھی انھیں کی دین ہے ۔ شریف برادران بھی ترکی کی موجودہ قیادت یعنی عبداللہ گل اور طیب اردگان سے متاثر ہیں ۔ مگر جس انداز میں حکومت چلائی جا رہی ہے ، اس میں کہیں بھی ترکی کی حالیہ قیادت کے وژن کا شائبہ تک نظر نہیں آرہا ۔ چنانچہ اصلاحات کے دعوے اپنی جگہ ان پر عمل دوسرا معاملہ ہوتے ہیں ۔

ایک اور مسئلہ جو ریاستی ڈھانچے میں کسی مثبت تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے، وہ شناخت کا بحران ہے جو 68 برس سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے ۔اس بحران کی وجہ سے نہ نظم حکمرانی طے ہو پا رہی ہے اور نہ انتظامی ڈھانچے کا تعین ہو پا رہا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ لوگ مسائل کے حل کے لیے ادھر ادھر دیکھنے پرمجبور ہو رہے ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ عوام کو طریقہ حکمرانی کے بجائے اپنے مسائل کے فوری حل میں دلچسپی ہوتی ہے۔ مگر پاکستان کا سیاسی نظام اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ سیاسی نظام کی قیادت اوراسمبلیوں میں صرف مراعات یافتہ طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کی بالادستی قائم رہے۔

ایسا نظام عوام کو کبھی کچھ ڈیلیور نہیں کرتا ۔ بلکہ کتنے ہی دلکش نعرے لگائے جائیں ، کتنا ہی پرکشش منشور پیش کیا جائے ، عوام کو کچھ نہیں مل پاتا۔ وہ جماعتیں جو عوام کو خوشنماء نعروں میں الجھا کر اپنے سیاسی مفادات حاصل کرتی ہیں ، میڈیا تک عام آدمی کی آزادانہ رسائی کے اس دور میں اب ان کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں رہا ہے۔ اس لیے طاقت کے اس کھیل میں اب وہ تناؤ اور ٹکراؤکی راہ اپنا کر عوام کو مختلف پرتوں میں تقسیم کرنے کے مذموم منصوبہ پر عمل پیرا ہیں ۔ جو پہلے سے زد پذیر (Fragile) اس معاشرے کو مزید پر خطر Vulnerable بنانے کا سبب بن رہا ہے۔ اس لیے ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارنے کے بجائے ان ایشیوز پر توجہ دی جائے جو قومی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں کیونکہ اسی میں جمہوریت اور سیاسی عمل کی بچت ہے۔
Load Next Story