مثبت پہلو بھی مد نظر رکھیے
مولانا ابوالکلام آزاد نے بہت پہلے کہا تھا کہ پاکستان کا قائم ہونا غلط نہیں مگر جن علاقوں میں بن رہا ہے وہ درست نہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ یعنی ایم کیو ایم ایک بار پھر حکومت سندھ سے کنارہ کش ہوگئی۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان تعلقات ٹوٹنے اور جڑنے کا یہ عمل کئی بار سامنے آچکا ہے۔ یہ آنکھ مچولی کا کھیل کافی عرصے سے جاری ہے گویا تعلقات کی نوعیت کچھ یوں رہتی ہے کہ:
وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی
(نصیر ترابی)
اس صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک صاحب نے بے ساختہ فرمایا ''کتنے دن کے لیے۔'' مگر رابطہ کمیٹی کی جانب سے پریس کانفرنس میں واضح کردیا گیا ہے کہ ''بس بہت ہوچکا اب مزید تعلق قائم نہیں رہ سکتا۔ دوسری جانب زرداری صاحب نے سابقہ وزیر داخلہ رحمان ملک کو ایم کیو ایم کی قیادت سے ایک بار پھر رابطہ قائم کرنے کی ہدایت کی ہے، مگر اطلاعات کے مطابق ایم کیو ایم کی جانب سے انھیں کسی بھی پیش رفت سے روک دیا گیا ہے۔ ناراضگی کی یہ تازہ اور سنجیدہ صورتحال اس وقت پیش آئی جب پیپلز پارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے لفظ ''مہاجر'' کو مخصوص انداز میں ادا کیا۔
جس کے ردعمل میں ایم کیو ایم نے فوراً پریس کانفرنس کرکے سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے اول تو خورشید شاہ کو آڑے ہاتھوں لیا پھر ان سے ان کے الفاظ واپس لینے پر زور دیا اور لفظ ''مہاجر'' کے تقدس اور تاریخ پر اظہار خیال کرتے ہوئے تمام علمائے کرام سے سوال کیا کہ وہ مہاجر لفظ کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟ یہی نہیں بلکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رابطہ کمیٹی کے رکن حیدرعباس رضوی نے کہا کہ سندھ کی 80 فیصد متروکہ زمین کے ہم بلاشرکت غیر مالک ہیں، انھوں نے مزید کہا کہ ہم سے کہا جاتا ہے کہ واپس ہندوستان چلے جاؤ تو پہلے آپ سندھ سے گئے ہوئے ہندوؤں کو واپس بلاکر ان کی املاک ان کے حوالے کریں تب ہم سے کہا جائے کہ واپس جاؤ۔
یہ ساری تلخی اس نازک وقت میں پیدا ہوئی جب اگلے روز پیپلزپارٹی کا جلسہ ہونا تھا، لہٰذا یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایسے وقت میں جب ایک کامیاب جلسہ بھی کرنا تھا اور ایم کیو ایم بھی پوری طرح اس جلسے کو کامیاب بنانے میں تعاون کر رہی تھی تو خورشید شاہ نے ایسا بیان کیوں دیا؟ یہ دوسری بات ہے کہ انھوں نے فوراً ہی صورتحال کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے نہ صرف اپنے الفاظ واپس لے لیے بلکہ معذرت بھی کرلی۔ بات شاید اس کے بعد ختم ہوجاتی مگر رات کو بگڑی ہوئی صورتحال سنبھل جانے کے باوجود جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے تقریباً تمام اہم سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں پر تنقید کرتے ہوئے الطاف حسین اور ایم کیو ایم پر بھی کئی الزامات عائد کیے (باوجود اس کے یہ دونوں جماعتیں سندھ حکومت میں ایک دوسرے کا ساتھ دے رہی ہیں) اس خطاب سے کچھ روز قبل بھی بلاول زرداری نے بلاجواز الطاف حسین کا لندن میں جینا حرام کرنے والا بیان جاری کیا تھا۔
ان دونوں پارٹیوں کے حق اور ناحق ہونے سے ہمیں کوئی سروکار نہیں، البتہ یہ ہم وسیع تجزیے اور مشاہدے کی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ ایم کیو ایم اپنے قائد کے بارے میں ایک لفظ بھی برداشت نہیں کرسکتی۔یہ تلخ صورتحال دراصل اس وقت سے سندھ کے قوم پرستوں اور پیپلز پارٹی کے کارکنان میں پائی جاتی ہے جب سے الطاف حسین نے پاکستان میں 20 صوبوں یا انتظامی یونٹوں کے قیام کی بات کی ہے۔ جس کو سندھ کے قوم پرستوں نے صرف سندھ کی تقسیم قرار دیا۔ اگرچہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے مگر ہے ضرور کہ ایم کیو ایم کی جانب سے جب کوئی بھی مطالبہ کیا جاتا ہے (اپنے یا دوسروں کے حقوق کے بارے میں) تو یہ دونوں عناصر بلا سوچے سمجھے اس بات کو تعصب کی عینک لگا کر ہی دیکھتے ہیں کبھی سنجیدگی سے مسئلے کے حل کے لیے گفتگو یا مکالمے پر تیار نہیں ہوتے۔
مہنگائی، بے روزگاری، غربت میں اضافے، صحت عامہ یا صفائی ستھرائی کے علاوہ جاگیردارانہ نظام کی خرابی ہو یا وڈیرہ ازم کی بات سب پر ہر طرف سے مخالفت اور تنگ نظری کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ یہ وہ مسائل ہیں جن پر مختلف رائے ہوسکتی ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس پر طنز اور تنقید ہی کی جائے۔ اپنے اپنے موقف پر کھل کر غیر جانبدارانہ اظہار خیال کے ذریعے ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی گنجائش تو ہمیشہ رہتی ہے۔ ہر بیان یا مطالبے کو منفی رنگ دینے کی بجائے اس کے مثبت پہلوؤں پر بھی بات ہونی چاہیے۔ الطاف حسین نے اگر 20 صوبوں یا انتظامی یونٹوں کی بات کی تو اس کا مطلب سندھ کی تقسیم یا علیحدگی کے بجائے ملکی ترقی و خوشحالی کے تناظر میں بھی لیا جاسکتا ہے۔
یہ بات میں اس لیے لکھ رہی ہوں کہ بعض عناصر ایم کیو ایم کی ہر بات کو منفی رنگ دے کر بلاجواز ایک نیا مسئلہ کھڑا کردیتے ہیں، جب کہ یہی بات کسی دوسری جماعت کے پلیٹ فارم سے یا کسی اور لیڈر کی زبان سے کہی جائے تو کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب سے نئے صوبوں کی بات سامنے آئی ہے اس کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جب کہ اب طاہر القادری صرف پنجاب میں 7 صوبے بنانے جا رہے ہیں تو کسی طرف سے ان پر تنقید نہ ہوئی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم ایک دوسرے کو ملک دشمن اور غدار سمجھنا چھوڑ دیں تو ہمارے آدھے سے زیادہ مسائل حل ہوجائیں۔ بے عملی اور کچھ نہ کرنا ہمارا قومی رویہ بن چکا ہے۔ اگر کوئی کچھ کرنا چاہے (وہ الطاف حسین ہوں یا عمران خان) تو ان کو بھی کچھ نہ کرنے دیا جائے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ کسی کو اگر کمتر سمجھا جائے، حق بات پر بھی کوئی ساتھ نہ دے تو احساس محرومی تو جنم لیتا ہی ہے۔ایک ماہنامے نے اپنے تازہ شمارے میں مزید صوبوں کی تشکیل پر ایک بھرپور سروے کیا ہے جس میں اکثریت نے مزید صوبے بنانے کی حمایت کی ہے،کسی نے لسانی بنیاد پر صوبہ بنانے کی مخالفت کی تو کسی نے حمایت ۔ مگر دوسری جانب یہ بھی کہا گیا کہ موجودہ چار صوبے بھی لسانی بنیاد پر ہی قائم ہیں یعنی پنجاب، بلوچستان، سندھ اور خیبرپختونخوا کیا ان سب کے نام زبانوں پر نہیں ہیں ان کی شناخت ان کی زبانیں ہی ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے بہت پہلے کہا تھا کہ ''پاکستان کا قائم ہونا غلط نہیں مگر جن علاقوں میں بن رہا ہے وہ درست نہیں۔'' حال ہی میں پاکستان کی تاریخی، مذہبی، تعلیمی اور سماجی مسائل پر گہری نظر رکھنے والے ہمارے ایک دانشور نے اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ ''موجودہ پاکستان کا علاقہ صدیوں سے غیر عقلی مزاج کا حامل رہا ہے۔'' جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہم بلا سوچے سمجھے اور غوروفکر کے کسی بھی بات کی مخالفت یا حمایت کرنے لگتے ہیں۔ صدیوں پہلے تو ذرایع معلومات نہ تھے، دنیا کے دیگر ممالک سے رابطے نہ ہونے کے برابر تھے، جدید ٹیکنالوجی اور علوم کے باعث اب تو ہم غیر عقلی مزاج کو عقلی میں تبدیل کرسکتے ہیں۔
آج ہم زیادہ روشن خیال، بااصول اور باعمل ہوکر اپنے اچھے برے کا زیادہ بہتر اندازہ کرسکتے ہیں۔ اگر کچھ بھی نہیں تو دور جدید میں اتنا تو کرسکتے ہیں کہ فلاں نے جو بات کہی وہ بالکل غلط سہی مگر اس کی نیت میں کوئی فتور نہ تھا بات اس نے نیک نیتی سے کی مگر ہوسکتا ہے کہ وہ اس کے تمام پہلوؤں پر اچھی طرح غور نہ کرسکا ہو۔ اگر ہم اتنا ہی کرلیں تو یہ جو پوری قوم بیگانگی، اجنبیت اور ایک دوسرے سے لاتعلق ہوتی جا رہی ہے اس پر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔ اگر ہر کسی کو ملک دشمن اور غدار سمجھا گیا تو یہ پہلے بھی ہمارے حق میں نقصان دہ ثابت ہوچکا ہے۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا، کہیں کہیں سندھو دیش اور آزاد بلوچستان کی سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں۔
اگر ملک کے تمام افراد کو حقوق اور اتفاق نہیں ملے گا ان کی حیثیت اور وسائل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ ہر کوئی خود کو افضل اور دوسرے کو حقیر سمجھے گا تو نقصان اس انداز فکر کو پہنچے گا۔ لہٰذا بہتر ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلیے، سب کو برابر کے حقوق اور مواقعے فراہم کیجیے۔ سب کو محب وطن سمجھیے ہر ایک کے نقطہ نظر کا احترام کرنے کی روش اختیار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس کا جس قدر جلد ادراک ہوجائے ہمارے حق میں اتنا ہی بہتر ہے۔
وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی
(نصیر ترابی)
اس صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک صاحب نے بے ساختہ فرمایا ''کتنے دن کے لیے۔'' مگر رابطہ کمیٹی کی جانب سے پریس کانفرنس میں واضح کردیا گیا ہے کہ ''بس بہت ہوچکا اب مزید تعلق قائم نہیں رہ سکتا۔ دوسری جانب زرداری صاحب نے سابقہ وزیر داخلہ رحمان ملک کو ایم کیو ایم کی قیادت سے ایک بار پھر رابطہ قائم کرنے کی ہدایت کی ہے، مگر اطلاعات کے مطابق ایم کیو ایم کی جانب سے انھیں کسی بھی پیش رفت سے روک دیا گیا ہے۔ ناراضگی کی یہ تازہ اور سنجیدہ صورتحال اس وقت پیش آئی جب پیپلز پارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے لفظ ''مہاجر'' کو مخصوص انداز میں ادا کیا۔
جس کے ردعمل میں ایم کیو ایم نے فوراً پریس کانفرنس کرکے سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے اول تو خورشید شاہ کو آڑے ہاتھوں لیا پھر ان سے ان کے الفاظ واپس لینے پر زور دیا اور لفظ ''مہاجر'' کے تقدس اور تاریخ پر اظہار خیال کرتے ہوئے تمام علمائے کرام سے سوال کیا کہ وہ مہاجر لفظ کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟ یہی نہیں بلکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رابطہ کمیٹی کے رکن حیدرعباس رضوی نے کہا کہ سندھ کی 80 فیصد متروکہ زمین کے ہم بلاشرکت غیر مالک ہیں، انھوں نے مزید کہا کہ ہم سے کہا جاتا ہے کہ واپس ہندوستان چلے جاؤ تو پہلے آپ سندھ سے گئے ہوئے ہندوؤں کو واپس بلاکر ان کی املاک ان کے حوالے کریں تب ہم سے کہا جائے کہ واپس جاؤ۔
یہ ساری تلخی اس نازک وقت میں پیدا ہوئی جب اگلے روز پیپلزپارٹی کا جلسہ ہونا تھا، لہٰذا یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایسے وقت میں جب ایک کامیاب جلسہ بھی کرنا تھا اور ایم کیو ایم بھی پوری طرح اس جلسے کو کامیاب بنانے میں تعاون کر رہی تھی تو خورشید شاہ نے ایسا بیان کیوں دیا؟ یہ دوسری بات ہے کہ انھوں نے فوراً ہی صورتحال کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے نہ صرف اپنے الفاظ واپس لے لیے بلکہ معذرت بھی کرلی۔ بات شاید اس کے بعد ختم ہوجاتی مگر رات کو بگڑی ہوئی صورتحال سنبھل جانے کے باوجود جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے تقریباً تمام اہم سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں پر تنقید کرتے ہوئے الطاف حسین اور ایم کیو ایم پر بھی کئی الزامات عائد کیے (باوجود اس کے یہ دونوں جماعتیں سندھ حکومت میں ایک دوسرے کا ساتھ دے رہی ہیں) اس خطاب سے کچھ روز قبل بھی بلاول زرداری نے بلاجواز الطاف حسین کا لندن میں جینا حرام کرنے والا بیان جاری کیا تھا۔
ان دونوں پارٹیوں کے حق اور ناحق ہونے سے ہمیں کوئی سروکار نہیں، البتہ یہ ہم وسیع تجزیے اور مشاہدے کی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ ایم کیو ایم اپنے قائد کے بارے میں ایک لفظ بھی برداشت نہیں کرسکتی۔یہ تلخ صورتحال دراصل اس وقت سے سندھ کے قوم پرستوں اور پیپلز پارٹی کے کارکنان میں پائی جاتی ہے جب سے الطاف حسین نے پاکستان میں 20 صوبوں یا انتظامی یونٹوں کے قیام کی بات کی ہے۔ جس کو سندھ کے قوم پرستوں نے صرف سندھ کی تقسیم قرار دیا۔ اگرچہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے مگر ہے ضرور کہ ایم کیو ایم کی جانب سے جب کوئی بھی مطالبہ کیا جاتا ہے (اپنے یا دوسروں کے حقوق کے بارے میں) تو یہ دونوں عناصر بلا سوچے سمجھے اس بات کو تعصب کی عینک لگا کر ہی دیکھتے ہیں کبھی سنجیدگی سے مسئلے کے حل کے لیے گفتگو یا مکالمے پر تیار نہیں ہوتے۔
مہنگائی، بے روزگاری، غربت میں اضافے، صحت عامہ یا صفائی ستھرائی کے علاوہ جاگیردارانہ نظام کی خرابی ہو یا وڈیرہ ازم کی بات سب پر ہر طرف سے مخالفت اور تنگ نظری کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ یہ وہ مسائل ہیں جن پر مختلف رائے ہوسکتی ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس پر طنز اور تنقید ہی کی جائے۔ اپنے اپنے موقف پر کھل کر غیر جانبدارانہ اظہار خیال کے ذریعے ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی گنجائش تو ہمیشہ رہتی ہے۔ ہر بیان یا مطالبے کو منفی رنگ دینے کی بجائے اس کے مثبت پہلوؤں پر بھی بات ہونی چاہیے۔ الطاف حسین نے اگر 20 صوبوں یا انتظامی یونٹوں کی بات کی تو اس کا مطلب سندھ کی تقسیم یا علیحدگی کے بجائے ملکی ترقی و خوشحالی کے تناظر میں بھی لیا جاسکتا ہے۔
یہ بات میں اس لیے لکھ رہی ہوں کہ بعض عناصر ایم کیو ایم کی ہر بات کو منفی رنگ دے کر بلاجواز ایک نیا مسئلہ کھڑا کردیتے ہیں، جب کہ یہی بات کسی دوسری جماعت کے پلیٹ فارم سے یا کسی اور لیڈر کی زبان سے کہی جائے تو کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب سے نئے صوبوں کی بات سامنے آئی ہے اس کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جب کہ اب طاہر القادری صرف پنجاب میں 7 صوبے بنانے جا رہے ہیں تو کسی طرف سے ان پر تنقید نہ ہوئی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم ایک دوسرے کو ملک دشمن اور غدار سمجھنا چھوڑ دیں تو ہمارے آدھے سے زیادہ مسائل حل ہوجائیں۔ بے عملی اور کچھ نہ کرنا ہمارا قومی رویہ بن چکا ہے۔ اگر کوئی کچھ کرنا چاہے (وہ الطاف حسین ہوں یا عمران خان) تو ان کو بھی کچھ نہ کرنے دیا جائے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ کسی کو اگر کمتر سمجھا جائے، حق بات پر بھی کوئی ساتھ نہ دے تو احساس محرومی تو جنم لیتا ہی ہے۔ایک ماہنامے نے اپنے تازہ شمارے میں مزید صوبوں کی تشکیل پر ایک بھرپور سروے کیا ہے جس میں اکثریت نے مزید صوبے بنانے کی حمایت کی ہے،کسی نے لسانی بنیاد پر صوبہ بنانے کی مخالفت کی تو کسی نے حمایت ۔ مگر دوسری جانب یہ بھی کہا گیا کہ موجودہ چار صوبے بھی لسانی بنیاد پر ہی قائم ہیں یعنی پنجاب، بلوچستان، سندھ اور خیبرپختونخوا کیا ان سب کے نام زبانوں پر نہیں ہیں ان کی شناخت ان کی زبانیں ہی ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے بہت پہلے کہا تھا کہ ''پاکستان کا قائم ہونا غلط نہیں مگر جن علاقوں میں بن رہا ہے وہ درست نہیں۔'' حال ہی میں پاکستان کی تاریخی، مذہبی، تعلیمی اور سماجی مسائل پر گہری نظر رکھنے والے ہمارے ایک دانشور نے اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ ''موجودہ پاکستان کا علاقہ صدیوں سے غیر عقلی مزاج کا حامل رہا ہے۔'' جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہم بلا سوچے سمجھے اور غوروفکر کے کسی بھی بات کی مخالفت یا حمایت کرنے لگتے ہیں۔ صدیوں پہلے تو ذرایع معلومات نہ تھے، دنیا کے دیگر ممالک سے رابطے نہ ہونے کے برابر تھے، جدید ٹیکنالوجی اور علوم کے باعث اب تو ہم غیر عقلی مزاج کو عقلی میں تبدیل کرسکتے ہیں۔
آج ہم زیادہ روشن خیال، بااصول اور باعمل ہوکر اپنے اچھے برے کا زیادہ بہتر اندازہ کرسکتے ہیں۔ اگر کچھ بھی نہیں تو دور جدید میں اتنا تو کرسکتے ہیں کہ فلاں نے جو بات کہی وہ بالکل غلط سہی مگر اس کی نیت میں کوئی فتور نہ تھا بات اس نے نیک نیتی سے کی مگر ہوسکتا ہے کہ وہ اس کے تمام پہلوؤں پر اچھی طرح غور نہ کرسکا ہو۔ اگر ہم اتنا ہی کرلیں تو یہ جو پوری قوم بیگانگی، اجنبیت اور ایک دوسرے سے لاتعلق ہوتی جا رہی ہے اس پر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔ اگر ہر کسی کو ملک دشمن اور غدار سمجھا گیا تو یہ پہلے بھی ہمارے حق میں نقصان دہ ثابت ہوچکا ہے۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا، کہیں کہیں سندھو دیش اور آزاد بلوچستان کی سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں۔
اگر ملک کے تمام افراد کو حقوق اور اتفاق نہیں ملے گا ان کی حیثیت اور وسائل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ ہر کوئی خود کو افضل اور دوسرے کو حقیر سمجھے گا تو نقصان اس انداز فکر کو پہنچے گا۔ لہٰذا بہتر ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلیے، سب کو برابر کے حقوق اور مواقعے فراہم کیجیے۔ سب کو محب وطن سمجھیے ہر ایک کے نقطہ نظر کا احترام کرنے کی روش اختیار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس کا جس قدر جلد ادراک ہوجائے ہمارے حق میں اتنا ہی بہتر ہے۔