نفسیاتی عوارض مسائل کی جڑ

وسائل کی کمی اور مسائل کی زیادتی۔ ہر شخص مصروف ہے ہر کوئی اپنی جنگ کے محاذ پہ تنہا سپاہی۔ لیکن یہ جنگ بھی عجیب ہے۔

sana_ghori@outlook.com

کچھ دن پہلے ایک خبر نظر سے گزری جس کے مطابق 10 اکتوبر پوری دنیا میں ذہنی صحت کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔اعدادوشمار کے مطابق دنیا کا ہر چوتھا فرد کسی نہ کسی سطح کی ذہنی بیماریوں کا شکار ہے۔ یعنی عالمی آبادی کا 25 فی صد ذہنی امراض میں مبتلا ہے۔ ورلڈ مینٹل ہیلتھ کے اعدادوشمار کے مطابق دوکروڑ ساٹھ لاکھ افراد انفضام (schizopherinia) کے مرض میں مبتلا ہیں، جب کہ 35 کروڑ افراد ڈیپریشن جیسے مرض کا شکار ہیں۔

WHO کے مطابق ہر سال 10 لاکھ افراد یعنی 40 سیکنڈ میں ایک شخص خودکُشی کر کے اپنے آپ کو ختم کر رہا ہے۔ امریکی اداے نیشنل الائینس فار مینٹل ایلنس کے مطابق امریکا میں 6 کروڑ 15 لاکھ افراد ذہنی بیماریوں کا شکار ہیں۔ خبر نظر سے گزرنے کے بعد شاید اپنی وقعت کھودیتی ہے، لیکن راقمِ السطور کو یہ خبر تشویش میں مبتلا کرگئی کہ پاکستان میں اس حوالے سے کیا صورت حال ہے۔

ہمارے ملک میں جہاں بنیادی حقوق، انسانی حقوق اورمساوی حقوق جیسے الفاظ کے معنوں سے ہی عوام ناواقف ہوں، وہاں اس حوالے سے صورت حال یقیناً تشویش ناک ہوگی۔ انسانی حقوق کی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی کے 34 فی صد لوگ کسی نہ کسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہیں، لیکن ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ صرف کراچی کی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے یہاں اس مرض کی شرح 34 فی صد سے زائد ہے۔

ذہن کے کسی گوشے میں خطرے نے نقب لگائی اور ایک نیا سوال پیدا ہوا کہ کیا ہمارے ملک میں ذہنی امراض وبائی امراض کے مقابلے میں دُگنی رفتار سے عوام الناس کو دبوچ رہے ہیں۔ یہ یقیناً لمحۂ فکریہ ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران نفسیاتی امراض کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ یہ مرض غیرمحسوس طریقے سے اثر انداز ہوتا ہے۔

متاثرہ فرد خود اپنی کیفیت کو سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے۔ ابتدائی کیفیات میں مایوسی، اُداسی، غم کا شدید احساس، اضطراب، بے چینی یا خلل کی کیفیت، بے خوابی یا نیند کی زیادتی، بھوک کی کمی یا زیادتی، وزن میں اُتار چڑھائو، موت و ہلاکت کے تخیلات اور خود کُشی کے تصّورکا ذہن میں پایا جانا قابلِ ذکر ہیں۔

اگر کراچی جیسے بڑے شہر کی بات کی جائے تو تقریباً ایک کروڑ افراد مختلف نفسیاتی بیماریوں ، ڈیپریشن ، بے چینی (انزائٹی) اور ذہنی دبائو کا شکار ہیں۔

شہر میں جاری کشیدگی، اہدافی قتل، دہشت گردی اور بڑھتی ہوئی لوٹ مار اور رہزنی کی وارداتوں کے باعث کراچی کی 50 فی صد آبادی مختلف نفسیاتی امراض کا شکار ہے۔ ساتھ ہی معاشی فرق یا تفریق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سر پہ چڑھ کر بولتے برقی ذرایع ابلاغ کے سِحر نے خواہشات کی پیاس سے ہر شخص کو ہوّس زدہ کر دیا ہے۔


وسائل کی کمی اور مسائل کی زیادتی۔ ہر شخص مصروف ہے ہر کوئی اپنی جنگ کے محاذ پہ تنہا سپاہی۔ لیکن یہ جنگ بھی عجیب ہے، جس میں فرد واحد آپ ہی اپنی ذات کو نشانہ بناتا ہے اور بس بھاگتے رہنا چاہتا ہے۔ جہاں شہر میں جاری لسانی و فرقہ وارانہ آگ نے اس بیماری کے جانور کی پرورش کی، وہیں بجلی کے بحران نے اسے پروان چڑھایا۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے لاکھوں مزدور توانائی کے بحران کے باعث بند فیکٹریوں کی وجہ سے بے روزگار ہوئے، پھر روز کی دیہاڑی پر کام کرنے والے افراد کو اور بھی بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔

ہم تو اس دیس کے باسی ہیں جہاں فقط ایک وی آئی پی کے جلسے کے باعث اس ملک کی معاشی شہ رگ کو بند کر دیا جاتا۔۔۔ پھر سوال یہ پوچھا جاتا ہے کہ آخر عوام میں بے چینی پائی کیوں جاتی ہے۔ کہیں آئے دن کے نشانہ وار قتل کی وجہ سے شہری زندگی مفلوج ہوجاتی ہے۔ کبھی کسی سیاسی جماعت نے ہڑتال کی کال دی تو کبھی کوئی علاقہ بند کروانے کے لیے اپنے چیلوں کو دندناتا چھوڑ دیا گیا۔ ''بند کرو بند کرو'' کی آوازیں آئیں۔ ایسے میں کوئی کیا کمائے گا اور کیسے اپنے خاندان کی کفالت کر سکے گا۔ ایسے میں لوگ ہمت ہار رہے ہیں۔ اور رفتہ رفتہ نفسیاتی عوارض کا شکار ہو رہے ہیں۔

اس کی ایک وجہ ذرایع ابلاغ خصوصاً برقی ذرایع ابلاغ پر دکھائے جانے والے پر تشدد واقعات کی تمثیل کاری (Dramatization) کی صورت میں منظر کشی ہے، جس کے باعث ایک عام فرد خود کو اس صورت حال میں رکھ کر سوچنا شروع کر دیتا ہے۔ یوں ایک اَن جانا خوف اس کے نفس پر حاوی ہونے لگتا ہے۔ لوگ تشدد کا شکار نہ ہوں، تو بھی post stress disorder میں مبتلا ہوکر بے چینی اور خوف کے شکنجے میں جکڑے جاتے ہیں۔ اس طرح افواہیں ہمیں ہراساں کر کے panic attackکی کیفیت میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ ایسے میں بظاہر ایک انسان نارمل نظر آتا ہے، لیکن اضطراب (Anxiety) کی کیفیت رہتی ہے۔ یہ مرض غائب دماغی سے شروع ہوتا ہے۔

متاثرہ فرد زیادہ تر شدید غصے اور اضطراب کی حالت میں مستقل لڑنے جھگڑنے لگتا ہے، چوںکہ اس مرض سے آگاہی اور شعور ہمارے معاشرے میں نہ ہونے کے برابر ہے، چناں چہ متاثرہ فرد کی ذہنی کیفیت اور اُلجھن کو سمجھنے کی بجائے اُسے مزید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور رفتہ رفتہ یہ مرض شدت اختیار کر جاتا ہے۔ یہ مرض موروثی بھی ہوسکتا ہے، جب کہ انسانی جسم میں موجود مختلف کیمییائی تبدیلیاں بھی اس کا سبب بنتی ہیں۔ اس مرض میں مبتلا فرد بعض اوقات خود سوزی کی کوشش کرتا ہے اور بعض اوقات اس کیفیت میں اپنے اطراف کے لوگوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔

اس کی چند مثالیں کچھ عرصے سے ہم اپنے معاشرے میں دیکھ رہے ہیں ۔ معمولی نوعیت کی ناچاقی کی بنیاد پر قتل جیسا انتہائی سنگین قدم اُٹھانا۔ اولاد کا ماں باپ کو مار دینا۔ معصوم بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر قتل کر دینا۔ ایک ماں کا اپنے بچوں کو پانی کے ٹینک میں پھینک کر خود بے ہوش ہو جانا۔ قبرستان میں خواتین کی لاشوں کی بے حرمتی کرنا۔ یہ تمام واقعات انتہائی افسوس ناک مگر تلخ حقیقت ہیں جو ہمارے معاشرے کی بدحالی کا ثبوت ہے۔ معاشرہ جس روش پہ چل رہا ہے، اس میں بیمار ذہنوں کی پیداوار ایک لازمی امر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آگاہی دی جائے اور اسباب تلاش کیے جائیں، تاکہ نفسیاتی امراض کے شکار افراد کو بروقت سمجھ کر ابتدا ہی میں علاج کیا جا سکے۔

عوام امن و امان کی خراب صورت حال کے باعث تفریحی مقامات کا رُح نہیں کر رہے۔ حبس زدہ ماحول میں ایک عام فرد کے لیے یہ صورت حال قطرہ قطرہ زہر کی صورت اثر انداز ہوتی ہے اور نتیجتاً ایک عام فرد ڈیپریشن کے مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ اطراف کا ماحول ہے۔ اگرچہ ایسی کسی صورت حال کا ذمے دارحکمرانوں کونہیں ٹھہرایا جاتا۔ لیکن اگر ہم ان عوامل کا جائزہ لیں جو ذہنی امراض میں اضافے کی بنیاد بنتے ہیں تو کسی طور حکومت کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ معیشت بہتر بناکر افلاس زدہ طبقے کو غربت کے گڑھے سے نکالنا، اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ دے کر بے روزگاری کا انسداد، تشدد اور زیادتی کے شکار افراد کو انصاف کی فراہمی، یہ سب حکومت اور حکومتی اداروں کے بنیادی فرائض ہیں، لیکن ہمارے حکمرانوں کو اپنے فرائض سے دل چسپی ہے ہی کب۔

میرے اور آپ کے ارد گرد ایسے کتنے ہی لوگ ہوں گے جن کے چہروں پر چھائی اداسی اور آنکھوں کی ویرانی ہم سے دو حرف تسلی کے اور ذرا سی امید کی طلب گار ہوتی ہیں، لیکن ہمیں فرصت کہاں کہ ہم کسی کا دکھ بانٹ سکیں۔ ہم تو ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں، تو آس پڑوس اور گلی محلے میں بسنے والوں کی فکر کسے ہوگی۔ اگر کسی ملک اور معاشرے کی ترقی کا پیمانہ امید اور مایوسی کو بنایا جائے تو پاکستانی سماج ناامید معاشروں میں سرفہرست جگہ پائے گا۔
Load Next Story