واپسی
اکثرمسلمانوں نے اپنی جائیدادانتہائی کم قیمت پر ہندو ساہوکاروں کوبیچ دیں۔ کاروبارتباہ ہوگئے۔
صاحبان! وقت کتنا ظالم ہو سکتا ہے، یہ صرف اس انسان کومعلوم ہوتاہے جوزندگی یااقتدار کی بازی ہارجاتاہے! ہر زندہ انسان صرف اس دم تک جیتاہوانظرآتاہے،جب تک وہ ہارنے کی قیامت میں سے نہیں گزرتا!
میں اب بڑے لوگوں سے قطعاً متاثر نہیں ہوتا!بلکہ متاثر ہونا تو دور کی بات، میں تو اب اکثرکوقابلِ تذکرہ بھی نہیں سمجھتا۔اب کہاں سے وہ لوگ تلاش کروں!جن کے لیے رطب اللسان ہو سکوں! ہرطرف ہُوکا عالم! اوروہ بھی مستقل! کہاں ذوالفقارعلی بھٹو کی آوازکا طلسم اورکہاں آج کے بچوں کی چیخ وپکار! کہاں لوگوں کے دل پرحکومت کرنے والی آواز، اور کہاں طوفانِ دُشنام!افسوس درافسوس!دولت کے انبارسے اگرعزت نصیب ہوتی توملک کا امیرترین شخص ہی سب سے معتبرہوتا؟مگرمعاملہ بالکل مختلف ہوچکاہے۔
اصل سفر تو واپسی کا ہوتا ہے۔انسان کے کرداراوراس کی شخصیت کے بیشتر پہلوؤں کاعلم اس وقت ہوتاہے جب وقتِ دوپہرڈھل چکاہو!میرے جیسے طالبعلم کی دانست میں توواپسی کاباعزت رستہ ہی انسانی اور مجموعی طورپرقوموں کو تشخص عطا کرتا ہے۔تاریخ کے سینہ میں عزت اورذلت کی لاکھوں داستانیں رقم ہیں۔ دوتین ماہ کے ہیجان انگیزواقعات کوغورسے دیکھیے۔علامہ صاحب اپنی کرشماتی تقاریرسے لوگوں کے جذبات کواس بلندی پرلے گئے جہاں سے کسی قسم کے نتائج حاصل کرنااگرناممکن نہیں توبے حد مشکل ضرورتھا۔
ان کے بدترین ناقدین بھی ان کی قادرالکلامی کے معتقد نظر آتے ہیں مگر نکتہ یہ ہے کہ آخر مقصد کیا تھا! اتنابڑاہنگامہ کیاکسی خام بنیاد پر استوار کیا گیا تھا! یا مقصد ہی کچھ اورتھا۔ جانی اورمالی نقصان کوتوایک طرف رکھ دیجیے۔ کہ ہمارے ملک میں عام انسان کی زندگی کی وقعت ہی کیاہے؟مگرجو معاشی نقصان ہوا، اسکاجوابدہ کون ہوگا!ان سوالات کامیرے پاس توکوئی جواب نہیں۔ کہیں سے توجواب آناچاہیے!
شائد آپکو۔میری بات تلخ لگے۔مگرانقلاب کوسمجھنے کے لیے تین ملکوں کی تاریخ پرگہری نظرہونی چاہیے۔روس،فرانس اورچین۔ان تمام ممالک نے اپنے طرزحکومت کویکسرتبدیل کیاہے۔مگراس کی قیمت جو رہنماؤں نے اداکی،بہت توجہ طلب ہے۔ہمارے خطے کی تاریخ کوآپ مذہبی تعصب سے ہٹ کردیکھیے۔چندرگپت موریا، اشوکا، مغل بادشاہوں اور حکومت برطانیہ تک کے ادوارکاجائزہ لیجیے۔ آپکوان دوڈھائی ہزار سال کے طویل دورانیے میں کئی تبدیلیاں ضرورنظرآئینگی مگرآپکوکہیں بھی ـ "انقلاب" نام کی کوئی شے محسوس نہیںہوگی۔
میں مثال دینا نہیں چاہتا۔آپ کسی بھی تاریخ کی کتاب کو نکال لیجیے۔"تحریک خلافت" کوغورسے پڑھیے!آپ اس وقت کے علماء کے دلائل دیکھیے۔پورے برصغیرکو "دارالحرب"قراردے دیاگیاتھا۔مسلمانوں کے لیے ایک یہی نہیں بلکہ درجنوں فتوے جاری کیے گئے تھے کہ انکوبرصغیرسے ہجرت کرکے ایک مسلمان ملک میں چلے جاناچاہیے۔آپ حیران ہوجائینگے کہ اکثرمسلمانوں نے اپنی جائیدادانتہائی کم قیمت پر ہندو ساہوکاروں کوبیچ دیں۔ کاروبارتباہ ہوگئے۔ انھوں نے افغانستان ہجرت کرنے کافیصلہ کرلیا۔میں کوئی نئی بات نہیں عرض کررہا۔
ہجرت کے لیے جس مسلمان ملک یعنی ''افغانستان'' میں جاناتھا،اس نے اپنی سرحدوں کو بند کرڈالا۔ مجبوراً مسلمان خاندانوں کوواپس آناپڑا۔مگرانکاسب کچھ برباد ہوگیا۔مسلمان جوپہلے ہی ہرچیزمیں دوسرے لوگوں سے برسوں پیچھے تھے،اجڑ کررہ گئے!بنیادصرف اورصرف جذباتیت تھی اوردلیل سے خالی نعرے تھے۔کسی نے بھی مسلمانوں کے اس عظیم نقصان کی ذمے داری قبول نہیں کی! آپ سوال کریں توصرف اور صرف خاموشی ہے! آج بھی بالکل وہی حال ہے!وہی دلیل کے بغیرنعرے اور جذباتیت کا طوفان! میں کسی فکری بحث میں پڑنا نہیں چاہتا کیونکہ میں ایک طالبعلم ہوں۔مگر میں یہ ضرور جانتاہوں کہ جن عظیم ملکوں میں "انقلاب" آیا وہاں ذاتی قربانی،موت سے لڑنے کے برابر جدوجہد اور نئے فکری اصول اپنائے گئے۔
میں رہنماؤں کے متعلق عرض کررہا ہوں۔موجودہ صورتحال میں کشت وخون کے راستے کو چھوڑکر نظام کی اصلاح کرنے پرتوجہ مرکوز کرنا ہی اصل کام ہے! ہمارایہ ناقص نظام کسی بھی صورت میں عام آدمی کے مسائل حل کرنے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں رکھتامگر اسکو صحیح راستے پرچلانا ہی آج اورمستقبل کی ملکی قیادت کا امتحان ہے!آج تک تولوگ صرف مایوس ہی ہوئے ہیں! آگے دیکھیے کہ حالات کس طرف جاتے ہیں۔
میں نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے ہمسایہ ملک کی مثال دینے پرمجبورہوں!وہاں کانظام اورہماراطرزِحکومت بالکل یکساں طریقے کاتھا۔ہمارے بنیادی قوانین،عدالتیں،نظام عدل ایک دوسرے کی کاربن کاپی رہے تھے۔ مگراب صورتحال تیزی سے تبدیل ہوئی ہے۔آپ"صوبہ بہار"کی مثال سامنے لیجیے۔ بہار ہندوستان کاوہ صوبہ تھاجونہ صرف معاشی ترقی کی دوڑمیں سب سے پیچھے رہ چکاتھا بلکہ جرائم، ڈاکے، سرکاری کرپشن اور جہالت کا گڑھ تھا۔ صرف ایک وزیراعلیٰ، جی ہاں!صرف ایک سیاستدان نے اس صوبہ کومکمل تبدیل کرکے رکھ دیا۔
"نتیش کمار"بنیادی طورپر الیکٹریکل انجینئرتھا۔اس نے بہارکی انجینئرنگ یونیورسٹی سےBScکی ڈگری لی۔وہ بہارکی سرکاری بجلی کی کمپنی میں ملازم ہوگیا۔مگروہ سرکارکی چاکر ی نہ کر پایا۔اس نے ایک عجیب سا فیصلہ کیاکہ وہ صوبائی سیاست میں کرداراداکریگا۔اس کے اور خاندان کے پاس کسی قسم کے مالی وسائل موجودنہیں تھے۔مگراس نوجوان میں وہ ہمت اورعزم تھاکہ وہ سیاست کے گروہی اور برادری کے جنگل میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگیا۔"
نوجوان نتیش کمارنے جے پرکاش نارائن،رام منوہر لوہیا، کیوری تھاکر، سی ین سنہااوروی پی سنگھ کے افکارسے بہت کچھ سیکھا۔ بہارجیسی مشکل جگہ میں1981ء میں صوبائی اسمبلی کاممبرمنتخب ہوا۔اس وقت کسی پارٹی نے اسکو ٹکٹ نہیں دیاتھا۔یہ فتح اس نے آزادحیثیت میں حاصل کی تھی۔میری نظر میں فتح ایک وجہ سے ممکن ہوئی۔عام لوگوں کی خدمت کرنے کاانقلابی جذبہ اوراسکاسادہ طرزِزندگی اورسیاست!
سیاست کے صوبائی اورقومی صحرامیں اس نے بے انتہا مدوجزر دیکھے۔جنتادل کی جانب سے وہ مرکزمیں ریلوے کا وزیر بنادیا گیا۔ انڈیا کی ریلوے دنیاکاسب سے بڑا ریلوے کا محکمہ ہے۔اس میں لاکھوں ملازمین، کرپشن کے مسائل بھی اسی مہیب نوعیت کے تھے۔نتیش کمار نے آتے ہی محکمہ میں اصلاحات سے انقلاب برپا کرڈالا۔وہ بنیادی سطح پرتبدیلی لے کرآیا۔اس کے نزدیک لوگوں کے مسائل میں سب سے بڑامسئلہ ریلوے کے سفرکے لیے ٹکٹ خریدنا تھا۔اس نے لاکھوں کی تعدادمیں پورے ملک میں ٹکٹ بیچنے کے کائونٹرشروع کردیے۔
اس پورے نظام کوانٹرنیٹ پرمنتقل کردیا۔کوئی بھی شخص اپنے گھربیٹھے ہوئے کمپیوٹرپراپناٹکٹ حاصل کرسکتاتھا۔ فوری بکنگ کے لیے ایک سہولت مہیاکی جسکانام"ٹٹکال اسکیم" رکھاگیا۔مسافروں کی سہولتوں کو بڑھاتے ہوئے اس نے تمام ٹرینوں کواوقات کار کا پابند بنا ڈالا۔ انڈین ریلوے جوتقریباً نیم مردہ حالت میں تھی،تھوڑے سے عرصے میں نہ صرف زندہ ہوگئی بلکہ منافع میں چلی گئی۔مگر نتیش کمارنے بہترین کام کرنے کے باوجود صرف "گیزل ریلوے" کے حادثہ کی اخلاقی ذمے داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔تمام سیاستدانوں اورلوگوں نے کہرام مچادیاکہ نتیش کمارکواستعفیٰ واپس لے لیناچاہیے مگراس نے فیصلہ بدلنے سے اس اخلاقی بنیادپرانکارکردیا،کہ ریلوے کے حادثہ کی ذمے داری صرف اورصرف اس کی ہے۔
بہارکاوزیراعلیٰ بننے کے بعداس نے صوبہ کی ترقی کے لیے وہ وہ اقدامات کیے کہ تمام سیاستدان دنگ رہ گئے۔اس نے تمام سرکاری معلومات تک عام آدمی کی رسائی کوقانونی شکل دیدی۔اسکانام"Right of Information Act" رکھاگیا۔ بہارمیں کمپیوٹرپرآپ حکومت کی ہرسطح کی کارکردگی کاملاحظہ کرسکتے ہیں۔ اسکا دوسرا نام"جانکاری اسکیم"بھی تھا۔لوگوں میں سرکاری ملازمتیں دینے کے طریقے کواس نے بے حد سہل کرڈالا۔اس نے ای۔شکتیNREGSاسکیم شروع کی۔ کوئی بھی شخص صرف فون پرخالی آسامیاں،طریقہ کاراورتمام جزئیات کے متعلق مکمل معلومات حاصل کرسکتاتھا۔
بہارمیں عملی طورپرڈاکوئوں کاراج تھا۔دن رات شہروں اورگائوں میں لوگ بے دریغ لوٹے جاتے تھے۔اس نے تین اقدامات کیے۔ نظام عدل میں فوری انصاف فراہم کرنے کے لیے ترامیم کیں۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور پولیس کی ہفتہ وارجواب دہی کامنظم نظام ترتیب دیا۔وہ ہرافسرکی کارکردگی کوخودپرکھتاتھا۔ عدالتوں میں سرکاری وکلاء کوحوصلہ اورہمت دی۔پولیس میں صرف اورصرف میرٹ پربھرتیاں شروع کر ڈالیں۔ چند مہینوں میں بہارمیں جرائم نہ ہونے کے برابررہ گئے۔صوبہ کی کایہ پلٹ گئی۔
نتیش کمار نے سرکاری اسکولوں کے نظام کوبہتر بنایا۔ ایک لاکھ سے زیادہ اساتذہ کی بھرتی بغیرکسی سفارش کے کی گئی۔بچوں اوربچیوں کواسکول آنے اورجانے کے لیے سرکاری فنڈ سے سائیکلیں مہیا کردیں۔ کسان کے لیے چھوٹے چھوٹے قرضے اورسرکاری اسپتالوں میں مفت دوائی فراہم کی۔پہلی بارخواتین اورغریب ترین طبقے کے لیے صوبائی اسمبلی میں کوٹہ مختص کردیا جو تقریباً پچاس فیصد کے نزدیک تھا۔ اس کی کئی اصلاحات کی بھرپورمخالفت کی گئی۔مگرصرف چارسال میں بہارمیں بے روزگاری ختم ہوگئی۔
پورے ہندوستان میں بہارسب سے زیادہ سرکاری ٹیکس دینے والاصوبہ بن گیا۔یہ معجزہ صرف چار سال کی قلیل مدت میں ہوا۔جب اس نے دوسری بار الیکشن لڑاتونوجوان ووٹراورخواتین نے بڑی تعدادمیں اسکو دوبارہ ووٹ کی طاقت سے بہار کا وزیراعلیٰ بنادیا۔2014ء میں نتیش کمارنے الیکشن میں اپنی پارٹی کی خراب سیاسی کارکردگی کی ذمے داری لیتے ہوئے استعفیٰ دیدیا۔اس نے ہندوستان کے سب سے پسماندہ ترین ریاست کو اتنا بہتر بنادیاکہ وہ دنیامیں ترقی کی ایک مثال بن گئی۔
اب آپ اپنے ملک کے کسی صوبہ کی مثال لے لیجیے۔ میں سمجھتاہوں کہ جتنی گجرات کی ریاست کواصلاحات کی ضرورت تھی، اتنی ہی ضرورت ہمارے ملک کے تمام صوبوں کوبھی ہے!مگرپہلاسچ تویہ ہے کہ ہمارا مقتدر طبقہ تسلیم کرنے کوہی تیارنہیں ہے کہ ہماری انتظامی بدانتظامی کتنی مہیب طرزکی ہے!بلکہ اس سے بھی پہلے،طاقتورطبقہ یہ تک ماننے کوتیارنہیں کہ ہماراملکی ڈھانچہ حقیقت میں خراب ہوچکاہے اور اسے انقلابی اصلاحات کی ضرورت ہے! ہرفریق دوسرے کو بدانتظامی کا ذمے دار ٹھہرا کراپنی نالائقی سے بری الذمہ ہونے کی کوشش کرنے میں مصروف ہے!پوری دنیاکی ہرغیرجانبدار رپورٹ ہمارے ملک کے معروضی حالات چیخ چیخ کربتارہی ہے۔ہم دنیا کے ان دس بارہ بدقسمت ممالک میں ہیں جوتمام وسائل کے موجودہوتے ہوئے بھی ناکام ترین ریاستوں میں شمارکیے جاتے ہیں۔
جس غیرحقیقی بلندی پرہمارے اہل مسند تخت افروز ہیں، انھیں معلوم ہے کہ اقتدار سے جدائی کاسفرانتہائی مشکل، تکلیف دہ اورجان لیوا ہوسکتا ہے۔وہ باعزت راستہ تلاش کرنے کی اہلیت سے بھی مکمل محروم ہیں! شائداب توحالات کے جبرکی وجہ سے ان کے اندراس درجہ ہمت تک موجودنہیں ہے کہ احترام سے مزین واپسی کے راستے کی طرف روانہ ہوسکیں!شائداب وقت بھی ان کے ساتھ وفا نہیں کررہا؟
میں اب بڑے لوگوں سے قطعاً متاثر نہیں ہوتا!بلکہ متاثر ہونا تو دور کی بات، میں تو اب اکثرکوقابلِ تذکرہ بھی نہیں سمجھتا۔اب کہاں سے وہ لوگ تلاش کروں!جن کے لیے رطب اللسان ہو سکوں! ہرطرف ہُوکا عالم! اوروہ بھی مستقل! کہاں ذوالفقارعلی بھٹو کی آوازکا طلسم اورکہاں آج کے بچوں کی چیخ وپکار! کہاں لوگوں کے دل پرحکومت کرنے والی آواز، اور کہاں طوفانِ دُشنام!افسوس درافسوس!دولت کے انبارسے اگرعزت نصیب ہوتی توملک کا امیرترین شخص ہی سب سے معتبرہوتا؟مگرمعاملہ بالکل مختلف ہوچکاہے۔
اصل سفر تو واپسی کا ہوتا ہے۔انسان کے کرداراوراس کی شخصیت کے بیشتر پہلوؤں کاعلم اس وقت ہوتاہے جب وقتِ دوپہرڈھل چکاہو!میرے جیسے طالبعلم کی دانست میں توواپسی کاباعزت رستہ ہی انسانی اور مجموعی طورپرقوموں کو تشخص عطا کرتا ہے۔تاریخ کے سینہ میں عزت اورذلت کی لاکھوں داستانیں رقم ہیں۔ دوتین ماہ کے ہیجان انگیزواقعات کوغورسے دیکھیے۔علامہ صاحب اپنی کرشماتی تقاریرسے لوگوں کے جذبات کواس بلندی پرلے گئے جہاں سے کسی قسم کے نتائج حاصل کرنااگرناممکن نہیں توبے حد مشکل ضرورتھا۔
ان کے بدترین ناقدین بھی ان کی قادرالکلامی کے معتقد نظر آتے ہیں مگر نکتہ یہ ہے کہ آخر مقصد کیا تھا! اتنابڑاہنگامہ کیاکسی خام بنیاد پر استوار کیا گیا تھا! یا مقصد ہی کچھ اورتھا۔ جانی اورمالی نقصان کوتوایک طرف رکھ دیجیے۔ کہ ہمارے ملک میں عام انسان کی زندگی کی وقعت ہی کیاہے؟مگرجو معاشی نقصان ہوا، اسکاجوابدہ کون ہوگا!ان سوالات کامیرے پاس توکوئی جواب نہیں۔ کہیں سے توجواب آناچاہیے!
شائد آپکو۔میری بات تلخ لگے۔مگرانقلاب کوسمجھنے کے لیے تین ملکوں کی تاریخ پرگہری نظرہونی چاہیے۔روس،فرانس اورچین۔ان تمام ممالک نے اپنے طرزحکومت کویکسرتبدیل کیاہے۔مگراس کی قیمت جو رہنماؤں نے اداکی،بہت توجہ طلب ہے۔ہمارے خطے کی تاریخ کوآپ مذہبی تعصب سے ہٹ کردیکھیے۔چندرگپت موریا، اشوکا، مغل بادشاہوں اور حکومت برطانیہ تک کے ادوارکاجائزہ لیجیے۔ آپکوان دوڈھائی ہزار سال کے طویل دورانیے میں کئی تبدیلیاں ضرورنظرآئینگی مگرآپکوکہیں بھی ـ "انقلاب" نام کی کوئی شے محسوس نہیںہوگی۔
میں مثال دینا نہیں چاہتا۔آپ کسی بھی تاریخ کی کتاب کو نکال لیجیے۔"تحریک خلافت" کوغورسے پڑھیے!آپ اس وقت کے علماء کے دلائل دیکھیے۔پورے برصغیرکو "دارالحرب"قراردے دیاگیاتھا۔مسلمانوں کے لیے ایک یہی نہیں بلکہ درجنوں فتوے جاری کیے گئے تھے کہ انکوبرصغیرسے ہجرت کرکے ایک مسلمان ملک میں چلے جاناچاہیے۔آپ حیران ہوجائینگے کہ اکثرمسلمانوں نے اپنی جائیدادانتہائی کم قیمت پر ہندو ساہوکاروں کوبیچ دیں۔ کاروبارتباہ ہوگئے۔ انھوں نے افغانستان ہجرت کرنے کافیصلہ کرلیا۔میں کوئی نئی بات نہیں عرض کررہا۔
ہجرت کے لیے جس مسلمان ملک یعنی ''افغانستان'' میں جاناتھا،اس نے اپنی سرحدوں کو بند کرڈالا۔ مجبوراً مسلمان خاندانوں کوواپس آناپڑا۔مگرانکاسب کچھ برباد ہوگیا۔مسلمان جوپہلے ہی ہرچیزمیں دوسرے لوگوں سے برسوں پیچھے تھے،اجڑ کررہ گئے!بنیادصرف اورصرف جذباتیت تھی اوردلیل سے خالی نعرے تھے۔کسی نے بھی مسلمانوں کے اس عظیم نقصان کی ذمے داری قبول نہیں کی! آپ سوال کریں توصرف اور صرف خاموشی ہے! آج بھی بالکل وہی حال ہے!وہی دلیل کے بغیرنعرے اور جذباتیت کا طوفان! میں کسی فکری بحث میں پڑنا نہیں چاہتا کیونکہ میں ایک طالبعلم ہوں۔مگر میں یہ ضرور جانتاہوں کہ جن عظیم ملکوں میں "انقلاب" آیا وہاں ذاتی قربانی،موت سے لڑنے کے برابر جدوجہد اور نئے فکری اصول اپنائے گئے۔
میں رہنماؤں کے متعلق عرض کررہا ہوں۔موجودہ صورتحال میں کشت وخون کے راستے کو چھوڑکر نظام کی اصلاح کرنے پرتوجہ مرکوز کرنا ہی اصل کام ہے! ہمارایہ ناقص نظام کسی بھی صورت میں عام آدمی کے مسائل حل کرنے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں رکھتامگر اسکو صحیح راستے پرچلانا ہی آج اورمستقبل کی ملکی قیادت کا امتحان ہے!آج تک تولوگ صرف مایوس ہی ہوئے ہیں! آگے دیکھیے کہ حالات کس طرف جاتے ہیں۔
میں نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے ہمسایہ ملک کی مثال دینے پرمجبورہوں!وہاں کانظام اورہماراطرزِحکومت بالکل یکساں طریقے کاتھا۔ہمارے بنیادی قوانین،عدالتیں،نظام عدل ایک دوسرے کی کاربن کاپی رہے تھے۔ مگراب صورتحال تیزی سے تبدیل ہوئی ہے۔آپ"صوبہ بہار"کی مثال سامنے لیجیے۔ بہار ہندوستان کاوہ صوبہ تھاجونہ صرف معاشی ترقی کی دوڑمیں سب سے پیچھے رہ چکاتھا بلکہ جرائم، ڈاکے، سرکاری کرپشن اور جہالت کا گڑھ تھا۔ صرف ایک وزیراعلیٰ، جی ہاں!صرف ایک سیاستدان نے اس صوبہ کومکمل تبدیل کرکے رکھ دیا۔
"نتیش کمار"بنیادی طورپر الیکٹریکل انجینئرتھا۔اس نے بہارکی انجینئرنگ یونیورسٹی سےBScکی ڈگری لی۔وہ بہارکی سرکاری بجلی کی کمپنی میں ملازم ہوگیا۔مگروہ سرکارکی چاکر ی نہ کر پایا۔اس نے ایک عجیب سا فیصلہ کیاکہ وہ صوبائی سیاست میں کرداراداکریگا۔اس کے اور خاندان کے پاس کسی قسم کے مالی وسائل موجودنہیں تھے۔مگراس نوجوان میں وہ ہمت اورعزم تھاکہ وہ سیاست کے گروہی اور برادری کے جنگل میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگیا۔"
نوجوان نتیش کمارنے جے پرکاش نارائن،رام منوہر لوہیا، کیوری تھاکر، سی ین سنہااوروی پی سنگھ کے افکارسے بہت کچھ سیکھا۔ بہارجیسی مشکل جگہ میں1981ء میں صوبائی اسمبلی کاممبرمنتخب ہوا۔اس وقت کسی پارٹی نے اسکو ٹکٹ نہیں دیاتھا۔یہ فتح اس نے آزادحیثیت میں حاصل کی تھی۔میری نظر میں فتح ایک وجہ سے ممکن ہوئی۔عام لوگوں کی خدمت کرنے کاانقلابی جذبہ اوراسکاسادہ طرزِزندگی اورسیاست!
سیاست کے صوبائی اورقومی صحرامیں اس نے بے انتہا مدوجزر دیکھے۔جنتادل کی جانب سے وہ مرکزمیں ریلوے کا وزیر بنادیا گیا۔ انڈیا کی ریلوے دنیاکاسب سے بڑا ریلوے کا محکمہ ہے۔اس میں لاکھوں ملازمین، کرپشن کے مسائل بھی اسی مہیب نوعیت کے تھے۔نتیش کمار نے آتے ہی محکمہ میں اصلاحات سے انقلاب برپا کرڈالا۔وہ بنیادی سطح پرتبدیلی لے کرآیا۔اس کے نزدیک لوگوں کے مسائل میں سب سے بڑامسئلہ ریلوے کے سفرکے لیے ٹکٹ خریدنا تھا۔اس نے لاکھوں کی تعدادمیں پورے ملک میں ٹکٹ بیچنے کے کائونٹرشروع کردیے۔
اس پورے نظام کوانٹرنیٹ پرمنتقل کردیا۔کوئی بھی شخص اپنے گھربیٹھے ہوئے کمپیوٹرپراپناٹکٹ حاصل کرسکتاتھا۔ فوری بکنگ کے لیے ایک سہولت مہیاکی جسکانام"ٹٹکال اسکیم" رکھاگیا۔مسافروں کی سہولتوں کو بڑھاتے ہوئے اس نے تمام ٹرینوں کواوقات کار کا پابند بنا ڈالا۔ انڈین ریلوے جوتقریباً نیم مردہ حالت میں تھی،تھوڑے سے عرصے میں نہ صرف زندہ ہوگئی بلکہ منافع میں چلی گئی۔مگر نتیش کمارنے بہترین کام کرنے کے باوجود صرف "گیزل ریلوے" کے حادثہ کی اخلاقی ذمے داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔تمام سیاستدانوں اورلوگوں نے کہرام مچادیاکہ نتیش کمارکواستعفیٰ واپس لے لیناچاہیے مگراس نے فیصلہ بدلنے سے اس اخلاقی بنیادپرانکارکردیا،کہ ریلوے کے حادثہ کی ذمے داری صرف اورصرف اس کی ہے۔
بہارکاوزیراعلیٰ بننے کے بعداس نے صوبہ کی ترقی کے لیے وہ وہ اقدامات کیے کہ تمام سیاستدان دنگ رہ گئے۔اس نے تمام سرکاری معلومات تک عام آدمی کی رسائی کوقانونی شکل دیدی۔اسکانام"Right of Information Act" رکھاگیا۔ بہارمیں کمپیوٹرپرآپ حکومت کی ہرسطح کی کارکردگی کاملاحظہ کرسکتے ہیں۔ اسکا دوسرا نام"جانکاری اسکیم"بھی تھا۔لوگوں میں سرکاری ملازمتیں دینے کے طریقے کواس نے بے حد سہل کرڈالا۔اس نے ای۔شکتیNREGSاسکیم شروع کی۔ کوئی بھی شخص صرف فون پرخالی آسامیاں،طریقہ کاراورتمام جزئیات کے متعلق مکمل معلومات حاصل کرسکتاتھا۔
بہارمیں عملی طورپرڈاکوئوں کاراج تھا۔دن رات شہروں اورگائوں میں لوگ بے دریغ لوٹے جاتے تھے۔اس نے تین اقدامات کیے۔ نظام عدل میں فوری انصاف فراہم کرنے کے لیے ترامیم کیں۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور پولیس کی ہفتہ وارجواب دہی کامنظم نظام ترتیب دیا۔وہ ہرافسرکی کارکردگی کوخودپرکھتاتھا۔ عدالتوں میں سرکاری وکلاء کوحوصلہ اورہمت دی۔پولیس میں صرف اورصرف میرٹ پربھرتیاں شروع کر ڈالیں۔ چند مہینوں میں بہارمیں جرائم نہ ہونے کے برابررہ گئے۔صوبہ کی کایہ پلٹ گئی۔
نتیش کمار نے سرکاری اسکولوں کے نظام کوبہتر بنایا۔ ایک لاکھ سے زیادہ اساتذہ کی بھرتی بغیرکسی سفارش کے کی گئی۔بچوں اوربچیوں کواسکول آنے اورجانے کے لیے سرکاری فنڈ سے سائیکلیں مہیا کردیں۔ کسان کے لیے چھوٹے چھوٹے قرضے اورسرکاری اسپتالوں میں مفت دوائی فراہم کی۔پہلی بارخواتین اورغریب ترین طبقے کے لیے صوبائی اسمبلی میں کوٹہ مختص کردیا جو تقریباً پچاس فیصد کے نزدیک تھا۔ اس کی کئی اصلاحات کی بھرپورمخالفت کی گئی۔مگرصرف چارسال میں بہارمیں بے روزگاری ختم ہوگئی۔
پورے ہندوستان میں بہارسب سے زیادہ سرکاری ٹیکس دینے والاصوبہ بن گیا۔یہ معجزہ صرف چار سال کی قلیل مدت میں ہوا۔جب اس نے دوسری بار الیکشن لڑاتونوجوان ووٹراورخواتین نے بڑی تعدادمیں اسکو دوبارہ ووٹ کی طاقت سے بہار کا وزیراعلیٰ بنادیا۔2014ء میں نتیش کمارنے الیکشن میں اپنی پارٹی کی خراب سیاسی کارکردگی کی ذمے داری لیتے ہوئے استعفیٰ دیدیا۔اس نے ہندوستان کے سب سے پسماندہ ترین ریاست کو اتنا بہتر بنادیاکہ وہ دنیامیں ترقی کی ایک مثال بن گئی۔
اب آپ اپنے ملک کے کسی صوبہ کی مثال لے لیجیے۔ میں سمجھتاہوں کہ جتنی گجرات کی ریاست کواصلاحات کی ضرورت تھی، اتنی ہی ضرورت ہمارے ملک کے تمام صوبوں کوبھی ہے!مگرپہلاسچ تویہ ہے کہ ہمارا مقتدر طبقہ تسلیم کرنے کوہی تیارنہیں ہے کہ ہماری انتظامی بدانتظامی کتنی مہیب طرزکی ہے!بلکہ اس سے بھی پہلے،طاقتورطبقہ یہ تک ماننے کوتیارنہیں کہ ہماراملکی ڈھانچہ حقیقت میں خراب ہوچکاہے اور اسے انقلابی اصلاحات کی ضرورت ہے! ہرفریق دوسرے کو بدانتظامی کا ذمے دار ٹھہرا کراپنی نالائقی سے بری الذمہ ہونے کی کوشش کرنے میں مصروف ہے!پوری دنیاکی ہرغیرجانبدار رپورٹ ہمارے ملک کے معروضی حالات چیخ چیخ کربتارہی ہے۔ہم دنیا کے ان دس بارہ بدقسمت ممالک میں ہیں جوتمام وسائل کے موجودہوتے ہوئے بھی ناکام ترین ریاستوں میں شمارکیے جاتے ہیں۔
جس غیرحقیقی بلندی پرہمارے اہل مسند تخت افروز ہیں، انھیں معلوم ہے کہ اقتدار سے جدائی کاسفرانتہائی مشکل، تکلیف دہ اورجان لیوا ہوسکتا ہے۔وہ باعزت راستہ تلاش کرنے کی اہلیت سے بھی مکمل محروم ہیں! شائداب توحالات کے جبرکی وجہ سے ان کے اندراس درجہ ہمت تک موجودنہیں ہے کہ احترام سے مزین واپسی کے راستے کی طرف روانہ ہوسکیں!شائداب وقت بھی ان کے ساتھ وفا نہیں کررہا؟