بات کچھ اِدھر اُدھر کی دیکھ مگر پیار سے

اپنی گاڑی کے لئے موضوع جملہ کے انتخاب کے لئے یہ طبقہ "پسند اپنی اپنی " والی کہاوت پر عمل پیرا ہے۔

اپنی گاڑی کے لئے موضوع جملہ کے انتخاب کے لئے یہ طبقہ "پسند اپنی اپنی " والی کہاوت پر عمل پیرا ہے۔ فوٹو فائل

گاڑیوں میں سفر کرکے اپنی اپنی منزل مقصود پر پہنچنا ہمارا روزمرہ کا معمول ہے۔ لیکن اس معمولی سفر میں اکثر چند غیر معمولی واقعات سے گزرنا پڑتا ہے اور اصل میں یہی سفر کا حسن ہیں۔ اگر ہم پاکستان میں سفر کر رہے ہوں تو ہماری نگاہ سڑک پر دوڑنے والی ہر دوسری گاڑی پر بھی پڑتی ہے۔بعض اوقات ان گاڑیوں پر لکھے ہوئے دلچسپ جملے،اشعار اور کہاوتیں ہماری توجہ کا مرکز بنتے ہیں، جن کو پڑھ کر ہم نا صرف مخظوظ ہوتے ہیں بلکہ کبھی کبھی اداس اور کبھی خیالات کی بستی میں گم ہو جاتے ہیں۔یہ جملے عجیب اور بچگانہ تو کبھی سنجیدہ ہوتے ہیں۔ بعض اوقات تو یہ جملے بہت تلخ ہوتے ہیں اور ان کی تلخی کی وجہ لفظوں کے اندر چھپا سچ عیاں ہوجاتا ہے۔



فوٹو؛ ٹرک آرٹ آف پاکستان فیس بک

ایسی تحریریں ہمیں زیادہ تر کوچوں ،ٹرکوں اور رکشوں پر لکھی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ان باتوں کو پڑھ کر ہم گاڑی کے ڈرائیور کے ذوق کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ معاشرے میں موجود رویوں کی جانچ پڑتال کر سکتے ہیں اوراگر تھوڑی سی ہمت کر لیں تو اپنی ذات کا احتساب بھی کر سکتے ہیں۔ گاڑی مالکان یا ڈرائیور اپنے تجربات ، تاثرات اور خیالات کو رنگ ساز کی مدد سے اپنی گاڑی پر لکھواتے ہیں ۔ ڈرائیور حضرات کے مطابق ان رنگ برنگے جملوں کے بغیر گاڑی ادھوری ادھوری سی لگتی ہے یہاں تک کہ وہ ان جملوں کو گاڑی کا حسن قرار دیا جاتا ہے ۔ اپنی گاڑی پر موزوں جملے کے انتخاب کے لئے یہ طبقہ "پسند اپنی اپنی " والی کہاوت پر عمل پیرا ہے۔ اور ہاں یہ لوگ اپنے اس پیشہ کو ڈاکٹری یا وکالت سے کم تصور نہیں کرتے ۔ چلیں کچھ جملوں سے آپ بھی لطف اٹھائیں۔



فوٹو؛ ٹرک آرٹ آف پاکستان فیس بک



فوٹو؛ ٹرک آرٹ آف پاکستان فیس بک

معاشرتی مسائل سے لے کر حکومت کی بے راہ روی اور پھر اس پر اپنی ناراضگی کا اظہار ہر مقصد کے لئے یہ طبقہ گاڑی کے درودیوار کا استعمال بخوبی جانتا ہے۔ اس فن میں واپڈا والوں کو تو آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے خوشی کے ہر موقع پر واپڈا کے علاوہ تمام اہلیان وطن کو دل کی اتھاہ گہریوں سے مبارک باد پیش کر کے خوشیوں میں شامل کیا جاتا ہے۔ لیکن واپڈا والوں سے یہ اچھوتوں والا سلوک کیوں ؟ اگر آپ واپڈا کے صارف ہیں تو امید کرتا ہوں کے اس سوال نے آپ کے ذہن میں جنم نہیں لیا ہوگا۔


عام آدمی کے آرام کا خیال اور اپنی قوم کی ذہنی کیفیت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ طبقہ اپنے سا تھیوں کو ہارن آہستہ بجا کر سوئی ہوئی قوم کی نیند میں خلل ڈالنے سے بھی باز رکھنے کی تلقین کرتا ہے ۔ اگر کسی نے نگر نگر اپنےسیاسی شغف اور وابستگی کا ڈھنڈورا پیٹنا ہے تو ایک مرتبہ پھر اس کی گاڑی اس کے نظریات کی عکاس بن جاتی ہے۔ معاشرتی مسائل ، سیاست اور حکومت کی باتیں تو ایک طرف ذاتی زندگی کی کہانیاں بھی گاڑی کے جسم پر کندہ کی جاتی ہیں تاکہ دوسرے سبق سیکھ سکیں۔ جن میں واردات عشق کی کہانیاں سر فہرست ہیں۔ ڈرائیور حضرات کا کہنا ہے کہ جس طرح ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے کچھ اسطرح تقریبا َتقریباَ ہر بشر عشق کا ذائقہ بھی چکھتا ہے۔ جس میں کامیابی کی شرح بہت کم اور ناکامی فیصد زیادہ ہوتی ہے۔ شائد اسی لئے توعشق میں ہونے والی ناکامیوں کو بھی گاڑیوں پر کندہ کروایا جاتا ہے تاکہ ناکام محبت کے تجربات سے عوام الناس کو آگاہ کیا جاسکے ۔عشق میں رُل جانے کے بعد طبیب بن کر اس مرض سے بچنے کا نسخہ کیمیا بھی اس طبقہ کے پاس موجود ہے۔ جیسا کے ابتدائی امداد کے طور پر مندرجہ ذیل تجویز پر عمل کروایا جاتا ہے ۔



فوٹو؛ ٹرک آرٹ آف پاکستان فیس بک



فوٹو؛ فائل

اور اگر مرض بڑھ چکا ہو تو سڑک کنارے بیٹھ کر مناسب گاڑ ی کے انتظار کا مشورہ۔ خیران تمام تاثرات اور تجربات کو گاڑی پر لکھوانے کے لیے دو قسم کی تکنیک استعمال کی جاتی ہے ایک آئل پینٹ جو ذرا سستی ہے اور دوسری چمکدار پٹی جو مہنگی ہے لیکن اس معاملے میں بھی اس طبقہ کا کہنا ہے کہ؛

''شوق دا کوئی مُول نئیں''



نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story