بلا شاخ بینکاری صنعت ’ادائیگیوں کے نظام‘ یکجا کرنے کے حل تلاش کرے گورنر اسٹیٹ بینک
نظاموں کی یکجائی سے موبائل والٹس کے استعمال ومصنوعات میں اضافہ اور بینکوں کے کاروبار میں توسیع کے ساتھ پے منٹس۔۔۔
گورنر اسٹیٹ بینک اشرف محمود وتھرا نے کہا ہے کہ موبائل منی اپنے صارف کو پہچاننے کے کم از کم تقاضوں کے باعث مالی سہولتوں سے محروم عوام کی مالی خدمات تک رسائی کا موثر ذریعہ ثابت ہوا ہے۔
انہوں نے ان خیالات کا اظہار ایس بی پی، سی جی اے پی اور ڈی ایف آئی ڈی کے اشتراک سے ''شمولیت، نظاموں کی موثر یکجائی'' کے عنوان سے گزشتہ روز مقامی ہوٹل میں منعقد ہونے والی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اشرف محمود وتھرا نے صنعت کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ وہ مارکیٹ میں نظاموں کی یکجائی کے حل تلاش کریں تاکہ نظاموں کی یکجائی سے موبائل والٹس کے استعمال میں اضافہ ہو، صارفین کے لیے مصنوعات بڑھیں اور بینکوں کے کاروبار میں توسیع ہوسکے۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ مالی شمولیت کے لیے ہمارے مقاصد میں نہ صرف غریب طبقے تک رسائی بلکہ بینکاری استحکام اور معاشی ترقی بھی شامل ہیں، اسٹیٹ بینک کا وژن ہے کہ پیمنٹ سسٹم اور مالی شمولیت ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتے ہیں اور مستقبل میں ان کے مابین روابط مزید مضبوط ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس وژن کے مطابق ڈیجیٹل مالی شمولیت کو نیشنل فنانشل انکلوژن اسٹریٹجی (این ایف آئی ایس) میں بنیادی حیثیت حاصل ہوگی جو ابھی تشکیل کے مراحل میں ہے۔
اشرف محمود وتھرا نے کہا کہ پاکستان میں موبائل فون صارفین کی تعداد تقریباً 140 ملین ہے جبکہ اس کے مقابلے میں بینکاری اکائونٹس کی تعداد صرف 37 ملین ہے، ان اعدادو شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ''مالی خدمات سے محروم'' افراد کی ایک بڑی مارکیٹ موجود ہے جنہیں اشیا و خدمات کی خریداری، یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی، قرض لینے اور بچت کرنے یا اپنے مستقبل میں سرمایہ کاری کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ برانچ لیس بینکاری کا شعبہ بینکاری سہولتوں سے محروم علاقوں میں ان سہولتوں کے فروغ کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہو رہا ہے، اس کے ایجنٹوں کا نیٹ ورک 1 لاکھ 68 ہزار پر مشتمل ہے جبکہ ایم والٹس کی تعداد 4.2 ملین اور گزشتہ برس 1063 ارب روپے مالیت کی ٹرانزیکشنز کی گئیں، تیز رفتار نمو کے باوجود برانچ لیس بینکاری کی صنعت، مارکیٹ میں موجود امکانات کے لحاظ سے بڑے پیمانے پر موبائل والٹس کو رجسٹر نہیں کرسکی۔
گورنر اسٹیٹ بینک کے مطابق برانچ لیس بینکاری میں نظاموں کی یکجائی سے پے منٹس ایکو سسٹم کے تمام شرکا کو فائدہ پہنچے گا، اینڈ یوزر زبشمول صارفین، تاجر، حکومتیں اور دیگر انٹرپرائزز کے لیے ادائیگیاں کرنا اور قبول کرنا آسان ہو جائے گا، ان اینڈ یوزرز کے فراہم کنندگان میں بینک، نیٹ ورکس اور دیگر سروس پروائیڈرز یکجا نظاموں میں ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں گے جن سے استفادہ کرنا شاید بند لوپ یا غیر یکجا نظاموں میں ممکن نہ ہو۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے نظاموں کی یکجائی میں عالمی پیش رفت کا تبادلہ کر کے صنعت کی اعانت کر نے پر کنسلٹیٹو گروپ ٹو اسسٹ پور (سی جی اے پی) کے ماہرین کی ٹیم کا شکریہ ادا کیا۔ مقررین میں مالی شعبے کے سینئر ماہر کبیر کمار، سینئر اسپیشلسٹ میچل ہانوخ، برائن لی سار اور ڈا سار ڈائریکٹر بینک ایبل فرنٹیئر ایسوسی ایٹس شامل تھے جنہوں نے اس موقع پر برانچ لیس بینکاری کے نظاموں کی یکجائی پر عالمی تحقیق کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔
انہوں نے ان خیالات کا اظہار ایس بی پی، سی جی اے پی اور ڈی ایف آئی ڈی کے اشتراک سے ''شمولیت، نظاموں کی موثر یکجائی'' کے عنوان سے گزشتہ روز مقامی ہوٹل میں منعقد ہونے والی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اشرف محمود وتھرا نے صنعت کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ وہ مارکیٹ میں نظاموں کی یکجائی کے حل تلاش کریں تاکہ نظاموں کی یکجائی سے موبائل والٹس کے استعمال میں اضافہ ہو، صارفین کے لیے مصنوعات بڑھیں اور بینکوں کے کاروبار میں توسیع ہوسکے۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ مالی شمولیت کے لیے ہمارے مقاصد میں نہ صرف غریب طبقے تک رسائی بلکہ بینکاری استحکام اور معاشی ترقی بھی شامل ہیں، اسٹیٹ بینک کا وژن ہے کہ پیمنٹ سسٹم اور مالی شمولیت ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتے ہیں اور مستقبل میں ان کے مابین روابط مزید مضبوط ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس وژن کے مطابق ڈیجیٹل مالی شمولیت کو نیشنل فنانشل انکلوژن اسٹریٹجی (این ایف آئی ایس) میں بنیادی حیثیت حاصل ہوگی جو ابھی تشکیل کے مراحل میں ہے۔
اشرف محمود وتھرا نے کہا کہ پاکستان میں موبائل فون صارفین کی تعداد تقریباً 140 ملین ہے جبکہ اس کے مقابلے میں بینکاری اکائونٹس کی تعداد صرف 37 ملین ہے، ان اعدادو شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ''مالی خدمات سے محروم'' افراد کی ایک بڑی مارکیٹ موجود ہے جنہیں اشیا و خدمات کی خریداری، یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی، قرض لینے اور بچت کرنے یا اپنے مستقبل میں سرمایہ کاری کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ برانچ لیس بینکاری کا شعبہ بینکاری سہولتوں سے محروم علاقوں میں ان سہولتوں کے فروغ کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہو رہا ہے، اس کے ایجنٹوں کا نیٹ ورک 1 لاکھ 68 ہزار پر مشتمل ہے جبکہ ایم والٹس کی تعداد 4.2 ملین اور گزشتہ برس 1063 ارب روپے مالیت کی ٹرانزیکشنز کی گئیں، تیز رفتار نمو کے باوجود برانچ لیس بینکاری کی صنعت، مارکیٹ میں موجود امکانات کے لحاظ سے بڑے پیمانے پر موبائل والٹس کو رجسٹر نہیں کرسکی۔
گورنر اسٹیٹ بینک کے مطابق برانچ لیس بینکاری میں نظاموں کی یکجائی سے پے منٹس ایکو سسٹم کے تمام شرکا کو فائدہ پہنچے گا، اینڈ یوزر زبشمول صارفین، تاجر، حکومتیں اور دیگر انٹرپرائزز کے لیے ادائیگیاں کرنا اور قبول کرنا آسان ہو جائے گا، ان اینڈ یوزرز کے فراہم کنندگان میں بینک، نیٹ ورکس اور دیگر سروس پروائیڈرز یکجا نظاموں میں ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں گے جن سے استفادہ کرنا شاید بند لوپ یا غیر یکجا نظاموں میں ممکن نہ ہو۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے نظاموں کی یکجائی میں عالمی پیش رفت کا تبادلہ کر کے صنعت کی اعانت کر نے پر کنسلٹیٹو گروپ ٹو اسسٹ پور (سی جی اے پی) کے ماہرین کی ٹیم کا شکریہ ادا کیا۔ مقررین میں مالی شعبے کے سینئر ماہر کبیر کمار، سینئر اسپیشلسٹ میچل ہانوخ، برائن لی سار اور ڈا سار ڈائریکٹر بینک ایبل فرنٹیئر ایسوسی ایٹس شامل تھے جنہوں نے اس موقع پر برانچ لیس بینکاری کے نظاموں کی یکجائی پر عالمی تحقیق کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔