کھیل کود بھارت کرکٹ کا نیا امریکا
بھارت اب کرکٹ کا امریکا ہوگیا ہے۔ جب چاہےجیسے چاہےاپنے مفادات کے خلاف فیصلہ کرنے والوں کو سبق سکھانے کا ہنر آچکا ہے۔
UNIVERSITY OF KARACHI:
جو قومیں معاشی ترقی، تعلیم اور محنت کے میدان میں خود کو منواتی ہیں وہ عروج پاتی ہیں اور اپنی تقدیر کے فیصلے خود کرتیں ہیں ۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہمارا ہمسایہ ملک ہندوستان ہے ۔ پچھلے دنوں ایک خبر پڑھی کہ ویسٹ انڈیز ٹیم اپنے کرکٹ بورڈ سے معاوضوں کا تنازعہ طے نہ ہونے پر بھارت میں جاری سیریز ادھوری چھوڑ کرواپس اپنے وطن لوٹ گئی۔
میرے دل میں بھارت کے حوالے سے جو بھی جذبات ہوں اِس کے باوجود مجھے ویسٹ انڈیز کے فیصلے پر افسوس ہوا کہ اِس کسی اور کو نہیں کرکٹ کھیل کو نقصان پہنچایا۔ ویسٹ انڈیز کے اِس غلط فیصلے کے باوجود اگر یہ سب کچھ پاکستان کے ساتھ ہوا ہوتا تو ہمارا بورڈ کہتا کہ یہ ویسٹ انڈیز کا اندرونی معاملہ ہے ہم اِس میں کچھ نہیں کہہ سکتے ، بلکہ یہ معاملہ پاکستان کے ساتھ نہیں شاید ہر اُس کمزور بورڈ کا ہوتا جو تھوڑا کمزورہوتا، بلکہ مجھے کہنے کی اجازت دیجیے کہ اگر یہ واقعہ آج سے دس سال پہلے ہوا ہوتا تو بھارت بھی اِسی قسم کا جواب دیتا۔
مگر اب حالات تبدیل ہوگئے ہیں۔ بھارت اب پرانا بھارت نہیں رہا بلکہ وہ تو کرکٹ کا امریکا ہوگیا ہے۔ جب چاہے جیسے چاہے اپنے مفادات کے خلاف فیصلہ کرنے والوں کو سبق سکھانے کا ہنر آچکا ہے اب اِس کو۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ بھارت نے سزا کے طور پہ نہ صرف ویسٹ انڈیز کے ساتھ آئند کھیلے جانے والی تمام کرکٹ سیریز منسوخ کردی ہیں بلکہ مزید پابندیاں لگانے کا بھی سوچا جارہا ہے جبکہ دوسری طرف سری لنکن کرکٹ بورڈ نے بھارتی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے خود کو بھارت کے سامنے پیش کردیا اور اب اگلے ماہ دونوں ٹیموں کے مابین بھارت میں 5 ایک روزہ میچوں کی سیریز پلک جھپکتے طے پاگئی ہے۔ سری لنکن کرکٹ بورڈ کو اس وفا داری کے صلے میں آئندہ برس بھارت سے تین ٹیسٹ میچ ملنے کی امید ہے۔یہ سیریزممکنہ طور پر اگست میں سری لنکن میدانوں پرکھیلی جائے گی۔
معزز قارئین کیا آپ نے غور کیا کہ ایک طرف بھارت، ویسٹ انڈینز کرکٹ ٹیم کو سزا دینے کے لیے اس پر پابندیاں لگانے کا سوچ رہا ہے دوسری طرف سری لنکن کرکٹ بورڈ بھارتی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے فوری طورپر سیریز کھیلنے کے لیے رضامند ہوچکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر بھارت نے اتنا اثرورسوخ کیسے حاصل کرلیا ؟ یہ ملکوں پہ پابندیاں لگانا اور اسطرح کی باتیں ہم امریکا سے متعلق سنا کرتے تھے ۔بالکل اِس موقع پر سوال اٹھتا ہے کہ ہم یعنی پاکستان کہاں کھڑا ہے ؟ جب بھارت خاموشی سے ترقی کررہا تھا ہم اُس وقت اپنے اندرونی مسائل سے نمٹنے میں مصروف عمل تھے۔
ایک طرف ہم ہندوستان کے مریخ کے مدار میں اپنا خلائی جہاز بھیجنے کی خبر سنتے ہیں ۔کبھی ہم انڈیا کی آئی ٹی کے میدان میں حیرت انگیز ترقی دیکھتے ہیں تو بھارتی فلم انڈسٹری پوری دنیا میں اپنی جگہ بنا رہی ہے اور اب کچھ اور نہیں تو بھارتی کرکٹ بورڈ پوری دنیائے کرکٹ کو اپنی مرضی کے مطابق چلا رہا ہے ۔ آسٹریلین کرکٹ بورڈ جس کے سامنے کسی دور میں پرندہ کبھی پر نہیں مار سکتا تھا آج اسے بھی کوئی فیصلہ کرنے کے لیے انڈیا کی مرضی درکار ہوتی ہے ۔ تلخ بات یہ ہے کہ ہم پاکستانی جو کہ ہر بات اور ہر کام میں انڈیا کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے تھے ہم کیوں ہر میدان میں مسلسل پیچھے کی جانب جارہے ہیں؟
آپ بھارت کو برا کہہ سکتے ہیں، اسکو دشمن کہہ سکتے ہیں وہ اپنی چودہراہٹ قائم کررہا ہے ایسا بول سکتے ہیں مگر چودہراہٹ بھی تو اسی کی قائم ہوتی ہے جواس مقا م تک آنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ہمارے کرکٹ بورڈ کا حال یہ تھا کہ چند ماہ پہلے یہ صورت حال تھی کہ ہر روز چئیر مین کرکٹ بورڈ بدلتا تھا ۔ ایک دن خبر ملتی تھی نجم سیٹھی چئیر مین ہے اگلے دن خبر ملتی تھی ذکا اشرف چئیر مین ہے ۔ہر روز تماشا لگتا تھا نہ ذکا اشرف ہار مانتا تھا اور نہ نجم سیٹھی نے ہار مانی اور چئیر مین شپ کی اس جنگ میں نتیجہ یہ نکلا کہ آج پاکستانی کرکٹ ٹیم کا جنازہ نکل چکا ہے ۔
یہ آج جس مقام پہ ہمارا ملک کھڑا ہے وہاں سے ہمیں جلد از جلد آگے نکلنے کی ضرورت ہے۔ جس ملک میں آج بھی پولیو جیسی بیماری ہو جدھرجہالت کا یہ لیول ہو کہ پولیو کے قطرے پلانے والوں کو گولیاں ماردی جاتی ہوں جہاں عبدالستار ایدھی جیسا انسان لٹ جاتا ہو جہاں لاشیں، دھماکے، سسکیاں اور خودکشیاں معمول ہوں ۔ وہاںاگر انٹرنیشنل کرکٹ پر پابندی لگ جائے یا ٹیم ہار جائے یا کھلاڑی کرپشن میں پکڑے جائیں تو کون پرواہ کرتا ہے ۔ ایسے چونچلے تو زندہ خوشحال اور متحد قوموں کو زیب دیتے ہیں ۔اب ہمارے پاس سوچنے کے لیے زیادہ وقت نہیں رہ گیا اب ہمیں یا تو ہم خاموشی سے تمام لڑائی جھگڑے ختم کرکے تعلیم محنت لگن اور اخلاص کو اپنا شعار بنالیں اور دنیا میں ایک باوقار قوم کی حیثیت سے اٹھیں یا پھر اسی طرح لڑتے جھگڑتے ایک دن دھڑم سے نیچے آگریں ۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
جو قومیں معاشی ترقی، تعلیم اور محنت کے میدان میں خود کو منواتی ہیں وہ عروج پاتی ہیں اور اپنی تقدیر کے فیصلے خود کرتیں ہیں ۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہمارا ہمسایہ ملک ہندوستان ہے ۔ پچھلے دنوں ایک خبر پڑھی کہ ویسٹ انڈیز ٹیم اپنے کرکٹ بورڈ سے معاوضوں کا تنازعہ طے نہ ہونے پر بھارت میں جاری سیریز ادھوری چھوڑ کرواپس اپنے وطن لوٹ گئی۔
میرے دل میں بھارت کے حوالے سے جو بھی جذبات ہوں اِس کے باوجود مجھے ویسٹ انڈیز کے فیصلے پر افسوس ہوا کہ اِس کسی اور کو نہیں کرکٹ کھیل کو نقصان پہنچایا۔ ویسٹ انڈیز کے اِس غلط فیصلے کے باوجود اگر یہ سب کچھ پاکستان کے ساتھ ہوا ہوتا تو ہمارا بورڈ کہتا کہ یہ ویسٹ انڈیز کا اندرونی معاملہ ہے ہم اِس میں کچھ نہیں کہہ سکتے ، بلکہ یہ معاملہ پاکستان کے ساتھ نہیں شاید ہر اُس کمزور بورڈ کا ہوتا جو تھوڑا کمزورہوتا، بلکہ مجھے کہنے کی اجازت دیجیے کہ اگر یہ واقعہ آج سے دس سال پہلے ہوا ہوتا تو بھارت بھی اِسی قسم کا جواب دیتا۔
مگر اب حالات تبدیل ہوگئے ہیں۔ بھارت اب پرانا بھارت نہیں رہا بلکہ وہ تو کرکٹ کا امریکا ہوگیا ہے۔ جب چاہے جیسے چاہے اپنے مفادات کے خلاف فیصلہ کرنے والوں کو سبق سکھانے کا ہنر آچکا ہے اب اِس کو۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ بھارت نے سزا کے طور پہ نہ صرف ویسٹ انڈیز کے ساتھ آئند کھیلے جانے والی تمام کرکٹ سیریز منسوخ کردی ہیں بلکہ مزید پابندیاں لگانے کا بھی سوچا جارہا ہے جبکہ دوسری طرف سری لنکن کرکٹ بورڈ نے بھارتی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے خود کو بھارت کے سامنے پیش کردیا اور اب اگلے ماہ دونوں ٹیموں کے مابین بھارت میں 5 ایک روزہ میچوں کی سیریز پلک جھپکتے طے پاگئی ہے۔ سری لنکن کرکٹ بورڈ کو اس وفا داری کے صلے میں آئندہ برس بھارت سے تین ٹیسٹ میچ ملنے کی امید ہے۔یہ سیریزممکنہ طور پر اگست میں سری لنکن میدانوں پرکھیلی جائے گی۔
معزز قارئین کیا آپ نے غور کیا کہ ایک طرف بھارت، ویسٹ انڈینز کرکٹ ٹیم کو سزا دینے کے لیے اس پر پابندیاں لگانے کا سوچ رہا ہے دوسری طرف سری لنکن کرکٹ بورڈ بھارتی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے فوری طورپر سیریز کھیلنے کے لیے رضامند ہوچکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر بھارت نے اتنا اثرورسوخ کیسے حاصل کرلیا ؟ یہ ملکوں پہ پابندیاں لگانا اور اسطرح کی باتیں ہم امریکا سے متعلق سنا کرتے تھے ۔بالکل اِس موقع پر سوال اٹھتا ہے کہ ہم یعنی پاکستان کہاں کھڑا ہے ؟ جب بھارت خاموشی سے ترقی کررہا تھا ہم اُس وقت اپنے اندرونی مسائل سے نمٹنے میں مصروف عمل تھے۔
ایک طرف ہم ہندوستان کے مریخ کے مدار میں اپنا خلائی جہاز بھیجنے کی خبر سنتے ہیں ۔کبھی ہم انڈیا کی آئی ٹی کے میدان میں حیرت انگیز ترقی دیکھتے ہیں تو بھارتی فلم انڈسٹری پوری دنیا میں اپنی جگہ بنا رہی ہے اور اب کچھ اور نہیں تو بھارتی کرکٹ بورڈ پوری دنیائے کرکٹ کو اپنی مرضی کے مطابق چلا رہا ہے ۔ آسٹریلین کرکٹ بورڈ جس کے سامنے کسی دور میں پرندہ کبھی پر نہیں مار سکتا تھا آج اسے بھی کوئی فیصلہ کرنے کے لیے انڈیا کی مرضی درکار ہوتی ہے ۔ تلخ بات یہ ہے کہ ہم پاکستانی جو کہ ہر بات اور ہر کام میں انڈیا کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے تھے ہم کیوں ہر میدان میں مسلسل پیچھے کی جانب جارہے ہیں؟
آپ بھارت کو برا کہہ سکتے ہیں، اسکو دشمن کہہ سکتے ہیں وہ اپنی چودہراہٹ قائم کررہا ہے ایسا بول سکتے ہیں مگر چودہراہٹ بھی تو اسی کی قائم ہوتی ہے جواس مقا م تک آنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ہمارے کرکٹ بورڈ کا حال یہ تھا کہ چند ماہ پہلے یہ صورت حال تھی کہ ہر روز چئیر مین کرکٹ بورڈ بدلتا تھا ۔ ایک دن خبر ملتی تھی نجم سیٹھی چئیر مین ہے اگلے دن خبر ملتی تھی ذکا اشرف چئیر مین ہے ۔ہر روز تماشا لگتا تھا نہ ذکا اشرف ہار مانتا تھا اور نہ نجم سیٹھی نے ہار مانی اور چئیر مین شپ کی اس جنگ میں نتیجہ یہ نکلا کہ آج پاکستانی کرکٹ ٹیم کا جنازہ نکل چکا ہے ۔
یہ آج جس مقام پہ ہمارا ملک کھڑا ہے وہاں سے ہمیں جلد از جلد آگے نکلنے کی ضرورت ہے۔ جس ملک میں آج بھی پولیو جیسی بیماری ہو جدھرجہالت کا یہ لیول ہو کہ پولیو کے قطرے پلانے والوں کو گولیاں ماردی جاتی ہوں جہاں عبدالستار ایدھی جیسا انسان لٹ جاتا ہو جہاں لاشیں، دھماکے، سسکیاں اور خودکشیاں معمول ہوں ۔ وہاںاگر انٹرنیشنل کرکٹ پر پابندی لگ جائے یا ٹیم ہار جائے یا کھلاڑی کرپشن میں پکڑے جائیں تو کون پرواہ کرتا ہے ۔ ایسے چونچلے تو زندہ خوشحال اور متحد قوموں کو زیب دیتے ہیں ۔اب ہمارے پاس سوچنے کے لیے زیادہ وقت نہیں رہ گیا اب ہمیں یا تو ہم خاموشی سے تمام لڑائی جھگڑے ختم کرکے تعلیم محنت لگن اور اخلاص کو اپنا شعار بنالیں اور دنیا میں ایک باوقار قوم کی حیثیت سے اٹھیں یا پھر اسی طرح لڑتے جھگڑتے ایک دن دھڑم سے نیچے آگریں ۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔