بیگم نصرت بھٹو
چھ لوگ کہتے ہیں بیگم نصرت بھٹو اپنے خاوند کے ساتھ ہی موت کی وادی میں اتر گئیں لیکن وہ اپنے بچوں کی خاطر سانس لیتی رہیں
کسے معلوم تھا محمد عبداللطیف اصفہانی کے گھر جو بچی پیدا ہوئی ہے وہ اپنے نام ''نصرت'' کے برعکس نصیب لے کر دنیا میں آئی ہے۔ ایران کا شہر اصفہان جس کو گلابوں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ نصرت کی زندگی میں گلاب تو کھلے لیکن ان کی زندگی میں کانٹے زیادہ نمایاں رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دورِ حکومت میں اسے ''خاتون اول'' کا نام دیا۔ پھر ضیاء دور میں یہی ''خاتون اول'' لاٹھیاں کھاتی رہی۔ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ عدالتوں میں دھکے کھاتی رہی۔
کبھی قذافی اسٹیڈیم میں پولیس کی مار کھا کر لہولہان ہوئی تو کبھی وہ عدلیہ کے ضمیر کو جگانے کی سعی کرتی رہی۔ 17 ستمبر 1977ء کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو مارشل لاء کے ضابطے 12 کے تحت ان کو رہائش گاہ المرتضیٰ لاڑکانہ سے گرفتار کر کے نظر بند کر دیا گیا۔ تو حکومت کے اس اقدام کو بیگم نصرت بھٹو نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ سپریم کورٹ نے اُس زمانے میں کمالِ انصاف کے تحت اُس اپیل کو سماعت کے لیے منظور کر لیا۔ نصرت بھٹو کے وکیل یحییٰ بختیار نے کسی حد تک عاصمہ جیلانی کیس پر انحصار کرتے ہوئے دلائل پیش کیے۔ اور عدالت عالیہ کو بتایا کہ 1973ء کے آئین میں کوئی بھی چیف آف آرمی اسٹاف مارشل لاء نافذ نہیں کر سکتا ان کا یہ اقدام آئین کے آرٹیکل 6 کی رو سے آئین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ حکومت کی پیروی میں اے کے بروہی نے اس کیس میں یہ دلائل دیے کہ ضیاء مارشل لاء کے تحت ایک نیا نظام معرضِ وجود میں آ گیا ہے اس لیے عدالتوں کے دائرہ اختیار میں تبدیلی آ گئی ہے۔
اس دائرہ اختیار کو بعد میں نظریہ ضرورت کا نام دیا گیا۔ بھٹو نے اس کیس میں اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے یہ کہا تھا آئین کے بغیر ملکی یکجہتی اور سلامتی کا تصور محال ہے۔ دلائل چلتے رہے اور آخر کار 10 نومبر 1977ء کو چیف جسٹس انوار الحق نے وکلاء اور بھٹو کا بیان سننے کے بعد یہ فیصلہ سنایا کہ جنرل ضیاء الحق کا اقدام آئین توڑنا جائز ہے۔ اس لیے عدالت بیگم نصرت بھٹو کی درخواست خارج کرتی ہے۔ اس کیس کی خاص بات یہ تھی کہ حکومت کے وکیل اے کے بروہی عاصمہ جیلانی کیس میں ایوب خان کے مارشل لاء کے خلاف دلائل دیتے رہے۔ پھر وہی بروہی اپنے دلائل کے برعکس دکھائی دیے بھٹو دشمنی میں عدلیہ اور وکلاء کو یہ یاد ہی نہ رہا کہ چند سال پہلے تک یہی عدالت تھی حتیٰ کہ وکلاء بھی وہی تھے لیکن فیصلہ اس کے برعکس تھا۔ نصرت بھٹو یہاں ہار گئیں۔ لیکن تاریخ میں ان کا نام جیتنے والوں میں لکھا جاتا تھا۔
کچھ ہی عرصے بعد اسی عدالت نے جب بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی تو بیگم نصرت بھٹو بے سرو سامانی میں المرتضیٰ لاڑکانہ میں اپنی زندگی کی جنگ کچھ یوں لڑ رہی تھی کہ ضیاء نے ان کے تمام بینک اکاؤنٹ سیز کر رکھے تھے۔ گزر اوقات کے ذرایع نہ ہونے کے برابر تھے۔ لیکن اس کے باوجود نصرت بھٹو کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔
انھی دنوں ملتان میں چند کارکنوں کا گروپ بیگم نصرت بھٹو سے اظہارِ تعزیت کرنے کے لیے لاڑکانہ گیا تو پی پی کے پرانے کارکنوں کو دیکھ کر وہ آبدیدہ ہو گئیں۔ اس ملاقات کے بارے میں ترقی پسند دانشور محمد افضل شیخ راوی ہیں کہ جب وہ گروپ بیگم صاحبہ سے اجازت لے کر بس اڈے پر پہنچا ہی تھا کہ اسی اثناء میں بھٹو کے گھر کا ایک ملازم بھاگتا بھاگتا اڈے پر آیا اور ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا کہ جب بیگم صاحبہ کو یہ معلوم ہوا کہ ملتان کے مہمان دوپہر کے کھانے کے وقت کھانا کھائے بغیر چلے گئے ہیں۔ تو انھوں نے فوراً کہا سب مہمانوں کے لیے کھانا تیار کیا جائے اور مہمانوں کو واپس بلایا جائے۔ یہ سنتے ہی پی پی کے کارکنوں کی آنکھوں میں آنسو آئے کہ بھٹو کی پھانسی کے باوجود بیگم نصرت بھٹو اپنے کارکنوں سے اُسی طرح محبت کرتی ہیں جس طرح بھٹو کرتے تھے۔
1988ء کی اسمبلی میں پیر ریاض حسین قریشی اُسی حلقے سے ایم این اے منتخب ہوئے جہاں سے حالیہ ضمنی انتخاب میں جاوید ہاشمی کو شکست ہوئی۔ پیر ریاض حسین قریشی کا تعلق پی پی سے تھا۔ اسی لیے حکومت سے بہت سی توقعات وابستہ کیے ہوئے تھے۔ اکثر وزیر اعظم بے نظیر بٹھو سے شاکی رہتے تھے۔ حتیٰ کہ جب بی بی کے خلاف اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد پیش کی تو پیر ریاض حسین قریشی کی گنتی اپوزیشن والے اپنے گروپ میں کرتے تھے۔ بعد میں پیر صاحب نے وزیر اعظم پر اعتماد کا اظہار بھی کر دیا۔ انھی دنوں بیگم نصرت بھٹو نے پیر صاحب کو کہا ''آپ میری بیٹی کو تنگ نہ کیا کریں۔ اگر اس سے کوئی شکایت ہے تو آپ مجھ کو بتا دیا کریں کہ بے نظیر بھٹو یہ عہدہ قبول کر کے کتنی دکھی ہے یہ صرف میں ہی جانتی ہیں۔''
نصرت بھٹو کی زندگی کے بے شمار پہلو ایسے ہیں جن کو منظر عام پر لانا بے حد ضروری ہے بھٹو سے ان کی شادی 8 ستمبر 1951ء کو کراچی میں ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بھٹو کی پہچان ایک وکیل اور بڑے جاگیردار کی تھی۔ شادی سے قبل ان دونوں کی پہلی ملاقات بمبئی کے قریب ہل اسٹیشن کھڈالہ کے مقام پر ہوئی پھر بھٹو نے نصرت کو اپنی بہن کے گھر دیکھا جب نصرت بیگم نے فوجی وردی پہن رکھی تھی۔ خاندان کی رضا مندی کے بغیر جب دونوں نے شادی کی تو تب کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا آنے والے کئی سالوں میں نصرت بھٹو کی اولاد پاکستان کی سیاست میں مرکزی کردار ادا کرے گی۔
بیگم نصرت بھٹو کا انتقال 23 اکتوبر 2011ء کو ہوا۔ لیکن مورخ ابھی تک یہ طے نہیں کر پایا کہ ان کی اصل تاریخ وفات کیا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں بیگم نصرت بھٹو اپنے خاوند کے ساتھ ہی موت کی وادی میں اتر گئیں۔ لیکن وہ اپنے بچوں کی خاطر سانس لیتی رہیں۔ بہت سے احباب کا یہ کہنا ہے کہ جب ان کے سب سے چھوٹے بیٹے شاہنواز نے کفن پہنا تو تب بیگم نصرت بھٹو نے ایک مرتبہ پھر وہی کفن اوڑھنا چاہا تو اس کے سامنے مرتضیٰ بھٹو، بے نظیر بھٹو اور صنم بھٹو کے چہرے آ گئے۔ 20 ستمبر 1996ء کی شب کراچی میں مرتضیٰ بھٹو کو اپنے ہی خون سے نہلایا گیا تو بیگم نصرت بھٹو کو یہ یاد ہی نہ رہا کہ وہ کون ہے۔ شنید ہے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو جب اپنے بھائی کے سوئم کے بعد دکھوں کی ماری ماں کو واپس اسلام آباد وزیر اعظم ہاؤس میں لائی تو انھوں نے بات چیت ختم کر دی تھی۔
وزیر اعظم ہاؤس کی ویران لابیوں میں اپنے بیٹے کا نام لے کر جب پھرا کرتی تھیں تو بازگشت سے ''میرو میرو''کی آواز سنتے ہی بے نظیر بھٹو بے چین ہو جایا کرتی تھیں آخر کار جب فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کے اقتدار پر شب خون مارا تو انھوں کی زخم خوردہ بے نظیر بھٹو دکھی نصرت بھٹو کو لے کر پہلے کراچی اور پھر دبئی چلی گئیں 18 اکتوبر 2007ء کو بے نظیر بھٹو جب پاکستان آنے سے قبل اپنی ماں کو دیکھنے کے لیے ان کے کمرے میں گئیں تو ریشم جیسی نصرت بھٹو پتھر آنکھوں سے یہ سوال کر رہی تھی بیٹا خیال سے جانا۔ تم اس سرزمین پر جا رہی ہو جہاں اس سے قبل تمہارے باپ اور بھائی بھی گڑھی خدا بخش کے قبرستان کو آباد کر چکے ہیں۔
بے نظیر بھٹو کو جلدی تھی اور اتنی جلدی کہ اُس نے ماں سے پہلے گڑھی خدا بخش کے قبرستان کو آباد کیا کہ وہ جانتی تھی کہ چند سالوں بعد اس کے پہلو میں ایسی عورت نے آنا تھا جس نے دنیا میں نصرت کی بجائے شکست کھائی۔ حالانکہ اس کا خاوند پاکستان کا مقبول ترین وزیر اعظم اور اس لی لاڈلی بیٹی اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھی۔
کبھی قذافی اسٹیڈیم میں پولیس کی مار کھا کر لہولہان ہوئی تو کبھی وہ عدلیہ کے ضمیر کو جگانے کی سعی کرتی رہی۔ 17 ستمبر 1977ء کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو مارشل لاء کے ضابطے 12 کے تحت ان کو رہائش گاہ المرتضیٰ لاڑکانہ سے گرفتار کر کے نظر بند کر دیا گیا۔ تو حکومت کے اس اقدام کو بیگم نصرت بھٹو نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ سپریم کورٹ نے اُس زمانے میں کمالِ انصاف کے تحت اُس اپیل کو سماعت کے لیے منظور کر لیا۔ نصرت بھٹو کے وکیل یحییٰ بختیار نے کسی حد تک عاصمہ جیلانی کیس پر انحصار کرتے ہوئے دلائل پیش کیے۔ اور عدالت عالیہ کو بتایا کہ 1973ء کے آئین میں کوئی بھی چیف آف آرمی اسٹاف مارشل لاء نافذ نہیں کر سکتا ان کا یہ اقدام آئین کے آرٹیکل 6 کی رو سے آئین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ حکومت کی پیروی میں اے کے بروہی نے اس کیس میں یہ دلائل دیے کہ ضیاء مارشل لاء کے تحت ایک نیا نظام معرضِ وجود میں آ گیا ہے اس لیے عدالتوں کے دائرہ اختیار میں تبدیلی آ گئی ہے۔
اس دائرہ اختیار کو بعد میں نظریہ ضرورت کا نام دیا گیا۔ بھٹو نے اس کیس میں اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے یہ کہا تھا آئین کے بغیر ملکی یکجہتی اور سلامتی کا تصور محال ہے۔ دلائل چلتے رہے اور آخر کار 10 نومبر 1977ء کو چیف جسٹس انوار الحق نے وکلاء اور بھٹو کا بیان سننے کے بعد یہ فیصلہ سنایا کہ جنرل ضیاء الحق کا اقدام آئین توڑنا جائز ہے۔ اس لیے عدالت بیگم نصرت بھٹو کی درخواست خارج کرتی ہے۔ اس کیس کی خاص بات یہ تھی کہ حکومت کے وکیل اے کے بروہی عاصمہ جیلانی کیس میں ایوب خان کے مارشل لاء کے خلاف دلائل دیتے رہے۔ پھر وہی بروہی اپنے دلائل کے برعکس دکھائی دیے بھٹو دشمنی میں عدلیہ اور وکلاء کو یہ یاد ہی نہ رہا کہ چند سال پہلے تک یہی عدالت تھی حتیٰ کہ وکلاء بھی وہی تھے لیکن فیصلہ اس کے برعکس تھا۔ نصرت بھٹو یہاں ہار گئیں۔ لیکن تاریخ میں ان کا نام جیتنے والوں میں لکھا جاتا تھا۔
کچھ ہی عرصے بعد اسی عدالت نے جب بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی تو بیگم نصرت بھٹو بے سرو سامانی میں المرتضیٰ لاڑکانہ میں اپنی زندگی کی جنگ کچھ یوں لڑ رہی تھی کہ ضیاء نے ان کے تمام بینک اکاؤنٹ سیز کر رکھے تھے۔ گزر اوقات کے ذرایع نہ ہونے کے برابر تھے۔ لیکن اس کے باوجود نصرت بھٹو کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔
انھی دنوں ملتان میں چند کارکنوں کا گروپ بیگم نصرت بھٹو سے اظہارِ تعزیت کرنے کے لیے لاڑکانہ گیا تو پی پی کے پرانے کارکنوں کو دیکھ کر وہ آبدیدہ ہو گئیں۔ اس ملاقات کے بارے میں ترقی پسند دانشور محمد افضل شیخ راوی ہیں کہ جب وہ گروپ بیگم صاحبہ سے اجازت لے کر بس اڈے پر پہنچا ہی تھا کہ اسی اثناء میں بھٹو کے گھر کا ایک ملازم بھاگتا بھاگتا اڈے پر آیا اور ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا کہ جب بیگم صاحبہ کو یہ معلوم ہوا کہ ملتان کے مہمان دوپہر کے کھانے کے وقت کھانا کھائے بغیر چلے گئے ہیں۔ تو انھوں نے فوراً کہا سب مہمانوں کے لیے کھانا تیار کیا جائے اور مہمانوں کو واپس بلایا جائے۔ یہ سنتے ہی پی پی کے کارکنوں کی آنکھوں میں آنسو آئے کہ بھٹو کی پھانسی کے باوجود بیگم نصرت بھٹو اپنے کارکنوں سے اُسی طرح محبت کرتی ہیں جس طرح بھٹو کرتے تھے۔
1988ء کی اسمبلی میں پیر ریاض حسین قریشی اُسی حلقے سے ایم این اے منتخب ہوئے جہاں سے حالیہ ضمنی انتخاب میں جاوید ہاشمی کو شکست ہوئی۔ پیر ریاض حسین قریشی کا تعلق پی پی سے تھا۔ اسی لیے حکومت سے بہت سی توقعات وابستہ کیے ہوئے تھے۔ اکثر وزیر اعظم بے نظیر بٹھو سے شاکی رہتے تھے۔ حتیٰ کہ جب بی بی کے خلاف اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد پیش کی تو پیر ریاض حسین قریشی کی گنتی اپوزیشن والے اپنے گروپ میں کرتے تھے۔ بعد میں پیر صاحب نے وزیر اعظم پر اعتماد کا اظہار بھی کر دیا۔ انھی دنوں بیگم نصرت بھٹو نے پیر صاحب کو کہا ''آپ میری بیٹی کو تنگ نہ کیا کریں۔ اگر اس سے کوئی شکایت ہے تو آپ مجھ کو بتا دیا کریں کہ بے نظیر بھٹو یہ عہدہ قبول کر کے کتنی دکھی ہے یہ صرف میں ہی جانتی ہیں۔''
نصرت بھٹو کی زندگی کے بے شمار پہلو ایسے ہیں جن کو منظر عام پر لانا بے حد ضروری ہے بھٹو سے ان کی شادی 8 ستمبر 1951ء کو کراچی میں ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بھٹو کی پہچان ایک وکیل اور بڑے جاگیردار کی تھی۔ شادی سے قبل ان دونوں کی پہلی ملاقات بمبئی کے قریب ہل اسٹیشن کھڈالہ کے مقام پر ہوئی پھر بھٹو نے نصرت کو اپنی بہن کے گھر دیکھا جب نصرت بیگم نے فوجی وردی پہن رکھی تھی۔ خاندان کی رضا مندی کے بغیر جب دونوں نے شادی کی تو تب کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا آنے والے کئی سالوں میں نصرت بھٹو کی اولاد پاکستان کی سیاست میں مرکزی کردار ادا کرے گی۔
بیگم نصرت بھٹو کا انتقال 23 اکتوبر 2011ء کو ہوا۔ لیکن مورخ ابھی تک یہ طے نہیں کر پایا کہ ان کی اصل تاریخ وفات کیا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں بیگم نصرت بھٹو اپنے خاوند کے ساتھ ہی موت کی وادی میں اتر گئیں۔ لیکن وہ اپنے بچوں کی خاطر سانس لیتی رہیں۔ بہت سے احباب کا یہ کہنا ہے کہ جب ان کے سب سے چھوٹے بیٹے شاہنواز نے کفن پہنا تو تب بیگم نصرت بھٹو نے ایک مرتبہ پھر وہی کفن اوڑھنا چاہا تو اس کے سامنے مرتضیٰ بھٹو، بے نظیر بھٹو اور صنم بھٹو کے چہرے آ گئے۔ 20 ستمبر 1996ء کی شب کراچی میں مرتضیٰ بھٹو کو اپنے ہی خون سے نہلایا گیا تو بیگم نصرت بھٹو کو یہ یاد ہی نہ رہا کہ وہ کون ہے۔ شنید ہے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو جب اپنے بھائی کے سوئم کے بعد دکھوں کی ماری ماں کو واپس اسلام آباد وزیر اعظم ہاؤس میں لائی تو انھوں نے بات چیت ختم کر دی تھی۔
وزیر اعظم ہاؤس کی ویران لابیوں میں اپنے بیٹے کا نام لے کر جب پھرا کرتی تھیں تو بازگشت سے ''میرو میرو''کی آواز سنتے ہی بے نظیر بھٹو بے چین ہو جایا کرتی تھیں آخر کار جب فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کے اقتدار پر شب خون مارا تو انھوں کی زخم خوردہ بے نظیر بھٹو دکھی نصرت بھٹو کو لے کر پہلے کراچی اور پھر دبئی چلی گئیں 18 اکتوبر 2007ء کو بے نظیر بھٹو جب پاکستان آنے سے قبل اپنی ماں کو دیکھنے کے لیے ان کے کمرے میں گئیں تو ریشم جیسی نصرت بھٹو پتھر آنکھوں سے یہ سوال کر رہی تھی بیٹا خیال سے جانا۔ تم اس سرزمین پر جا رہی ہو جہاں اس سے قبل تمہارے باپ اور بھائی بھی گڑھی خدا بخش کے قبرستان کو آباد کر چکے ہیں۔
بے نظیر بھٹو کو جلدی تھی اور اتنی جلدی کہ اُس نے ماں سے پہلے گڑھی خدا بخش کے قبرستان کو آباد کیا کہ وہ جانتی تھی کہ چند سالوں بعد اس کے پہلو میں ایسی عورت نے آنا تھا جس نے دنیا میں نصرت کی بجائے شکست کھائی۔ حالانکہ اس کا خاوند پاکستان کا مقبول ترین وزیر اعظم اور اس لی لاڈلی بیٹی اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھی۔