پاکستان میں داعش کا پہلا قدم

داعش سے وفاداری کا اعلان صرف فنڈ اور حمایت حاصل کرنا طالبان کا داعش سے وفاداری اوباما کو پریشان کرنے کی ایک چال ہے۔

shabbirarman@yahoo.com

یہ خبر باعث تشویش ہے کہ شہر کراچی کے مختلف علاقوں سہراب گوٹھ، گلشن معمار، گڈاپ ٹاؤن اور منگھوپیر سمیت دیگر مضافاتی علاقوں میں عالمی کالعدم تنظیم داعش آئی ایس آئی ایس کے حق میں وال چاکنگ کردی گئی، جس سے پولیس بے خبر رہی۔ راتوں رات کی جانے والی وال چاکنگ نے پولیس کی کارکردگی کا پول کھول دیا اور خطرے کی گھنٹی بھی بجا دی، چاکنگ کرنے والوں کی دیدہ دلیری کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے سپرہائی وے پر قائم پولیس کی چوکیوں کو بھی نہیں بخشا اور ان پر بھی داعش کے حق میں نعرے لکھے گئے، اندازہ ہوتا ہے کہ عالمی تنظیم داعش نے باقاعدہ تشہیری مہم کا آغازکردیا ہے اور اس حوالے سے شہر کے ان علاقوں کو منتخب کیا گیا ہے جہاں پر کالعدم تنظیموں کا اثر و رسوخ زیادہ ہے۔

جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی کالعدم تنظیم داعش نے پاکستان میں کالعدم تنظیموں سے روابط بڑھانے شروع کردیے ہیں ۔ واضح رہے کہ داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کی جانب سے خلافت کے اعلان کے بعد دنیا کے بیشتر ممالک پر مشتمل ایک نقشہ جاری کیا گیا ہے جس میں پاکستان بھی داعش کی خلافت کا حصہ قرار دیا گیا ہے ۔ امریکی وبرطانوی میڈیا نے کہا ہے کہ طالبان کمانڈروں کا دولت اسلامیہ سے وفاداری کا اعلان پاکستان میں داعش کا پہلا قدم ہے ، طالبان کے درمیان دھڑے بندی میں اضافہ اور کشیدہ صورتحال پیدا ہوگی ، داعش سے وفاداری کا اعلان صرف فنڈ اور حمایت حاصل کرنا طالبان کا داعش سے وفاداری اوباما کو پریشان کرنے کی ایک چال ہے ۔

16 اکتوبر 2014 کو امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد اور اس تنظیم کے 5 دیگر اہم کمانڈروں نے شدت پسند گروپ دولت اسلامیہ سے وفاداری اور اس کے سربراہ ابوبکر البغدادی کی خلافت کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا، 3 کمانڈروں کا داعش کی طرف جانا طالبان میں پھوٹ کو واضح کرتا ہے ۔

نئے گروپ کے آنے سے کشیدگی میں اضافہ ہوگا، تقسیم بھی بڑھے گی ۔ برطانوی اخبار ''ٹیلی گراف'' نے کہا ہے کہ طالبان کمانڈروں کی طرف سے یہ اعلان طالبان گروپ اور ان کے سربراہ ملا عمر کے درمیان تقسیم کو واضح کرتا ہے ، ملا فضل اللہ کی تحریک طالبان پاکستان گروپ نے داعش کی حمایت کا اعلان کیا ، بیعت کا نہیں ۔ برطانوی اخبار ''فنانشل ٹائمز'' نے کہا کہ طالبان کا داعش میں شمولیت کا اعلان ایک مضبوط یاددہانی ہے کہ عراق اور شام کا یہ شدت پسند گروپ اسلامی دنیا کے کسی بھی حصے میں اپنا اتحادی بناسکتا ہے ، یہ لوگ وسیع جغرافیائی رسائی کے خواہاں ہیں ، پاکستان قدرتی طور پر ان کے نقطہ نظر میں پورا اترتا ہے ۔ سینئر حکام کے مطابق اوباما کی بے نیند راتوں کے لیے صرف ایک پروپیگنڈا چال ہے ۔

عراق اور شام میں داعش کے جنگجوؤں کی مدد کے لیے عسکریت پسندوں کو بھجوانے کے حالیہ اعلان سے پلٹتے ہوئے تحریک طالبان پاکستان نے داعش کے ساتھ اتحاد کی تردید کردی ہے اور کہا ہے کہ اس کے 6 اکتوبر کے بیان کو میڈیا میں غلط طور پر پیش کیا گیا اور تحریک طالبان پاکستان کے داعش کے ساتھ حمایت کے اظہار کو اتحاد کا اعلان نہیں سمجھنا چاہیے ۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے ٹی ٹی پی کے امیر ملا فضل اللہ کی طرف سے 6 اکتوبر کو جاری بیان میں عراق اور شام میں لڑنے والے داعش کے جنگجوؤں کی مدد کے لیے عسکریت پسند بھجوانے کا عزم ظاہر کیا تھا اور کہا تھا کہ شدت پسند گروپ کو اعلیٰ مقصد کے لیے اتحاد قائم کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ میں دیگر جہادی گروپوں کے ساتھ اختلافات کو ایک طرف رکھ دینا چاہیے۔


ٹی ٹی پی کے ترجمان نے کہا کہ ''بہت پہلے جب داعش کا وجود نہیں تھا ہم تب سے عراق اور شام میں مجاہدین کی حمایت اور مدد کر رہے ہیں ہمارے گروپ نے اب تک ایک ہزار سے 15 سو کے درمیان جنگجو مشرق وسطیٰ بھجوائے ہیں۔ ہم اس کڑے وقت میں آپ کے ساتھ ہیں اور جس قدر ممکن ہوا آپ کی مدد کریں گے ۔'' ان کا یہ اعلان کافی حیرت انگیز تھا کیونکہ پاکستانی طالبان دراصل ملا عمر کے اتحادی ہیں جو افغان طالبان کے بھی امیر ہیں اور انھیں ''امیر المومنین'' کہا جاتا ہے ۔ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان کے بیان کو بین الاقوامی میڈیا نے دولت اسلامیہ کے ساتھ اتحاد کے اعلان کے طور پر پیش کیا جس کی قیادت ملاعمر کے روایتی حریف ابوبکر البغدادی کر رہے ہیں ۔ اس لیے شاہد اللہ شاہد کو بظاہر افغان طالبان کے دباؤ پر 8 اکتوبر کو ایک اور بیان دینا پڑا جس میں انھوں نے کہا کہ ان کے پچھلے بیان کو داعش کے ساتھ اعلان کے طور پر پیش کیا گیا جوکہ غلط ہے۔

شاہد اللہ شاہد نے ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی سے فون پر گفتگو میں اپنے پچھلے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''ہم عراق یا شام میں کسی مخصوص گروپ کی حمایت نہیں کر رہے تمام گروپ محترم اور ہمارے بھائی ہیں۔ پاکستانی طالبان بدستور ملا عمر کے ساتھ ہیں جو ہمارے امیر المومنین ہیں اور ہم ان کی پیروی کر رہے ہیں ۔''

16 اکتوبر کی ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ایک رہنما نے تحریک کے ترجمان شاہد اللہ شاہد سمیت پانچ رہنماؤں کی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ (داعش) میں شمولیت کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ منحرف ہونے والے افراد کو ملاعمر کی امارت پر شک تھا ۔ طالبان کے رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان افراد نے چار پانچ ماہ قبل ہی دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔

اس دوران تحریک کی جانب سے کوشش کی گئی کہ یہ گروہ دولت اسلامیہ کی جانب نہ جائے۔تحریک طالبان پاکستان کے امیر مولوی فضل اللہ کے معاون خصوصی کمانڈر حمزہ نے طالبان کے چند کمانڈرز کی داعش میں شمولیت کی باقاعدہ تصدیق کردی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ چند طالبان رہنماؤں کے داعش کے ساتھ ملنے سے تحریک طالبان پاکستان کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہ بات انھوں نے پاکستان کے ایک میڈیا گروپ سے نامعلوم مقام سے گفتگو کرتے ہوئے کہی ہے۔

مذکورہ بالا صورتحال کے پیش نظر دولت اسلامیہ نامی تنظیم پاکستان میں تیزی سے اپنا اثرورسوخ بڑھاتی نظر آرہی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے ان چھ کمانڈروں کا اس تنظیم میں شمولیت صورتحال کی سنگینی کسی وضاحت کی محتاج نہیں۔ جس کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق پاکستان میں داعش کا مستقل ٹھکانہ قائم کرنے کے لیے جگہ تلاش کی جا رہی ہے۔اللہ رحم کرے ۔
Load Next Story