اُردو ادب میں نظریہ سازی کا فقدان پہلا حصہ
سی سماج کی ترقی میں یا انسانی زندگی کی بہتر صورت بنانے میں ادب اور تنقیدی نظریات کا اہم کردار ہوتا ہے
ادب اور سماج کا رشتہ دوطرفہ ہے جو ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں کسی سماج کی حالت اس کے ادب کا آئینہ ہو سکتی ہے اور ادب اس سماج کا آئینہ ہو سکتا ہے، ہمارے سماج کی جو حالت ہے تقریباََ وہی حالت ادب و تنقید کی ہے، جس طرح سماج میں اپنی زمین سے جڑی ہوئی اشیاء یا مادی ثقافت میں مغرب کا عکس نمایاں ہے۔
اسی طرح ہمارے اذہان پر بھی مغربی نظریات و افکار کا غلبہ ہے۔ مغربی علوم کا حصول ضروری ہے تا کہ ہم تقابلی جائزہ لے سکیں، کہ کیوں مغرب والے ہم پر حکومت کرتے آئے ہیں اور ابھی تک ہمارے اذہان اور سماج پر ان کی فکر و تہذیب کا غلبہ، کیوں ہماری معیشت کی ہر صورت مغربی معیشت کے آئینے میں بنتی بگڑتی ہے؟ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی سوچ کو مغربی علوم اور نظریات کا غلام بنا دیں، اس کے برعکس ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مغربی سماج نے ادبی و تنقیدی نظریات اور سماجی و معاشی تھیوریوں کے ذریعے کیسے اپنے سماج کو ترقی دی اور اس ترقی میں ادب کا بنیادی کردار رہا ہے جس کے ذریعے کسی بھی خیال کو قبولیتِ عام ملتی رہی اور مجموعی شعور کی بلندی کا باعث بنتا رہا، مگر خیال کی سچائی کو ہمیشہ سماجی ساختوں میں پرکھا جاتا رہا، خیال کو مادی و ثقافتی معروضیت کا حصہ بنایا جاتا رہا اور معروضی مادی حقیقت ادیب و نقاد اور فلسفیوں کے خیالات پر اثر انداز ہوتی رہی۔
کوئی بھی سماج انسانی محنت کے ساتھ ساتھ خیال کی مادی صورت کا عکس ہوتا ہے اور سماجی مادی صورتحال خیالات کے جنم کا باعث بنتی رہی، خیال اور سماج کے مابین انسانوں کا فاعلانہ کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ سب سمجھنے کے لیے ہمیں دوسرے ترقی یافتہ سماج اور افکار کی تعلم حاصل تو کرنی چاہیے مگر اپنے سماج کو اپنی ضرورتوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے اس کا مجموعی شعور اپنے خیالات کے حوالے سے بلند کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
کیونکہ ہماری ضرورتیں ہمارے مختلف پس منظر کی وجہ سے مختلف ہیں، بالکل ایسے جیسے کسی سرد اور برف باری والے علاقے میں بنائے جانے والے گھر کی تعمیر اس طور ہوتی ہے کہ یخ بستہ ہواؤں کا گزر کم سے کم گھروں کے اندر سے ہو سکے اور اس کے برعکس گرم علاقوں میں تعمیر ہونے والے گھر اس طور بنائے جاتے ہیں کہ ہواؤں کی آمد و رفت باآسانی اور زیادہ سے زیادہ ہو سکے۔ اسی طرح ادب و سماج کی الگ الگ ضرورتیں ہیں، اس لیے ہمیں اپنے ادب کی بازیافت اپنی ضرورتوں کو مدِ نظر رکھ کر کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی سماج کی ترقی میں یا انسانی زندگی کی بہتر صورت بنانے میں ادب اور تنقیدی نظریات کا اہم کردار ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے اردو ادب بھی ہمارے سماج کی طرح مغربی نظریات کے حصار سے باہر نہیں نکل پا رہا۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ اردو ادب میں کوئی نظریہ موجود نہیں ہے، اور اب یہ سوال اُٹھایا جاتا ہے کہ کیوں کوئی آفاقی نظریہ اردو ادب میں نہیں ملتا۔ ویسے بھی آفاقیت کسی ایک سماج یا ادب سے مخصوص نہیں ہوتی، آفاقیت کا جوہر حدوں سے باہر ہوتا ہے، اس لیے اگر کوئی نظریہ اردو ادب کی کوکھ سے جنم لے گا تو وہ آفاقی نہیں ہو سکتا، بلکہ اردو ادب سے انسلاک ہی اس کی آفاقیت کی نفی کر دیتا ہے صرف اردو ادب ہی نہیں، بلکہ کسی بھی سماج، ادب اور زبان سے کسی نظریئے کی شناخت کا استحکام آفاقیت کے متضاد ہوتا ہے۔
اب یہ کہ اردو میں کوئی ادبی نظریہ یا تنقید نہیں ہے تو میں اس کی بنیادی وجہ اردو ادیب و نقاد کی اپنی فکری کمزوری کو سمجھتی ہوں، جو اردو ادب اور سماج کو تھیورائز کرنے میں نہ تو دلچسپی رکھتے ہیں اور نہ ہی اردو تنقید اس کی اہل ہو سکی ہے، مغرب یا دوسرے ممالک کے ادبی نظریات اور تنقید کیونکہ بنی بنائی مل گئی جس کا اطلاق اردو پر کرنا آسان کام تھا سو کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں تنقید کرنے والوں کے نام تو بن گئے اور شخصیات کے بت بھی تراشے گئے، مگر اردو ادب کا دامن خالی کا خالی رہ گیا۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ مغربی علوم کو حاصل نہ کیا جائے، مگر ہمیں ان کا فکری غلام نہیں بننا چاہیے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ہمارے اپنے ادب اور سماج کو بھی تھیورائز کرنا چاہیے۔ تھیوریوں کی بنیاد میں ہمارے اردو کے ادب پارے ہونے چاہیئں، اور یہ اخذ کیا جانا چاہیے کہ ان سے ہمارے سماج کا کیا کیا فائدہ ہو گا اور کیا کیا نقصان ہو سکتا ہے، مثبت پہلوؤں کی بنیاد پر عملی کام ہوں اور منفی پہلوؤں کے نقصانات سے بچنے کی تدابیر کی جائیں۔ تھیوری کے عمل میں ان خیالات کو بنیاد بنانا چاہیے جو ہمارے لکھاری اپنی تحاریر میں دیتے ہیں، مگر ایسا ابھی تک نہیں ہو سکا، دوسری طرف اہلِ ادب نے بھی اپنے اپنے گروپ تو بنا لیے مگر کوئی اپنے ادب اور سماج کے حوالے سے کسی فکر کی بنیاد پر کسی نظریے کی بنیاد پر خیالات کی پرورش نہیں کی گئی، بلکہ غیر جانبدارانہ رائے تک ہمارے ادب پر بمشکل ملتی ہے بس دو رویے غالب رہے ہیں حسابِ دشمناں اور احساسِ دوستاں، ان رویوں کی شناخت آج ہر کسی نے کر لی ہے، سوشل میڈیا کی وجہ سے رویوں میں تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے جو کہ خوش آیند بات ہے۔
اردو ادب میں کوئی نظریہ یا تنقید کا ظہور اس وقت ہو گا جب کوئی ادبی و تنقیدی نظریاتی نظام باقاعدہ ترتیب دیا جائے گا، یہ اس صورت میں ممکن ہے جب اردو ادب کی تخلیقات کا تنقیدی جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ان کے عملی سطح پر سماج پر ہونے والے اثرات کو تھیورائز کیا جائے گا کہ کن خیالات کی بنیاد پر کیسے رویوں نے جنم لیا اور ان کے کیا کیا اچھے نتائج نکلے یا کیا کیا برے نتائج نکل سکتے ہیں۔
علامہ اقبال کی شاعری اس کی مثال ہے جس کو باقاعدہ تھیوری کی شکل میں ڈھالنے کے لیے ایسے نقادوں کی ضرورت تھی جن کی اپنی سوچ انسان، ادب، مذہب اور سماج کے رشتے کے حوالے سے واضح ہوتی تو انھی بنیادوں پر کوئی اردو ادب میں نظریہ پنپ سکتا تھا، مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ اردو میں کسی نظریے کے جنم کے لیے ضروری ہے کہ اردو کے ادب پاروں پر باقاعدہ تحقیق کی جائے کہ اگر کسی نے کوئی خیال دیا ہے تو اس کی عملی حقیقت یا حیثیت کیا ہے، جیسا کہ بہت بنیادی خیال بانو قدسیہ نے اپنے ناول راجہ گدھ میں دیا تھا، اس کا میں کتنی ہی بار سوشل میڈیا پر تذکرہ کر چکی ہوں، ان کے ناول میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ رزق حرام کھانے والے یا کوئی بدنی حرام کرنے والے سزا سے گزرتے ہیں اور ان کی نسلوں میں کوئی نہ کوئی اس حرام کے نتیجے میں دیوانگی کا شکار ہو جاتا ہے۔
اس کے لیے بانو قدسیہ نے اپنے ناول میں گدھ جو مردار کھانے والا ہے کو علامت کے طور پر پیش کیا ہے اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لیے، کہ کیسے ایک گدھ مردار کھاتا ہے پھر اکثر راتوں کو دیوانہ وار پھرتا ہے۔ دوسری طرف ناول کا مرکزی کردار بھی اپنی اولاد کی دیوانگی کا دکھ اٹھاتا ہے کیونکہ مصنفہ نے اس کردار کے ذریعے بھی حرام کے اثرات کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔
(جاری ہے)
اسی طرح ہمارے اذہان پر بھی مغربی نظریات و افکار کا غلبہ ہے۔ مغربی علوم کا حصول ضروری ہے تا کہ ہم تقابلی جائزہ لے سکیں، کہ کیوں مغرب والے ہم پر حکومت کرتے آئے ہیں اور ابھی تک ہمارے اذہان اور سماج پر ان کی فکر و تہذیب کا غلبہ، کیوں ہماری معیشت کی ہر صورت مغربی معیشت کے آئینے میں بنتی بگڑتی ہے؟ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی سوچ کو مغربی علوم اور نظریات کا غلام بنا دیں، اس کے برعکس ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مغربی سماج نے ادبی و تنقیدی نظریات اور سماجی و معاشی تھیوریوں کے ذریعے کیسے اپنے سماج کو ترقی دی اور اس ترقی میں ادب کا بنیادی کردار رہا ہے جس کے ذریعے کسی بھی خیال کو قبولیتِ عام ملتی رہی اور مجموعی شعور کی بلندی کا باعث بنتا رہا، مگر خیال کی سچائی کو ہمیشہ سماجی ساختوں میں پرکھا جاتا رہا، خیال کو مادی و ثقافتی معروضیت کا حصہ بنایا جاتا رہا اور معروضی مادی حقیقت ادیب و نقاد اور فلسفیوں کے خیالات پر اثر انداز ہوتی رہی۔
کوئی بھی سماج انسانی محنت کے ساتھ ساتھ خیال کی مادی صورت کا عکس ہوتا ہے اور سماجی مادی صورتحال خیالات کے جنم کا باعث بنتی رہی، خیال اور سماج کے مابین انسانوں کا فاعلانہ کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ سب سمجھنے کے لیے ہمیں دوسرے ترقی یافتہ سماج اور افکار کی تعلم حاصل تو کرنی چاہیے مگر اپنے سماج کو اپنی ضرورتوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے اس کا مجموعی شعور اپنے خیالات کے حوالے سے بلند کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
کیونکہ ہماری ضرورتیں ہمارے مختلف پس منظر کی وجہ سے مختلف ہیں، بالکل ایسے جیسے کسی سرد اور برف باری والے علاقے میں بنائے جانے والے گھر کی تعمیر اس طور ہوتی ہے کہ یخ بستہ ہواؤں کا گزر کم سے کم گھروں کے اندر سے ہو سکے اور اس کے برعکس گرم علاقوں میں تعمیر ہونے والے گھر اس طور بنائے جاتے ہیں کہ ہواؤں کی آمد و رفت باآسانی اور زیادہ سے زیادہ ہو سکے۔ اسی طرح ادب و سماج کی الگ الگ ضرورتیں ہیں، اس لیے ہمیں اپنے ادب کی بازیافت اپنی ضرورتوں کو مدِ نظر رکھ کر کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی سماج کی ترقی میں یا انسانی زندگی کی بہتر صورت بنانے میں ادب اور تنقیدی نظریات کا اہم کردار ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے اردو ادب بھی ہمارے سماج کی طرح مغربی نظریات کے حصار سے باہر نہیں نکل پا رہا۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ اردو ادب میں کوئی نظریہ موجود نہیں ہے، اور اب یہ سوال اُٹھایا جاتا ہے کہ کیوں کوئی آفاقی نظریہ اردو ادب میں نہیں ملتا۔ ویسے بھی آفاقیت کسی ایک سماج یا ادب سے مخصوص نہیں ہوتی، آفاقیت کا جوہر حدوں سے باہر ہوتا ہے، اس لیے اگر کوئی نظریہ اردو ادب کی کوکھ سے جنم لے گا تو وہ آفاقی نہیں ہو سکتا، بلکہ اردو ادب سے انسلاک ہی اس کی آفاقیت کی نفی کر دیتا ہے صرف اردو ادب ہی نہیں، بلکہ کسی بھی سماج، ادب اور زبان سے کسی نظریئے کی شناخت کا استحکام آفاقیت کے متضاد ہوتا ہے۔
اب یہ کہ اردو میں کوئی ادبی نظریہ یا تنقید نہیں ہے تو میں اس کی بنیادی وجہ اردو ادیب و نقاد کی اپنی فکری کمزوری کو سمجھتی ہوں، جو اردو ادب اور سماج کو تھیورائز کرنے میں نہ تو دلچسپی رکھتے ہیں اور نہ ہی اردو تنقید اس کی اہل ہو سکی ہے، مغرب یا دوسرے ممالک کے ادبی نظریات اور تنقید کیونکہ بنی بنائی مل گئی جس کا اطلاق اردو پر کرنا آسان کام تھا سو کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں تنقید کرنے والوں کے نام تو بن گئے اور شخصیات کے بت بھی تراشے گئے، مگر اردو ادب کا دامن خالی کا خالی رہ گیا۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ مغربی علوم کو حاصل نہ کیا جائے، مگر ہمیں ان کا فکری غلام نہیں بننا چاہیے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ہمارے اپنے ادب اور سماج کو بھی تھیورائز کرنا چاہیے۔ تھیوریوں کی بنیاد میں ہمارے اردو کے ادب پارے ہونے چاہیئں، اور یہ اخذ کیا جانا چاہیے کہ ان سے ہمارے سماج کا کیا کیا فائدہ ہو گا اور کیا کیا نقصان ہو سکتا ہے، مثبت پہلوؤں کی بنیاد پر عملی کام ہوں اور منفی پہلوؤں کے نقصانات سے بچنے کی تدابیر کی جائیں۔ تھیوری کے عمل میں ان خیالات کو بنیاد بنانا چاہیے جو ہمارے لکھاری اپنی تحاریر میں دیتے ہیں، مگر ایسا ابھی تک نہیں ہو سکا، دوسری طرف اہلِ ادب نے بھی اپنے اپنے گروپ تو بنا لیے مگر کوئی اپنے ادب اور سماج کے حوالے سے کسی فکر کی بنیاد پر کسی نظریے کی بنیاد پر خیالات کی پرورش نہیں کی گئی، بلکہ غیر جانبدارانہ رائے تک ہمارے ادب پر بمشکل ملتی ہے بس دو رویے غالب رہے ہیں حسابِ دشمناں اور احساسِ دوستاں، ان رویوں کی شناخت آج ہر کسی نے کر لی ہے، سوشل میڈیا کی وجہ سے رویوں میں تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے جو کہ خوش آیند بات ہے۔
اردو ادب میں کوئی نظریہ یا تنقید کا ظہور اس وقت ہو گا جب کوئی ادبی و تنقیدی نظریاتی نظام باقاعدہ ترتیب دیا جائے گا، یہ اس صورت میں ممکن ہے جب اردو ادب کی تخلیقات کا تنقیدی جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ان کے عملی سطح پر سماج پر ہونے والے اثرات کو تھیورائز کیا جائے گا کہ کن خیالات کی بنیاد پر کیسے رویوں نے جنم لیا اور ان کے کیا کیا اچھے نتائج نکلے یا کیا کیا برے نتائج نکل سکتے ہیں۔
علامہ اقبال کی شاعری اس کی مثال ہے جس کو باقاعدہ تھیوری کی شکل میں ڈھالنے کے لیے ایسے نقادوں کی ضرورت تھی جن کی اپنی سوچ انسان، ادب، مذہب اور سماج کے رشتے کے حوالے سے واضح ہوتی تو انھی بنیادوں پر کوئی اردو ادب میں نظریہ پنپ سکتا تھا، مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ اردو میں کسی نظریے کے جنم کے لیے ضروری ہے کہ اردو کے ادب پاروں پر باقاعدہ تحقیق کی جائے کہ اگر کسی نے کوئی خیال دیا ہے تو اس کی عملی حقیقت یا حیثیت کیا ہے، جیسا کہ بہت بنیادی خیال بانو قدسیہ نے اپنے ناول راجہ گدھ میں دیا تھا، اس کا میں کتنی ہی بار سوشل میڈیا پر تذکرہ کر چکی ہوں، ان کے ناول میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ رزق حرام کھانے والے یا کوئی بدنی حرام کرنے والے سزا سے گزرتے ہیں اور ان کی نسلوں میں کوئی نہ کوئی اس حرام کے نتیجے میں دیوانگی کا شکار ہو جاتا ہے۔
اس کے لیے بانو قدسیہ نے اپنے ناول میں گدھ جو مردار کھانے والا ہے کو علامت کے طور پر پیش کیا ہے اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لیے، کہ کیسے ایک گدھ مردار کھاتا ہے پھر اکثر راتوں کو دیوانہ وار پھرتا ہے۔ دوسری طرف ناول کا مرکزی کردار بھی اپنی اولاد کی دیوانگی کا دکھ اٹھاتا ہے کیونکہ مصنفہ نے اس کردار کے ذریعے بھی حرام کے اثرات کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔
(جاری ہے)