ادبی کانفرنس سارا سنسار ہمارا ہے

جلاوطنی کا جو نوحہ آج سے ہزاروں برس پہلے لکھا گیاوہ ساز و آواز کا لباس پہن کرآج دنیاکے تمام شہروں میں سنائی دیتاہے۔

zahedahina@gmail.com

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسے زمانوں میں جب دہشت اور بربریت شہروں اور بستیوں میں پھیرے ڈالتی ہو ، ماضی کے چنگیز خانی لشکر بستیوں کو روندتے تھے ، آج کے پیل پیکر ٹینکوں کے 16 اور 18 فولادی پہیوں پر چڑھی ہوئی آہنی زنجیریں گھروں کو پل بھر میں زمین پر بچھادیتی ہوں اور ابابیلوں کی کنکریاں گئے دنوں کی یاد ہوگئی ہوں ، اب ڈرون اپنے شکار کا تعاقب کر کے انھیں خاکستر کرتے ہوں ، ایسے زمانے میں ادب کی بات بے وقت کی راگنی ہے ۔

یہ ناصح و مشفق کہتے ہیں کہ باد فنا کے بگولے ہر طرف رقص کرتے ہوں تو عافیت اسی میں ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے رہو اور اس دن کا انتظار کرو جب تمہارے شہروں میں امن چین ہو اور اس کا اندیشہ نہ ہو کہ نکلو گے تو کسی خودکش بمبار کا نوالہ بنو گے یا نیند کی گولی کے بجائے تولہ بھر سیسے اور بارود کی گولی تمہیں ابدی نیند سلادے گی ۔

ایسے لوگوں کا سوال اور ان کا مشورہ دونوں قدرے حیران کردیتے ہیں ۔ انھیں کیسے یاد دلائیں کہ حضور انسان پر جب بھی بری گھڑی آئی تو ایسا اعلیٰ ادب تخلیق ہوا جس کی نوبت آج بھی بجتی ہے ۔ جلاوطنی کا جو نوحہ آج سے ہزاروں برس پہلے لکھا گیا وہ ساز و آواز کا لباس پہن کر آج دنیا کے تمام شہروں میں سنائی دیتا ہے اور ہر دور کے جلا وطن اس کے لفظوں سے اپنے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں ۔ سعدی جیسے شاعر بے بدل کو ہلاکو کے لشکری گرفتار کرتے ہیں اور وہ مٹی کی ٹوکریاں ڈھونے کی مشقت پر لگادیا جاتا ہے تو اسے پہچان کر اس کا ایک مداح زرِ تاوان دے کر وحشیوں کی قید سے رہائی دلاتا ہے ۔ وہی سعدی جس نے بغداد کا صرف چھ اشعار میں وہ مرثیہ لکھا جو ہمارے تہذیبی حافظے میں ہمیشہ محفوظ رہے گا ۔

نازنینانِ حرم راموجِ خونِ بے دریغ
زاستاں بہ گذشت و مارا خون دل از آستیں

(شاہی) حرم کی نازنینوں کا خون لہروں کی طرح ایسے اٹھا ہے کہ محل کے دروازوں سے گزر چکا ہے ۔ اس رنج سے ہمارے دل کا خون آستین سے ٹپکنے لگا ہے ۔ (ترجمہ از: ایس ایم لطیف اللہ)

یہ تمام باتیں اس لیے یاد آرہی ہیں کہ کچھ برسوں سے بر صغیر کے تینوںملکوں میں ادب کا جشن منایا جارہا ہے ۔ دور دراز سے اور مختلف زبانوں میں لکھنے والے جے پور، دلی، ڈھاکا، لاہور اورکراچی میں جمع ہوتے ہیں اور اپنی اپنی بولیاں بول کر اپنی بستیوں کو سدھارتے ہیں ۔

یہی وہ سلسلہ خیال ہے جس کا دوشالہ اوڑھے ہوئے کراچی آرٹس کونسل کا ساتواں سالانہ ادبی جشن شروع اور ختم ہوا ۔ یہ تقریب عین ان دنوں منعقد ہوئی جب ہر طرف انقلاب اور آزادی مارچ کا چرچا تھا اور اس پر مستزاد یہ کہ جشن کے تیسرے دن بلاول بھٹو اپنی سیاسی زندگی کا باقاعدہ آغاز کرنے والے تھے ۔ ہر طرف سے اور بطور خاص سندھ کے مختلف شہروں اور قصبوں سے ان کے چاہنے والوں کے جلوس کراچی پہنچ رہے تھے ۔

لوگوں کا خیال تھا کہ اس سیاسی جلسے کے اثرات، ادبی جشن پر مرتب ہوں گے۔ اس سے پہلے مسلسل یہ خوفناک خبریں آرہی تھیں کہ بارود سے بھری ہوئی گاڑیاں اور رکشے شہر میں داخل ہوگئے ہیں جو شہر کی سیاسی اور ثقافتی زندگی کو تہہ و بالا کردیں گے ۔ ان افواہوں، سرگوشیوں اور سراسیمہ کردینے والی پیش گوئیوں کے ساتھ ایک پرہجوم ادبی جشن شروع ہوا جو لوگوں کو حیران کرگیا ۔

مشتاق احمد یوسفی کی تازہ کتاب 'شامِ شعر یاراں' کی تقریب اجراء میں ڈیڑھ ہزار سے کچھ زیادہ ہی لوگ موجود تھے ۔ وہ جنھیں بیٹھنے کی جگہ نہ ملی انھوں نے سبزہ زار میں کھڑے ہونے کی جگہ مل جانے کو غنیمت جانا ۔ یوسفی صاحب برات کے دُلہا تھے، صدارت زہرہ نگاہ کی تھی ۔ ضیاء محی الدین، افتخار عارف، انور مقصود، ڈاکٹر فاطمہ حسن اور شاہد رسام نے یوسفی صاحب کی ذاتِ والا صفات پر گفتگو کی ۔ آرٹس کونسل کے جانِ جاناں خانِ خانان محمداحمد شاہ نے نظامت کے فرائض انجام دیے اور لوگوں نے دیکھا کہ یوسفی صاحب کی یہ (Sizling Hot) گرما گرم کتاب گھنٹہ گھڑی میں چٹ ہوگئی اور لوگ اسے ڈھونڈتے رہ گئے ۔


'شامِ شعر یاراں' کی تقریب اجراء کے بعد شیما کرمانی اور ان کے شاگردوں نے کلاسیکی رقص پیش کیا ۔ آڈیٹوریم میں لگ بھگ 500 کی سمائی تھی لیکن وہ لوگ کہاں جاتے جو ان کا رقص دیکھنے کے لیے تاب تھے ۔ ان کے لیے باہر بڑی اسکرین لگائی گئی ، سنا ہے کہ اس کے سامنے بھی ہزار سوا ہزار لوگ دم بخود بیٹھے رہے اور شیما کے پیروں کی جنبش اور ابروؤں کے کمالات دیکھتے رہے ۔ حضرت امیر خسرو ، مومن اور فیض کے لفظ رقص کے روپ میں ہمارے دلوں کو لبھا رہے تھے اور لوگوں کو یقین آرہا تھا کہ تمام وسوسوں اور اندیشوں کے باوجود جیت ادب اور کلا کی ہوتی ہے ۔

اس کے بعد کانفرنس کے دوسرے دن سے چوتھے دن کے اختتام تک تقریروں کا ایک سیل رواں تھا جس کی شائقین ادب نے شناوری کی ۔ یہ ایک درد بھری کہانی ہے کہ ہم سب جو کم سے کم پندرہ منٹ کے مقالے لکھ کر گئے تھے، انھیں پانچ اور سات منٹ پر اکتفا کرنا پڑی ۔ یوں سمجھیے کہ دریا کوزے میں بند کیے گئے اور بعض حالات میں دریا اتنے پرشور تھے کہ کوزے بھی ٹوٹ گئے ۔

ہمیشہ کی طرح اس کانفرنس میں بھی دوستوں کی بہتات تھی ۔ کوئی لکھنؤ سے آیا اور کوئی لاہور سے ، کسی نے لندن سے کراچی کا رخ کیا تھا اور کوئی ٹورنٹو سے آیا تھا ۔ کسی ایک کا بھی نام لکھنے سے رہ گیا تو کہیں تعلقات خراب نہ ہوجائیں ، اس لیے تمام دوستوں کے نام حساب دوستاں کی طرح دل میں رکھ لیے ہیں ۔ لکھنؤ سے آنے والے ایک اہم ادیب اور شاعر انیس اشفاق اور علی گڑھ سے آئے ہوئے اردو کے اہم نقاد اور دانشور قاضی افضال حسین نے اپنی باتوں سے خوب داد سمیٹی ۔

اپنی بات میں نے ادب کی اہمیت اور برے دنوں میں اس کی ضرورت کے حوالے سے آغاز کی تھی ۔ یہاں میں ترقی پسند تحریک کا بہ طور خاص ذکر کرنا چاہوں گی جس کا آغاز پہلی جنگ عظیم کے بعد انتشار کے دنوں میں ہوا تھا ۔ یورپ جو اس جنگ عظیم کی خوں آشامی کا شکار ہوا تھا وہاں کے ادیب امن اور ادب کی کانفرنسیں کررہے تھے۔ انھیں محسوس ہورہا تھا کہ اگر دنیا بھر کے دانشوروں اور ادیبوں نے بہ یک آواز جنگ کی مخالفت نہ کی تو دنیا ایک بار پھر خوفناک آویزش کا شکار ہو جائے گی۔

سید سجاد ظہیر اور ملک راج آنند نے اسی تناظر میں یہ سوچا کہ ہندوستان میں امن کے نام پر اور فاشزم کے خلاف تمام زبانوں کے ادیبوں کو یکجا کیا جائے اور ایک ایسی ادبی تحریک شروع کی جائے جو فرنگی راج کو احساس دلائے کہ ہندوستان میں رہنے والے ڈھور ڈنگر نہیں ۔ وہ سوچتے ہیں اور اپنی سوچ کا اظہار تلخ اور تیکھے انداز میں کرنے کو اپنے لیے وجہ افتخار جانتے ہیں ۔ ان دونوں نے ہندوستان واپس لوٹ کر اس تحریک کو عملی جامہ پہنایا اور اس کے گہرے اثرات اردو اور دوسری زبانوں کے ادب پر مرتب ہوئے ۔

اس سے پہلے ادیب اور شاعر انفرادی سطح پر اپنی تخلیقی راہ نکالتے تھے لیکن اس تحریک نے پہلی مرتبہ ہمارے ادیب کے ضمیر کو دنیا بھر کے انسانی ضمیر سے ہم آہنگ کردیا ۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کا زمانہ ایک مہا یدھ کا دور تھا ۔ یہ وہ دور تھا جب فاشزم، استحصال، ناانصافی، آپس کی نفرت، مذہبی عصبیت نے انسان کی زندگی ایک سزا بنادی تھی ۔ وہ دور ختم ہوا، آزادی آئی لیکن یہ آزادی کا التباس تھا ، آج کے ادیب کے سامنے ترقی پسند تحریک کے بنیاد گزاروں سے کہیں زیادہ مہیب معاملات اور سوالات ہیں ۔ آج گلوبلائزیشن اور نیا عالمی نظام ہے جو بلیک ہول بن گیا ہے اور بچی کھچی انسانی اقدار کو نگل رہا ہے ۔ مذہب اور مسلک کی بنیاد پر ایسی تقسیم در تقسیم ہوئی ہے کہ ہر گھر میں بٹوارے کا منظر ہے ۔

ہمیں گزشتہ 3 دہائیوں سے انتہاپسندی اور مذہبی جنون کا سامنا ہے ، جب صدیوں پرانی درگاہیں ، خانقاہیں اور مزار بارود سے اڑائے جانے لگیں ۔ جدید تعلیم کو جب کفر کے مترادف ٹھہرایا جائے اور اسکولوں کو نیست و نابود کرنا کچھ لوگوں کا ایمان ٹھہرے ، جب مذہب کے نام پر لوگوں کو تقسیم کرنا عبادت بن جائے، ایسے میں لکھنے والے کے پاس اس کے سوا چارہ نہیں رہتا کہ وہ ان جنونیوں سے جنگ اپنی تحریر سے کرے اسی لیے علم دشمنوں کو لفظوں سے ، کتابوں سے، نئی نسل کے ہاتھوں میں قلم اور قاعدہ دیکھ کر خوف آتا ہے اور وہ انھیں نیست و نابود کرنے پر تل جاتے ہیں ۔ یہ ترقی پسند ادب کے اثرات تھے جن کے سبب ترقی پسند کل بھی زمینی حقیقتوں سے جڑے ہوئے تھے اور آج بھی سماجی پیمان وفا پر پورے اترتے ہیں ۔ کھیتوں ، کارخانوں اور شہر کی سڑکوں پر پھرنے والے بے بس اور بے آسرا انسان کی آس بندھاتے ہیں ۔ اسے یاد دلاتے ہیں کہ ترقی پسند تحریک کے بنیاد گذار سجاد ظہیر نے کہا تھا:

تعمیریں ہیں، خیراتیں ہیں، تیرتھ حج بھی ہوتے ہیں
خون کے دھبے، دامن سے، یوں دولت والے دھوتے ہیں
کیوں نان کے ٹکڑے کھائیں ہم، سارا سنسار ہمارا ہے
جو بھوکا تھا، جو ننگا تھا، اب اس کو غصہ آیا ہے
سارا سنسار ہمارا ہے، سارا سنسار ہمارا ہے
صاحبو! کراچی کی یہ ادبی کانفرنس اسی بات کا اعلان تھی کہ سارا سنسار ہمارا ہے ۔
Load Next Story