بات کچھ اِدھر اُدھر کی سرحد کے اُس پار
کسی بھی پاکستانی کا گھر سے دور بیرون ملک جا کر زندگی گزارنا جیل میں جانے سے کم نہیں۔
میری اور ہریندرسنگھ کی دوستی ایک دلچسپ فون کال سے شروع ہوئی۔ہم دونوں ایک ہی ٹرانسپورٹ کمپنی میں تھے ۔میں انتظامی امور میں تھا اور وہ ڈرائیونگ میں تھا۔ہم لگ بھگ پانچ سال سے ایک ہی کمپنی میں تھے۔میں ایک ضروری بزنس کال لے رہا تھا کہ بیچ میں اس کی کال آگئی اسے میں نے جلدی سے کہا کہ میں دوسری لائن پر مصروف ہوں وہ بعد میں فون کرے اور میں نے اسکی کال بند کر دی۔ٹھیک اسی وقت میرے دوسرے موبائل پراس کی کال آنے لگی میں نے غصے سے کہا کہ جب منع کیا ہے تو کیا مصیبت آگئی ہے، اس نے منت سماجت کے انداز میں کہا کہ اس نے کنٹینر آف لوڈ کرنا ہے اور جگہ کی سمجھ نہیں آرہی خیر کوئی دس منٹس بعد اس کی لوکیشن کی سمجھ آئی تو پتا چلا کے وہ اس فیکٹری کی پچھلی سمت میں کھڑا ہے جہاں اسے آف لوڈنگ کرنا تھا۔ شام کو وہ آفس آیا تو میں نے کہا کہ جب اسے ایک بار بتایا تھا کہ میں مصروف ہوں تو اس نے دوبارہ کیوں کال کی؟ اس کے جواب نے مجھے لاجواب کر دیا کہ اس نے سوچا کہ میں ایک موبائل پر مصروف ہوں دوسرے پر تو نہیں۔
بہت سے واقعات ان سالوں میں پیش آئے جس میں ہم نے ایک دوسرے کو سپورٹ کیا۔ ہر دفتر میں آفس بوائے اور ڈرائیورز ہوتے ہیں لہذا اگر آپ نے آنے والے حالات کی کسی بھی قسم کی خبر لینی ہے تو ان سے بنا کر رکھیں، کیونکہ یہ جب ہائر مینجمنٹ کی ٹیبل پر جا کر چائے پانی رکھتے ہیں تو کچھ لمحات کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں جب تک صاحب جانے کا نہ کہے، اس دوران بات چیت بھی چلتی رہتی ہے اور یوں آنے والی ہواؤں کا پتا چل جاتا ہے۔اسی طرح ڈرائیور چاہے وہ گھر کا ہو یا دفتر کا وہ ایک ایک حرکت اور فون کال کو سن رہا ہوتا ہے جو اس کا صاحب بہادر پچھلی سیٹ پر بیٹھا کر تاہے۔ان کے پاس لا محدود معلومات ہوتی ہیں۔میں نے جہاں بھی جاب کی ان سے ایک محفوظ فاصلہ بھی رکھا اور انہیں اپنے قریب بھی رکھا کیونکہ آپ بے شک اتفاق نہ کریں مگر ہر دفتر کے اندر بہت سی لابیز اور سیاست ہوتی ہے۔
ہریندرسنگھ سے دوستی ہم دونوں کے وجود کے لئے ہی فائدہ مند ثابت ہوئی۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہم دونوں کے بہت سے دکھ بھی سانجھے تھے جیسے ہر ماہ کی 25 تاریخ کو اسے چندی گڑھ (بھارت) سے مس کالز آنا شروع ہو جاتی اور مجھے پاکستان سے ایس ایم ایس جس کا مطلب ہوتا کہ پیسے ختم ہونے والے ہیں اور بھیجو۔ دوسرے ممالک میں جا کر ہر طرح کی سختیاں برداشت کرنے کی بنیادی وجہ بھی یہی مسائل ہوتے ہیں جن کی وجہ سے ایک بندہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کربیرون ملک روانہ ہوتا ہے تا کہ وہ اپنے خاندان کے معاشی مقام کو بہتر کر سکے ورنہ پاکستان جیسا ملک دنیا کے کسی خطے میں نہیں ہے،جہاں اپنائیت اور محبت کے وہ دریا بہتے ہیں جس کی مثال پوری دنیا میں نہیں۔
کسی بھی پاکستانی کا گھر سے دور بیرون ملک جا کر زندگی گزارنا جیل میں جانے سے کم نہیں ،بس اسے انتظار ہوتا ہے کہ کب سال گزرے اور ایک ماہ کی چھٹی ملے اور وہ جنگل بیلے جا کرکچھ دن موج کرے۔ ہریندر سنگھ کی ساری تنخواہ اور اوور ٹائم کا زیادہ حصہ اس سود کی ادائیگی میں کٹ جاتا تھا۔ یہ رقم اس نے کینیڈا جانے کے لئے لی تھی مگر فراڈ ہوا اور عزت بچانے کے لئے وہ مڈل ایسٹ آگیا۔
وہ اکثر کہتا کہ مجھے شکر کرنا چاہیے کہ پاکستان میں اس طرح کا معاشرتی اور معاشی نظام نہیں ہے جہاں سود نسل در نسل چلتا رہتا ہے ختم ہی نہیں ہوتا بلکہ بندہ ختم ہو جاتا ہے۔ک بھی وہ اپنی لے میں ہوتا تو کہتا ''اگر یہ دونوں حکومتیں چاہیں تو سب بندے کے پتر بن سکتے ہیں مگر گرہیں بہت ہیں وقت لگے گا''۔ ہریندر سے میرا تعلق بہت عجیب سا تھا ہم دونوں اگر اپنے اپنے ملک کی سرحد پر آمنے سامنے ہوتے تو ہم بدترین دشمن ہوتے اور اب جبکہ ہم دونوں ہی پردیس میں ہیں تو بہترین دوست ہیں۔ درحقیقت سرحد پار ایک دوسرے کے دلوں میں ہمارے لئے کوئی میل نہیں یہ تو صرف بڑوں کے کھیل ہیں جس کا خسارہ ہم بھگت رہے ہیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
بہت سے واقعات ان سالوں میں پیش آئے جس میں ہم نے ایک دوسرے کو سپورٹ کیا۔ ہر دفتر میں آفس بوائے اور ڈرائیورز ہوتے ہیں لہذا اگر آپ نے آنے والے حالات کی کسی بھی قسم کی خبر لینی ہے تو ان سے بنا کر رکھیں، کیونکہ یہ جب ہائر مینجمنٹ کی ٹیبل پر جا کر چائے پانی رکھتے ہیں تو کچھ لمحات کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں جب تک صاحب جانے کا نہ کہے، اس دوران بات چیت بھی چلتی رہتی ہے اور یوں آنے والی ہواؤں کا پتا چل جاتا ہے۔اسی طرح ڈرائیور چاہے وہ گھر کا ہو یا دفتر کا وہ ایک ایک حرکت اور فون کال کو سن رہا ہوتا ہے جو اس کا صاحب بہادر پچھلی سیٹ پر بیٹھا کر تاہے۔ان کے پاس لا محدود معلومات ہوتی ہیں۔میں نے جہاں بھی جاب کی ان سے ایک محفوظ فاصلہ بھی رکھا اور انہیں اپنے قریب بھی رکھا کیونکہ آپ بے شک اتفاق نہ کریں مگر ہر دفتر کے اندر بہت سی لابیز اور سیاست ہوتی ہے۔
ہریندرسنگھ سے دوستی ہم دونوں کے وجود کے لئے ہی فائدہ مند ثابت ہوئی۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہم دونوں کے بہت سے دکھ بھی سانجھے تھے جیسے ہر ماہ کی 25 تاریخ کو اسے چندی گڑھ (بھارت) سے مس کالز آنا شروع ہو جاتی اور مجھے پاکستان سے ایس ایم ایس جس کا مطلب ہوتا کہ پیسے ختم ہونے والے ہیں اور بھیجو۔ دوسرے ممالک میں جا کر ہر طرح کی سختیاں برداشت کرنے کی بنیادی وجہ بھی یہی مسائل ہوتے ہیں جن کی وجہ سے ایک بندہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کربیرون ملک روانہ ہوتا ہے تا کہ وہ اپنے خاندان کے معاشی مقام کو بہتر کر سکے ورنہ پاکستان جیسا ملک دنیا کے کسی خطے میں نہیں ہے،جہاں اپنائیت اور محبت کے وہ دریا بہتے ہیں جس کی مثال پوری دنیا میں نہیں۔
کسی بھی پاکستانی کا گھر سے دور بیرون ملک جا کر زندگی گزارنا جیل میں جانے سے کم نہیں ،بس اسے انتظار ہوتا ہے کہ کب سال گزرے اور ایک ماہ کی چھٹی ملے اور وہ جنگل بیلے جا کرکچھ دن موج کرے۔ ہریندر سنگھ کی ساری تنخواہ اور اوور ٹائم کا زیادہ حصہ اس سود کی ادائیگی میں کٹ جاتا تھا۔ یہ رقم اس نے کینیڈا جانے کے لئے لی تھی مگر فراڈ ہوا اور عزت بچانے کے لئے وہ مڈل ایسٹ آگیا۔
وہ اکثر کہتا کہ مجھے شکر کرنا چاہیے کہ پاکستان میں اس طرح کا معاشرتی اور معاشی نظام نہیں ہے جہاں سود نسل در نسل چلتا رہتا ہے ختم ہی نہیں ہوتا بلکہ بندہ ختم ہو جاتا ہے۔ک بھی وہ اپنی لے میں ہوتا تو کہتا ''اگر یہ دونوں حکومتیں چاہیں تو سب بندے کے پتر بن سکتے ہیں مگر گرہیں بہت ہیں وقت لگے گا''۔ ہریندر سے میرا تعلق بہت عجیب سا تھا ہم دونوں اگر اپنے اپنے ملک کی سرحد پر آمنے سامنے ہوتے تو ہم بدترین دشمن ہوتے اور اب جبکہ ہم دونوں ہی پردیس میں ہیں تو بہترین دوست ہیں۔ درحقیقت سرحد پار ایک دوسرے کے دلوں میں ہمارے لئے کوئی میل نہیں یہ تو صرف بڑوں کے کھیل ہیں جس کا خسارہ ہم بھگت رہے ہیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔