آدھی پارلیمنٹ بھی نا اہل ہوجائے تو پرواہ نہیں صادق و امین کا معیار مقرر کرینگے سپریم کورٹ
بادی النظرمیں یہ معاملہ محض سیاسی نہیں بلکہ آئینی ہے،کوئی جھوٹاشخص عوام کی نمائندگی نہیں کر سکتا،جسٹس جواد خواجہ
سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ کوئی جھوٹا شخص عوام کی نمائندگی نہیں کرسکتا، آدھی پارلیمنٹ بھی نااہل ہو جائے تو ہمیں کوئی پرواہ نہیں، صادق اور امین کا معیار مقرر کرنا پڑے گا۔
جسٹس جواد خواجہ اور جسٹس فائز عیسیٰ پر مشتمل ڈویژن بینچ نے وزیراعظم نااہلی کیس میں اٹارنی جنرل سے جامع جواب طلب کرلیا جبکہ درخواست گزار اسحاق خاکوانی اور چوہدری شجاعت کے وکلا کو ہدایت کی کہ بتایا جائے درخواستیں ذاتی حیثیت میں دائر کی گئیں یا پارٹی حیثیت میں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اہلیت کے معاملے کو جانچنے کیلیے لارجر بینچ بنا ہوا ہے جو انتخابی عذرداریوں میں آئینی سوالات پرفیصلہ کرے گا۔ وزیر اعظم کے معاملے میں عدالت کو یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ بیان پارلیمنٹ کے اندر دیا گیا یا باہر کیونکہ آرٹیکل 66کے تحت پارلیمنٹ کی کارروائی کو عدالت میں زیر بحث نہیں لایا جاسکتا۔
جسٹس جواد خواجہ نے قرار دیا کہ بادی النظر میں یہ معاملہ محض سیاسی نہیں بلکہ آئینی نوعیت کا ہے، کوئی جھوٹا شخص عوام کی نمائندگی نہیں کر سکتا، آدھی پارلیمنٹ بھی نااہل ہو جائے تو ہمیں کوئی پرواہ نہیں، ہم نے آئین کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔
سچ کیا ہے، اس کا معیار مقرر کرنا پڑے گا اور عوامی نمائندوں کو صادق اور امین کے اس معیار پر پورا اترنا ہوگا، اس سے قطع نظر کہ کوئی پارلیمنٹ کے اندر ہے یا باہر، مستقبل میں بھی عام انتخابات ہونگے، اب معلوم نہیں کہ مڈٹرم ہوتے ہیں یا چار سال بعد، اسکے علاوہ بلدیاتی الیکشن ہونے والے ہیں، ان میں صادق اور امین کے جھگڑے کھڑے ہونگے، اس لیے ہمیں صادق اور امین کے بارے میں کوئی نظیر قائم کرنا پڑے گی۔
درخواست گزاروں کے اعتراض اور لارجر بینچ بنانے کی درخواست پر جسٹس جواد خواجہ نے ریمارکس دیے کہ اگر میں نے سمجھا کہ کیس کی سماعت کیلیے موزوں نہیں ہوں تو الگ ہو جائوں گا لیکن یہ سند ہم نے وکلا سے نہیں لینی، خود ہی ایسے معاملات کا فیصلہ کرینگے، اگر عدالت میں یہ معاملہ طے نہ ہوا تو بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہو جائیگا۔
یونین کونسل سے لیکر پارلیمنٹ تک امیدواروں سے متعلق انکے مخالفین کہیں گے کہ یہ جھوٹا ہے اور پھر 18کروڑ عوم کو اسناد دینا پڑیں گی۔ اے پی پی کے مطابق عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں گوہر نواز سندھو کی درخواست کے سیاسی یا آئینی ہونے سے متعلق عدالت کی معاونت کریں اور7روز میں رپورٹ جمع کرائیں، مزید سماعت محرم الحرام کے بعد ہوگی۔
جسٹس جواد خواجہ اور جسٹس فائز عیسیٰ پر مشتمل ڈویژن بینچ نے وزیراعظم نااہلی کیس میں اٹارنی جنرل سے جامع جواب طلب کرلیا جبکہ درخواست گزار اسحاق خاکوانی اور چوہدری شجاعت کے وکلا کو ہدایت کی کہ بتایا جائے درخواستیں ذاتی حیثیت میں دائر کی گئیں یا پارٹی حیثیت میں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اہلیت کے معاملے کو جانچنے کیلیے لارجر بینچ بنا ہوا ہے جو انتخابی عذرداریوں میں آئینی سوالات پرفیصلہ کرے گا۔ وزیر اعظم کے معاملے میں عدالت کو یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ بیان پارلیمنٹ کے اندر دیا گیا یا باہر کیونکہ آرٹیکل 66کے تحت پارلیمنٹ کی کارروائی کو عدالت میں زیر بحث نہیں لایا جاسکتا۔
جسٹس جواد خواجہ نے قرار دیا کہ بادی النظر میں یہ معاملہ محض سیاسی نہیں بلکہ آئینی نوعیت کا ہے، کوئی جھوٹا شخص عوام کی نمائندگی نہیں کر سکتا، آدھی پارلیمنٹ بھی نااہل ہو جائے تو ہمیں کوئی پرواہ نہیں، ہم نے آئین کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔
سچ کیا ہے، اس کا معیار مقرر کرنا پڑے گا اور عوامی نمائندوں کو صادق اور امین کے اس معیار پر پورا اترنا ہوگا، اس سے قطع نظر کہ کوئی پارلیمنٹ کے اندر ہے یا باہر، مستقبل میں بھی عام انتخابات ہونگے، اب معلوم نہیں کہ مڈٹرم ہوتے ہیں یا چار سال بعد، اسکے علاوہ بلدیاتی الیکشن ہونے والے ہیں، ان میں صادق اور امین کے جھگڑے کھڑے ہونگے، اس لیے ہمیں صادق اور امین کے بارے میں کوئی نظیر قائم کرنا پڑے گی۔
درخواست گزاروں کے اعتراض اور لارجر بینچ بنانے کی درخواست پر جسٹس جواد خواجہ نے ریمارکس دیے کہ اگر میں نے سمجھا کہ کیس کی سماعت کیلیے موزوں نہیں ہوں تو الگ ہو جائوں گا لیکن یہ سند ہم نے وکلا سے نہیں لینی، خود ہی ایسے معاملات کا فیصلہ کرینگے، اگر عدالت میں یہ معاملہ طے نہ ہوا تو بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہو جائیگا۔
یونین کونسل سے لیکر پارلیمنٹ تک امیدواروں سے متعلق انکے مخالفین کہیں گے کہ یہ جھوٹا ہے اور پھر 18کروڑ عوم کو اسناد دینا پڑیں گی۔ اے پی پی کے مطابق عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں گوہر نواز سندھو کی درخواست کے سیاسی یا آئینی ہونے سے متعلق عدالت کی معاونت کریں اور7روز میں رپورٹ جمع کرائیں، مزید سماعت محرم الحرام کے بعد ہوگی۔