چار صوبے کیوں
دم تحفظ خواہ نسل کی بنیاد پر ہو یا لسان کی بنیاد پر، اس کی بنیاد مذہب ہو یا فرقہ، یہ اتنا گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ۔۔۔
پاکستان کے طول و عرض میں نئے انتظامی صوبوں کے قیام کے حق اور مخالفت میں بحث عام ہو چکی ہے۔ اس پر شکر ادا کرنا چاہیے کہ دیر آید درست آید کے مصداق ہم نے اس حقیقت کا ادراک کر لیا جس کے سبب ہم آزادی کے سٹرسٹھ سالوں کے بعد بھی فرسودہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کی 40 فیصد سے زائد آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ قوم کا وہ نوجوان جو آبادی کا نصف سے زائد ہے، اپنی سمت سے محروم ہے۔
ذرایع روزگار اور مستقبل کے حوالے سے اس کے ذہن میں انتشار کی کیفیت نظر آتی ہے۔ کہنے کو جمہوری نظام موجود ہے لیکن اس پر دو رائے نہیں کہ موجودہ نظام نہ تو وہ نتائج دے سکا جس کے لیے قائم کیا گیا تھا اور نہ ہی روٹی، کپڑا اور مکان فراہم کر سکا۔ عوام کی عزتِ نفس آج بھی مجروح ہوتی ہے۔ ملک کے پینسٹھ سالوں میں اڑتیس برس طالع آزماؤں نے حکمرانی کی اور باقی ماندہ وقت میں جمہوریت کا راگ الاپا گیا۔ نہ ہی جمہوریت کی نرسری مقامی حکومتوں کا نظام جمہوریت دے سکی اور نہ ہی طالع آزما اپنے دیے ہوئے نظام کو دوام بخش سکے۔
اس تمام تر صورتحال میں اگر کسی کا نقصان ہوا ہے تو وہ پاکستان کے عوام ہیں۔ مخصوص طبقہ دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہا ہے جسے ہم دو فیصد مراعات یافتہ طبقہ بھی کہہ سکتے ہیں اور جسے پاکستان پر حکمرانی کرنے والے چند سو خاندانوں کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ یہ جاگیردار وڈیرے، سرمایہ دار بھی کہلاتے ہیں۔ اگر یہ حقیقت نہیں ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ وسائل سے مالا مال ملک کے عوام کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اولاد کو فروخت کرنا، خودکشی پر مجبور ہونا، اس ملک میں عام رواج بنتا جا رہا ہے۔ عدم تحفظ خواہ نسل کی بنیاد پر ہو یا لسان کی بنیاد پر، اس کی بنیاد مذہب ہو یا فرقہ، یہ اتنا گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ اس کا توڑ کیا جانا لازمی ہو چکا ہے۔ آج جو بحث ہمارے ملک میں چل رہی ہے، کہ نئے انتظامی یونٹس کا قیام ہو یا نہ ہوتو جو لوگ اس تقسیم کے خلاف ہیں، ان کے پاس کوئی معقول جواز نہیں۔ ہاں، البتہ پاکستان میں نسلی و لسانی تقسیم کو بنیاد بنا کر کوئی اپنی زمین کو ماں بنا کر پیش کر رہا ہے تو کوئی اپنی تہذیب و ثقافت پر فخر کرتا پھر رہا ہے۔
دراصل یہ مخالفت اس لیے ہے کہ نئے انتظامی یونٹس سے وسائل کی تقسیم نچلی سطح تک ممکن ہو سکے گی۔ اب ملکی دولت 4 صوبوں میں تقسیم ہوتی ہے اور بڑے لوگ اس کو ہڑپ کر جاتے ہیں۔ اگر صوبے اتنے ہی غلط ہیں تو پھر پاکستان میں چار صوبے کیوں ہیں؟ ون یونٹ بنا دیا جائے اور اگر صوبے، ڈویژن اور ڈسٹرکٹس ترقی کی بنیاد ہیں تو پھر نچلی سطح تک عوام کو با اختیار کیوں نہیں بنایا جاتا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو حکمراں طبقہ عوام کو بلدیاتی نظام نہ دے، وہ وسائل کس طرح سے منصفانہ بنیادوں پر خرچ کر سکتا ہے؟ یہی وہ دُکھتی رگ ہے جس کی بنیاد پر وفاق کی نئی اکائیوں کے قیام کو ملک دشمنی اور قوم کو توڑنے کی بات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آج قوم ہے کہاں؟ اس قوم کو کون تلاش کرے گا جس کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح نے ارضِ وطن پاکستان بنایا تھا؟ اب اگر چار قومیتوں کے علاوہ دیگر کسی قومیت کو اختیار کرنا گالی قرار دیا جائے گا تو کیا انسان کی عزتِ نفس مجروح نہیں ہو گی؟
رنگا رنگ تقاریب کر کے ان سے خطاب کرنا اور سندھ دشمنی کا طعنہ دینا ہی سیاست ہے تو یہ بات بھی ہمیں ذہنوں میں رکھنی چاہیے کہ اگر آج اکیسویں صدی میں ہم نے پاکستان کے عوام کو ان کے حقوق نہ دیے اور انھیں بااختیار نہ بنایا تو معاملات صوبوں سے آگے بڑھ جائیں گے۔ اس کی ہلکی سی عکاسی صوبہ بلوچستان کی صورتحال سے ہو جاتی ہے جہاں بعض حصوں میں قومی ترانہ ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ چند سرکاری عمارتوں کے علاوہ باقی جگہ قومی پرچم نظر نہیں آتا۔
ایسی ایک چنگاری سندھو دیش کے نام سے سندھ میں موجود ہے جسے سندھ کے قوم پرست ہوا دینے پر تلے ہوئے ہیں لہٰذا وقت تقاضا کر رہا ہے کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم کے لیے ملک میں انتظامی بنیادوں پر صوبے بنائے جائیں۔ انھیں مالی و سیاسی اختیارات فراہم کیے جائیں۔ وفاق ایک مشترکہ وحدت کے طور پر ان صوبوں کو لے کر آگے چلے۔ موجودہ قوانین میں تو اس کا قیام مشکل نظر آتا ہے لیکن ترقی کا کلیہ بہرحال چھوٹے انتظامی یونٹس میں ہی چھپا ہوا ہے۔ ملک سے لسانیت اور عصبیت کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ان صوبوں کی تقسیم نسل یا لسان کی بنیاد پر نہ کی جائے بلکہ اسے انتظامی بنیادوں پر تقسیم کیا جائے۔
70ء کی دہائی میں 22 صوبوں کی ایک تجویز سامنے آئی تھی اور اس کی بنیاد ڈویژنز کو بنایا گیا تھا اور آج بھی ملک میں 26 ڈویژنز موجود ہیں۔ اگر انھیں انتظامی طور پر صوبوں کا درجہ دے دیا جائے تو بڑی انتظامی تبدیلیوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندیاں سردست تو متاثر نہیں ہوں گی، ہاں، البتہ مستقبل میں انھیں مزید تقسیم کرنے میں آسانی ہو گی۔ بعض ڈویژنز آبادی کے اعتبار سے اتنا حجم نہیں رکھتے کہ انھیں صوبائی درجہ دیا جائے تو ایسے ڈویژنز کو قریبی ڈویژنز میں ضم کیا جا سکتا ہے۔ اس پر بحث کی گنجائش موجود ہے۔ ایک تجویز ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے بھی دی ہے کہ ملک میں 20 انتظامی یونٹس قائم کر کے عوام کو بااختیار بنایا جائے۔ مخالفت عقل اور دلیل کی بنیاد پر کی جائے۔ ماضی کی رنجشوں اور سیاسی مخاصمت کو ملحوظِ خاطر نہ رکھا جائے۔
ذرایع روزگار اور مستقبل کے حوالے سے اس کے ذہن میں انتشار کی کیفیت نظر آتی ہے۔ کہنے کو جمہوری نظام موجود ہے لیکن اس پر دو رائے نہیں کہ موجودہ نظام نہ تو وہ نتائج دے سکا جس کے لیے قائم کیا گیا تھا اور نہ ہی روٹی، کپڑا اور مکان فراہم کر سکا۔ عوام کی عزتِ نفس آج بھی مجروح ہوتی ہے۔ ملک کے پینسٹھ سالوں میں اڑتیس برس طالع آزماؤں نے حکمرانی کی اور باقی ماندہ وقت میں جمہوریت کا راگ الاپا گیا۔ نہ ہی جمہوریت کی نرسری مقامی حکومتوں کا نظام جمہوریت دے سکی اور نہ ہی طالع آزما اپنے دیے ہوئے نظام کو دوام بخش سکے۔
اس تمام تر صورتحال میں اگر کسی کا نقصان ہوا ہے تو وہ پاکستان کے عوام ہیں۔ مخصوص طبقہ دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہا ہے جسے ہم دو فیصد مراعات یافتہ طبقہ بھی کہہ سکتے ہیں اور جسے پاکستان پر حکمرانی کرنے والے چند سو خاندانوں کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ یہ جاگیردار وڈیرے، سرمایہ دار بھی کہلاتے ہیں۔ اگر یہ حقیقت نہیں ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ وسائل سے مالا مال ملک کے عوام کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اولاد کو فروخت کرنا، خودکشی پر مجبور ہونا، اس ملک میں عام رواج بنتا جا رہا ہے۔ عدم تحفظ خواہ نسل کی بنیاد پر ہو یا لسان کی بنیاد پر، اس کی بنیاد مذہب ہو یا فرقہ، یہ اتنا گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ اس کا توڑ کیا جانا لازمی ہو چکا ہے۔ آج جو بحث ہمارے ملک میں چل رہی ہے، کہ نئے انتظامی یونٹس کا قیام ہو یا نہ ہوتو جو لوگ اس تقسیم کے خلاف ہیں، ان کے پاس کوئی معقول جواز نہیں۔ ہاں، البتہ پاکستان میں نسلی و لسانی تقسیم کو بنیاد بنا کر کوئی اپنی زمین کو ماں بنا کر پیش کر رہا ہے تو کوئی اپنی تہذیب و ثقافت پر فخر کرتا پھر رہا ہے۔
دراصل یہ مخالفت اس لیے ہے کہ نئے انتظامی یونٹس سے وسائل کی تقسیم نچلی سطح تک ممکن ہو سکے گی۔ اب ملکی دولت 4 صوبوں میں تقسیم ہوتی ہے اور بڑے لوگ اس کو ہڑپ کر جاتے ہیں۔ اگر صوبے اتنے ہی غلط ہیں تو پھر پاکستان میں چار صوبے کیوں ہیں؟ ون یونٹ بنا دیا جائے اور اگر صوبے، ڈویژن اور ڈسٹرکٹس ترقی کی بنیاد ہیں تو پھر نچلی سطح تک عوام کو با اختیار کیوں نہیں بنایا جاتا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو حکمراں طبقہ عوام کو بلدیاتی نظام نہ دے، وہ وسائل کس طرح سے منصفانہ بنیادوں پر خرچ کر سکتا ہے؟ یہی وہ دُکھتی رگ ہے جس کی بنیاد پر وفاق کی نئی اکائیوں کے قیام کو ملک دشمنی اور قوم کو توڑنے کی بات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آج قوم ہے کہاں؟ اس قوم کو کون تلاش کرے گا جس کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح نے ارضِ وطن پاکستان بنایا تھا؟ اب اگر چار قومیتوں کے علاوہ دیگر کسی قومیت کو اختیار کرنا گالی قرار دیا جائے گا تو کیا انسان کی عزتِ نفس مجروح نہیں ہو گی؟
رنگا رنگ تقاریب کر کے ان سے خطاب کرنا اور سندھ دشمنی کا طعنہ دینا ہی سیاست ہے تو یہ بات بھی ہمیں ذہنوں میں رکھنی چاہیے کہ اگر آج اکیسویں صدی میں ہم نے پاکستان کے عوام کو ان کے حقوق نہ دیے اور انھیں بااختیار نہ بنایا تو معاملات صوبوں سے آگے بڑھ جائیں گے۔ اس کی ہلکی سی عکاسی صوبہ بلوچستان کی صورتحال سے ہو جاتی ہے جہاں بعض حصوں میں قومی ترانہ ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ چند سرکاری عمارتوں کے علاوہ باقی جگہ قومی پرچم نظر نہیں آتا۔
ایسی ایک چنگاری سندھو دیش کے نام سے سندھ میں موجود ہے جسے سندھ کے قوم پرست ہوا دینے پر تلے ہوئے ہیں لہٰذا وقت تقاضا کر رہا ہے کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم کے لیے ملک میں انتظامی بنیادوں پر صوبے بنائے جائیں۔ انھیں مالی و سیاسی اختیارات فراہم کیے جائیں۔ وفاق ایک مشترکہ وحدت کے طور پر ان صوبوں کو لے کر آگے چلے۔ موجودہ قوانین میں تو اس کا قیام مشکل نظر آتا ہے لیکن ترقی کا کلیہ بہرحال چھوٹے انتظامی یونٹس میں ہی چھپا ہوا ہے۔ ملک سے لسانیت اور عصبیت کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ان صوبوں کی تقسیم نسل یا لسان کی بنیاد پر نہ کی جائے بلکہ اسے انتظامی بنیادوں پر تقسیم کیا جائے۔
70ء کی دہائی میں 22 صوبوں کی ایک تجویز سامنے آئی تھی اور اس کی بنیاد ڈویژنز کو بنایا گیا تھا اور آج بھی ملک میں 26 ڈویژنز موجود ہیں۔ اگر انھیں انتظامی طور پر صوبوں کا درجہ دے دیا جائے تو بڑی انتظامی تبدیلیوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندیاں سردست تو متاثر نہیں ہوں گی، ہاں، البتہ مستقبل میں انھیں مزید تقسیم کرنے میں آسانی ہو گی۔ بعض ڈویژنز آبادی کے اعتبار سے اتنا حجم نہیں رکھتے کہ انھیں صوبائی درجہ دیا جائے تو ایسے ڈویژنز کو قریبی ڈویژنز میں ضم کیا جا سکتا ہے۔ اس پر بحث کی گنجائش موجود ہے۔ ایک تجویز ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے بھی دی ہے کہ ملک میں 20 انتظامی یونٹس قائم کر کے عوام کو بااختیار بنایا جائے۔ مخالفت عقل اور دلیل کی بنیاد پر کی جائے۔ ماضی کی رنجشوں اور سیاسی مخاصمت کو ملحوظِ خاطر نہ رکھا جائے۔